امربیل — قسط نمبر ۱۱

”تم ملنا چاہو گی اس کے گھر والوں سے؟”
”نہیں۔” علیزہ گڑبڑا گئی۔ ”میں کیوں ملنا چاہوں گی۔”
”اچھے لوگ ہیں۔”
”ہاں جنید سے مل کر اس کا اندازہ ہوتا ہے، مگر مجھے جنید کو دیکھ کر بہت عجیب سا احساس ہوتا رہا۔”
سجیلہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ ”عجیب سا احساس؟”
”ہاں مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے… یا اس کی آواز سنی ہے۔ اس کا نام بھی مجھے بہت شناسا لگا… مگر بہت سوچنے کے باوجودبھی مجھے یادنہیں آیا کہ میں نے اسے کہاں دیکھا ہے۔” علیزہ نے پر سوچ انداز میں کہا۔
”کیا جنید نے تم سے ایسا کچھ کہا؟”
”نہیں اس نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔”
سجیلہ نے ایک گہرا سانس لیا۔
”تو پھر یہ تمہارا وہم ہو گا… بعض لوگوں کی شکل ہمیں ویسے ہی شناسا لگتی ہے۔” علیزہ الجھے ہوئے انداز میں کندھے اچکا کر رہ گئی۔
”شاید ہو سکتا ہے۔”
٭٭٭




بھوربن سے واپسی کے بعد تیسرے دن وہ لاہور چلی آئی۔نانو واپس اپنے گھر شفٹ ہو چکی تھیں۔ گھر کی بیرونی دیوار اور گیٹ کی نئے سرے سے تزئین و آرائش کر دی گئی تھی۔ مگر گیٹ پر پہلی نظر نے علیزہ کو پھر اس رات کی یاد دلائی۔ وہ کچھ دیر گیٹ پر موجود چوکیدار کا حال احوال دریافت کرتی رہی۔
پھر اندر آکر اس نے سب سے پہلی کال شہلا کو کی۔
”میں ابھی آتی ہوں تمہاری طرف۔”
اس نے علیزہ کی آواز سنتے ہی کہا۔ علیزہ نے فون بند کر دیا۔ وہ جانتی تھی وہ آدھا گھنٹہ کے بعد وہاں موجود ہوگی، اور ایسا ہی ہوا اور اس وقت لاؤنج میں نانو کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی جب شہلا آگئی۔
رات تک وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف رہیں۔ اس کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں سونے کے لئے جانا چاہتی تھی۔ جب نانو نے اسے روک لیا۔
”تم سے کچھ بات کرنی ہے۔ علیزہ”
”سارا دن ہم باتیں ہی تو کرتے رہے ہیں نانو۔”ا سے نانو کی بات پر کچھ حیرت ہوئی۔
”ہاں باتیں ہی کرتے رہے ہیں مگر یہ ذرا سنجیدہ بات ہے اور میں چاہتی ہوں تم اسے توجہ سے سنو۔” نانو اب سنجیدہ تھیں۔
”ٹھیک ہے آپ باتیں کریں۔ میں سن رہی ہوں۔” وہ بھی سنجیدہ ہو گئی۔
”اسلام آباد میں سجیلہ نے تمہیں ایک لڑکے سے ملوایا تھا۔ جنید ابراہیم نام تھا اس کا۔” انہوں نے بات شروع کرتے ہوئے کہا۔
”اسلام آباد میں نہیں… بھوربن میں ملوایا تھا۔” اس نے تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”چلو بھوربن ہی سہی… تم یہ بتاؤ… تمہیں کیسا لگا ہے وہ؟”
علیزہ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ نانو کا سوال اب اس کے لئے سوال نہیں رہا تھا۔
”کیا مطلب ہے نانو آپ کا، وہ ویسا ہی تھا جیسے سارے لڑکے ہوتے ہیں۔” اس بار اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو چکی تھی۔
”جنید ابراہیم کے گھر سے پرپوزل آیا ہے تمہارے لئے۔”
نانو نے اب تمہید ختم کر دی۔ وہ بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔
”مجھے اچھے لگے ہیں اس کے گھر والے۔” نانو نے اس کے تاثرات سے بے خبر اسے بتا رہی تھیں۔ ”میں نے لڑکے کی تصویر دیکھی ہے… مجھے وہ بھی بہت اچھا لگا ہے۔ سجیلہ سے فون پر میری بات ہوئی تو اس نے بھی کافی تعریف کی اس کی۔”
وہ بات کرتے کرتے ایک لحظہ کے لئے رکیں۔ پھر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا۔
”لیکن بہرحال میں نے ابھی ان سے سوچنے کے لئے کچھ و قت مانگا ہے۔ کیونکہ تم سے پوچھے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔”
”مجھے شادی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… اور فی الحال تو بالکل بھی نہیں۔”
”یہ ایک انتہائی احمقانہ بات ہے اور کم از کم میں ایسی کسی بات کی بنا پر تو تمہاری شادی کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑ سکتی۔” نانو نے قطعی انداز میں کہا۔
”مجھے کچھ وقت چاہئے… چند سال اور۔”
”کس لئے؟”
”آپ جانتی ہیں نانو! میں کسی این جی او یا نیوز پیپر کو جوائن کرنا چاہتی ہوں… میں کچھ سوشل ورک کرنا چاہتی ہوں۔”
علیزہ یہ کام تم شادی کے بعد بھی کر سکتی ہو۔”
”نہیں ۔ میں یہ کام شادی کے بعد نہیں کر سکتی۔ شادی کے بعد کوئی اتنا یکسو ہو کر کام نہیں کر سکتا۔”
نانو اس کی بات پر بے اختیار ہنسیں۔ ”یہ کیا احمقانہ بات ہے۔”
وہ خاموش رہی۔
”بس یہی وجہ ہے یا کوئی اور بھی وجہ ہے؟” اس نے کچھ کہے بغیر صرف ایک نظر انہیں دیکھا۔
”نانو ! میں اس سے صرف دو تین بار ملی ہوں اور وہ بھی اسے ایک عام سا شخص سمجھ کر… اگر میں نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ اس اچھے شخص کو میرے سر پر ہی مسلط کر دیا جائے۔” اس بار اس کی آواز میں خفگی نمایاں تھی۔
”کون مسلط کر رہا ہے کسی کو تمہارے سر پر…؟ میں نے تو تمہیں صرف ایک پرپوزل کے بارے میں بتایا ہے۔” اس بار نانو نے قدرے مفاہمانہ انداز میں کہا۔
”ثمینہ اور سکندر کا بہت پریشر ہے مجھ پر… وہ بار بار مجھ سے اس بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔ ابھی تک تو میں یہی کہتی رہی کہ تم اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہو مگر اب میں اس سے اور کیا کہوں… پھرتمہارے انکلز کا بھی بہت پریشر ہے… اب تمہیں اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ لینا چاہئے۔”
وہ اپنے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کو کھرچتے ہوئے ان کی باتیں سنتی رہی۔
”ٹھیک ہے… کوئی بات نہیں۔ میں تمہیں کچھ اور لوگوں کے بارے میں بتا دیتی ہوں، تم ان کے بارے میں غور کر لو۔” نانو نے تحمل سے کہا۔
”میں ان میں سے کسی کے ساتھ شادی کرنا نہیں چاہتی۔” اسے نانو کے ان مجوزہ پرپوزلز کے بارے میں پیشگی اندازہ تھا۔
”یعنی آپ اپنی زندگی قوم کی خدمت کے لئے وقف کرنا چاہتی ہیں۔ ” وہ اب ان کے چہرے اور آواز میں خفگی محسوس کر سکتی تھی۔ ”یا پھر شاید کسی نیوز پیپر میں کام کرکے کوئی انقلاب لانا چاہتی ہیں… اسی قسم کا انقلاب جو آپ نے چند ماہ پہلے لانے کی کوشش کی اور جس کے نتیجے میں آپ کو یہاں سے جانا پڑا۔”
وہ اب قدرے بلند آواز میں بات کر رہی تھیں۔ علیزہ اسی طرح سر جھکائے اپنی انگلیوں کو انگوٹھے سے کھرچتے ہوئے کسی دلچسپی کے بغیر ان کی باتیں سنتی رہیں۔
”کیا بننا چاہتی ہیں آپ…؟” جون آف آرک یا پھر مدر ٹریسا … یا پھر آپ نے بس یہ طے کر لیا ہے کہ آپ ایک کے بعد ایک کرکے میرے لئے مصیبتیں لاتی رہیں گی۔”
”نانو! آپ ایک فضول بات پر ناراض ہو رہی ہیں۔” اس نے ان کی باتوں کے جواب میں خاصی بے زاری سے کہا۔
”فضول بات…؟ تم نے کبھی سوچا ہے تم کس قدر Irrationalہو ۔ علیزہ … اپنے یوٹوپیا سے باہر آکر کبھی حقیقی دنیا کو بھی دیکھا کرو۔” ان کی ڈانٹ جاری رہی۔
”میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں نانو کہ میں کتنی Irrational ہوں… آپ کو مجھے اس بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے آپ سے یہ تو نہیں کہا کہ میں شادی نہیں کروں گی… میں صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”تم جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو پھر کس سے شادی کرنا چاہتی ہو؟” نانو کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
اور پھر جیسے انہیں اپنے سوال پر افسوس ہوا۔ علیزہ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ اس نے کچھ نہیں کہا تھا اور اس نے سب کچھ کہہ دیا تھا۔ نانو کا غصہ اور ناراضی یک دم جھاگ کی طرح غائب ہو گئی۔ وہ کئی منٹ بالکل خاموش بیٹھی رہیں۔
”تم جو چاہتی ہو علیزہ… وہ ممکن نہیں ہے۔”
”میں نے تو آپ سے کچھ بھی نہیں کہا۔”
”میں اس کے باوجود سب کچھ جانتی ہوں۔ ہر بات کو سمجھنے کے لئے لفظوں کا سہارا ضروری نہیں ہے۔”
وہ کچھ دیر ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”نانو ! اگر آپ واقعی سب کچھ جانتی ہیں تو پھر آپ مجھ سے یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں؟”
”تم واقعی عمر سے شادی کرنا چاہتی ہو۔”
”میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی۔” اس کا سر جھکا ہوا تھا۔
”میں نے تم سے یہ نہیں پوچھا … کچھ اور پوچھا ہے۔”
”نانو ! میں نے ابھی شادی کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔”
”علیزہ ۔” انہوں نے اس بار تنبیہی انداز میں کہا۔
”جس سوال کا جواب آپ جانتی ہیں ، وہ مجھ سے کیوں کہہ رہی ہیں؟” اس بار اس کی آواز میں واضح شکست خوردگی تھی۔
”عمر کے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتی ہوں۔” اس کی آواز میں لرزش تھی یوں جیسے وہ اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ”آپ میرے سامنے ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی پرپوزل لا کر رکھ دیتی ہیں… آپ مجھ سے عمر کے پرپوزل کے بارے میں بات کیوں نہیں کرتیں… لیکن میں جانتی ہوں ۔ آپ یہ نہیں کر سکتیں۔ اگر عمر کو مجھ میں دلچسپی ہی نہیں ہے تو۔۔۔”
”اس کے باوجود تم۔۔۔” نانو نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
”نانو! میں کیا کر رہی ہوں۔ آپ جانتی ہیں… میں حقیقت پسند ہونے کی کوشش کر رہی ہوں۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی ”میں کوشش کر رہی ہوں کہ زندگی کو عمرکے بغیر گزارنا سیکھ جاؤں… مگر یہ بہت مشکل ہے۔ ” وہ مسکرائی… مگر اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
”جنید بہت اچھا لڑکا ہے۔” نانو نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”عمر بھی بہت اچھا ہے۔”اس نے جواباً کہا۔
لاؤنج میں چند لمحے خاموش رہی۔
”نانو! ایک بار آپ اس سے میرے بارے میں بات کیوں نہیں کرتیں… آپ ایک بار اس سے میرے بارے میں بات تو کریں۔” اس بار اس کی آواز میں التجا تھی۔ ”آپ اسے یہاں بلا کر اس سے میرے بارے میں بات کریں۔”
”اور اگر اس نے انکار کر دیا تو…؟”
”اگر… اگر اس نے انکار کر دیا… تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ جنید سے میری شادی کر دیں… میں اعتراض نہیں کروں گی۔” وہ مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
”محبت اور عزت نفس کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ محبت سب سے پہلے عزت نفس کو ختم کر دیتی ہے۔ یا بندہ محبت کرلے … یا پھر اپنی عزت… ہاتھ کی مٹھی میں دونوں چیزیں اکٹھی نہیں اسکتیں۔”
اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی تھی… اسے یک دم بہت زیادہ تھکن کا احساس ہو رہا تھا۔
”کیا میں نے ٹھیک کیا ہے؟” کھڑکی کے پردے ہٹاتے ہوئے اس نے باہر پھیلی تاریکی میں جھانکتے ہوئے سوچا۔
”کیا خود کو اس قدر گرا دینا ٹھیک ہے؟” وہ اب سینے پر بازو لپیٹے سوچ رہی تھی۔ ”یہ جاننے کے باوجود کہ عمر اور جوڈتھ… پھر میں آخراپنے لئے کس رول کا انتخاب کرنا چاہ رہی ہوں۔” اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”یہ جاننے کے باوجودکہ عمر شاید کبھی بھی مجھ سے شادی کے لئے انٹرسٹڈ نہیں رہا۔ میں اس سے پھر بھی یہ تعلق کیوں قائم کرنا چاہتی ہوں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیا۔” آخر عمر ہی کیوں۔۔۔” وہ خود کو بے حد بے بس محسوس کر رہی تھی۔ ”شاید میں ابھی بھی میچور نہیں ہوئی ہوں… شاید میں کبھی بھی میچور نہیں ہو سکتی… یا پھر عمر جہانگیر وہ حد ہے جہاں میری میچوریٹی ختم ہو جاتی ہے۔ میرے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں… پھر میں صرف وہ دیکھتی ، وہ سنتی اور وہ کہتی ہوں جو اس کی خواہش ہوتی ہے… یا شائید اسی کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔
اسے اپنی آنکھیں دھندلی ہوتی محسوس ہوئیں۔
اعتراف کا لمحہ عذاب کا لمحہ ہوتا ہے۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!