امربیل — قسط نمبر ۱۱

”عمر! میں ” ”چاہئے” کا نہیں پوچھ رہا ہوں… وہ رابطہ کرے گی یا نہیں… میں واضح لفظوں میں جواب چاہتا ہوں۔”
عباس یک دم سنجیدہ ہو گیا۔ عمر کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کچھ کہنا چاہا مگر اس سے پہلے ہی عباس کہنے لگا۔
”میں اس کی طرف سے کوئی رسک افورڈ نہیں کر سکتا ہوں… ایک بار جسٹس نیاز تک اصلی صورت حال پہنچ گئی تو پھر کتنا بڑا اسکینڈل بنے گا۔ اس کا تمہیں اندازہ نہیں ہے… اور مجھے ابھی بھی علیزہ سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔”
”عباس ! اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ تو خاصی خوفزدہ ہو چکی ہے۔” عمر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”ابھی وہ خوفزدہ ہے… مگر کب تک … کل کو اس کا یہ خوف ختم ہو گیا تو پھر کیا ہو گا اگر اس پر ایک بار پھر ہیومن رائٹس کے دورے پڑنا شروع ہو گئے… اور اس نے ایک بار پھر جسٹس نیاز کو سب کچھ بتانے کی کوشش کی… یا پھر پریس کی مدد لی۔”
”عباس ! میں اسے سمجھا لوں گا… وہ کچھ نہیں کرے گی۔”
”عمر! یہ کام تم پہلے بھی نہیں کر سکے ہو… جب تم آج صبح اسے سمجھانے گئے تھے تو اس نے تمہاری بات نہیں سنی… اور ابھی بھی اگر وہ یہاں میرے گھر موجود ہے تو تمہاری کسی بات سے قائل ہو کر نہیں بلکہ اس سارے ڈرامے سے خوفزدہ ہو کر ۔”
”تم کیا کہنا چاہتے ہو؟” عمر الجھا۔
”میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کل وہ تمہاری باتوں سے قائل نہیں ہوئی… تو ہم دوبارہ کیا ڈرامہ کریں گے۔”
”میں اپنا کیرئیر کم از کم علیزہ کی وجہ سے خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔”
عباس نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ نکالتے ہوئے کہا۔
”میری پروموشن ڈیو ہے اور اپنی فیملی کا کوئی فرد میرے خلاف کسی کے ہاتھ کا ہتھیار بنے تو پھر۔۔۔”
اس نے پیکٹ عمر کی طرف بڑھایا، عمرنے بھی پیکٹ سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ عباس نے پیکٹ سامنے پڑی ٹیبل پر رکھا اور لائٹر سے سگریٹ دونوں ہونٹوں میں دبا کر سلگانے لگا۔ اس نے بات مکمل نہیں کی تھی۔ عمر سگریٹ ہاتھ میں لئے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ عباس نے لائٹر عمر کی طرف بڑھا دیا اور خود سگریٹ سلگا کر لائٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔




”ہاں۔ وہ ہمارے خاندان کا ایک حصہ ہے مگر میں اس کے لئے اپنا کیرئیر تباہ نہیں کر سکتا۔” عباس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”میں کر سکتا ہوں۔” عمرنے بے تاثر آواز میں صوفہ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”تمہاری حقیقت پسندی کچھ ختم نہیں ہوتی جا رہی۔۔۔” عباس نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”میں اس کے بارے میں حقیقت پسند ہوں… اور میں نے تمہیں حقیقت ہی بتائی ہے… میں اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔”
”چاہے وہ اس طرح کی حماقتیں کرے۔” عباس نے تیکھے انداز میں کہا۔
”وہ آئندہ ایسا کچھ نہیں کرے گی۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔”
عباس کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”شادی کیوں نہیں کر لیتے؟” عمر نے حیرانی سے اس کا منہ دیکھا۔
”کیا احمقانہ سوال ہے… اس ساری گفتگو کے دوران میری شادی کہاں سے آگئی۔”
”میں تمہاری اور علیزہ کی شادی کی بات کر رہا ہوں۔” عباس نے اسی انداز میں کہا۔
”کم آن۔” عمر نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں پھینکتے ہوئے سگریٹ کے پیکٹ سے ایک اور سگریٹ نکال لیا۔
”کیوں؟ پسند نہیں کرتے تم اسے؟”
”عباس! کوئی اور بات کرو۔”
”کیوں؟ یہ کیوں نہیں… تمہاری اچھی خاصی Affiliation ہے اس کے ساتھ… بلکہ انڈر اسٹینڈنگ بھی… تمہیں شادی کر لینی چاہئے اس کے ساتھ۔”
”عباس ! ہم کچھ اور بات کر رہے تھے۔۔۔” عمر کا چہرہ سپاٹ تھا۔ ”اور تم اب جو کچھ کہہ رہے ہو… اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
”تعلق ہے۔”
”کیا تعلق ہے؟” عمر نے دوبدو کہا۔
”تم سے شادی ہونے کے بعد وہ اس سارے واقعے کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرے گی۔”
”تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
”اپنے شوہر کو کورٹ میں کیسے گھسیٹے گی؟ میں پھنسوں گا تو تم بھی تو پھنسو گے… اور علیزہ یہ نہیں کرے گی… ہم اس کے بارے میں بے فکر ہو سکتے ہیں۔”
”عمر! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔” عباس نے اس کی بے توجہی محسوس کی۔
”میں جانتا ہوں۔” عمر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”وہ اچھی لڑکی ہے۔”
”میں یہ بھی جانتا ہوں۔”
”تم دونوں ساتھ خوش رہ سکتے ہو۔”
”نہیں۔” اس نے بغیر کسی توقف کے کہا۔ ”ہم ایک ساتھ خوش نہیں رہ سکتے۔”
”کیوں؟” عباس نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ سب چھوڑو… اسلام آباد میں بھی ابھی کچھ عرصہ اس پر چیک رکھوانا۔” عمر نے یک دم موضوع بدل دیا۔
”جسٹس نیاز کے آپریٹر کو بھی کہنا کہ اس سلسلے میں احتیاط کرے… علیزہ کی آواز پہچانتا ہے… آئندہ بھی اگر کبھی وہ کال کرے تو وہ جسٹس نیاز سے رابطہ کروانے کے بجائے خود ہی بات کرلے۔”
اس نے اب ہاتھ میں پکڑا ہوا سگریٹ سامنے پڑے ہوئے ایش ٹرے میں اچھال دیا۔
”میں اس کی دوست شہلا سے بھی بات کرلوں گا۔ وہ بھی اس سے بات کرے گی… میں بھی وقتاً فوقتاً اس سے رابطہ کرتا رہوں گا۔”
وہ بولتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ عباس بھی اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”تم یہیں رہ جاؤ۔ صبح تو ہونے ہی والی ہے… اب ہوٹل کہاں جاؤ گے؟”
”نہیں۔ مجھے جانا ہے… کچھ کام ہے مجھے… ویسے بھی ہوٹل میں زیادہ آرام سے ہوتا ہوں میں۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ عباس اس کے ساتھ چلنے لگا۔
باہر پورچ سے نکلتے ہوئے اس نے عمر سے کہا۔ ”میری بات پر غور ضرور کرنا۔”
”کس بات پر؟”
”علیزہ کے ساتھ شادی پر۔”
”میں بہت پہلے اس پر غور کر چکا ہوں۔”
”پھر؟”
”تمہیں بتا تو دیا ہے۔”
عباس نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”تم زندگی میں ایک کے بعد ایک بے وقوفی کر رہے ہو… کسی دن ایمانداری سے اپنا تجزیہ کرنا… شاید تمہیں یہ پتا چل جائے کہ بعض دفعہ دوسروں کا مشورہ مان لینا چاہئے۔” عباس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہلکا سا دباؤ ڈال کر کہا۔
”تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت اچھی زندگی گزار سکتے ہو… صرف تم ہی اسے پسند نہیں کرتے وہ بھی کرتی ہے۔”
عمر اس بات پر کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دیا۔
”صبح دس گیارہ بجے کے قریب میں تمہیں فون کروں گا۔”
عباس نے اس کے کندھے کو ہلکا سا تھپتھپایا۔
”ایک بار پھر موضوع بدل رہے ہو تم۔ ٹھیک ہے تمہاری مرضی۔”
عمرجواب میں کچھ کہے بغیر اپنی کار میں بیٹھ گیا۔
٭٭٭
”تم مجھے یہ بتاؤ کہ میں اس سارے سلسلے میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟”
ہمایوں شکیل نے ایاز حیدر کے ساتھ ہونے والی لمبی چوڑی گفتگو کے بعد کہا۔ وہ ایاز حیدر کے فرسٹ کزن تھے اور سی بی آر میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ ایاز حیدر کو کچھ دیر پہلے انہوں نے فون کیا تھا۔
پچھلے چند دنوں میں ایاز حیدر بہت سارے رشتہ داروں ، کو لیگز اور دوستوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے۔ اخبارات میں یہ اسکینڈل سامنے آنے پر اور عباس کی اس میں انوالومنٹ کی خبر پاتے ہی یہ روابط شروع ہو گئے تھے۔ ہر ایک انہیں اپنے تعاون اور مدد کا یقین دلا رہا تھا اور ایاز حیدر اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ صرف خالی خولی باتیں نہیں ہیں۔ وہ لوگ واقعی ہر قیمت پر ان کے بیٹے کی مدد کرنا چاہ رہے تھے۔
”میں چاہتا ہوں، قاسم درانی کو ہینڈل کرنے میں تم میری مدد کرو۔” ایاز حیدر نے ان کی پیشکش پر کہا۔
”کس طرح کی مدد؟”
”اس کی فیکٹریز کی ٹیکس فائلز کو ذرا ایک بار پھر کھولو… ٹیکس کے معاملے میں ٹریک ریکارڈ کیسا ہے اس کا؟”
ایاز حیدر نے پوچھا۔
ہمایوں نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا ”کیسا ہو سکتا ہے؟… بھئی ویسا ہی ہے جیسا چیمبر آف کامرس کے کسی بھی عہدے دار کا ہو سکتا ہے… جو جتنا بڑا ٹیکس چور… وہ اتنا ہی بڑا انڈسٹریلسٹ۔”
”یعنی ہاتھ صاف نہیں ہیں اس کے؟”
”مجھے تفصیل کا تو پتا نہیں… مگر میرا خیال ہے، یہ بھی ان انڈسٹریلٹس میں شامل ہے جو پولیٹیکل فیورز کی وجہ سے بچا ہوا ہے… پرائم منسٹر کی پارٹی کو فنڈ میں خاصی لمبی چوڑی رقوم دیتا رہتا ہے۔”
”تم ذاتی طور پر نہیں جانتے اسے؟”
”نہیں… دو چار پارٹیز میں سلام دعا ضرور ہوئی ہے اور چہرے سے واقف ہوں مگر کوئی لمبے چوڑے روابط نہیں ہیں اس کے ساتھ۔” ہمایوں نے بتایا۔
”تمہارا کیا خیال ہے، اس کے ٹیکس ریکارڈ کی چھان بین شروع ہونے پر ”اوپر” سے مداخلت ہو سکتی ہے؟”
”یہ تو طے شدہ ہے… میں نے تمہیں بتایا نا کہ خاصی بڑی رقوم ڈونیٹ کرتا رہا ہے پرائم منسٹر کی پارٹی کو۔”
ہمایوں نے اپنی رائے دی۔
”دیکھو، میں کوئی اس کے ٹیکس کے معاملات ٹھیک کروانا نہیں چاہتا، نہ ہی میں اس کے خلاف تمہارے ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی کیس کروانا چاہتا ہوں۔”
”تو پھر؟”
”میں صرف فوری طور پر اسے پریشرائز کرنا چاہتا ہوں اور اس کے ساتھ چیمبر کے جو دو سرے لوگ کھڑے ہیں، انہیں تھوڑا سا خوفزدہ کرنا چاہتا ہوں۔” ایاز حیدرنے ان کے ساتھ اپنا لائحہ عمل ڈسکس کرتے ہوئے کہا۔
”انٹریئرمنسٹر نے مجھے بتایا ہے کہ چیمبر کے ایک وفد نے اسی سارے معاملے پر ان تک اپنا احتجاج پہنچانے کے لئے ان سے اپائنٹمنٹ لی ہے… اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ یہ اسلام آباد چیمبر کو بھی اس سلسلے میں پریشرائز نہ کرے… ایس کے علیگی اس کے بڑے بیٹے کا سسر ہے۔ ”

Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!