امربیل — قسط نمبر ۱۱

”میں تمہاری بکواس پر یقین نہیں کر سکتا۔ ” جسٹس نیاز نے بڑے تحقیرانہ انداز میں اپنے ہاتھ کو جھٹکا۔
”حقیقت کو آپ بکواس کہیں یا اس پر یقین نہ کریں، اس سے اس کا وجود ختم ہوتا ہے نا اس کی Authenticity” ایاز حیدر نے ایک بار پھر تحمل سے کہا۔
”تم اور تمہارے حقائق۔” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ایاز حیدر کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ اس بارایاز کا چہرہ سرخ ہو گیا، مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے چیف منسٹر نے مداخلت کی۔
”نیا زصاحب! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مہذب زبان استعمال کریں۔ اس گالم گلوچ سے صورت حال اور خراب ہو گی اور فریقین میں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔”
جسٹس نیاز ، چیف منسٹر کی بات پر ایک بار پھر آگ بگولہ ہو گئے۔ ”میں یہاں انصاف لینے آیا ہوں کوئی فائدہ نہیں۔”
”آپ کے بیٹے کے ساتھ انصاف ہی کیا گیا تھا۔” ایاز حیدر کا لہجہ اس بار بالکل سرد تھا۔
اس سے پہلے کہ ان کی اس بات پر جسٹس نیاز اور مشتعل ہوتے چیف منسٹر نے ایک پھر مداخلت کی۔
”اس فضول بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ کس نے کیا کیا میں نے آپ دونوں کو یہاں معاملات طے کروانے کے لئے بلوایا ہے۔ جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کو تو بدلا نہیں جا سکتا، نہ آپ بدل سکتے ہیں نہ یہ۔”
”ہمیں دوستانہ تصفیہ کرلینا چاہئے۔”
”ہم اس کے لئے تیار ہیں اور ہم یہاں اسی لئے موجود ہیں؟” ایاز حیدر نے ان کی تجویز پر کہا۔
”مگر میں اس کے لئے تیار ہوں نہ اس لئے یہاں آیا ہوں۔” جسٹس نیاز کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں تھی۔
”نیاز صاحب! آپ معاملے کو طول دینے کی کوشش نہ کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔” چیف منسٹرنے اس بار کچھ جھنجھلا کر کہا۔




”اگر آپ کو یہ لگ رہا ہے کہ میں معاملے کو طول دے رہا ہوں تو ایسا ہی سہی۔”
چیف منسٹر نے ان سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر جسٹس نیاز نے ہاتھ اٹھا کر انہیں روک دیا۔
”ہو سکتا ہے آپ اس کے پریشر میں ہوں، مگر میں ایاز حیدر اور اس کے گینگ سے نہیں ڈرتا۔”
ایاز حیدر نے ان کی بات پر ایک لمحہ کے لئے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سر! میرے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال نہ کریں۔ میں یہاں کسی تلخی کو بڑھانے نہیں آیا اور میں بہت برداشت کا مظاہرہ کر رہا ہوں۔” ایاز حیدر نے اس بار براہ راست جسٹس نیاز کو مخاطب کیا۔
”کس نے کہا ہے کہ تم برداشت کا مظاہرہ کرو، مت کرو۔” جسٹس نیاز نے تقریباً دھاڑتے ہوئے کہا۔
”میرے بیٹے کو تم نے مار ڈالا اور اب تم اس پر الزام لگا رہے ہو۔ اخبارات کے ذریعے مجھے بدنام کر رہے ہو اور یہ بھی چاہتے ہو کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تصفیہ بھی کرلوں۔ تم ایک انتہائی گھٹیا اور کمینے شخص ہو ایاز حیدر۔” وہ ایک ہی سانس میں بولتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کو جس وجہ سے مارا گیا، وہ میں آپ کو بتا چکا ہوں… یہ کوئی سوچا سمجھا قتل نہیں تھا۔ عباس اور عمر کی جگہ آپ ہوتے اور میری بھانجی کی جگہ آپ کی بیٹی ہوتی تو آپ بھی یہی کرتے۔” ایاز حیدر نے کرسی پر کچھ آگے جھکتے ہوئے کہا۔ ”اور میں آپ کے بیٹے پر جھوٹا الزام کیوں لگاؤں گا… میں اپنی بھانجی کو خود بدنام کروں گا۔ اپنے خاندان کی عزت کو بازار میں اچھا لوں گا؟”
وہ ایک لحظہ کے لئے رکے۔
”جہاں تک اخبارات کا تعلق ہے تو وہاں شائع ہونے والی خبروں میں بھی میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”تم۔” جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ان کی بات کاٹنا چاہی، مگر چیف منسٹر نے انہیں روک دیا۔
”نیاز صاحب!آپ انہیں بات تو کرنے دیں۔ پہلے ان کی سن لیں پھر جو چاہے کہیں۔” ان کا لہجہ اس بار التجائیہ تھا۔ جسٹس نیاز پتا نہیں کیا سوچ کر چپ ہو گئے۔
”اخبارات کا جو دل چاہتا ہے وہ چھاپ دیتے ہیں ۔ وہ میرے حکم سے نہیں چلتے، نہ ہی ان پر مجھے کوئی کنٹرول ہے۔ آج وہ آپ کے بارے میں خبریں شائع کر رہے ہیں تو کل میرے بارے میں بھی چھاپ سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے ایک بار پھر بڑی سنجیدگی سے اپنی بات شروع کی۔
”ویسے بھی جن لوگوں کے حوالے سے وہ خبریں شائع کر رہے ہیں ان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ آپ کا ہی تعلق ہے آپ مختلف اوقات میں ان مقدمات میں فیصلے دیتے رہے ہیں اور ان لوگوں کو ان فیصلوں کے حوالے سے اعتراضات ہیں۔”
جسٹس نیاز کے ماتھے پر پڑے ہوئے بلوں میں اضافہ ہوتا گیا۔
”اور یہ لوگ صرف اب ہی اخبارات میں بیان نہیں دے رہے، یہ پہلے بھی بہت سے بیانات دیتے رہے ہیں۔ کیا اس وقت بھی انہیں اخبارات تک لانے کا ذمہ دار میں تھا۔”
ایاز حیدر اس بار کچھ غصے کے عالم میں کہتے گئے۔
”آپ کے بیٹے کے ساتھ سب کچھ کس وجہ سے ہوا میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ آپ اسے جھوٹ سمجھیں یا جو بھی کہیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔” انہوں نے اچانک اپنی ٹون بدلی۔
”آپ کو اگر اپنے بیٹے کی موت کا دکھ ہے تو مجھے بھی اپنی بھانجی کی بے عزتی کا رنج ہے… اگر آپ کے بیٹے کو زندگی سے محروم ہونا پڑا ہے تو میری بھانجی کی زندگی بھی تباہ ہو گئی ہے۔” اس بار ان کی آواز میں واضح افسردگی موجود تھی۔
”وہ ابھی تک اسلام آباد کے ایک کلینک میں زیر علاج ہے، اس کی ذہنی حالت اتنی خراب ہے کہ ڈاکٹرز اسے علاج کے لئے بیرون ملک لے جانے کا کہہ رہے ہیں۔”
جسٹس نیاز اس بار خاموش نہیں رہ سکے۔”تم دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے آدمی ہو… میں نے تمہیں بتایا ہے میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کا صرف تعاقب کیا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ تمہاری بھانجی تھی اور اس نے مجھے یہ سب کچھ بتا دیا تھا۔”
”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔” ایاز حیدر نے اس بار پہلی دفعہ ان کی بات کاٹی۔
”میں جھوٹ بول رہا ہوں؟”
”ہاں آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر یہ سچ ہوتا تو آپ نے میری مدر کے گھر پر فائرنگ کروا کر میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش نہ کی ہوتی۔”
”میں نے کیا کیا؟” جسٹس نیاز جیسے ہکا بکا رہ گئے۔
”آپ نے ہمارے خاندانی گھر پر حملہ کروایا اور میری بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی، یہ صرف ایک اتفاق تھا کہ میری بھانجی وہاں نہیں تھی اور پولیس وقت پر وہاں پہنچ گئی۔”
جسٹس نیاز کچھ نہ سمجھتے ہوئے چیف منسٹر کو دیکھنے لگے۔
”یہ کیا کہہ رہاہے، میری سمجھ میں نہیں آرہا… کون سا حملہ؟ کیسا اغوا؟”
”یہ حقیقت ہے نیاز صاحب ! ایاز حیدر غلط نہیں کہہ رہے نہ ہی جھوٹ بول رہے ہیں۔ ان کے گھر پر حملہ ہوا ہے۔” اس بار چیف منسٹر نے سنجیدگی سے کہا۔ “حملہ کرنے والوں نے چوکیدار کو زخمی کرنے کے علاوہ گھر پر زبردست فائرنگ کی… سامان کو توڑ پھوڑ ڈالا… ان کی بھانجی وہاں نہیں تھیں، صرف مسز معاذ حیدر تھیں۔ جو چھپ گئیں… اسی دوران پولیس وہاں پہنچ گئی اور ان کی جان بچ گئی۔ کیونکہ وہ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔ ایاز حیدر نے مجھے فوری طور پر اسی وقت اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی۔”
چیف منسٹر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔
”ہو سکتا ہے ہوا ہو ایسا ، لیکن اس سے میرا تعلق کیسے بنتا ہے؟” جسٹس نیاز نے اس بار الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”ایاز حیدر نے آپ کا اور قاسم کا نام لیا ہے ان کا خیال ہے کہ یہ کام آپ دونوں کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ وہ اس سلسلے میں آپ دونوں کے خلاف ایف آئی آر لکھوانا چاہتے تھے مگر، میں نے انہیں روک دیا… میں اس جھگڑے کو اور طول نہیں دینا چاہتا۔”
”یہ سب بکواس اور فراڈ ہے میں اور میرا خاندان ابھی تک اپنے بیٹے کی موت کے شاک سے باہر نہیں آئے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اس کے گھر پر حملہ کروایا اور اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی ۔” انہوں نے برہمی سے چیف منسٹر کی بات کے جواب میں کہا۔
”مجھے تو یہ تک پتا نہیں تھا کہ وہ لڑکی اس کی بھانجی تھی پھر میں یہ کیسے کروا سکتا تھا۔” وہ ایک بار پھر مشتعل ہو رہے تھے۔
”ہو سکتا ہے، آپ نے یہ نہ کروایا ہو… قاسم درانی نے کروایا ہو۔” چیف منسٹر نے کچھ نرمی سے کہا۔
ایاز حیدر بالکل خاموشی سے گفتگو سن رہے تھے۔
”اگر قاسم نے یہ کروایا ہے تو پھر آپ کو یہ سب کچھ قاسم کو بتانا چاہئے تھا، مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔ ” انہوں نے ترشی سے چیف منسٹر سے کہا۔
”نیاز صاحب آپ اس وقت اس بات کو چھوڑیں میں نے کہا ہے نا کہ گڑے مردے اکھاڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے ایاز حیدر کو بھی سمجھایا ہے میں آپ کو بھی سمجھا رہا ہوں تعلقات مزید کشیدہ کرنے کے بجائے معاملہ ختم کر دیں۔”
”آپ کا بیٹااس طرح مرا ہوتا تو آپ معاملہ اس طرح ختم کر دیتے؟” جسٹس نیاز نے چبھتے ہوئے اندار میں کہا۔
”یہ حالات پر منحصر ہوتا… اگر میرے بیٹے نے وہ سب کچھ کیا ہوتا جو آپ کے بیٹے نے کیا تو میں اس کو خو دگولی مار دیتا۔” چیف منسٹر نے بے دھڑک کہا۔
”میں نے آپ کو کہا ہے میرے بیٹے نے کچھ بھی نہیں کیا۔ وہ بے گناہ تھا۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات کے جواب میں چلائے۔
”اگر صرف گلا پھاڑنے سے کسی کا جرم یا بے گناہی ثابت ہوتی ہے تو میں آپ سے زیادہ گلا پھاڑ سکتا ہوں۔ اگر آپ بضد ہیں کہ آپ کے بیٹے نے میری بھانجی کے ساتھ کچھ نہیں کیا تو میں بھی کہتا ہوں کہ میرے بیٹے نے بھی آپ کے بیٹے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ وہ واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔”
ایاز حیدر کے تلخ لہجے میں کہے گئے جملے کے جواب میں جسٹس نیاز اس بار صرف خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”نیاز صاحب ! ہو سکتا ہے آپ کے بیٹے نے آپ کو حقیقت نہ بتائی ہو… جس طرح کی حرکت اس نے کی تھی اس کے بعد آپ خود سوچیں۔ وہ کس طرح دیدہ دلیری سے آپ کے سامنے اس کا اعتراف کر سکتا تھا… ہائی کورٹ کے ایک جج کے سامنے۔”
چیف منسٹر نے اس بار نفسیاتی حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔
”اسے خدشہ ہو گا کہ آپ اسے فوراً پولیس کے حوالے کر دیں گے اور اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا… ہو سکتا ہے اسی خوف سے اس نے آپ کو ساری بات نہ بتائی ہو۔” چیف منسٹر اب جسٹس نیاز پر دوسرا حربہ آزما رہے تھے۔
”چلیں میں آپ کی مان لیتا ہوں، فرض کیا اس نے کسی خدشہ کے تحت مجھ سے حقیقت چھپائی تھی اور واقعی یہ جرم کیا تھا… تو کیا اس جرم کی سزا یہ تھی کہ اسے کسی کیس ، کسی ٹرائل کے بغیر پکڑ کر یوں جانوروں کی طرح مار دیا جاتا۔”
”میں نے آپ کو بتایا ہے ، یہ سب فوری اشتعال کے تحت ہو ا اور اپنی بھانجی کے ساتھ یہ سب ہونے کے باوجود مجھے آپ کے بیٹے کی موت کا افسوس ہے، میں اس کے لئے معذرت کرتا ہوں۔”
ایاز حیدر نے فوری طور پر چیف منسٹر اور جسٹس نیاز کے درمیان ہونے والی گفتگو میں مداخلت کی۔
”تم اور تمہاری معذرت…تمہاری معذرت میرے بیٹے کو واپس لا سکتی ہے؟… مجھے ابھی بھی تمہاری بکواس پر یقین نہیں ہے… میرا بیٹا ایسا نہیں تھا۔” جسٹس نیاز پر ایاز حیدر کی معذرت کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔
”آپ کا بیٹا کیسا تھا… یہ آپ اس فائل کو پڑھ کر جان جائیں گے۔”
عباس حیدر نے تمام گفتگو کے دوران پہلی بار مداخلت کی، اپنے سامنے پڑی ہوئی ایک فائل کو اس نے ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے جسٹس نیاز کی طرف کھسکا دیا۔
”پچھلے دو سالوں میں پولیس کو اس کے بارے میں بہت ساری شکایات ملتی رہی ہیں۔ مگر پولیس نے ایک بار بھی اس کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی اور صرف آپ کے عہدے کے احترام کی وجہ سے ہر بار اسے بچایا گیا۔”
”تم اپنا منہ اور بکواس بند کرلو۔” جسٹس نیاز اس پر دھاڑنے لگے۔
”سر! میں نے اپنا منہ اور بکواس ابھی تک بند ہی رکھی تھی۔ مگر آپ اپنے بیٹے کی تعریف میں جو زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ وہ اب ناقابل برداشت ہو رہے ہیں۔” عباس کا لہجہ پر سکون اور سرد تھا۔ ”سچ صرف آپ کو کہنا آتا ہے۔ دوسروں کو نہیں۔ دو دفعہ آپ کا بیٹا لبرٹی میں لڑکیوں سے پرس چھینتے ہوئے پکڑا گیا دونوں دفعہ اسے چھوڑ دیا گیا، ایک دفعہ اس نے کسی کی گاڑی چرا کر بیچ دی… آپ نے اس کو پولیس اسٹیشن جا کر ایف آئی آر سے پہلے ہی چھڑوا لیا اور پولیس نے اس آدمی کو آپ کے ساتھ معاملہ طے کر نے پر مجبورکر دیا۔”
”تم اپنی حد سے باہر نکل رہے ہو۔” جسٹس نیاز کا چہرہ اب سرخ ہو رہا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!