امربیل — قسط نمبر ۱۱

”نہیں بہت اچھی ہے۔”
وہ ایک بار پھر ہنسا۔
”اصل میں ، میں ایسی جگہوں پر زیادہ آرام محسوس نہیں کرتی۔” اس نے مدہم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ارے یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے ۔ میں یہاں بالکل گھر کاسا آرام محسوس کرتا ہوں۔”
”اپنے اپنے ٹمپرامنٹ کی بات ہے۔”
”ہاں شاید… مجھے لگتا ہے آپ کو سیر و تفریح میں زیادہ دلچسپی نہیں۔” وہ اس کے درست اندازے پر مسکرائی۔
”مجھے سیر و سیاحت میں خاصی دلچسپی ہے۔ وجہ جو بھی ہو۔”
But I love to be here, there, everywhere.
That’s where men differ from women.
وہ کہہ کر ایک لمحہ کے لئے رکا… شاید وہ علیزہ کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا، مگر اسے پھر خاموش پا کر اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
”یہ جگہ چھٹیاں گزارنے کے لئے بہترین ہے میری ہمیشہ خواہش تھی کہ مجھے کبھی ایسی کسی جگہ پر کوئی پروجیکٹ ملے… پہاڑی علاقے میں کوئی بھی پروجیکٹ ڈیزائن کرنا زیادہ مشکل کام ہے۔ بہت سی چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے… آپ کے Potential (استعداد) اور Caliber(قابلیت) کا ٹیسٹ ہوتا ہے… ایک ہی پروجیکٹ سے آپ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں۔”
وہ جتنی دلچسپی سے بتا رہا تھا وہ اتنی ہی غیر دلچسپی سے سن رہی تھی۔




”حالانکہ بہت تھوڑا سا کام ہے جو مجھے کرنا ہے اور کسی بلڈنگ کا Extension (توسیع) یا Renovation(ترمیم) کرنے میں آرکٹیکٹ کے پاس کام کا اتنا مارجن نہیں ہوتا، جتنا ایک نئی بلڈنگ ایک Full fledged(مکمل) بلڈنگ بنانے میں ہوتا ہے مگر میں پھر بھی اس پروجیکٹ کو انجوائے کر رہا ہوں… اچھا تجربہ ہے اور یہ… ”
بات کرتے کرتے وہ یک دم رک گیا۔
”آپ کو میری باتیں سمجھ میں نہیں آرہی ہوں گی۔” علیزہ کا دل چاہا وہ اس سے کہے کہ اسے خاصی تاخیر سے اس بات کا احساس ہوا ہے ، مگر اس نے کہا۔
”میں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔”
”آپ کو آرٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔”
”نہیں مجھے ہے۔ میں پینٹنگ کرتی ہوں مگر پینٹنگ اور آرکیٹیکچر میں بہت فرق ہوتا ہے آرکیٹکچر خاصی ٹیکینکل چیز ہے۔ ”
”چلیں یہ ٹاپک بھی گیا۔” اس نے جنید کو بہت مدہم آواز میں بڑبڑاتے سنا اور حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کا تبصرہ خاصا غیر متعلق تھا۔
”آپ کا دل نہیں چاہا یہاں آکر کچھ پینٹ کرنے کو؟” اس نے فوراً ہی اگلا سوال کیا۔
آرٹسٹ اور پینٹرز تو ایسی جگہوں سے بہت انسپائر ہوتے ہیں ویسے آپ کیا بناتی ہیں لینڈ اسکیپ… اسٹل لائف یا پورٹریٹ؟”
”موڈ پر ڈپینڈ کرتا ہے مگر اکثر لینڈ اسکیپ ، باقی دونوں میں بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے مجھے۔”
”تو پھر تو آپ کو اپنا ایزل اور کینوس لے کر آنا چاہئے تھا یہاں۔”
علیزہ کو بہت عرصے بعد اچانک اس وقت احساس ہوا کہ ایک لمبے عرصے سے اس نے واقعی کوئی لینڈ اسکیپ بنانے کی کوشش نہیں کی تھی اور یہ واقعی حیرت کی بات تھی کہ یہاں آکر بھی اسے کچھ بنانے کی تحریک نہیں ہو رہی تھی… چاروں طرف پھیلے ہوئے رنگوں اور خوبصورتی کے باوجود اس نے ایک گہری سانس لی جنید ابھی تک اس کے جواب کا منتظر تھا۔
”ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر میں واقعی اپنے ساتھ کچھ لے کر نہیں آئی۔” ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔
”چلیں کوئی بات نہیں اگلی بار سہی۔” جنید نے بڑی لاپروائی کے ساتھ کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہتی جنید کے موبائل کی بیپ سنائی دینے لگی۔ جنید نے اپنا موبائل نکال کر کال کا نمبر چیک کیا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیلتے دیکھی۔
”یہ یقیناً میری امی ہوں گی۔” اس نے علیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور موبائل کان سے لگا لیا۔
”السلام علیکم امی… کیسی ہیں آپ؟”
”میں بالکل ٹھیک ہوں۔” وہ اب دوسری طرف سے ہونے والے سوالات کا جواب دینے میں مصروف تھا۔
”نہیں اب مجھے بالکل بھی ٹمپریچر نہیں ہے… میں نے ابھی آدھ گھنٹہ پہلے چیک کیا ہے… بالکل نارمل تھا۔”
”جی، جی میں نے جوشاندہ بھی پیا ہے… پچھلے دو گھنٹے میں دوبار آپ کو آواز سے اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ گلے کی حالت کیسی ہے۔” وہ دوسری طرف سے اپنی امی کی بات سنتے ہوئے اچانک ہنسا۔
”ایک ہائی نیک پہنا ہے شرٹ کے نیچے… ایک اور سویٹر پہنا ہے… اور جیکٹ بھی پہنی ہوئی تھی۔ مگر اس وقت میری گود میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ آج سردی زیادہ نہیں ہے… میں پہن لوں گا… امی! پہن لوں گا… اچھا… اچھا… اچھا ابھی پہن لیتا ہوں جی۔”
علیزہ دلچسپی سے اسے دیکھتی رہی، وہ اب موبائل گود میں رکھے برق رفتاری سے جیکٹ پہننے میں مصروف تھا۔
”میں نے پہن لی ہے۔” وہ اب موبائل پکڑ کر مسکرائے ہوئے کہہ رہا تھا۔ پھر وہ اچانک اپنی گھڑی دیکھنے لگا، علیزہ نے اس کے چہرے پر موجودمسکراہٹ کو بہت گہرا ہوتے دیکھا۔
”تھینک یو۔۔۔” وہ اب کچھ کہنے کے بجائے دوسری طرف سے آنے والی آواز سن رہا تھا۔
”ٹھیک ہے… تھینک یو… ہاں بات کروائیں۔۔۔” وہ اب ایک بار پھر کسی اور سے بات کرتے ہوئے شکریہ ادا کر رہا تھا۔
”تھینک یو فری…!میں ٹھیک ٹھاک ہوں انجوائے کر رہا ہوں… تم بھجوا دینا۔۔۔”
وہ اب فون پر کسی اور کا نام لے رہا تھا اور ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسری طرف آنے والی آواز کی بات سنتے ہوئے ہنس رہا تھا۔
کچھ دیر بعد اس نے خدا حافظ کرتے ہوئے موبائل بند کیا اور معذرت خواہانہ انداز میں علیزہ سے کہا۔
”سوری… میں گھر بات کر رہا تھا… آپ بہت بور ہوئی ہوں گی۔” اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی موبائل پر ایک بار پھر بیپ ہونے لگی۔ وہ ایک بار پھر معذرت کرکے کال ریسیور کرنے لگا۔
اگلے دس پندرہ منٹ وہ لگاتار ایک کے بعد ایک کال ریسیور کرتا رہا۔ موبائل بند کرتے ہی ایک بار پھر بیپ ہونے لگتی اور وہ پھر گفتگو میں مصروف ہو جاتا… پھر اس نے موبائل کو بند کر دیا۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے علیزہ سے کہا۔
”آج میری برتھ ڈے ہے۔ اب صبح تک موبائل اسی طرح بجتا رہے گا۔”
”ہیپی برتھ ڈے۔” علیزہ نے اسے مبارک باد دی، وہ پہلے ہی اس کا اندازہ کر چکی تھی۔
”میرا خیال ہے، اب ہمیں اندر چلنا چاہئے، کافی رات ہو چکی ہے… آپ مزید تو یہاں بیٹھنا نہیں چاہتی ہوں گی؟” جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا وہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ بیمار ہیں؟” جنید کے ساتھ سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”بیمار ہوں نہیں ، بیمار تھا۔”جنید نے مسکراتے ہوئے بتانا شروع کیا۔ ”چند دن پہلے فیور اور فلو تھا… امی کو فون پر آواز سے پتا چل گیا اور پھر بس میری شامت آگئی۔ اصل میں دو تین ماہ پہلے مجھے ٹائیفائیڈ ہو گیا تھا کچھ عرصہ ہاسپٹل میں بھی رہنا پڑا۔ امی اس وجہ سے زیادہ پریشان تھیں… حالانکہ یہاں پرویسی سردی نہیں ہے جس سے مجھے کوئی پریشانی ہو، مگر وہ پھر بھی فکر مند ہیں بالکل روایتی ماں ہیں وہ۔ ” وہ مسکراتا ہوا کہتا گیا۔
علیزہ نے اسے رشک سے دیکھا۔ ”آپ کی امی بہت محبت کرتی ہیں آپ سے؟”
”ہاں خاصی۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”آپ کو آپ کے فرینڈز رنگ کر رہے تھے؟”
”ہاں فرینڈز بھی… کزنز بھی، کچھ کو لیگز بھی۔”
”آپ بہت سوشل ہیں؟”
”بہت زیادہ نہیں… مگر میرا سوشل سرکل پھر بھی وسیع ہے۔” جنید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”آپ بہت خوش قسمت ہیں۔” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد جنید سے کہا اسے واقعی جنید پر رشک آرہا تھا۔ جنید نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے بڑے غور سے دیکھا۔
”آپ کل کھانا کھائیں گی میرے ساتھ؟” علیزہ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”میں برتھ ڈے کے سلسلے میں ہی دعوت دے رہا ہوں آپ کو۔” جنید نے جلدی سے وضاحت کی۔”آپ میرے ساتھ لنچ کریں گی تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔”
وہ اسے صاف انکار کر دینا چاہتی تھی، مگر وہ ایسا نہیں کر سکی۔ غیر محسوس طور پر اس نے جنید کی بات پر سر ہلا دیا۔ جنید بے اختیار مسکرایا۔
”تھینک یو۔” علیزہ نے محسوس کیا جیسے وہ اس آفر کو قبول کرنے پر خوش تھا۔
”اس کے بعد آپ چاہیں تو کل رات بھی ہم یہیں واک کر سکتے ہیں… یا پھر میں آپ کو شام کو ہائکنگ پر لے جا سکتا ہوں۔ آپ واپس اسلام آباد کب جا رہی ہیں؟”
علیزہ کچھ حیرت سے رک کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اس طرح شیڈول طے کر رہا تھا جیسے دونوں کی بہت پرانی جان پہچان ہو۔ اس کے انداز میں جو تھا وہ بے تکلفی نہیں تھی… کچھ اور تھا… شاید اپنائیت یا پھر وہ اسے کوئی نام نہیں دے پا رہی تھی۔
”پرسوں۔” کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے جنید سے کہا۔ وہ ایک بار پھر ساتھ ساتھ چلنے لگے۔
٭٭٭
”ہم لوگ پانچ بہن بھائی ہیں… میں دوسرے نمبر پر ہوں… ایک بہن مجھ سے بڑی ہیں۔” اگلے دن وہ لنچ پراسے بتا رہا تھا۔ ”دوسرا بھائی سب سے چھوٹا ہے۔ خاصی روایتی قسم کی فیملی ہے ہماری۔ ” وہ مدہم آواز میں مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”میری بڑی بہن کی شادی ہو چکی ہے۔ وہ اسلام آباد میں ہی ہوتی ہے۔ میری فیملی لاہور میں ہے، میں بھی وہیں اپنے بابا کی فرم میں کام کرتا ہوں… میرے بابا بھی آرکیٹکٹ ہیں۔”
کھانا کھاتے ہوئے اس کی باتیں سنتی رہی، کل کی نسبت آج اس کا ڈپریشن خاصا کم ہو چکا تھا اور وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اس میں جنید کا کتنا ہاتھ تھا۔
اس دن لنچ پر ان دونوں میں خاصی طویل گفتگو ہوئی اور علیزہ کو احساس ہوا کہ جنید اور اس کی بہت سی عادات ایک جیسی تھیں۔ وہ بہت شائستہ اور نفیس مزاج کا مالک تھا۔ اپنی عمر کے عام نوجوانوں کے برعکس وہ خاصی میچور سوچ رکھتا تھا۔ وہ بڑے نپے تلے انداز میں گفتگو کرتا تھا۔
وہ اس سہ پہر کو اس کے ساتھ ہائکنگ کے لئے بھی گئی۔
جنید ایک بہت اچھا فوٹو گرافر بھی تھا۔ علیزہ کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اس نے کیمرہ پاس ہونے کے باوجود اپنے کیمرہ سے علیزہ کی کوئی تصویر نہیں لی، البتہ خود اس کے کیمرہ سے کچھ بہت اچھے مناظر کے علاوہ علیزہ کی بھی چند تصویریں یہ کہتے ہوئے کھینچیں۔
”مجھے امید ہے کہ آپ جب اس رول کو ڈویلپ اور پرنٹ کروائیں گی تو آپ کو احساس ہو گا کہ میں صرف اچھا آرکٹیکٹ ہی نہیں فوٹو گرافر بھی ہوں۔”
رات کو وہ پول کے پاس پھرتے رہے، جنید کے طے کئے ہوئے شیڈول کے مطابق۔
پھر اگلی صبح وہ اسے اور سجیلہ کو خدا حافظ کہنے بھی آیا۔
”اچھا لڑکا ہے جنید۔” سجیلہ نے واپسی پر راستے میں گاڑی میں اس سے کہا۔
”ہاں۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”تمہارا اچھا وقت گزر گیا اس کے ساتھ… مجھ سے تمہاری تعریف کر رہا تھا۔۔۔” سجیلہ نے مسکراتے ہوئے اسے بتایا۔ وہ جواباًمسکرائی۔
”ہاں بہت اچھا وقت گزرا میرا اس کے ساتھ۔”
”بہت گرومڈ لگا مجھے وہ۔” سجیلہ نے ایک اور تبصرہ کیا۔
”آپ اس کی فیملی کو جانتی ہیں؟” علیزہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے سوال کیا۔
”کافی عرصے سے۔” سجیلہ نے مختصر جواب دیا ،پھر کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!