امربیل — قسط نمبر ۱۱

”تم اسلام آباد چیمبر کی فکر مت کرو… سلیمان سے بات کر لوں گا میں … وہ وہاں ایسی کوئی چیز نہیں ہونے دے گا… پھر میں بھی ادھر ہی ہوں… پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔” ہمایوں نے اپنے ایک دوست کا نام لیا جو اسلام آباد چیمبر آف کامرس کا عہدے دار تھا۔
”خالی وفود کے ملنے سے میں پریشان نہیں ہوتا مگر اگر ان لوگوں نے کوئی اسٹرائیک یا جلوس لانچ کرنے کی کوشش کی تو پھر صورتِ حال خاصی خراب ہو گی… میڈیا پہلے ہی سارے معاملے کو بہت ہائی لائٹ کر رہا ہے، انہیں اور فرنٹ پیج اسٹف مل جائے گا۔”
”ایاز! تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو… قاسم خاصا بااثر آدمی ہے۔ مگر جہاں تک ایسی کسی اسٹرائیک کا تعلق ہے تو مجھے یہ ممکن نظر نہیں آتا چیمبر کے الیکشنز قریب ہیں اور قاسم کا مخالف گروپ خاصا مضبوط ہے… عام خیال یہی ہے کہ آنے والے الیکشن میں مخالف گروپ کلین سویپ کرے گا… قاسم ویسے بھی آئندہ الیکشنز میں حصہ نہیں لے رہا… ایسی صورتِ حال میں چیمبر کی کتنی سپورٹ اس کے پاس ہے۔ یہ تو بہت کلیئر ہے۔” ہمایوں نے صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا۔
”میں رؤف کو کہوں گا کہ وہ اس سلسلے میں مخالف گروپ سے بات کرے… نیازی کا ایک ہلکا پھلکا بیان تو آج کے اخبار میں بھی تھا جس میں اس نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ چیمبر کو کسی کے ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے اور اس کا اشارہ قاسم کے بیٹے کی موت کے سلسلے میں جانے والے ان وفود کی طرف ہی تھا۔ ”
”لیکن چیمبر کے بہت سے لوگ جو مذمتی بیانات دے رہے ہیں اورقراردیں پیش ہوئی ہیں ان کے بارے میں کیا کہو گے تم؟” ایاز حیدر نے کہا۔
”اوہ یار! بیانات اور قراردادوں کو چھوڑو… اخباری بیانات کی ویلیو کیا ہوتی ہے… آج ان کے چار بیانات شائع ہو رہے ہیں کل کو ہمارے آٹھ شائع ہو جائیں گے… میں نے نیازی کے بیان کی بات اس لئے کہ تمہیں چیمبرکے نام نہاد اتحاد کے بارے میں بتادوں، جس کے بارے میں تم فکر مند ہو… اچھے خاصے اختلافات ہیں قاسم اور نیازی کے گروپ میں اور… جوں جوں وقت گزرے گا یہ بڑھیں گے۔ اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ اسٹرائیک یا جلوس کی نوبت آسکتی ہے۔ ” ہمایوں کے لہجے میں لاپروائی تھی۔
”میں پھر بھی یہ چاہتا ہوں کہ قاسم کے ٹیکس ریٹرنز کو ایک بار پھر دیکھا جائے بلکہ اگر کچھ آفسز پر ریڈز ہو جائیں تو اور بھی بہتر ہے۔”
”دیکھو اس کو نوٹس بھی بھجوا دیتا ہوں… ریڈز بھی کروا دیتا ہوں مگر کیا وہ اس پر اور نہیں بگڑے گا؟”
”مجھے اس کے بگڑنے کی پروا نہیں ہے… میں اسے اس حوالے سے پریشان کرنا چاہتا ہوں… نہ صرف اسے بلکہ اس کے حواریوں کو بھی انہیں اپنے ٹیکس ریٹرنز کی فکر شروع ہو جائے گی۔”
”ٹھیک ہے ، میں کل صبح ہی یہ کام کروا دیتا ہوں لیکن یحییٰ کچھ مسئلہ کھڑا کرے گا۔ قاسم درانی کی Pay roll پر ہے وہ اور قاسم سیدھا اسے ہی پکڑے گا۔” ہمایوں نے اس علاقے کے انکم ٹیکس کمشنر کا نام لیا جہاں قاسم کی فائلز جاتی تھیں۔
”یحییٰ کو سارا مسئلہ بتاؤ… اسے کہو کہ یا تو وہ چند دن کی چھٹی لے کر کہیں چلا جائے… یا پھر قاسم کو بالکل نظر انداز کرے، اس کے رابطہ کرنے پر بھی اس سے بات نہ کرے اور اگر مجبوراً اسے قاسم سے بات کرنی پڑ جائے تو پھر ٹال مٹول کرے… قاسم سے کہے کہ سب کچھ اوپر سے ہو رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ ”
”قاسم اسے کچا چبا جائے گا… وہ ہر ماہ لاکھوں دے رہا ہے اسے… ضرورت پڑنے پر یحییٰ اس کے کام نہ آیا تو وہ تو برداشت نہیں کرے گا… میں یہی کرتا ہوں کہ یحییٰ کو چھٹی لینے پر مجبور کرتا ہوں۔” ہمایوں نے کہا۔
”ٹھیک ہے جو بھی چاہو کرو… مگر جلدی کرو… اور مجھے قاسم درانی کے انکم ٹیکس ریٹرنز کی کچھ کاپیز چاہئیں۔”
”کیوں؟”
”پریس کے لئے۔”
”مگر وہ تو کانفیڈنشل ہوتی ہیں، میں تمہیں دے بھی دوں تو پریس والے اعتراض کریں گے انہیں شک ہو گا اور پھر وہ واقعی سمجھیں گے کہ قاسم کے دعوؤں میں حقیقت ہے اور بیوروکریسی اسے پریشان کر رہی ہے۔ انکم ٹیکس والے جان بوجھ کر اس وقت ٹیکس کے معاملے کے گڑے مردے اکھاڑ کر سامنے لا رہے ہیں۔”
”ہمایوں! وہ سب میں دیکھ لوں گا… پریس میں ہیں کچھ میرے جاننے والے… وہ سب کچھ سنبھال لیں گے۔” ایاز حیدر نے لاپروائی سے کہا۔
”اوکے… میں پھر کل تم سے دوبارہ کانٹیکٹ کرتا ہوں اور تمہیں آگے کی صورت حال بتاتا ہوں، لیکن میں تمہیں بتا دوں کہ اس کے ٹیکس کے معاملات اتنے خراب ہیں کہ اسے بچانے کے لئے بیورو کریسی کے اندر کے بہت سے لوگ سامنے آجائیں گے۔ جن کی مدد سے اس نے پچھلے بیس پچیس سال میں ٹیکس بچایا ہے۔ پھر تمہیں بھی خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ” ہمایوں نے اپنے خدشے سے آگاہ کیا۔
”مجھے اس کے ٹیکس کے معاملات ٹھیک کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں صرف اپنے بیٹے اور عمر کو اس معاملے سے نکالنا چاہتا ہوں… قاسم اس تماشے کو ختم کرے… میں اس کے ٹیکس افیئرز کو بھاڑ میں پھینک دوں گا اور یہ چیز تم ان Big wigs کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہو۔ ” ایاز نے کہا۔
”تمہارا کیا خیال ہے؟ یہ سب کتنے دن چلے گا؟” ہمایوں نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے کوئی اندازہ نہیں یہ تو قاسم اور جسٹس نیاز کے اسٹیمنا پر منحصر ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”قاسم کو تو اس طرح قابو کر لو گے… لیکن جسٹس نیاز کے لئے کیا کرو گے؟” ہمایوں نے پوچھا۔
”جسٹس نیاز کے بارے میں خاصی خبریں ہیں میرے پاس… تمہارے کافی کام آئیں گی… انصاف ”بیچنے” میں خاصی شہرت حاصل ہے اس آدمی کو۔۔۔”
”اس کا یہ حوالہ میرے لئے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔”
”چیف منسٹر کے ساتھ اگلی میٹنگ کب ہے تمہاری؟”
”اس کے بارے میں مجھے پتا نہیں… وہ کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے اور جسٹس نیاز کو آمنے سامنے بٹھا کر معاملات طے کروا دیں۔ فی الحال جسٹس نیاز اس پر رضا مند نہیں ہے… اس کامطالبہ ہے کہ پہلے عباس اور عمر کو معطل کیا جائے… اس کے بعد پھر کچھ طے ہو گا… اور میں ان دونوں کا سروس ریکارڈ خراب نہیں ہونے دوں گا… ” ایاز حیدر نے کہا۔
”ڈونٹ وری، کچھ نہیں ہو گا۔ جسٹس نیاز کو ویسے بھی لائم لائٹ میں رہنے کا شوق ہے، ہر دو چار ماہ کے بعد کوئی نہ کوئی ایشو بنایا ہوتا ہے اس نے… اس بار پریس کو پہلے کی طرح استعمال کرے گا تو خاصا پچھتائے گا۔” ہمایوں شکیل نے فون بند کرنے سے پہلے آخری جملہ ادا کیا۔
٭٭٭
اگلے دن شام کی فلائٹ سے وہ اسلام آباد چلی گئی۔ ایاز حیدر کے ڈرائیور نے ائیر پورٹ پر اسے ریسیو کیا اور گھر پہنچنے پر اس نے ایاز حیدر کی بیوی کو اپنا منتظر پایا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ جان چکی تھی کہ ایاز حیدر لاہور میں تھے اور انہیں ابھی چند دن وہیں رہنا تھا۔ ایاز حیدر کی بیوی سے بات کرکے اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پچھلے کچھ دنوں کے واقعات میں علیزہ کی انوالومنٹ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔ انہیں صرف اتنا پتا تھا کہ لاہور والے گھر پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کیا تھا… اور کچھ عرصہ کے لئے نانو اور علیزہ نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے… مرمت وغیرہ ہو جانے کے بعد وہ دونوں واپس وہاں چلی جائیں گے۔
وہ علیزہ سے ہونے والے نقصان کے بارے میں پوچھتی رہیں اور اپنے افسوس کا اظہار کرتی رہیں۔
”لاء اینڈآرڈر کا تو تم پوچھو ہی مت… لاہور کے حالات تو خیر پہلے ہی خاصے خراب ہیں مگر اب اسلام آباد بھی محفوظ نہیں رہا… ہر چوری اب پوش علاقے میں ہو رہی ہے۔” وہ چائے پینے کے دوران اسے اپنے بے لاگ تبصرے سے نوازتی رہیں۔
علیزہ کوشش کے باوجود ان کی باتیں نہ توجہ سے سن سکی اور نہ ہی گفتگو میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کر سکی۔ پچھلی رات ابھی بھی پوری طرح اس کے حواس پر اثر انداز ہو رہی تھی اور رہی سہی کسر اس وقت اس کی وہاں موجودگی پوری کر رہی تھی۔ ندامت… شرمندگی… بے بسی… پچھتاوا… وہ اپنی فیلنگز کو پہچان نہیں پا رہی تھی۔ نہ ہی انہیں کوئی نام دے پا رہی تھی۔
سجیلہ ایاز کو بہت جلد ہی اس کی غائب دماغی کا احساس ہو گیا۔ ”تم آرام کرو… یقیناً تھک گئی ہو گی۔”
علیزہ نے بے اختیار خدا کا شکر ادا کیا… تنہائی کے علاوہ اسے اس وقت کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔
اگلے کئی دن وہ اخبار کھنگالتی رہی۔ عمر اور عباس کی بات بالکل ٹھیک تھی۔ کسی بھی اخبار میں جسٹس نیاز کے ساتھ فون پر کئے جانے والے اس کے انکشاف کے بارے میں کوئی بھی خبر نہیں تھی۔ وہ اندازہ نہیں لگا سکی۔ اسے اس سے خوشی ہوئی تھی یا مایوسی۔
اگلے چند دنوں کے بعد ایاز حیدر اسلام آباد واپس آگئے تھے۔ ان کے رویے سے علیزہ کو احساس نہیں ہوا کہ وہ کچھ بھی جانتے تھے۔ وہ کم از کم اس معاملے میں خدا کا شکر ادا کر رہی تھی۔ عمر اور عباس نے اس معاملے میں اسے بچا لیا تھا۔ کم از کم وہ یہی سمجھ رہی تھی۔
ایاز حیدر کے گھر پر وہ ایک بہت لگی بندھی زندگی گزار رہی تھی۔ ایاز اور سجیلہ کی اپنی مصروفیات تھیں۔ وہ دونوں بہت کم ہی گھر پر ہوتے۔ علیزہ سارے دن گھر پر ٹی وی دیکھتے یا کتابیں پڑھتے ہوئے وقت گزارتی… یا پھر لانگ ڈرائیو پر نکل جاتی۔ رات کے وقت سجیلہ اور ایاز حیدر اسے اکثر ان مختلف ڈنرز میں ساتھ لے جاتے جہاں وہ مدعو ہوتے۔ وہ دونوں بہت سوشل تھے اور بہت کم ہی کوئی رات ہوتی جب وہ کہیں نہ کہیں مدعو نہ ہوتے… علیزہ بعض دفعہ خوشی سے ان کے ساتھ جاتی اور بعض دفعہ ایاز حیدر کے اصرار پر زبردستی، وہ دونوں آہستہ آہستہ اسے بہت ساری فیملیز کے ساتھ متعارف کروا رہے تھے۔
عمر اسے وقتاً فوقتاً فون کر تا رہتا تھا۔
”میں واپس کب آؤں گی؟” وہ ہر بار اس سے ایک ہی سوال کرتی۔
”بس کچھ دن اور” وہ ایک ہی جملہ دہراتا اور پھر کوئی اور بات شروع کر دیتا۔
پھر آہستہ آہستہ اس کی کالز میں آنے والا وقفہ بڑھنے لگا،لیکن ہر بار کال آنے پر اس کی آواز اور لہجے میں اتنی گرم جوشی ہوتی کہ علیزہ شکایت کرنا بھول جاتی یا شاید اگلی بار کے لئے ملتوی کر دیتی۔
وہ نانو اور شہلا سے بھی مسلسل رابطے میں تھی۔ اپنے رزلٹ کا بھی اسے شہلا کے ذریعے ہی پتا چلا تھا۔ لاہور واپس جانے کے لئے اس کی بے تابی میں اضافہ ہو گیا تھا۔
عمر نے اسے مبارک باد دینے کے لئے فون کیا۔ ”ابھی کچھ ہفتے لگیں گے… وہاں کچھ مرمت ہو رہی ہے… اس لئے وہاں تو تم نہیں ٹھہر سکو گی… عباس کے ہاں ہی رکنا پڑے گا تمہیں… یا پھر تم میرے پاس آجاؤ۔” عمر نے ایک بار پھر اس کے سوال پر کہا۔
”نہیں پھر میں یہیں اسلام آباد میں ہی رہتی ہوں لیکن آپ مجھے یہ تو بتا دیں کہ یہ مرمت کب ختم ہو گی؟”
”بہت جلدی… میں جانتا ہوں۔ تم واپس آنا چاہتی ہو… جیسے ہی وہاں کام ختم ہوا میں تمہیں بتا دوں گا… پھر تم آجانا۔” عمر نے ایک بار پھر اسے یقین دہانی کروائی۔
علیزہ نے اسلام آباد آنے کے بعد عمر سے دوبارہ اس سارے معاملے کے بارے میں بات نہیں کی… اسے تجسس تھا اور اخبارات میں لگنے والی مختلف خبروں نے اس تجسس کو اور بڑھا دیا تھا… مگر وہ اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتی تھی کہ عمر یا عباس سے ا س ساری صورتِ حال کے بارے میں پوچھے۔
پھر یک دم اخباروں میں اس سارے معاملے کے بارے میں خبریں آنا بند ہو گئیں۔ کچھ دنوں کے بعد اسے پتا چلا کہ عباس حیدر ایک سال کی چھٹی لے کر انگلینڈ کرمنالوجی کا کوئی کورس کرنے جا رہا تھا۔ اس کی چھٹی منظور ہونے سے پہلے اس کی پروموشن ہو گئی تھی۔ علیزہ کو اندازہ ہو گیا کہ جسٹس نیاز کا کیس ختم ہو چکا ہے۔ عمر بھی اپنے پہلے والے شہر میں ہی پوسٹڈ تھا۔ علیزہ کے احساس جرم میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”باتیں یاد عویٰ کرنا بہت آسان ہوتا ہے، یہ کام کوئی بھی کر سکتا ہے… مگرسسٹم کو بدلنا یا بدلنے کے لئے ایک چھوٹا سا قدم اٹھانا بھی آسان نہیں ہوتا۔” بہت عرصہ پہلے عمر کی کہی ہوئی کچھ باتیں اسے بار بار یاد آئیں۔
جو تجزیہ اسے اس وقت اور خود غرضانہ لگا تھا وہ اب کس قدر صحیح لگ رہا تھا… یہ صرف وہی جانتی تھی۔
”چیزوں کو ناپسند کرنا اور بات ہے… اٹھا کر پھینک دینا اور … یہ حقیقت مان لینی چاہئے کہ کم از کم ہماری کلاس اس سسٹم کو بدلنے کی اہلیت ، صلاحیت یا شاید جرات نہیں رکھتی۔ کوئی بھی شخص اس ٹہنی کو نہیں کاٹتا جس پر خود سوار ہو… اور ہماری کلاس کسی دوسرے کو یہ سسٹم بدلنے نہیں دے گی… کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو بھی وہ ٹہنے کاٹنے نہیں دیتا جس پر وہ سوار ہو… یہ You miss I hit والی صورتِ حال ہے… ہماری کلاس کی خوش قسمتی ہے، ابھی تک ہم کسی بھی طرح ریسیونگ اینڈ پر نہیں پہنچے۔”
وہ اس وقت بعض دفعہ اس کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتی تھی۔ بعض دفعہ بحث کرتی… یا پھر ناپسندیدگی کے اظہار کے لئے خاموش ہو جاتی، وہ اب ان ساری باتوں کے بار ے میں سوچ کر صرف شرمندہ ہوتی تھی۔
اسے شہباز منیر والا واقعہ اچھی طرح یاد تھا۔ اس وقت اسے عمر سے شکایت ہوئی تھی کہ اس نے ایاز انکل سے کمپرومائز کیوں کیا… سب کچھ پریس تک اور کورٹ تک کیوں نہیں لے گیا۔
اب خود ایاز حیدر کے گھر بیٹھے وہ حالات کی ستم ظریفی پر حیران ہوتی۔ وہ عمر سے کسی بھی طرح مختلف ثابت نہیں ہوئی تھی۔ جب اسے اپنی زندگی خطرے میں نظر آنے لگی تو وہ بھی کمپرومائز کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔
”زندگی بڑی شرمندہ کروانے والی چیز ہے… تم … میں … یا کوئی بھی… ہم سب ایک ہی جھولے میں سوار ہیں اور کوئی بھی اس میں سے اترنا نہیں چاہتا… کیونکہ نیچے کھڑے ہو کردوسروں کو آسمان تک پہنچتے دیکھنا بڑا صبر آزما اور تکلیف دہ کام ہوتا ہے۔ کم از کم مجھ میں تویہ حوصلہ نہیں ۔” اسے عمر کی باتیں اب سمجھ میں آرہی تھیں۔
٭٭٭
”میں تم لوگوں کی باتوں پر قطعاً یقین نہیں کر سکتا۔ تم اور تمہارے بیٹے کے پاس جھوٹ کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔ ” جسٹس نیاز چیف منسٹر کی موجودگی کی پروا کئے بغیر ایاز حیدر اور عباس پر اشتعال کے عالم میں چلا رہے تھے۔
وہ چاروں اس وقت چیف منسٹر کی رہائش گاہ پر موجود تھے۔ ایاز حیدر اور عباس بڑے سکون اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسٹس نیاز کے الزامات اور چیخ و پکار کو سن رہے تھے ۔ چیف منسٹر بار بار جسٹس نیاز کا اشتعال کم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ وہ یہ نہ کر رہے ہوتے تو شاید جسٹس نیاز یقیناً اب تک ایاز حیدر اور عباس کے ساتھ ہاتھا پائی کر رہے ہوتے۔
”نیاز صاحب! آپ… دیکھیں… میری سنیں… میں آپ کے جذبات سمجھتا ہوں مگر دیکھیں… اس طرح سب کچھ کیسے طے ہو گا… آپ دونوں فریق آرام سے ایک دوسرے کی بات سنیں۔” چیف منسٹر نے ان کا پارہ نیچے لانے کی ایک اور کوشش کی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!