امربیل — قسط نمبر ۱۱

اگلے دو دن گھر میں کالز اور ملنے کے لئے آنے والوں کا تانتا باندھا رہا ۔ علیزہ شادیوں کے علاوہ پہلی بار اپنے تقریباً تمام جاننے والوں اور رشتہ داروں کو دیکھ رہی تھی۔ زیادہ تر لوگ بار بار فون کرکے نمرہ کی آخری رسومات کے بارے میں حتمی معلومات لے رہے تھے۔ گھر میں اس کے تمام انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ آچکے تھے۔
علیزہ نے لوگوں کے اسی آنے جانے کے دوران عمر کو بھی دو تین بار گھر آتے جاتے دیکھا۔ اس کے ساتھ جوڈتھ نہیں تھی اور وہ اکیلا ہی تھا۔ وہ اس سے تعزیت کرنا چاہتی تھی مگر عمر کے رویے نے اسے اس قدر حیران کیا کہ وہ اس سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں کر سکی۔
وہ جانتی تھی کہ نمرہ اس کی سگی بہن نہیں ہے پھر بھی عمر جس قدر جذباتی اور نرم دل شخص تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنی بہن کی موت پر خاصا افسردہ ہو گا۔ مگر عمر کے تاثرات اس کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ وہ بالکل پر سکون تھا۔ لوگوں کے تعزیتی کلمات وصول کرتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر کسی غم یا افسردگی کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے اسے نمرہ کی موت پرکوئی شاک لگا تھا نہ ہی دکھ ہوا تھا… یا پھر شاید اسے نمرہ کی مو ت یا زندگی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔




علیزہ کے لئے اس کے تاثرات بہت شاکنگ تھے۔ جو شخص ایک کزن اور ایک گرل فرینڈ کے لئے آؤٹ آف دا وے جا کر سب کچھ کرنے پر تیار ہو۔ جو اپنے ایک انڈور پلانٹ کی کاٹی جانے والی شاخ کو دوبارہ گملے میں تب تک لگائے رکھتا ہے جب تک وہ سوکھ نہ جائے اور سوکھنے کے بعد بھی جو اسے ہٹانے پر تیار نہ ہو… وہ ایک سوتیلے سہی مگر خونی رشتہ کی اس طرح کی موت پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کر رہا تھا… کیا عمر کا واقعی اپنی فیملی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا؟ … کیا وہ واقعی ان کے بارے میں کسی قسم کے کوئی احساسات نہیں رکھتا؟ کیا وہ اپنی فیملی کو اس حد تک ناپسند کر سکتا ہے کہ…؟ یا پھر وہ ہمیشہ کی طرح بہت کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے؟
علیزہ اپنے ذہن میں ابھرنے والے ان تمام سوالوں سے الجھ رہی تھی، وہ بہت اچھی چہرہ شناس نہیں تھی مگر اسے پھر بھی یہ یقین تھا کہ اس نے عمر کا چہرہ پڑھنے میں کوئی غلطی نہیں کی۔ اس کے چہرے پر بے حسی اور لا تعلقی کے علاوہ ایک تیسرا تاثر بھی تھا اور یہ تیسرا تاثر علیزہ کو زیادہ خوفزدہ کر رہا تھا… عمر کے چہرے پر اطمینان تھا۔
تیسرے دن جہانگیر نمرہ کی ڈیڈ باڈی لے کر پاکستان آگئے۔ ان کے ساتھ ثمرین اور باقی دونوں بچے بھی تھے۔ علیزہ کو جہانگیر معاذ کے چہرے پر بھی کسی رنج یا افسردگی کے تاثرات نظر نہیں آئے۔ ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی… وہی سنجیدگی جو وہ پہلے بھی کئی بار تب ان کے چہرے پر دیکھ چکی تھی، جب وہ شدید غصے میں ہوتے تھے۔
جہانگیر کے برعکس ثمرین خاصی نڈھال نظر آرہی تھیں۔ ان کے باقی دونوں بچوں کے چہروں پر بھی ایسے ہی تاثرات تھے۔
بیرون ملک سے اکٹھے آنے کے باوجود تمام لوگوں کی طرح علیزہ نے بھی محسوس کیا ثمرین ، ان کے بچوں اور جہانگیر کے درمیان ایک عجیب سی کشیدگی اور سرد مہری تھی۔ علیزہ کا خیال تھا کہ انکل جہانگیر کی کچھ عرصہ پہلے ہونے والی تیسری شادی اس کی وجہ ہو سکتی تھی، مگر اس کے علاوہ اور وجہ بھی ہو سکتی تھی یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
نمرہ کی تدفین کے بعد آہستہ آہستہ تمام لوگ واپس جانا شروع ہو گئے، مگر جہانگیر معاذ اور اس کے دو بڑے بھائی اپنی فیملیز کے ساتھ ابھی وہیں تھے، جب ایک رات علیزہ نے لاؤنج میں سب کے سامنے ان کے اور ثمرین کے درمیان شدید جھگڑا دیکھا۔
وہ دونوں سب کے سامنے ایک دوسرے پر الزامات لگا رہے تھے اور چلا رہے تھے۔ علیزہ کے لئے ایسا جھگڑا کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ نانو کے ہاں وہ اپنے انکلز اور ان کی بیویوں کے درمیان پچھلے کئی سالوں سے ایسے بہت سے جھگڑے ہوتے دیکھتی ہوئی آئی تھی۔
مگر اس بار جس انکشاف نے اسے ہولایا تھا، وہ نمرہ کی موت کی وجہ تھا۔ وہ نیند میں اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے نہیں گری تھی۔ اس نے خودکشی کی تھی اور اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے چھلانگ لگانے سے پہلے اس نے ایک خط میں تفصیلی طور پر اپنی موت کا ذمہ دار جہانگیر معاذ کو ٹھہرایاتھا۔
پولیس کو وہ خط مل گیا تھا۔ مگر چونکہ جہانگیر سفارت خانہ سے منسلک تھے اس لئے ہر چیز بڑی مہارت سے کو ر اپ کر لی گئی تھی۔ ایک سینئر ڈپلومیٹ کے حوالے سے اس طرح کا کوئی اسکینڈل پاکستانی حکومت کے لئے خاصی ندامت اور شرمندگی کا باعث بنتا۔
چند گھنٹوں کے اندر اندر حکومت پاکستان کی درخواست پر پولیس نے اس خودکشی کو اتفاقی موت قرار دے کر فائل بند کر دی۔
نمرہ پاکستان ایمبیسی کے ملٹری اتاشی کے ساتھ انوالو تھی۔ وہ جہانگیر معاذ سے بھی عمر میں بڑے اس شخص کے ساتھ شادی پر بضد تھی اور جہانگیر اس کے اس مطالبے کو کسی طور ماننے پر تیار نہیں تھے۔ ایمبیسی میں ان کی بیٹی اور اتاشی کے درمیان چلنے والے اس افیئر کے بارے میں ایمبیسی میں کام کرنے والا ہر شخص جانتا تھا اور یہ معاملہ جہانگیر کے لئے خاصی خفت کا باعث بن رہا تھا۔
اگر نمرہ ایمبیسی کے کسی چھوٹے موٹے اہلکار کے ساتھ انوالو ہوتی تو جہانگیر بہت پہلے اس شخص کا پتہ صاف کر چکے ہوتے۔ یا پھر چار دن کے اندر اس شخص کو ایمبیسی سے نکال دیتے۔ مگر یہاں وہ بری طرح پھنس گئے تھے۔
انہوں نے نمرہ کو زبردستی پاکستان بھجوانے کی کوشش کی، مگر وہ اس پر تیار نہیں ہوئی، اس نے واپس پاکستان بھجوائے جانے پر مجبور کرنے پر جہانگیر کو گھر سے چلے جانے اور شادی کر لینے کی دھمکی دی۔ مگر جہانگیر جانتے تھے کہ یہ صرف دھمکی ہی تھی۔ وہ قانونی اعتبار سے ابھی بالغ نہیں ہوئی تھی، اور وہ ملٹری اتاشی اتنا احمق نہیں تھا کہ وہ ایک نابالغ لڑکی سے شادی کرکے اپنا کیرئیر خطرے میں ڈالتا۔ دوسری طرف جہانگیر اس بات سے بھی واقف تھے کہ کچھ عرصے کے بعد جب وہ قانونی اعتبار سے بالغ ہو جائے گی تو اس وقت ان کے لئے نمرہ کو روکنا مشکل ہو جائے گا اس لئے وہ بہت مایوس ہو کر اسے پریشرائز کر رہے تھے اور جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کے کسی دباؤ میں نہیں آئے گی تب انہوں نے نمرہ کو دھمکی دی کہ وہ اگر واپس پاکستان نہیں گئی تو وہ نہ صرف ثمرین کو طلاق دے دیں گے، بلکہ نمرہ سمیت باقی دونوں بچوں کو بھی اپنی جائیداد سے عاق کر دیں گے۔
نمرہ ان کی دھمکی پر پہلی بار دباؤ میں آئی اور اس حربے کو کامیاب ہوتے دیکھ کر جہانگیر اس پر اپنا دباؤ بڑھاتے گئے۔ دوسری طرف وہ ملٹری اتاشی نمرہ کو مجبور کر رہا تھا کہ وہ واپس نہ جائے، شاید اسے بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ایک بار وہ واپس پاکستان چلی گئی تو پھر اس کا واپس اس کے ہاتھ آنا مشکل تھا۔ نتیجہ وہی ہوا تھا جو ہو سکتا تھا۔ نمرہ ذہنی طور پر اتنی فرسٹرٹیڈ ہو گئی کہ اس نے خودکشی کر لی۔
اور اب جہانگیر اورثمرین ایک دوسر ے پر تابڑ توڑ الزامات لگانے میں مصروف تھے۔
”یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔ تم نے اپنی بیٹی کو میرے خلاف ہتھیار بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کی، تم ایسا نہ کرتیں تو وہ کبھی خودکشی نہ کرتی۔” جہانگیر ثمرین پر دھاڑ رہے تھے۔
”میں نے اسے ہتھیار نہیں بنایا… میں تمہارے جیسے تھرڈ کلاس حربے استعمال نہیں کرتی، اس نے صرف تمہاری وجہ سے خودکشی کی ہے۔ تم اس طرح پریشرائز نہ کرتے تو وہ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتی۔”
”میں اسے پریشرائز نہ کرتا اور اس پچپن سالہ شخص کو اپنا داماد بنا کر لوگوں کو خود پر ہنسنے کا موقع دیتا۔”
”اگر تم دوسروں کی اٹھارہ، بیس سالہ بیٹیوں کے ساتھ شادی کر سکتے ہو اور افیئر چلا سکتے ہو تو دوسرے بھی کر سکتے ہیں، پھر تم کو اعتراض کس چیز پر ہے۔” ثمرین اب بلند آواز میں چلا رہی تھیں۔
”اپنا منہ بند رکھو گھٹیا عورت۔”
”کیوں منہ بند رکھوں، پتا چلنا چاہئے تمہارے خاندان کو تم کیا گل کھلاتے پھر رہے ہو۔”
ثمرین بالکل خوفزدہ نہیں تھیں۔
”تم نے جان بوجھ کر اس کو اس طرح ٹریپ کیا۔ صرف اس لئے تاکہ مجھ کو بلیک میل کر سکو۔” جہانگیر ایک بار پھر بولنے لگے۔
”ہاں، سب کچھ میں نے ہی کیا تھا۔ مگر تمہارے لئے تو سب کچھ بہت اچھا ثابت ہوا ہے۔ جان چھوٹ گئی ہے تمہاری اپنی اولاد سے آزاد ہو گئے ہو تم… اب مزید عیش کر سکو گے۔” ثمرین کا لہجہ زہریلا تھا۔
”عیش تو میں کر سکوں گا یا نہیں، مگر ایک چیز تو طے ہے کہ تم اور میں اب اکٹھے نہیں چل سکتے۔”
”تمہارے ساتھ اکٹھے چلنا کون چاہتا ہے۔ کم از کم اب میں تو تمہاری بیوی بن کر نہیں رہ سکتی۔ میں کورٹ میں ڈائی وورس کے لئے کیس فائل کر رہی ہوں، اور میں تمام اثاثوں کی برابر تقسیم کا دعویٰ بھی کروں گی،’ ثمرین شاید اس بار بہت سے فیصلے پہلے ہی کر چکی تھیں۔
”اثاثے ؟ کون سے اثاثے؟ کون سے اثاثوں کی برابر تقسیم چاہتی ہو تم؟” جہانگیر کے اشتعال میں یک دم اضافہ ہو گیا۔
”تم بہت اچھی طرح جانتے ہو، میں کن اثاثوں کی بات کر رہی ہوں۔ تمہاری لوٹ مار کی کمائی کی بات کر رہی ہوں میں۔”
”میں تم کو ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔”
”مجھے پائی چاہئے بھی نہیں، مجھے کروڑوں میں حصہ چاہئے۔” علیزہ بے یقینی سے ان دونوں کے درمیان ہونی والی گفتگو سن رہی تھی۔
اپنی بیٹی کی موت کے چوتھے دن وہ دونوں جائیداد کی تقسیم کی معاملے پر لڑ رہے تھے، علیزہ کی دل گرفتی اور رنجیدگی میں اضافہ ہو گیا، اسے پہلی بار احساس ہوا ، اپنی فیملی میں اس ذہنی اذیت سے گزرنے والی وہ اکیلی نہیں تھی۔ اس کی جنریشن کا ہر فرد تقریباً اسی قسم کے حا لات سے دوچار تھا۔
عمر سے اس کی ہمدردی میں یک بیک بہت زیادہ اضافہ ہو گیا۔
”کم از کم میں نے اپنے ماں باپ کو ا س طرح لڑتے تو نہیں دیکھا۔ اور عمر… وہ … تو شاید بچپن سے یہ سارے تماشے دیکھنے کا عادی ہے۔” وہ اس رات لاؤنج میں سے نکلتے ہوئے عمر کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
عمر نانو کے گھر نہیں ٹھہرا تھا، وہ کہاں ٹھہرا ہوا تھا؟ علیزہ نہیں جانتی تھی مگر اس کا اندازہ تھا کہ وہ جوڈتھ کے ساتھ اسی ہوٹل میں مقیم تھا جہاں وہ پہلے گیا تھا۔ اگرچہ اس نے جوڈتھ کو تعزیت کے لئے نانو کے گھر آتے یا فون کرتے نہیں دیکھا مگر اسے پھر بھی یقین تھا کہ وہ پاکستان میں ہی ہے۔
اگلے چند دن کے بعد گھر ایک بار پھر خالی ہو گیا۔ نانو اور نانا کی افسردگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی۔ رنجیدگی کی ایک وجہ اگر نمرہ کی موت تھی تو دوسری وجہ جہانگیر اور ثمرین کے درمیان ہونی والی متوقع علیحدگی بھی تھی اور شاید وہ نمرہ کے چھوٹے بہن بھائیوں کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہے تھے۔ علیزہ ان کے بدلے ہوئے موڈز کو پہچاننے لگ گئی تھی۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!