امربیل — قسط نمبر ۱۱

وہ دم سادھے قالین پر گرتے ان ٹکڑوں کو دیکھتی رہی۔
”کاغذ کے ایک ردی ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں ہوتی، ایف آئی آر کی۔ کون سا خاندان اپنے سپوتوں کا نام پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ میں آنے دے گا۔ چاہے انہوں نے جو بھی کیا ہو، یہ خاندان کی ساکھ اور مستقبل کا معاملہ ہوتا ہے۔ کوئی ان چیزوں کو داؤ پر نہیں لگا سکتا۔” وہ رسانیت سے بولتا جا رہا تھا۔
”اور اس صورت حال سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو مار دیا جائے۔ ایک جعلی پولیس مقابلے میں ۔ اس طرح سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ” وہ طنز سے بولی۔
”سب کچھ نہ سہی بہت کچھ۔”
”آپ کی کوئی بات مجھے قائل نہیں کر رہی۔ سوچے سمجھے بغیر ایک غلط کام کرنے کے بعد آپ اسے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر ایف آئی آر کے باوجود بھی وہ چھٹ جاتے۔ آپ ان کو نہ رہا ہونے دیتے۔ اتنا اثر و رسوخ تو ہمارے خاندان کا بھی ہے، ان چاروں کو کورٹ تک لے جانا آپ کے لئے کوئی مشکل یا نا ممکن کام نہیں تھا۔” وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”اچھا لے جاتے ان چاروں کو ہم کورٹ میں، اس کے بعد کیا ہوتا؟” وہ چیلنج کرنے والے انداز میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ان پر کیس چلتا کورٹ انہیں سزا دیتی۔”
”کون سے یو ٹوپیا میں رہ رہی ہو تم علیزہ! یہاں اس ملک میں ایک با اثر خاندان کے فرد پر ایک لڑکی کا پیچھا کرنے پر کیس چلتا۔ جب یہ ہونا شروع ہو جائے گا تو پھر ایسے لوگ پولیس مقابلوں میں مارے نہیں جائیں گے پھر وہ واقعی کورٹس تک پہنچائے جائیں گے۔” اس نے اب صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”یہاں اب کورٹس میں ججز انصاف کرتے نہیں، انصاف بیچتے ہیں۔ جیب میں روپیہ اورما تھے پر بڑے خاندان کی اسٹمپ ہونی چاہئے پھر وکیل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نہ گواہوں کی ، نہ ثبوتوں کی پھر جج خود آپ کا ہو جاتا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو کون سا جج سزا دیتا۔”
وہ اب عجیب سے انداز میں مسکرا رہا تھا۔




”چیمبر آف کامرس کے ایک عہدے دار کے بیٹے کو کون سلاخوں کے پیچھے رکھ سکتا ہے اور کتنی دیر۔”
”پھر بھی آپ کوشش تو کر سکتے تھے، قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا حق آپ کو کس نے دیا؟” وہ اس کی کسی بات سے قائل نہیں ہو رہی تھی۔
”قانون کو ہاتھ میں ا س لئے لینا پڑا کیونکہ قانون ان چاروں کے بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ چاروں اسی رات رہا کروا لئے جاتے اور اگر کسی طرح ان پر کیس کر بھی دیا جاتا تو کس طرح جیتا جا سکتا تھا، ثبوت کیا تھے ہمارے پاس؟”
وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”ثبوت تھے ہمارے پاس۔” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”کون سے ثبوت؟ پولیس جب گھر پر پہنچی تو ان چاروں میں سے کوئی بھی وہاں نہیں تھا۔”
”لیکن اس گھر کے لوگوں نے انہیں دیکھا… جب وہ زبردستی اندر آئے تھے۔”
”اس گھر کے لوگ؟” وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا۔ ”اس گھر کے کتنے لوگ تمہارے لئے گواہی دینے کورٹ میں آئیں گے ، ایک بھی نہیں۔”
”آپ انہیں ایسا کرنے کے لئے پریشرائز کر سکتے ہیں۔”
”اور یہی کام نہ کرنے کے لئے ان چاروں کے گھر والے بھی انہیں پریشرائز کر سکتے تھے۔”
”ٹھیک ہے وہ گواہی نہ دیتے ، میں تو دے سکتی تھی۔ میں پہچانتی تھی ان چاروں کو۔”
وہ اس کی بات پر ایک بار پھر ہنسا۔
”تم کون ہو علیزہ سکندر؟ کیا حیثیت رکھتی ہے تمہاری گواہی۔ جانتی ہو وہ کن اداروں میں پڑھ رہے تھے؟ کورٹ تم سے پوچھتی کہ چار اعلیٰ حسب و نسب کے نوجوانوں نے آخر تمہارا ہی کیوں پیچھا کیا ۔ ہو سکتا ہے تم نے ان کو ترغیب دی ہو؟ ہو سکتا ہے وہ کہہ دیتے کہ وہ تمہیں پہلے ہی جانتے ہیں اور ان میں سے کسی کا تمہارے ساتھ افئیر چل رہا تھا۔ جب اس نے تمہارے ساتھ تعلقات ختم کئے تو تم نے اسے سزا دینے کے لئے یہ سب کچھ پلان کیا۔ یہ بھی ممکن تھا کہ وہ صاف صاف کہہ دیتے کہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا، وہ تمہیں جانتے تک نہیں اور رات وہ چاروں اپنے اپنے گھر میں تھے، دو کو تو ہم نے بھی گھر سے ہی اٹھایا۔ یا پھر ہو سکتا تھا کہ ان کے خاندان یہ کہتے کہ یہ ان کے کسی دشمن کی سازش ہے، کوئی ان کی ریپوٹیشن خراب کرنا چاہتا ہے۔ تم کیسے کاؤنٹر کرتیں ان سب چیزوں کو ، کورٹ پہلی ہی پیشی میں ان چاروں کو بری کر دیتا۔ ”با عزت بری” اور اس کے بعد تم کہاں پر کھڑی ہوتیں؟”
وہ کسی ترحم کے بغیر بڑی بے رحمی اور سفاکی سے اسے سب کچھ سنا رہا تھا۔
”ٹھیک ہے کورٹ انہیں سزا نہ دیتی، مگر سب کچھ جائز طریقہ سے تو ہوتا، غلط طریقے سے تو نہیں۔”
”اور اس جائز طریقے کا جو خمیازہ تم کو بھگتنا پڑتا اس کا اندازہ ہے تمہیں۔ جو لڑکے اتنی دیدہ دلیری کے ساتھ تمہارے نام پتہ سے واقف نہ ہونے کے باوجود تمہارا اس طرح پیچھا کر رہے تھے۔ وہ تمہارے بارے میں جاننے کے بعد تمہیں چھوڑ دیتے۔ تم ان کو کورٹ میں لے کر جاتیں اور وہ اس کے بعد تمہیں بخش دیتے۔”
”آپ عباس کی طرح Hypothetical(فرضی) باتیں نہ کریں۔ وہ کیا کر دیتے، کیا کر سکتے تھے۔ یہ ہو جاتا وہ ہو جاتا حقیقت تو یہی ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی نقصان نہ پہنچایا۔”
”عباس ٹھیک کہہ رہا تھا، تم سچ مچ حواس کھو چکی ہو۔ ” عمر بے اختیار جھلایا۔
علیزہ نے اسے دیکھا۔ ”یہ جو اتنا لمبا چوڑا بیان دے رہے ہیں آپ، اس کے بجائے آپ صرف یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ عباس اور آپ کے لئے یہ انا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ وہی میل شاؤنزم جو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی فیملی کی عورت کو ایسے کسی کرائسس سے گزرنا پڑے۔ آپ کی نسبت عباس زیادہ صاف گو ہے۔ جس نے واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا۔ آپ صرف ایک کے بعد دوسری کے بعد تیسری وضاحت پیش کر رہے ہیں۔ آپ بھی عباس کی طرح یہ اعتراف کر لیں کہ یہ صرف Family Pride (خاندانی انا) تھی جسے Intact (قائم) رکھنے کے لئے آپ نے یہ سب کیا۔”
عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے واشگاف انداز میں کہا۔
”او کے، تم ایسا سمجھتی ہو تو ایسا ہی سہی۔ ہاں میں بھی یہ برداشت نہیں کر سکا کہ کوئی میری فیملی کی کسی عورت کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرے ، کیا یہ کافی ہے تمہارے لئے؟”
”کیا وہی عمر ہیں آپ، جو چند ماہ پہلے شہباز منیر کے موت پر واویلا کر رہا تھا اور آج وہ خود چارانسانوں کو مارنے کے بعد بھی ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کر رہا۔ کیا انکل ایاز کے نقش قدم پر چل رہے ہیں آپ بھی؟”
اس نے تلخی سے کہا۔
”اس وقت شہباز منیر کی بات نہیں ہو رہی۔” عمر نے اسے ٹوک دیا۔
”کیوں نہیں ہو رہی؟ ہونی چاہئے۔ اگر آپ کو ان چاروں کو مارنا ٹھیک لگا ہے تو ہو سکتا ہے اس وقت انکل ایاز کو بھی شہباز کو مارنا ٹھیک لگا ہو۔ ہر شخص اپنے ہر ایکشن کو حق بجانب ثابت کر سکتا ہے۔ کیا میں نے ٹھیک کہا؟”
”ہاں ہو سکتا ہے، اس وقت شہباز کا مارا جانا ٹھیک ہو۔ ہو سکتا ہے انکل ایاز نے ایک ٹھیک قدم اٹھایا ہو۔” وہ اس کے جواب پر دنگ رہ گئی۔
”اور تم… تم وہ شخص تھے ، جس کی وجہ سے وہ مارا گیا۔” وہ بری طرح مشتعل ہو گئی۔ پہلی بار اس نے عمر کو آپ کے بجائے تم کہہ کر مخاطب کیا تھا اور اس تبدیلی نے عمر کو متاثر نہیں کیا۔
”اور تم وہ شخص تھے جو مگرمچھ کی طرح اس کی موت پر آنسو بہا رہے تھے، اور آج تم یہ کہہ رہے ہو کہ اس کی موت صحیح تھی۔ تم کو شرم آنی چاہئے۔” وہ صوفے سے اٹھ گئی۔
”تم سب لوگ ایک جیسے ہوتے ہو۔ دوسروں کو گدھوں کی طرح نوچنے والے ، اپنا حصہ لے کر اطمینا ن سے بیٹھ جانے والے۔ بس یہ ہے کہ تم میں سے کچھ کے دانت شروع میں نظر آجاتے ہیں، کچھ کے بہت دیر میں۔” وہ اب بلند آواز میں بول رہی تھی۔
”میں تم سے یہ سننے نہیں آیا کہ میں کون ہوں یا کیا ہوں۔ میں تمہیں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ تم جسٹس نیاز کو فون نہیں کروگی۔”
عمر نے اس کے ردعمل کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”میں جسٹس نیاز کو فون کروں گی۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ تم یا عباس کب تک مجھے یہاں قید کر کے رکھ سکتے ہو۔ چند دن؟ چند ہفتے؟ چند مہینے؟ چند سال؟ کب تک، آخر کب تک ۔ مجھے جب یہ موقع ملے گا تو سب سے پہلا کام یہی کروں گی۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ تم لوگ مجھ سے جان چھڑانے کے لئے مجھے بھی مار ڈالو۔ شہباز کی طرح ، ان چاروں لڑکوں کی طرح، کسی پولیس مقابلے میں کسی بھی طرح پھر تم لوگوں کو آسانی ہو جائے گی۔”
کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ وہ دونوں اب چپ چاپ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اس خاموشی کو عمر نے توڑا۔
”تم جسٹس نیاز کو ضرور بتاؤ گی۔”
”ہاں میں ضرور بتاؤں گی۔”
وہ اسے دیکھتا رہا پھر کچھ بھی کہے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ اس نے موبائل اس کی طرف بڑھا دیا۔ وہ یک دم گڑ بڑا گئی۔
”ابھی بتا دو فون نمبر تو ضرور ہو گا تمہارے پاس۔ ہچکچانے کی ضرورت نہیں ہے لو، نمبر ملاؤ اور بات کرو۔ انہیں بتاؤ کہ ہم نے ان کے بیٹے کے ساتھ کیا کیا ہے۔”
اس کا لہجہ عجیب تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔
”میں نمبر ملا دوں۔” وہ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر خود نمبر ملانے لگا۔
”ہیلو میں عمر جہانگیر ہوں، جسٹس نیاز سے بات کروائیں۔”
وہ اب کال ملا کر آپریٹر سے کہہ رہا تھا۔ آپریٹر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون علیزہ کی طرف بڑھا دیا۔اس بار علیزہ نے کچھ کہنے کی بجائے جی کڑا کراس سے موبائل پکڑ لیا۔
کچھ دیر بعد جسٹس نیاز لائن پر تھے اور وہ ان سے بات کر رہی تھی۔ اس نے انہیں اس رات کے تمام واقعات سے آگاہ کر دیا پھر اس نے اپنا ایڈریس اور فون نمبر بھی انہیں بتا دیا۔
”کیا تم یہ سب پریس اور کورٹ میں کہہ سکتی ہو؟” انہوں نے اس کا ایڈریس نوٹ کرنے کے بعد صرف ایک ہی سوال کیا۔
”ہاں جب بھی آپ چاہیں۔”
”ٹھیک ہے، میں بہت جلد تم سے کانٹیکٹ کروں گا۔”
رابطہ ختم ہو گیا اس نے کچھ کہے بغیر فون عمر کی جانب بڑھا دیا۔
وہ عمر کے چہرے پر جو دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے نظر نہیں آیا۔ وہ پریشان تھا نہ ہی خوفزدہ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔اس نے علیزہ کے ہاتھ سے موبائل لے لیا اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ علیزہ کو اس وقت بے پناہ خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ اپنے کندھے اسے یک دم بہت ہلکے لگنے لگے تھے۔
”فون کچھ دیر بعد ٹھیک ہوجائے گا اور میں عباس سے کہہ دوں گا، وہ باہر موجود پولیس گارڈ ہٹا لے گا… اس کے بعد تم اپنے ہر فیصلے کی ذمہ دار ہو گی۔ فیصلوں کی بھی اور ان کے نتائج کی بھی۔ میں یا کوئی دوسرا تمہیں رستہ دکھانے یا کچھ بھی سمجھانے نہیں آئیں گے۔ تم آزاد ہو جس طرح چاہے اپنی زندگی کی راہوں کا تعین کر سکتی ہو۔”
وہ گمبھیر آوازمیں اس سے بات کرتا رہا اور پھر کمرے سے چلا گیا۔
٭٭٭
اس نے اپنے بہت قریب کہیں بے تحاشا فائرنگ کی آواز سنی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ خوف کی ایک لہر اس کے پورے جسم سے گزر گئی۔
وہ یک دم ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔ چند لمحے پہلے جو چیز اسے اپنا واہمہ محسوس ہوئی تھی ، وہ وہم نہیں تھی گھر کے باہر مسلسل فائرنگ ہو رہی تھی… کتنا باہر ، وہ اندازہ نہیں کر سکی۔
رکے ہوئے سانس کے ساتھ اپنے بیڈ پر بیٹھی، وہ چند لمحوں تک صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرتی رہی۔ کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ نائٹ بلب بھی آف تھا۔ وہ رات کو نائٹ بلب جلائے بغیر کبھی نہیں سوئی تھی مگر اس وقت…
ہوش میں آتے ہی اسے صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ ہونے لگا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے دل کی دھڑکن کسی وقت بھی رک جائے گی سب کچھ چند لمحوں میں…
اندھیرے میں کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے تاریکی میں بیڈ سائیڈ لیمپ کو آن کرنے کی کوشش کی اور اس وقت اسے اندازہ ہوا کہ لائٹ نہیں تھی۔ اسے نائٹ بلب کے بجھے ہونے کی وجہ سمجھ میں آگئی۔
اگلا خیال اسے نانو کا آیا تھا۔ ”پتا نہیں وہ کہاں ہوں گی؟ شاید اپنے کمرے میں یا پھر۔۔۔” اس نے بیڈ کو ٹٹولتے ہوئے فرش پر کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ فائرنگ اب بھی کسی توقف کے بغیر جاری تھی۔ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اندھیرے میں دروازہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ رستے میں آنے والی کئی چیزوں سے ٹکرائی مگر دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
دروازے کو کھول کر وہ کوریڈور میں نکل آئی۔ کوریڈور بھی مکمل طور پر تاریک تھا۔ فائرنگ میں اب اور بھی شدت آگئی تھی۔ علیزہ نے کوریڈور کی دیواروں کو ٹٹولتے ہوئے نانو کے کمرے تک پہنچنے کی کوشش کی ۔ نانو کے کمرے کے دروازے تک پہنچتے ہی اس نے وحشت کے عالم میں اسے دھڑ دھڑایا۔ دروازہ لا کڈ تھا۔
”نانو…! نانو…! دروازہ کھولیں۔ میں علیزہ ہوں۔” اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کر دیا۔ فائرنگ کی آواز کے دوران بھی اس نے اندر سے آنے والی نانو کی آواز سن لی۔
”علیزہ…! ٹھہرو میں آرہی ہوں… دروازہ کھولتی ہوں۔”
چند لمحوں کے بعد نانو نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!