امربیل — قسط نمبر ۱۱

وہ جس وقت عمر کے ساتھ گھر پہنچی آدھی رات گزر چکی تھی۔ نانو گیٹ کے چکر لگاتے ہوئے اس کا انتظار کر رہی تھیں گاڑی کے پورچ میں رکتے ہی وہ برق رفتاری سے علیزہ کے پاس آگئیں۔ علیزہ بمشکل اپنی آنکھیں کھول پا رہی تھی، سکون آور انجکشن اب مکمل طور پر اثر کر رہا تھا۔
گاڑی سے پاؤں باہر رکھتے ہوئے وہ لڑکھڑائی تو نانو نے اسے پکڑ لیا۔ اس کے سوجے ہوئے نیلے گال کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
”تم ٹھیک ہو؟” انہوں نے علیزہ سے پوچھا۔
”ہاں نانو! میں ٹھیک ہوں۔” وہ بات کرتے ہوئے دقت محسوس کر رہی تھی۔
”اس کو کیا ہو رہا ہے؟”
نانو کچھ گھبرا گئیں۔ عمر تب تک ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ کر پیچھے آچکا تھا۔
”کچھ نہیں گرینی… انجکشن دیا ہے، اس لئے نیند آرہی ہے اسے۔” علیزہ نے اسے کہتے سنا اور پھر شاید اس نے نانو کو ہاتھ ہٹا کر خود اس کا بازو پکڑا تھا۔
علیزہ بمشکل قدم اٹھا پا رہی تھی۔
”تم تو کہہ رہے تھے کہ اسے کچھ نہیں ہوا مگر اس کو تو چوٹیں لگی ہیں۔ ” نانو نے اس کے چہرے اور ہاتھ پر بندھی ہوئی بینڈیج کو دیکھتے ہوئے گلو گیر آواز میں کہا۔
”یہ معمولی چوٹیں ہیں، یہ بالکل ٹھیک ہے۔” وہ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے۔




”علیزہ ! کون تھے وہ لڑکے… کیوں تم دونوں کے پیچھے پڑ گئے تھے؟” نانو اب ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
”گرینی! ابھی اس سے کچھ نہ پوچھیں… ابھی اسے سونے دیں۔”
علیزہ کے کچھ کہنے سے پہلے ہی عمر نے نانو سے کہا۔
وہ لاؤنج میں رکا نہیں اس لئے وہ اور نانو سیدھا اس کے کمرے میں چلے گئے، علیزہ نے بیڈ پر لیٹتے ہی آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے جسم کو عجیب سا سکون ملا تھا۔ کسی نے اسے ایک چادر اوڑھائی تھی۔ عمر شاید نانو سے کچھ کہہ رہا تھا، علیزہ اب اس کے الفاظ کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنے اردگرد مکمل خاموشی پائی، آخری احساس کمرے میں ہونے والی تاریکی کا تھا۔ پھر کسی نے دروازہ بند کر دیا۔
اگلے دن وہ جس وقت اٹھی اس وقت دو بج رہے تھے کچھ دیر تو اسے یقین ہی نہیں آیا کہ وہ اتنی دیر تک سوئی رہی ہے۔ پھر اسے پچھلی رات کے تمام واقعات یاد آنے لگے۔ اس نے انہیں ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس کا جسم اورذہن اس وقت بالکل ہلکے پھلکے تھے، اور وہ ایک بار پھر ٹینس ہونا نہیں چاہتی تھی۔
وارڈ روب سے کپڑے نکال کر اس نے شاور لیا اور پھر اپنے کمرے سے نکل آئی۔ لاؤنج میں آتے ہی اس نے عمر اور نانو کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ عمر اسے دیکھ کر مسکرایا۔ وہ بھی جواباً مسکرائی، نانو اس کے پاس آکر اس کا چہرہ دیکھنے لگیں۔
”ابھی بھی سوجن ختم نہیں ہوئی۔” انہوں نے تشویش سے کہا۔
”نہیں پہلے سے کم ہے مگر درد کچھ زیادہ ہو رہا ہے۔ رات کو تو چوٹ کا اتنا پتہ نہیں چلا۔” علیزہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”ایک دو دن میں درد ختم ہو جائے گا، البتہ نشان کافی دنوں تک رہے گا۔” عمر نے اس سے کہا۔
”گرینی کھانا لگوا دیں اس کے لئے۔”
”آپ لوگ کھانا کھائیں گے؟”
”نہیں، ہم لوگ کھانا کھا چکے ہیں۔ میں تو صرف تمہارا انتظار کر رہا تھا مجھے واپس جانا ہے۔ میں بس ایک بار تمہیں دیکھنا چاہ رہا تھا۔” عمر نے کہا۔ نانو کچن میں جا چکی تھیں۔
”کیسا محسوس کر رہی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”جو بھی کچھ ہوا وہ بہت خوفناک تھا مگر میں… ٹھیک ہوں۔”
وہ اسے دیکھتا رہا ”تم پہلے سے کافی بدل گئی ہو۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔ ”Much more mature and composed” (زیادہ میچور اور سلجھی ہوئی) اچھی بات ہے۔”
”پتا نہیں … شاید۔۔۔”
”ابھی چند ہفتے تم گھر پر ہی رہنا، اور آئندہ اگر رات کو باہر جاؤ تو ہمیشہ اپنے پاس کوئی ریوالور رکھو۔”
“میں دوبارہ کبھی رات کو باہر ہی نہیں جاؤں گی۔”
”کیوں بھئی… کیوں نہیں ، جاؤ گی تم باہر… کسی حادثے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ گھر میں خود کو بند کر لیا جائے۔ جو ہوا گزر گیا۔ عباس نے دو تین بار فون کیا ہے تم سو رہی تھیں۔ اس لئے میں نے بات نہیں کروائی۔ اس سے بات کر لینا ایک بار ، اور ایاز انکل نے بھی فون کیا ہے۔ ان کو بھی کال کر لینا۔”
”ایاز انکل کو… کیوں…؟ کیا ان کو سب کچھ پتا چل گیا ہے؟” وہ کچھ متفکر ہوئی۔
”ہاں ان سے میری رات کو بات ہوئی تھی ، عباس نے ان کو فون کیا تھا وہ بس تمہاری خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے کہا۔
”آپ کل یہاں کیسے…؟” عمر نے اس کی بات کاٹی۔
”میں اتفاقاً آیا تھا، عباس کے پاس تھا جب گرینی نے اس کو فون کیا۔ پھر میں رات یہیں رک گیا۔ بس ابھی نکل جاؤں گا۔” عمر نے تفصیل سے بتایا۔
”ان لڑکوں کا کیا ہوا؟ کیس فائل ہو گیا؟” علیزہ کو وہ چاروں یاد آئے۔
”ہاں، میں چلتا ہوں، دیر ہو رہی ہے۔ شام ہو جائے گی مجھے واپس پہنچتے پہنچتے۔” عمر نے اپنی رسٹ واچ دیکھتے ہوئے کہا اور کھڑا ہو گیا۔
”میں واپس جا کر ایک بار پھر تمہیں فون کروں گا۔ اور علیزہ! “Just forget about every thing.”(سب کچھ بھلا دو۔) کچھ بھی نہیں ہوا… سب کچھ ٹھیک ہے۔ ” علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر سر ہلا دیا۔ وہ اسے خدا حافظ کہہ کر باہر نکل گیا۔
علیزہ فون کا ریسیور اٹھا کر عباس کو کال ملانے لگی۔
”ہاں علیزہ! کیسی ہو تم؟” عباس نے رابطہ ہوتے ہی کہا۔
”میں ؟ٹھیک ہوں۔”
”میں کتنی بار کال کر چکا ہوں، تم سو رہی تھی۔ ابھی دوبارہ کال کرنے ہی والا تھا میں۔ ” عباس نے کہا۔ ”پاپا سے بات ہوئی ہے تمہاری؟”
”انکل ایاز سے… نہیں ابھی میں ان کو کال کروں گی، عمر نے بتایا تھا کہ انہوں نے صبح کال کی تھی۔” علیزہ نے کہا۔ ”تمہاری گاڑی ورکشاپ میں ہے، ایک دو دن تک میں بھجوا دوں گا۔ شام کو میں آؤں گا گرینی کی طرف۔ عمر ابھی وہیں ہے یا چلا گیا؟”
”وہ ابھی ابھی گئے ہیں۔ عباس بھائی ایف آئی آر میں میرا نام بھی آئے گا؟” علیزہ کو کچھ دیر پہلے خیال آیا۔
”نہیں تمہارا نام کیوں آئے گا؟”
”نہیں تو کیس کیسے فائل ہو گا؟ ”
”تم اس کو چھوڑ دو، یہ بتاؤ چہرے پر لگی ہوئی چوٹ ٹھیک ہو ئی ہے کچھ؟ ” عباس نے بات کا موضوع بدل دیا۔
”ہاں۔۔۔”
”گڈ… شام کو میں تمہیں ایک بار پھر ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ تمہارے ہاتھ کی بینڈیج چینج کر دے گا۔ گرینی کو کہو کہ اچھا سا کھانا تمہیں کھلائیں۔ اس کے بعد تم آرام سے کوئی اچھی سی فلم دیکھو یا پھر کسی دوست کو بلوا لو۔ گپ شپ لگاؤ اینڈ جسٹ انجوائے یور سیلف اور ہاں، ایک بہت ضروری بات … ابھی کچھ ہفتے گھر سے نہیں نکلنا۔ گھر پر میں نے گارڈ لگوا دی ہے۔ ابھی کچھ ہفتے اگر کہیں جانا بھی ہے تو پہلے مجھ کو انفارم کر نا ہے اس کے بعد۔۔۔”
وہ پزل ہو گئی۔ ”کیوں…؟”
”بس ویسے ہی… احتیاط اچھی چیز ہے۔ اچھا پھر شام کو آتا ہوں میں خدا حافظ”
فون بند ہو گیا ، وہ الجھی ہوئی ریسیور ہاتھ میں لئے اسے دیکھتی رہی ۔
نانو کھانا لگوا چکی تھیں۔ علیزہ نے کھانا کھایا نانو نے اس سے رات کے واقعات کے بار ے میں کچھ بھی نہیں پوچھا۔ شاید عمر انہیں منع کر چکا تھا۔ وہ صرف اسے اکیلے واپس آنے پر ڈانٹتی رہیں۔ علیزہ خاموشی سے ان کی ڈانٹ سنتی رہی۔ وہ ابھی کھانا کھا رہی تھی، جب ایاز انکل کا فون آیا تھا۔ وہ کچھ نروس ہو گئی جب نانو نے فون پر بات کرنے کے بعد اسے بلوایا۔
”ہیلو علیزہ بیٹا! ہاؤ آر یو…؟” ایاز حیدر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”فائن…!”
”میری عباس سے بات ہوئی تھی رات کو… ڈونٹ وری… سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے، اور تمہاری چوٹیں کیسی ہیں؟”
”بہت معمولی چوٹیں ہیں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے کہا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔
”اچھا بیٹا! میں آج رات یا کل لاہور آؤں گا، باقی باتیں پھر ہوں گی، اور ابھی کچھ ہفتے باہر نہیں جانا گھر پر رہنا اور کوئی فون کال خود ریسیو نہیں کرنی ، ممی کو کرنے دو۔ اس کے بعد تم ریسیو کرنا اور اپنے میگزین فون کرکے ریزائن کردو۔”
وہ حیرانی سے ان کی ہدایات سنتی رہی، ریسیور رکھنے کے بعد اس نے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے نانو کو دیکھا۔
”شہلا کچھ دیر تک آئے گی وہ بھی صبح سے فون کر رہی ہے میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ سہ پہر کو آجائے۔ ” نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے بتایا۔
”اچھا۔۔۔” وہ صوفے پر بیٹھ کر ان تینوں کی ہدایات کے بارے میں سوچتی رہی۔
وہ ابھی لاؤنج میں ہی تھی جب آدھ گھنٹہ کے بعد انٹر کام کی بیل سنائی دی۔ خانساماں نے انٹر کام پر بات کی اور پھر باہر نکل گیا کچھ دیر بعد شہلا اندر داخل ہوئی اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ علیزہ کو گلے لگایا۔ پھر وہ اس کے ساتھ بیڈ روم میں آگئی۔ رات کے واقعات کے بارے میں وہ دونوں دوبارہ باتیں کرتی رہیں۔
”تمہارے گھر کے باہر اب پولیس کب تک رہے گی؟” شہلا نے اچانک اس سے پوچھا۔
”گھر کے باہر…؟گیٹ پر ایک دو لوگ ہوں گے، مگر کیا گھر کے باہر بھی پولیس ہے۔”
”ہاں پولیس کی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ میری گاڑی انہوں نے اندر آنے نہیں دی۔ خانساماں سے تصدیق کروانے کے بعد مجھے اندر آنے دیا۔”
”پتا نہیں کیا پرابلم ہے، مجھ سے بھی سب کہہ رہے ہیں کہ میں چند ہفتے تک باہر نہ جاؤں۔ فون بھی ریسیو نہ کروں اور ایاز انکل نے کہا ہے کہ میں میگزین کی جاب سے ریزائن کردوں۔”
شہلا نے کندھے اچکائے۔” شاید احتیاط کے طور پر یہ سب کر رہے ہوں گے۔ خیر میں کل پھر آؤں گی ، ممی بھی آنا چاہ رہی تھیں مگر میں نے آج انہیں روک دیا۔ کل انہیں لاؤں گی۔” شہلا نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ تو اتنی خوفزدہ ہیں کہ آج انہوں نے مجھے ڈرائیور کے ساتھ بھجوایا ہے۔” شہلا اسے بتاتی رہی۔
علیزہ دروازے تک اسے چھوڑنے آئی۔
شام ہو چکی تھی اور اب اسے عباس کا انتظار تھا، لیکن وہ نہیں آیا اس نے فون پر اپنے نہ آنے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا۔
”علیزہ مجھے کچھ ضروری کام ہے، اس لئے ابھی نہیں آسکوں گا۔”
”کوئی بات نہیں، میری بینڈیج ابھی بالکل ٹھیک ہے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!