امربیل — قسط نمبر ۱۱

”ان کو کس نے بھیجاہے…؟ یا اللہ… علیزہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟” نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔
”ہمیں بیسمنٹ میں چلے جانے چاہئے۔ یہ لوگ وہاں نہیں آسکیں گے۔ جلدی کرو۔” وہ علیزہ کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنے لگیں۔
”جب تک پولیس نہیں آجائے ہم وہیں چھپے رہیں گے۔” تیزی سے اس کے ساتھ چلتے ہوئے نانو نے کہا۔ وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ نانو کی ہدایت پر بلا چوں و چرا عمل کر رہی تھی۔
تہہ خانہ کا دروازہ اندر سے لا ک کرنے کے بعد نانو نے ٹارچ اندر سے بجھا دی۔ وہ تاریکی میں۔ ایک پرانے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ جو وہاں پڑا ہوا تھا۔ وہاں بہت زیادہ پرانا سامان پڑا ہوا تھا اور وہ ایسے سامان کو اسٹور کرنے کے لئے ہی کام میں لایا جا رہا تھا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اوپر گھر میں ہونے والی کسی کارروائی کو جان نہیں سکتی تھیں۔
علیزہ کا ذہن اب بھی اس شخص کے کہے جانے والے جملے میں اٹکا ہوا تھا۔
”ہم علیزہ کو لینے آئے ہیں۔ میرا نام… میرا ایڈریس… آخر کس لئے… یہ کون لوگ ہیں؟” اسے اپنا آپ کسی مکڑی کے جال میں پھنسا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ چند دن پہلے کی پر سکون زندگی یک دم جیسے قصۂ پارینہ بن گئی تھی اور اب… اب آگے اور کیا ہونے والا تھا۔
”یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ علیزہ؟ ” نانو کی متفکر آواز میں اندھیرے میں گونجی۔
”میں نہیں جانتی نانو…! میں کیا بتا سکتی ہوں۔” اس نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کہا۔
”وہ لوگ تمہارا نام لے رہے تھے۔”
”ہاں، میری یہی تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ میرا نام کیوں لے رہے تھے۔ مجھے کیسے اور کس حوالے سے جانتے ہیں۔” اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھیں مگر ان کی آوازیں ان کی کیفیات کو ظاہر کرنے کے لئے کافی تھیں۔
”یہ سب عمر اور عباس کی وجہ سے ہوا… یہ لوگ یقیناً ان چاروں لڑکوں میں سے کسی فیملی کے بھجوائے ہوئے ہیں۔” وہ یک دم مشتعل ہو کر بولی۔ ” نہ وہ ان چاروں کو قتل کرتے نہ یہ لوگ یہاں اس طرح میرے پیچھے آتے۔”
”عمر اور عباس نے تمہیں بچانے کے لئے سب کچھ کیا۔”
”کیا بچایا ہے انہوں نے… جو بات چند گھنٹوں میں ایک ایف آئی آر کے ساتھ ختم ہو سکتی تھی۔ وہ اب مجھے اس طرح اپنی زندگی بچانے کے لئے یہاں چھپنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کیا حفاظت کی ہے ان دونوں نے میری۔”
اس کا خوف اب مکمل طور پر اشتعال میں تبدیل ہو گیا تھا۔




”نہ یہ لوگ انہیں قتل کرتے نہ کوئی اس طرح بدلہ لینے کے لئے مجھے ٹریس آؤٹ کرتا… یہ سب ان کی وجہ سے ہوا۔” وہ عباس اور عمر کو مورد الزام ٹھہرا رہی تھی۔
”اوپر سے پولیس گارڈ بھی ہٹا لی۔۔۔” اس نے بے بسی سے بات ادھوری چھوڑ دی۔ ”انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ یہ آخر مجھے کب تک اور کہاں تک تحفظ دے سکتے ہیں، مجھے ان ہی چیزوں سے خوف آتا ہے جو اب بھوت بن کر میرے سامنے کھڑی ہیں۔”
”وہ دونوں تمہارے دشمن نہیں ہیں۔” نانو نے ان دونوں کے دفاع کی کوشش کی۔
”دشمن نہیں تو وہ میرے دوست بھی ثابت نہیں ہوئے۔”
اس نے درشتی سے کہا۔ نانو کی طرف سے ان دونوں کے لئے حمائیت اس وقت اسے بری طرح مشتعل کر رہی تھی۔
”پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا کیا ہے؟” اسے بات کرتے کرتے اچانک ان دونوں کا خیال آیا۔
”پولیس کو اب تک آجانا چاہئے تھا… آخر اتنی فائرنگ ہوئی ہے اس علاقے میں اور پھر ساتھ والے سارے گھروں نے بھی پولیس کو رنگ کیا ہو گا… پھر بھی پتا نہیں ابھی تک پولیس کیوں نہیں آرہی۔” نانو کو اچانک ایک دوسری تشویش ستانے لگی۔
”اگر پولیس نہ آئی تو؟”
”تو…تو… پتا نہیں کیا ہو گا؟” نانو کے سوال نے اس کے خوف کو پھر بیدار کر دیا۔
”آخر ہم یہاں کب تک بیٹھے رہیں گے؟” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد نانو نے کہا۔
”ہم باہر کیسے نکل سکتے ہیں… اگر وہ لوگ وہاں ہوئے تو…؟”
وہ ہمیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہے ہوں گے اگر ہم انہیں وہاں نہ ملے تو۔۔۔” علیزہ بات کرتے کرتے خاموش ہو گئی۔
”تو وہ پھر شاید یہی سوچیں گے کہ ہم کسی بیسمنٹ میں ہیں… اور… اور پھر… وہ لوگ شاید یہاں پہنچ جائیں گے۔”
علیزہ نے اپنے ہاتھ کی مٹھیاں بار بار کھولنی اور بند کرنی شروع کر دیں۔ اس کے ہاتھوں اور پیروں کی لرزش بڑھتی جا رہی تھی۔
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے زندگی میں ایسی صورت حال کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔” نانو نے اس بار دھیمی آواز میں کہا۔ علیزہ چپ چاپ تاریکی کو گھورتی رہی۔ اس کے کان باہر سے آنے والی کسی بھی آواز پر لگے ہوئے تھے۔
”Its Terrible” (یہ کس قدر ہولناک ہے) اس نے نانو کی بات کا جواب نہیں دیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند دن پہلے کے واقعات اتنی جلدی دہرائے جائیں گے اور پہلے سے زیادہ بدتر انداز میں۔
نانو اب خاموش ہو گئی تھیں۔ شاید وہ علیزہ کی کیفیات کو سمجھ رہی تھیں۔
وہ دونوں وہاں کتنی دیر چپ چاپ بیٹھی رہیں، انہیں اندازہ نہیں ہوا مگر یہ ضرور جانتی تھیں کہ انہیں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے گزر گئے تھے۔
پھر اچانک انہوں نے تہہ خانے کے دروازے پر کچھ آہٹیں اور آوازیں سنیں۔ علیزہ نے بے اختیار نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نانو اس کی ہاتھ کی کپکپاہٹ اور ٹھنڈک کو محسوس کر سکتی تھیں۔
”نانو…!” اس کی آواز بھی اسی طرح لرز رہی تھی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی، نانو اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔ تہہ خانے کے دروازے کو اب کوئی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ دونوں دم سادھے بیٹھی رہیں۔ پھر علیزہ نے ایک بلند آواز سنی۔
”گرینی اندر ہیں آپ؟” وہ عباس تھا۔
”یا اللہ ! ” نانو کے منہ سے نکلا۔ علیزہ کا رکا ہوا سانس دوبارہ چلنے لگا۔
”عباس آگیا ہے… پولیس پہنچ گئی ہو گی۔ آؤ، اب یہاں سے نکلتے ہیں۔” علیزہ نے نانو کو کھڑا ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ بھی ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ نانو نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹارچ جلا دی۔ تہہ خانے کا اندھیرا ایک دم غائب ہو گیا۔
ٹارچ کی روشنی میں چلتے ہوئے وہ دونوں دروازے تک پہنچیں اور انہوں نے دروازہ کھول دیا۔ عباس دروازے کے بالکل سامنے تھا۔ گھر میں اب روشنی تھی، شاید بجلی کی کٹی ہوئی تاریں جوڑ دی گئی تھیں۔
عباس اور علیزہ کے درمیان خاموش نظروں کا تبادلہ ہوا پھر عباس نے نانو کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ خدا کا شکر ہے۔ وہ لوگ چلے گئے۔”
”ہاں، پولیس کے آنے سے پہلے ہی چلے گئے۔”
اس نے علیزہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ یوں جیسے وہ وہاں موجود ہی نہیں تھی۔ وہ وجہ جانتی تھی۔
”کون لوگ تھے وہ؟” عباس اب نانو سے پوچھ رہا تھا۔
نانو نے ایک بار پلٹ کر علیزہ کو دیکھا۔ عباس نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ علیزہ کے چہرے کی رنگت کچھ تبدیل ہو گئی ۔ نانو شاید کسی کش مکش کا شکار تھیں۔
”وہ… وہ… اوہ یا اللہ … ان لوگوں نے کیا کیا ہے؟” نانو عباس کی بات کا جواب دیتے ہوئے یک دم اس کمرے کی چیزوں کو دیکھنے لگیں جو ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔
”پورے گھر کا یہی حال ہے۔” عباس نے نانو کو اطلاع دی۔ علیزہ باکل شاکڈ تھی۔
”تم کب یہاں آئے؟”
”میں آدھ گھنٹہ پہلے پہنچا ہوں یہاں پر۔”
”مرید اور اصغر کہاں ہیں؟” نانو کو اچانک یاد آیا۔
”اصغر تو زخمی ہے۔ اس کے بازو پر گولی لگی ہے…اور مرید کو باندھ کر انہوں نے کوارٹر میں بند کر دیا تھا۔ پولیس نے آکر اسے وہاں سے نکالا ہے۔” عباس نانو کے ساتھ چلتے ہوئے بتا رہا تھا۔
”یہ لوگ اندر کیسے آگئے؟”
”لاؤنج کے دروازے کا لاک ٹوٹا ہوا تھا۔ وہیں سے آئے تھے۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ بیسمنٹ میں چھپ گئیں۔ میں تو یہاں آتے ہی پریشان ہو گیا تھا، پہلے تو مجھے یہی خیال آیا کہ شاید وہ لوگ آپ کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ کیونکہ گھر میں کوئی نہیں تھا، مگر پھر مجھے بیسمنٹ کا خیال آیا اور میں نے اسے چیک کرنا ضروری سمجھا۔” وہ اب بھی علیزہ کو مکمل طورپر نظر انداز کئے ہوئے تھے۔
وہ لوگ اب لاؤنج میں داخل ہو گئے تھے۔ گھر میں جگہ جگہ پولیس والے فنگر پرنٹس لے رہے تھے۔
”فون اور بجلی کی تاریں کٹی ہوئی تھیں جب میں یہاں آیا سب سے پہلے تو میں نے انہیں ہی ٹھیک کروایا۔ وہ کون لوگ تھے گرینی…! کیا آپ کو کچھ اندازہ ہے؟” عبا س نے بات کرتے کرتے ایک بار پھر پوچھا۔
نانو نے ایک بار پھر علیزہ کو دیکھا ”پتا نہیں” ان کی آواز مدہم تھی۔
عباس نے بھی علیزہ کو دیکھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب تھے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ پھر سے نانو کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”دو گاڑیوں میں آئے تھے وہ لوگ… آٹھ دس تو ضرور ہوں گے۔ تین چار کو تو اصغرنے بھی دیکھا تھا۔ باؤنڈری والاگیٹ تو انہوں نے فائرنگ سے مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔”
وہ لاؤنج میں کھڑا نانو کو بتاتا رہا۔ علیزہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر اس کی بات سنتی رہی۔
”پولیس ابھی تک باہر سے گولیاں اکٹھی کر رہی ہے۔”
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ وہ پولیس گارڈ نہ ہٹاتا تو یہ سب نہ ہوتا۔”
علیزہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔ اس کی آواز میں اشتعال تھا۔ عباس نے بہت سرد نظروں سے اسے دیکھا۔
”عمر نے آخر پولیس گارڈ کیوں اس طرح اچانک ہٹائی…؟ اسے احساس ہونا چاہئے تھا۔” نانو نے بھی کچھ برہم ہوتے ہوئے کہا۔
عباس نے یک دم ان کی بات کاٹ دی۔
”اس سے پوچھیں کہ عمر نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا دی۔” اس نے علیزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ علیزہ ساکت ہو گئی۔
”علیزہ سے؟” نانو نے حیران ہو کر کہا ”علیزہ کا اس سے کیا تعلق ہے… پولیس گارڈ تو عمر نے ہٹائی ہے۔”
”عمر آرہا ہے… چند منٹوں تک یہیں ہو گا، اس سے پوچھ لیجئے گا کہ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹائی۔” عباس نے نانو سے کہا۔
”علیزہ ! کیا تم نے عمر سے گارڈ ہٹانے کے لئے کہا تھا؟” نانو نے اچانک مڑ کر علیزہ سے پوچھا۔
”نہیں نانو! میں نے اس سے گارڈ ہٹانے کے لئے نہیں کہا۔”
اس نے مدھم آواز میں سر جھکائے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ نانو کچھ کہتیں۔ عباس نے اچانک لاؤنج میں موجود پولیس کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”باقی کام کل کرنا… اب سب کچھ رہنے دو۔” وہ لوگ اپنا سامان سمیٹنے لگے۔
”علیزہ تو۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر عباس نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹ دی۔
”عمر کو آجانے دیں۔ اس کے بعد بات ہو گی۔”
نانو الجھی ہوئی نظروں سے علیزہ کو دیکھتے ہوئے لاؤنج کے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ لاؤنج میں موجود پولیس والے آہستہ آہستہ اپنا سامان اٹھاتے ہوئے وہاں سے نکلنے لگے۔ عباس بھی ان کے ساتھ وہاں سے نکل گیا۔
پانچ منٹ کے بعد وہ دوبارہ اندر داخل ہوا، اس بار اس کے ساتھ عمر بھی تھا۔ علیزہ اس وقت نانو کے ساتھ صو فہ پربیٹھی ہوئی آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کر رہی تھی۔
عباس نے اندر داخل ہوتے ہی لاؤنج کا دروازہ اندر سے بند کر لیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!