امربیل — قسط نمبر ۱۱

”تمہیں فون کرنا کہاں ہے؟”
”شہلا کو فون کرنا ہے۔” اس نے جھوٹ بولا۔
”صبح اس سے بات تو ہوئی تھی تمہاری۔”
”نہیں ہوئی تھی، میں نے فون بند کر دیا تھا۔”
”اتنا بے چین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ابھی کچھ دیر تک وہ خود آجائے۔”
نانو نے اسے سمجھایا، وہ سوچ میں پڑ گئی۔
”اچھا آپ مرید بابا سے کہیں، وہ ساتھ والوں کے گھر سے اسے فون پر یہاں آنے کے لئے کہیں۔”
اس کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ نانو اسے جواب دینے کے بجائے مرید بابا کو پکارنے لگیں۔
”جواد صاحب کے گھر جاؤ اور شہلا کو فون کرکے یہاں آنے کے لئے کہو۔” مرید بابا کے آنے پر نانو نے اس سے کہا۔
”اس سے یہ بھی کہیں کہ اپنا موبائل فون لے کر آئے۔” علیزہ نے نانو کی ہدایات کے بعد کہا۔ مرید بابا سر ہلاتے ہوئے لاؤنج میں نکل گئے۔ مگر ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہی ہو گئی۔
”گیٹ پر موجود پولیس باہر جانے نہیں دے رہی۔ ” انہوں نے آتے ہی اطلاع دی۔
”آپ انہیں بتا دیتے کہ آپ کو ضروری کام سے نانو نے بھیجا ہے۔ ” علیزہ ایک بار پھر بے چین ہو گئی۔
”میں نے ان سے کہا تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ گھر سے کوئی بھی باہر نہیں جائے گا۔”
علیزہ نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”ٹھیک ہے، آپ اپنا کام کریں۔” نانو نے مرید بابا کو ہدایت دی۔
ان کے جانے کے بعد انہوں نے علیزہ سے کہا۔ ”تم شہلا کا انتظار کرو، جب فون نہیں ملے گا تو وہ خود ہی یہاں آجائے گی۔”
انہوں نے جیسے علیزہ کو تسلی دی ”اور اگر باہر موجود پولیس نے اسے بھی اندر آنے نہ دیا تو…؟” وہ سوالیہ لہجے میں ان سے بولی۔
”تو، تو۔۔۔” نانو کو کوئی جواب نہیں سوجھا۔
”پتہ نہیں یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے، اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب یک دم۔”
انہوں نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ علیزہ نے ان کی بات پر غور نہیں کیا۔ وہ اپنا ناخن کاٹتے ہوئے کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔
٭٭٭




”آپ کے بیٹے کی وجہ سے بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہوں۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی چیف منسٹر ہاؤس پہنچے تھے۔
”مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ کی بات پر، عباس کا سروس ریکارڈ شاندار ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے فرائض کو بڑی ایمانداری سے سر انجام دیا ہے اور وہ آئندہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ آپ خود کئی بار اس کی تعریف کر چکے ہیں۔ ” ایاز حیدر نے بڑے خوشگوارانداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں اس وقت وہاں اکیلے تھے اور اب صوفوں پر بیٹھ چکے تھے۔
”مجھے اس کی قابلیت یا ذہانت پر کوئی شبہ نہیں مگر دو دن پہلے جو کچھ ہوا ہے، میں عباس حیدر جیسے آفیسر سے اس کی توقع نہیں رکھتا تھا۔ ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو اس طرح گھر سے اٹھا کر مار دینا اور پھر یہ کہنا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔”
”سر میری عباس سے اس معاملے میں تفصیلاً بات ہوئی ہے۔ وہ لڑکا اسی رات واقعی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ ڈکیتی کی کوشش…۔” چیف منسٹر نے ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔
”میرے سامنے وہ بیان نہ دہرائیں جو اخباروں کو دیا گیا ہے۔ اس کا باپ کہہ رہا ہے کہ گھر سے سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکار اس کے بیٹے کو اٹھا کر لے گئے۔”
”جسٹس نیاز یہ نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے… ایک جج کا بیٹا ایک جرم کرتے ہوئے اس طرح مارا جائے تو اس کی ساکھ کس حد تک متاثر ہو گی۔ آپ تو اچھی طرح اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔”
ایاز حیدر نے بڑے پر سکون انداز میں کہا۔ چیف منسٹر جواب میں کچھ بولے بغیر خاموشی سے انہیں گھورتے رہے۔
”جسٹس نیاز جھوٹ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ ان کی مجبوری ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس جھوٹ کی بنا پر آپ عباس کو سزا دیں۔ میں یہ بات اس لئے نہیں کہہ رہا کہ عباس میرا بیٹا ہے۔ وہ میرا بیٹا بعد میں ہے، آپ کی انتظامیہ کا ایک رکن پہلے ہے اور اس کی ایمانداری اور فرض شناسی سب پر بہت واضح ہے میں جانتا ہوں اپ اپنے ایک اچھے اور مستعد آفیسر کو کبھی کھونا نہیں چاہیں گے۔”
ایاز حیدر بڑے نپے تلے لفظوں میں اپنی بات آگے تک پہنچا رہے تھے۔ چیف منسٹر اب بھی کچھ کہے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔
”عباس نے کوئی غلط کام کیا ہوتا تو میں کبھی یہاں نہ بیٹھا ہوتا۔ آپ اس کے ساتھ جو چاہے کرتے۔ مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا، لیکن اب عباس نے جو بھی کیا ہے، وہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے کیا ہے، اور اگر عباس حیدر جیسے آفیسرز کو سزا دی جائے گی تو اس سے ساری پولیس فورس کا مورال ڈاؤن ہو گا۔ خود عباس اس سارے واقعہ پر بہت اپ سیٹ ہے، وہ تو ریزائن کر دینا چاہتا تھا مگر میں نے زبردستی اس سے روکا وہ کہہ رہا تھا کہ پریس تو ہمیشہ پولیس کا نیگیٹو امیج ہی لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے، مگر جب اوپر والے بھی اپنے آفیسرز کو سپورٹ کرنے کے بجائے ان کے ایکشن پر شک و شبہ کا اظہار کریں تو پھر کام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں نے اسے خاصا سمجھایا۔ مگر وہ پھر بھی بہت بد دل ہو گیا ہے اس سارے واقعہ پر، وہ مجھ سے شکایت کر رہا تھا کہ آپ نے اس معاملہ میں اس کی حمایت کرنے کے بجائے انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ اس کا واضح مطلب تو یہی ہوا کہ آپ کو جسٹس نیاز کی بات زیادہ وزنی لگ رہی ہے۔ اور وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کے اس حکم سے اس کی کریڈ یبلٹی متاثر ہوئی ہے۔”
چیف منسٹر ایاز حیدر کی بات سنتے ہوئے مسلسل سگار پی رہے تھے۔ ان کا چہرہ بالکل بے تاثر تھا۔ ایاز حیدر کی باتیں ان پر اثر کر رہی تھیں یا نہیں، کم از کم ایاز حیدر کو ان کے چہرے سے یہ جاننے میں کوئی مدد نہیں مل رہی تھی ۔ وہ کچھ دیر اور بات کرتے رہے پھر جب وہ خاموش ہو گئے توچیف منسٹر نے کچھ آگے جھکتے ہوئے سامنے پڑی ٹیبل پر موجود ایش ٹرے میں سگار کی راکھ جھاڑی۔
”عباس کے خلاف انکوائری کا حکم میں نے نہیں دیا۔” وہ رکے پھر بولے۔
”میں نے اس پورے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور یہ آرڈر میں نے کسی خاص شخص کو فوکس (مرکز) بنا کرکے نہیں دیا۔”
”سر! بات ایک ہی ہو جاتی ہے۔ عباس کے خلاف انکوائری کروائی جائے یا پھر اس واقعے کے بارے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکوائری تو مجھے کروانا ہی ہے۔ جسٹس نیاز نے Publically (عوام میں) آپ کے بیٹے کو مجرم ٹھہرایا ہے۔”
”آفیشلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس واقعے پر احتجاج کیا ہے۔”
”جسٹس نیاز کے الزامات بے بنیاد ہیں، میں آپ سے پہلے… ” چیف منسٹر نے ان کی بات کاٹ دی۔
”ان کے الزامات اتنے بھی بے بنیاد نہیں ہیں۔ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹرز سے تفصیلی بات ہوئی ہے میری۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ موت کا وقت وہ نہیں تھا جو انہوں نے دیا ہے۔ جسٹس نیاز نے جس وقت امتنان صدیقی سے بات کی، اس وقت ان کا بیٹا زندہ تھا اور ان کے فون پر امتنان صدیقی سے بات کرنے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس کی موت ہوئی۔”
چیف منسٹر اب ایاز حیدر کے چہرے پر نظریں جمائے بول رہے تھے۔ ایاز حیدر کے چہرے کی رنگت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ بالکل پر سکون انداز میں چیف منسٹر کی بات سن رہے تھے۔
”ڈاکٹرز نے یہ بھی اسے بتایا ہے کہ ان چاروں کی موت بہت قریب سے گولیاں لگنے سے ہوئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ سات یا آٹھ فٹ کے فاصلے سے اور کچھ گولیاں کم فاصلے کی وجہ سے ان کے جسم کے آرپار بھی ہو گئیں۔”
چیف منسٹر ایک بار پھر سگار کی راکھ جھاڑ رہے تھے۔ ایاز حیدر پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہے تھے، یوں جیسے وہ انہیں کوئی بہت دلچسپ کہانی سنانے میں مصروف تھے۔
”اور یہ جان کر بھی آپ خاصے محظوظ ہوں گے کہ چاروں کے جسم سے ملنے والی گولیاں ایک ہی رائفل سے چلائی گئی ہیں۔ اب پولیس فورس میں کتنے ماہر نشانہ باز ہیں۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی۔ کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ ایک پولیس مقابلے کے چاروں مجرم ایک ہی پولیس والے کا نشانہ بنے؟”
چیف منسٹر کے چہرے پر اب ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
”ڈاکٹرز کے مطابق وہ چند منٹوں کے فرق سے تقریباً ایک ہی وقت مرے ہیں اور پولیس کا کہنا ہے مقابلہ دو گھنٹے جاری رہا اور چار مختلف جگہوں پر انہیں شوٹ کیا گیا ایک رائفل ہے؟ چلو مان لیتے ہیں مگر پھر کم از کم موت کے وقت میں دس پندرہ نہیں تو آٹھ دس منٹ کا فرق ہوتا۔” ان کی آواز میں اب کچھ تلخی جھلکنے لگی تھی۔
”اور ڈاکٹر ز کا یہ کہنا ہے کہ جسٹس نیاز کے بیٹے کو موت سے پہلے اچھے خاصے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کی پسلی کی کچھ ہڈیوں میں فریکچرز تھے، اور جسم پر چوٹوں کے کچھ نشانات بھی تھے۔ اب آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟” انہوں نے کچھ طنزیہ انداز میں ایک اور کش لیتے ہوئے کہا۔
”میں صرف یہی کہوں گا کہ ایسے ڈاکٹرز پر کیس چلنا چاہئے، انکوائری ان کی ہونی چاہئے… جو ڈاکٹر پہلے ایک بیان دے رہے ہیں پھر دوسرا۔ ان پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انہوں نے سب کچھ کیوں نہیں بتایا۔”
ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا، جس پر سکون انداز میں وہ چیف منسٹر کی ساری گفتگو سنتے رہے تھے۔
”پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں عباس حیدر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ بدلنے پر مجبور کیا۔”
ایاز چیف منسٹر کی بات پر بے اختیار ہنسے۔
”مگر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ عباس نے ایسے کیوں کیا؟”
”اسی سوال کا جواب لینے کے لئے تو میں نے آپ کو یہاں بلایا ہے۔ آپ بتایئے عباس نے یہ سب کیوں کیا؟”
”آپ کی عباس سے بات ہو چکی ہے؟”
”ہاں۔”
”یہ سوال آپ اس سے کر سکتے تھے سر! وہ زیادہ بہتر طریقے سے آپ کو ان سب باتوں کے بارے میں بتاتا۔”
”ڈاکٹرز سے میری بات چند گھنٹے پہلے ہوئی ہے۔ جبکہ عباس سے بات کل ہوئی تھی۔ اگر آپ یہاں نہ آئے ہوتے تو اس وقت عباس ہی یہاں بیٹھاہوتا۔ میں آپ سے سچ سننا چاہتا ہوں۔ کیا جسٹس نیاز کی فیملی کے ساتھ آپ کے کوئی اختلافات تھے؟”
”نہیں ان کی فیملی کے ساتھ ہمارے کیا اختلافات ہو سکتے ہیں۔ میں تو ان کی فیملی کو ٹھیک طرح سے جانتا تک نہیں ہوں۔ ان کا رورل بیک گراؤنڈ ہے، ہمارا اربن ہے پھر کسی اختلاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اختلاف کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میرا بیٹا کسی کو بھی ایسے ہی اٹھا کر مار دے۔”
ایاز حیدرنے صاف لفظوں میں انکار کرتے ہوئے کہا۔
چیف منسٹر نے ایک گہرا سانس لیا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”اب باتیں کچھ کھل کر ہوں گی۔ یہ بات تو صاف طے ہے کہ عباس نے ان چاروں کو ایک جعلی پولیس مقابلے میں مارا ہے۔ کیوں مارا ہے۔۔۔۔؟”
”انہوں نے کچھ توقف کیا اور سامنے ٹیبل پر پڑی ایک فائل کو کھول کر اس میں سے ایک ایڈریس پڑھنے لگے۔ ایاز حیدر کے چہرے پر پہلی بار تناؤ کی کیفیت نظر آنے لگی۔ وہ ایڈریس اس گھر کا تھا جہاں علیزہ نانو کے ساتھ رہ رہی تھی۔
”یہ ایڈریس اس گھر کا ہے جہاں آپ کی والدہ آپ کے والد کے انتقال کے بعد رہ رہی ہیں۔ ان کے ساتھ آپ کی ایک بھانجی بھی رہتی ہے۔… علیزہ سکندر۔”
وہ خاموش ہو گئے اور فائل میں موجود کاغذات کو دیکھتے رہے، پھر انہوں نے وہ فائل واپس ٹیبل پر رکھ دی اور ایاز حیدر کو دیکھنے لگے۔
”جس رات یہ واقعہ ہوا تھا اس رات آپ کی یہ بھانجی اپنی ایک دوست کے ساتھ کسی کنسرٹ سے واپس آرہی تھی۔ جب ان چاروں لڑکو ں نے ان دونوں کا پیچھا کیا۔ آپ کی بھانجی کی دوست اپنے گھر چلی گئی، لیکن جب آپ کی بھانجی گھر جا رہی تھی تو اس کا ایک بار پھر پیچھا کیا گیا۔ پولیس ہیڈکوارٹرز میں یکے بعد دیگرے کئی کالز آئیں… چند کالز آپ کی والدہ نے کیں کچھ اس گھر سے کی گئیں جہاں آپ کی بھانجی چھپ گئی تھی۔”
وہ بڑی روانی سے سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔ ایاز حیدر کو ان کی معلومات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، پولیس صرف عباس حیدر کی وفادار نہیں ہو سکتی تھی۔
”جس گھر میں آپ کی بھانجی چھپی تھی۔ وہاں کوئی ڈکیتی نہیں ہو رہی تھی، البتہ وہ لڑکے آپ کی بھانجی کے پیچھے ضرور گئے تھے۔ عباس حیدر کے ساتھ اس دن عمر جہانگیر بھی تھا اور اس پورے آپریشن کے دوران اس کے ساتھ رہا۔ عمر جہانگیر کو تو جانتے ہیں نا آپ؟”چیف منسٹر نے مسکرا کر عجیب سے انداز میں کہا اور پھر بات جاری رکھی۔ ”عباس نے اس پورے علاقے کا گھیراؤ کر لیا اور اس گھر تک بھی پہنچ گیا۔ وہ لڑکے اس وقت تک فرار ہو چکے تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے یا اتنا ہی کافی ہے؟ یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ کی بھانجی کی کار اس وقت بھی پولیس ورکشاپ میں ہے اور اس گھر پر اس وقت بھی پولیس گارڈ لگی ہوئی ہے۔”
انہوں نے بڑے محظوظ ہوتے ہوئے ایاز حیدر کو دیکھ کر پوچھا۔ ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!