امربیل — قسط نمبر ۱۱

”کرنا تو چاہتے تھے۔” وہ اپنی بات پر اڑا ہواتھا۔
”پولیس صرف ارادے پر لوگوں کو سزائے موت کب سے دینے لگی؟”
عباس نے دوسری طرف ایک گہرا سانس لیا۔
People are judged by their intentions.”(لوگ اپنے ارادوں سے ہی جانے جاتے ہیں۔)” اس کا لہجہ اس بار بالکل خشک تھا۔
”لیکن انہیں صرف ان کے ارادوں کی وجہ سے سزا نہیں دی جاتی۔”
”علیزہ! میں اس وقت بہت مصروف ہوں، ایک میٹنگ سے فارغ ہوا ہوں، تھوڑی دیر بعد دوسری میٹنگ ہے۔ اس لئے بہتر ہے اس بات کو ابھی ختم کر دیں۔ بعد میں اس پر تفصیلی گفتگو ہو گی۔ تم یہ بتاؤ تمہاری چوٹ پہلے سے بہتر ہے یا نہیں؟”
وہ اب واقعی موضوع بدل دینا چاہتا تھا۔
”آپ میری چوٹ کے بارے میں بات نہ کریں، آپ مجھ سے صرف وہی بات کریں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔”
”اور اگر یہی بات میں تم سے کہوں کہ تم مجھ سے صرف وہی بات کرو جو میں کرنا چاہتا ہوں تو پھر؟” عباس کی ٹون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”یہ میری بدقسمتی تھی کہ نانو نے آپ سے مدد مانگی، وہ ایسا نہ کرتیں تو وہ چاروں آج زندہ ہوتے۔”
”وہ چاروں اگر آج زندہ ہوتے تم زندہ نہ ہوتیں۔” عباس نے جیسے اسے یاد دہانی کروائی۔
”آپ ایک بار پھر ان کی سوچ کی بات کر رہے ہیں۔”
”ہر جرم سوچ سے ہی شروع ہوتا ہے۔”




”میں آپ کی طرح پریکٹیکل نہیں ہو سکتی کہ منہ اٹھاؤں اور جس کو جہاں چاہوں مار دوں یہ کہہ کر وہ جرم کرنے والا تھا۔”
”میں فون بند کر رہا ہوں۔” عبا س نے علیزہ سے کہا۔
”کر دیں مگر وہ بات ضرور سن لیں، جو میں آپ سے کہنا چاہتی ہوں۔” اس بار علیزہ کی آواز میں ٹھہراؤ تھا عباس ریسیور رکھتے رکھتے رک گیا۔ اسے حیرت ہوئی علیزہ ایسی کون سی بات کہنا چاہتی تھی۔
”کیا ابھی کوئی بات باقی رہ گئی ہے۔ جو تم کہنا چاہتی ہو؟”
”ہاں میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میں جسٹس نیاز کے گھر والوں کو سب کچھ بتا رہی ہوں۔”
ریسیور پر عباس کے ہاتھ کی گرفت سخت ہو گئی۔
”اس رات جو کچھ ہوا تھا، میں انہیں بتا دوں گی۔”
”بتا دوں گی۔” عبا س نے دل ہی دل میں دہرایا، اس کا ذہن برق رفتاری سے اپنا لائحہ عمل طے کر رہا تھا۔
ایک ہاتھ میں ریسیور لئے اس نے دوسرے ہاتھ سے انٹر کام کا ریسیور اٹھایا اور کان سے لگانے کے بعد کندھے کی مدد سے ٹکائے رکھا دوسرے ہاتھ سے اس فون کا ریسیور کان سے ہٹا کر نیچے کیا اور ماؤتھ پیس پر دوسرا ہاتھ رکھ دیا۔
”جسٹس نیاز کے آپریٹر سے کہہ دو کہ جب تک اسے دوبارہ ہدایات نہ ملیں، وہ جسٹس نیاز کے گھر آنے والی کسی کال کے کالر کی ان سے بات نہ کروائے اور جس فون نمبر پر میں ابھی بات کر رہا ہوں۔ اس کو چند منٹوں کے اندر ایکسچینج کے ذریعے ڈس کنکٹ کروا دو۔ انسپکٹر قیوم سے کہو، دو منٹ کے اندر مجھ سے رابطہ قائم کرے۔ ”
دھیمی آواز میں اس نے ساری ہدایات دینے کے بعد انٹر کام بند کر دیا اور دوبارہ فون ریسیور کو کان سے لگا کر علیزہ کی گفتگو سننے لگا، اس کے ماتھے پر بل تھے۔ واضح طور پر اس کی گفتگو اس کے لئے ناگواری کا باعث تھی۔
”ہر شخص پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ”وہ اب کہہ رہی تھی۔” کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے جرم کو پولیس سے نہ چھپائے، پولیس کو اس کے بارے میں ضرور انفارم کرے۔ میں نے بھی آپ کو اپنے سامنے ہونے والے اس جرم سے انفارم کر دیا ہے، جس میں خود پولیس ہی انوالو ہے۔ آپ چونکہ اس پر کوئی کارروائی نہیں کریں گے اس لئے میں خود تمام انفارمیشن پریس اور ان لوگوں کی فیمیلیز کو پہنچا دوں گی۔ جن کے بیٹوں کو آپ نے مارا ہے۔”
دوسری طرف مکمل خاموشی تھی، علیزہ کو پہلی بار سکون محسوس ہوا تھا۔ بات مکمل کرنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
اس کے فون کے بند ہوتے ہی آپریٹر نے انسپکٹر قیوم سے اس کا رابطہ کروا دیا۔
”جس گھر پر میں نے گارڈ لگوائی ہے۔ اس گھر سے اب نہ تو کوئی باہرآئے گا۔ نہ ہی اندر جائے گا۔ جب تک میں اجازت نہ دوں، تم اسی ہدایت پر عمل کرو گے۔ گھر کے کسی ملازم کو بھی باہر نکلنے نہیں دو گے۔”
اس نے فون بند کرنے کے بعد آپریٹر کو عمر سے رابطہ کروانے کے لئے کہا۔
”ہاں عمر! میں عباس بول رہا ہوں۔” رابطہ ہوتے ہی اس نے کہا۔
”ہاں عباس ! کیا بات ہے؟”
”علیزہ سے جا کر ملو۔” عباس نے کسی توقف کے بغیر کہا۔
”کیا مطلب ؟ سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” عمرکچھ چونک گیا۔
”نہیں، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ علیزہ کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔” عباس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”کیا ہوا؟”
”ابھی کچھ دیر پہلے فون پر میری اس سے بات ہو رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی کہ وہ جسٹس نیاز کو سب کچھ بتا دے گی۔”
”کیا؟” عمر نے بے اختیار کہا۔
”مگر کیوں؟”
”کیونکہ وہ ہیومن رائٹس کی چیمپئن ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میں نے ان چاروں کو ”قتل” کیا ہے اور یہ غلط تھا۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ سب کچھ جسٹس نیاز اور پریس کو بتا دیا جائے۔”
”اس کا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہے۔ ” عمر نے خفگی سے کہا۔
”بہرحال جو بھی ہے اب تم اس کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ۔” عباس نے اس سے کہا۔
”میں نے کچھ حفاظتی انتظامات تو کئے ہیں۔ مگر کب تک ۔ اس کے دماغ کا ٹھیک ہونا بہت ضروری ہے۔”
”تم فکر نہ کرو، میں ابھی اس کے پاس جاتا ہوں۔ سمجھا دوں گا میں اسے سب کچھ وہ جذباتی ہو جاتی ہے۔”
”جذباتی ہونے میں اور عقل سے پیدل ہو جانے میں بہت معمولی فرق ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا یہ سب کچھ پاپا کو پتا چلے وہ تو بالکل Furious(برہم) ہو جائیں گے۔ ابھی پہلے ہی صورت حال خاصی خراب ہے۔ اس پر اس کا کوئی بیان یا نام کہیں پہنچ گیا تو سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تم اس کے پاس جاؤ اور پھر اس سے بات کرنے کے بعد مجھ سے رابطہ کرو۔ ” وہ کچھ دیر مزید عمر سے اسی بارے میں بات کر تا رہا اور پھر اس نے فون بند کر دیا۔
٭٭٭
علیزہ نے عباس کو فون کرنے کے بعد ایکسچینج سے جسٹس نیاز کا نمبر لیا۔ وہ اس نمبر کو ملا رہی تھی جب فون لائن اچانک ڈیڈ ہو گئی۔ وہ کچھ حیران ہوئی ، فون کچھ دیر پہلے بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا۔ اس نے فون ریسیوررکھ دیا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے ریسیور اٹھایا۔ لائن اب بھی ڈیڈ تھی۔ یہ عارضی خرابی نہیں تھی جو ریسیور رکھ کر دوبارہ اٹھا لینے پر ٹھیک ہو جاتی۔ وہ کچھ بے چین ہونے لگی۔ وہ جلد از جلد جسٹس نیاز سے رابطہ کرنا چاہتی تھی۔
کچھ دیر وہ وہیں بیٹھی کچھ سوچتی رہی اور پھر ایک خیال آنے پر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔ اپنا شولڈر بیگ نکال کر اس نے والٹ اندر ڈالا اور پھر جوتا بدل کر باہر نکل آئی۔ نانو کے کمرے سے اس نے دوسری گاڑی کی چابی لی۔ نانو اس وقت کمرے میں نہیں تھیں۔ وہ باہر لان میں تھیں۔ علیزہ باہر پور ٹیکو میں نکل آئی کار کو اسٹارٹ کرکے اس نے ریورس کرنا شروع کیا، لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا بلکہ گیٹ کے پاس بنے چھوٹے سے کمرے سے نکل کر اس کی طرف آنے لگا۔ اس نے گاڑی روک دی۔
”علیزہ بی بی! آپ کہاں جا رہی ہیں؟” چوکیدار نے قریب آکر اس سے پوچھا۔
”کہاں جا رہی ہوں؟” وہ حیران ہوئی ”باہر جا رہی ہوں، تم گیٹ کھولو۔”
”علیزہ بی بی! مجھے نہیں پتا… بس کچھ دیر پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ میں کسی کو باہر نہ جانے دوں۔” چوکیدار نے اسے بتایا۔
”میں خود بات کرتی ہوں ان سے، دیکھتی ہوں یہ مجھے کیسے روکتے ہیں۔”
وہ تیز قدموں کے ساتھ گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
گیٹ کی سائیڈ پر موجودہ چھوٹا گیٹ کھول کر اس نے باہر نکلنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہیں ہوئی گیٹ کا بولٹ کھلتے ہی باہر موجود ایک پولیس گارڈ اس کے سامنے آگیا۔ وہ منہ اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔
”آپ اندر چلی جائیں، باہر نہیں جا سکتیں۔” اس کی آواز میں سختی مگر لہجہ مؤدب تھا۔
”کیوں نہیں جا سکتی؟”
”ہمیں صاحب نے حکم دیا ہے کہ گھر سے کسی کو بھی باہر نکلنے نہ دیا جائے۔”
”کون سے صاحب نے حکم دیا ہے تمہیں؟”
”عباس صاحب نے۔ آپ پہلے ان سے بات کرکے اجازت لے لیں پھر ہم آپ کو باہر آنے دیں گے۔”
وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے اسے دیکھتی رہی۔ فون میں ہونے والی اچانک خرابی اب اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔ عباس یقیناً اتنا کمزور نہیں تھا جتنا وہ سمجھ رہی تھی۔
”فون خراب ہے۔ میں ساتھ والے گھر سے فون کرکے عباس سے اجازت لے۔۔۔” پولیس گارڈ نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی۔
”آپ کہیں بھی نہیں جا سکتیں۔ عباس صاحب اگر آپ کو اجازت دینا چاہیں گے تو خود آپ سے رابطہ کریں گے یا ہدایات دے دیں گے۔ اس لئے بہتر ہے آپ اندر چلی جائیں۔”
اس کی آواز میں قطعیت تھی، علیزہ مزید بحث کئے بغیر واپس اندرآگئی۔ وہ شدید غصے کے عالم میں تھی۔ پاؤں پٹختے ہوئے وہ اندر لاؤنج میں چلی آئی، اندر آتے ہی اس نے وہ بیگ صوفے پر اچھال دیا جو وہ گاڑی سے نکال لائی تھی۔ اسے شدید بے بسی کا احساس ہو رہا تھا۔
چوکیدار نے نانو کو سارے واقعہ کی اطلاع دے دی۔ وہ چند منٹوں کے بعد اندر لاؤنج میں تھیں۔
”تم کہاں جانا چاہ رہی ہو علیزہ؟” انہوں نے آتے ہی پوچھا۔
”مارکیٹ تک جانا چاہ رہی تھی۔”
”کیوں؟”
”کچھ کام تھا نانو…! مگر عباس نے باہر موجود گارڈ سے کہا ہے کہ کوئی اندر سے باہر نہ جائے۔” اس نے برہمی سے کہا۔
”عباس نے کہا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کہا ہو گا۔ تم فون پر اس سے بات کر لو۔” نانو اس کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا۔
”فون لائن ڈیڈ ہے اور عباس، عباس کبھی کچھ بھی سوچ سمجھ کر کرنے کا عادی نہیں ہے۔”
”فون لائن ڈیڈ ہے؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو بالکل ٹھیک تھی۔”
نانو فون کا ریسیور اٹھا کر اسے چیک کرنے لگیں۔ پھر کچھ مایوسی کے ساتھ انہوں نے ریسیور رکھ دیا۔ ”یہ کام نہیں کر رہا۔”
”یہ کام کر بھی کیسے سکتا ہے؟ یہ عباس کی وجہ سے بند ہے۔” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”فون کیوں بند کروایا ہے عباس نے؟” نانو کچھ فکر مند ہو گئیں۔
علیزہ کچھ کہتے کہتے رہ گئی، اسے اچانک خیال آیا تھا کہ نانو سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ وہ انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔
”نانو! آپ مجھے ساتھ والوں کے گھر بھجوائیں، میں وہاں سے فون کروں گی۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!