امربیل — قسط نمبر ۱۱

”میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا عباس نے آپ کی بھانجی کی وجہ سے ان چاروں کو مارا تھا۔ کیا صرف اس لئے کہ ان چاروں نے آپ کی بھانجی کا پیچھا کیا تھا یا پھر اس لئے کہ آپ کی بھانجی ان میں سے کسی کے ساتھ انوالوڈ تھی؟ خاص طور پر جسٹس نیاز کے بیٹے کے ساتھ کیونکہ اس کے علاوہ باقی کسی پر اتنا تشدد نہیں کیا گیا تھا۔ آپ کو یہاں بلانے کی وجہ یہی تھی کہ یہ باتیں آمنے سامنے ہوسکیں۔ عباس صورت حال کی سنگینی کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہا ہے۔ آپ یقیناً ایسا نہیں کریں گے۔ اب یہ آپ کو طے کرنا ہے کہ آپ ابھی بھی مجھے سچ بتائیں گے یا پھر وہی سب باتیں دہرائیں گے جو پہلے دہرا رہے ہیں اور یہ بات ذہن میں ضرور رکھیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں، میں انکوائری ٹیم کو پوری اتھارٹی دے دوں گا اور جو کچھ اس وقت میرے سامنے اس فائل میں پڑا ہے، وہ یقیناً ان تک بھی ضرور پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد آپ اور آپ کی فیملی کو کیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
کیا آپ کی فیملی اس طرح کے کسی اسکینڈل کو افورڈ کر سکے گی؟ عباس حیدر کا سوچئے اس کا کیا ہو گا۔ عمر جہانگیر وہ بھی بچ نہیں سکے گا۔”
وہ زیرک سیاست دان بیورو کریسی کے ایک مہرے کو پھانسنے کے لئے اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیل رہا تھا۔
دوسری طرف ایاز حیدر اس کی باتوں کو غور سے سنتے ہوئے سارے حساب کتاب میں مصروف تھے۔
”جسٹس نیاز جس سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، آپ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ اچھی طرح نہ بھی جانتے ہوں تو یہ ضرور آپ کے علم میں ہو گا کہ اسمبلی کے بہت سے ممبرز کی پشت پناہی حاصل ہے انہیں۔ ان کی بات نہ سننے پر مجھے اسمبلی میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور جسٹس نیاز کا مطالبہ ہے، کہ آپ کے بیٹے کو معطل کیا جائے۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ میں کس بنیاد پر ایسا کرنے سے انکار کروں۔ خاص طور پر یہ جاننے کے بعد کہ آپ کے بیٹے نے ایک غلط کام کیا ہے۔”
”میرے بیٹے نے کوئی غلط کام نہیں کیا، نہ عباس نے نہ ہی عمر جہانگیر نے۔ آپ کو ملنے والی اطلاعات ٹھیک ہیں۔ ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا اور یہ اس لئے کیا گیا تھا کیونکہ۔۔۔”
ایاز حیدر نے چیف منسٹر کی بات سننے کے بعد بڑے دھیمے اور مستحکم لہجے میں بات کرنا شروع کی۔ چیف منسٹر خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔
٭٭٭




علیزہ نانو کے ساتھ لاؤنج میں ہی بیٹھی ہوئی تھی، جب اسے باہر پورچ میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز آئی۔
”شاید شہلا آئی ہے۔” نانو نے اس سے کہا۔
”نہیں یہ شہلا کی گاڑی کی آواز نہیں ہے۔ ” علیزہ نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ اسی وقت عمر لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ علیزہ بے اختیار خوش ہوئی۔ کچھ دیر پہلے وہ بے بسی کے جس احساس سے دوچار تھی، وہ یک دم غائب ہو گیا تھا۔
”ہیلو۔” عمر کا لہجہ بالکل خوشگوار نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔
”اچھا ہوا عمر! تم آگئے۔ یہ علیزہ بہت پریشان ہو رہی تھی۔ فون ڈیڈ ہے اور باہر موجود پولیس گارڈ کسی کو اندر آنے دے رہا ہے نہ ہی باہر جانے دے رہا ہے۔ علیزہ مارکیٹ تک جانا چاہتی تھی، تم اسے لے جاؤ۔” نانو نے عمر کو دیکھتے ہی کہا۔
”مارکیٹ تک کس لئے؟” عمر نے علیزہ کو بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس کے قریب صوفہ پر بیٹھ رہا تھا۔
”وہ شہلا کو فون کرنا چاہتی ہے۔” نانو نے کہا۔
”کس لئے؟”
”وہ اسے بلانا چاہ رہی ہے یہاں۔”
”ٹھیک ہے میرا موبائل لے لو اس پر کال کرو اسے۔” عمر نے اپنا موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں اس پر کال کر لو۔” علیزہ نے اس سے موبائل لے لیا اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”تم کہاں جا رہی ہو؟” عمر نے اسے اٹھتے دیکھ کر ٹوکا۔
”اپنے کمرے میں۔”
”میرے سامنے بات کرو شہلا سے۔”
”ہاں علیزہ یہیں فون کر لو۔ نانو نے بھی مداخلت کی۔”
علیزہ نے چونک کر عمر کو دیکھا، اس کے چہرے پر سنجیدگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”نہیں نانو! میں یہاں فون نہیں کر سکتی۔” اس نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
”گرینی میں ابھی آتا ہوں۔”
علیزہ نے چلتے چلتے عمر کو کہتے سنا، وہ اب اس کی طرف آرہا تھا۔ علیزہ کچھ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اب اس کے قریب آکر بڑی نرمی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لے رہا تھا۔
”آؤ تمہارے کمرے میں چلیں، کچھ باتیں کرنی ہیں تم سے۔”
وہ قدرے مدہم مگر مستحکم آواز میں کہہ رہا تھا۔
”مجھے بھی آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔” وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی۔
وہ دونوں کمرے میں آگئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی علیزہ نے عمر سے کہا۔
”آپ نے دیکھا عباس نے ان چاروں کے ساتھ کیا کیا ہے؟”
عمر نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
”علیزہ بیٹھ جاؤ اور پھر بات کرو۔” وہ صوفہ پر بیٹھ گئی۔
”عباس نے ان چاروں کو قتل کر دیا ہے یہ کہہ کر کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ یہ سب جھوٹ ہے، آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں۔ سب کچھ آپ کے سامنے ہی تو ہوا تھا۔”
عمر اب خود بھی دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا اور بڑے اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا۔
”اس نے چاروں کے ساتھ وہی کیا جو انکل ایاز نے شہباز کے ساتھ کیا… مجھے اب آپ کی بات پر یقین آگیا ہے، آپ تب سچ کہہ رہے تھے۔” وہ کہتی جا رہی تھی، عمر نے کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
”آپ شہباز کے بارے میں کچھ نہیں کر سکے، مگر ان چاروں کے بارے میں ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ اور میں گواہ ہیں سب کچھ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ ہم عباس کو ایک غلط کام کے لئے سزا دلوا سکتے ہیں۔”
وہ اب بھی بے تاثر چہرے کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔
”کیا یہ ضروری ہے کہ ہر غلط کام کرنے کے بعد عباس اور انکل ایاز جیسے لوگ بڑی آسانی سے بچ جائیں۔ کبھی تو انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ غلط کر رہے ہیں۔ وہ ہر کام غلط طریقے سے کر رہے ہیں، ان کے نزدیک انسانی زندگی کی اہمیت کیوں نہیں ہے۔”
اسے بات کرتے کرتے محسوس ہوا کہ عمر نے اب تک اس کی کسی بات کی تائید نہیں کی تھی، نہ منہ سے نہ چہرے کے کسی تاثر سے۔ وہ یک دم خاموش ہو گئی ۔ لاشعوری طور پر وہ یہ توقع کر رہی تھی کہ عمر اس کی ہر بات کی نہ صرف تائید کرے گا بلکہ فوراً اس کی مدد کی ہامی بھی بھر لے گا۔ مگر وہ … وہ اس کے سامنے بے تاثر چہرے کے ساتھ بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
”کچھ اور بھی کہنا ہے تمہیں؟ یا بس یہی سب کہنا تھا؟” اس کے یک دم خاموش ہونے پر اس نے کہا۔ اس کا لہجہ اتنا عجیب تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود ایک لفظ بھی نہیں بول سکی۔
”میرا نام کیوں نہیں شامل کیا تم نے اس لسٹ میں… ایاز انکل، عباس حیدر اور عمر جہانگیر؟” وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔
”مجھ کو بھی اس کیٹیگری میں رکھو۔”
”عمر! میں۔۔۔”
عمر نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کاٹ دی۔ ”زندگی میں جو لوگ دماغ کو استعمال نہیں کرتے، وہ ہمیشہ منہ کے بل گرتے ہیں اس لئے اپنے دماغ کو استعمال کرنا سیکھو۔” اس بار اس کی آواز میں تلخی تھی۔
”اور جو لوگ صرف دماغ استعمال کرتے ہیں، وہ کیسے گرتے ہیں؟”
”وہ گر سکتے ہیں مگر منہ کے بل نہیں۔ عباس نے ایک صحیح کام لیا۔”
”اس نے آپ کی برین واشنگ کر دی ہے ورنہ آپ اس طرح کے قتل کو تو کبھی صحیح ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔” وہ بے اختیار برہمی سے بولی۔ وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔
”برین واشنگ مائی فٹ۔ میں کوئی پانچ سال کا بچہ نہیں ہوں جس کی برین واشنگ کر دی گئی ہے۔ اس رات ان چاروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم دونوں نے مل کر طے کیا تھا۔”
وہ دم بخود اسے دیکھتی رہی وہ بڑے اطمینان سے اسے بتا رہا تھا۔
”اس کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں تھا۔”
”آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ عباس ان لوگوں کو لاک اَپ میں بند کر دے گا۔ ان پر کورٹ میں کیس چلے گا۔”اس نے شکستہ آواز میں کہا۔
”میں نے جھوٹ بولا تھا۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔
”علیزہ سکندر کو کسی بھی عمر میں بے وقوف بنانا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔” اس نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔” میں لوگوں کو جانچنے اور پرکھنے میں آج بھی اتنی ہی ناکام ہوں جتنا پہلے تھی۔ کوئی ڈگری ، کوئی تجربہ میری سمجھ داری میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ میں کبھی بھی لوگوں کے لفظوں میں چھپے ہوئے اصلی مفہوم تک نہیں پہنچ سکتی یا شاید عمر جہانگیر وہ شخص ہے جس کے لفظوں کو میں کبھی جانچنا نہیں چاہوں گی۔”
”یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ آپ مًجھے صاف صاف بتا سکتے تھے۔”
”تاکہ جو حماقت تم اب کر رہی ہو، وہ اسی وقت کرنا شروع کر دیتیں۔” اس کی آواز میں اس بار ترشی تھی۔
”کیا کرنا شروع کر دیتی؟”
”تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ تم کیا کر رہی ہو؟” اس کی آواز میں تنبیہ تھی۔
”نہیں، میں نہیں جانتی میں کیا کر رہی ہوں۔ آپ بتادیں۔”
”عباس کو فون پر کیا کہا تھا تم نے؟” وہ چند لمحے اسے گھورتے رہنے کے بعد بولا۔
علیزہ کو اب کوئی خوش فہمی باقی نہیں رہی… اس کا ایک اور اندازہ بالکل غلط ثابت ہو گیا۔ وہ جان گئی تھی وہ یہاں کس کے لئے آیا تھا ۔ عباس کو بچانے کے لئے یا پھر شاید اپنے آپ کو بچانے کے لئے۔
”اگر آپ کو یہ پتا ہے کہ میں نے عباس کو فون کیا تھا تو پھر یہ بھی پتا ہو گا کہ کیوں کیا تھا۔” اس نے اپنی آواز پر حتی المقدور قابو پاتے ہوئے کہا۔
”تم اپنے لئے اور دوسروں کے لئے پرابلمز پیدا کرنے کی کوشش مت کرو۔” اس نے تیز آواز میں اس سے کہا۔
”میں کسی کے لئے پرابلمز پیدا نہیں کر رہی۔ میں صرف وہ کر رہی ہوں جسے میں ٹھیک سمجھتی ہوں۔”
”کیا ٹھیک سمجھتی ہو تم۔ خود کو اور خاندان کو اسکینڈلائز کرنا۔۔۔”
”میں کسی کو اسکینڈلائز نہیں کر رہی ہوں۔” اس نے عمر کی بات کاٹ دی۔ ”اگر آپ کو اس چیز کا خوف تھا تو آپ کو یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئے تھا۔”
”اچھا یہ نہیں کرنا چاہئے تھا؟ تو پھر کیا کرنا چاہئے تھا، تم بتاؤ گی مجھے؟”
اس کی آواز میں طنز تھا اور وہ اسے بخوبی محسوس کر سکتی تھی۔
”آپ کو وہی کرنا چاہئے تھا جو مناسب تھا، جو جائز تھا۔ آپ کو انہیں صرف لاک اپ میں بند کر دینا چاہئے تھا۔ان پر کورٹ میں کیس چلتا پھر جو سزا کورٹ انہیں دیتی آپ اس پر عمل کرتے۔”
”لاک اپ میں بند کرنا چاہئے تھا؟ کتنے گھنٹوں کے لئے؟”
”کیا مطلب؟”
”تمہیں کچھ اندازہ ہے کہ وہ کتنے با اثر گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں لاک اپ میں بند کیا جاتا اور رات گزرنے سے پہلے انہیں چھڑوا لیا جاتا، کسی کے ایک فون پر ، کسی ضمانت یا کارروائی کے بغیر۔”
”یہ کیسے ممکن ہے۔ آپ لوگ ایف آئی آر رجسٹر کرتے تو وہ کیسے رہا ہو سکتے تھے۔”
”کون سی ایف آئی آر؟ اور کیا حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی؟ جاننا چاہو گی؟”
عمر نے ترش لہجے میں کہتے کہتے سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے پیپرز میں سے ایک کو لے کر برق رفتاری سے پھاڑتے ہوئے قالین پر اچھال دیا۔
”یہ حیثیت ہے ایک ایف آئی آر کی ۔ جو کام میں نے یہاں تمہارے سامنے بیٹھ کر کیا ہے وہ ایسے با اثر خاندانوں کے لوگ پولیس اسٹیشن میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!