امربیل — قسط نمبر ۱۱

”نہیں۔ میں آپ کو ان سب چیزوں کے ثبوت دے سکتا ہوں… آواری میں دو دفعہ اس نے شراب پی کر ہنگامہ کھڑا کیا… وہاں کے منیجرنے پولیس کو بلوایا اور پولیس اسے پولیس اسٹیشن لے جانے کے بجائے صرف آپ کی وجہ سے آپ کے گھر چھوڑ آئی۔”
”میں تمہیں اور تمہاری پولیس کو اچھی طرح سے جانتا ہوں… ڈاکو راج بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے۔”
”ہاں پولیس بری ہے۔ پولیس صرف اس وقت اچھی تھی جب پچھلے سال آپ کی گھریلو ملازمہ کے اپنے کوارٹر میں خودکشی کے کیس کو اس نے حادثہ قرار دے کر فائل بند کر دی… اس لڑکی کے بھائی نے آپ کے بیٹے کی شکایت کی تھی… اگر وہ جج کا بیٹا نہ ہوتا تو اس وقت جیل کاٹ رہا ہوتا… ان مہربانیوں کے وقت تو آپ کو پولیس سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ اب آپ کو پولیس والے گندے اور ڈاکو لگنے لگے ہیں۔”
عباس کی آواز میں طنز تھا۔ ” یہ ابھی چند واقعات ہیں، آپ کی خواہش ہے تو میں آپ کو اور بہت سے واقعات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کردیتا ہوں۔” جسٹس نیاز پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ یقیناً اس وقت اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پہنچا ہوا محسوس کر رہے تھے۔
”میں آپ کی طرح کسی Mud Slinging میں انوالو ہونا نہیں چاہتا تھا، مگر آپ نے مجھے اس کے لئے مجبور کر دیا۔” عباس نے اس سنجیدہ لہجے میں اپنی بات جاری رکھی۔
ایاز حیدر اب بڑے اطمینان اور لا پروائی سے سگار پینے میں مصروف تھے انہوں نے عباس کو کسی بھی اسٹیج پر روکنے کی کوشش نہیں کی۔
”جس علاقے میں آپ کا گھر ہے۔ اس علاقے میں آپ کا بیٹا خاصی شہرت رکھتا تھا اور یہ یقیناً آپ سے پوشیدہ تو نہیں ہو گی۔” عباس کہہ رہا تھا۔ ”لیکن شاید آپ کے نزدیک ایسی باتوں کی اہمیت ہی نہیں تھی، اگر آپ نے شروع میں اپنے بیٹے کو روکا ہوتا تو آج اس کے ساتھ یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا۔”
”مجھے نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے… تم اور تمہارا باپ خود کیا نہیں کرتے؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اسی طرح چیختے ہوئے کہا۔ ”تم دونوں خود کیا ہو؟”
”میں اور میرا باپ کون ہیں، یہ سارا ملک جانتا ہے۔”




عباس ان کی دھاڑ سے متاثر ہوئے بغیر بولا۔ ”ہم اس ملک اور اس قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم آپ کے بیٹے کی طرح رات کو لڑکیوں کا تعاقب کرتے نہیں پھرتے۔ ”اس کی آواز میں تحقیر اور تنفر تھا۔
”اور تم جو جو کرتے ہو۔” جسٹس نیاز نے مشتعل آواز میں کہنا چاہا۔
”ہم اور جو جو کرتے ہیں، وہ آپ کو ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ ان جو جو کے حوالے سے خود کوئی شفاف ٹریک ریکارڈ نہیں رکھتے۔” عباس نے یک دم ہاتھ اٹھا کر ان کی بات کاٹ دی۔
”پریس میں جو کچھ آپ کے بارے میں آرہا ہے وہ ہماری نظروں سے بھی گزرتا ہے اور پولیس والے کم از کم اتنی عقل ضرور رکھتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کو پہچان لیں۔”
”پریس میں جو کچھ آرہا ہے ، وہ تم لوگوں کی سازش ہے۔ تم لوگ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں میرے خلاف۔”
”ہمیں ایسے کسی اوچھے ہتھکنڈے کی ضرورت نہیں ہے، اگرہم ایسے حربوں میں یقین رکھتے تو پریس کے پاس صرف الزامات نہیں ثبوت بھی پہنچے ہوتے۔”
اس بار چیف منسٹر نے ان دونوں کی گفتگو میں مداخلت کی۔
”اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس معاملے کو اب ختم ہو جانا چاہئے۔”
”میں کسی معاملے کو ختم نہیں کروں گا… میں اپنے بیٹے کے قاتلوں کو اس طرح نہیں چھوڑ سکتا۔” جسٹس نیازنے صاف الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ کی مرضی… اگر آپ کو کسی تصفیہ کی خواہش نہیں ہے تو ہم بھی کسی Settlement(تصفیہ) کے لئے مجبور نہیں ہیں… ہم بڑا دل کرکے یہاں آئے تھے لیکن آپ معاملہ کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ضرور بڑھائیں۔ ہم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔”
”ایاز حیدر! آپ بیٹھ جائیں میں نے آپ لوگوں کو صرف آمنے سامنے کے لئے نہیں بلوایا تھا، میں آپ کا جھگڑا ختم کروانا چاہتا ہوں۔”
”سر! میں آپ کے خلوص کی قدر کرتا ہوں اور آپ کی مرضی کے خلاف یہاں سے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر میری اور عباس کی یہاں موجودگی کتنی بے معنی اور بے مقصد ثابت ہو رہی ہے، یہ آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ بہتر ہے آپ ہمیں جانے دیں، جب انہیں معاملہ ختم کرنے کی خواہش ہو تو آپ ہمیں کال کرلیں ہم حاضر ہو جائیں گے۔”
ایاز حیدر نے بڑے مودب انداز میں کہا، چیف منسٹر نے اس بار انہیں روکنے کے بجائے سر کے اشارے سے ان کو جانے کی اجازت دے دی۔
”میں کبھی تم لوگوں کے ساتھ کوئی سیٹل منٹ نہیں کروں گا۔ اب صرف جنگ ہو گی، میں کورٹ میں جاؤں گا۔ میں پریس کے سامنے حقائق لاؤں گا اور مجھے انصاف نہیں ملا تو پھر میں بھی وہی ہتھکنڈے استعمال کروں گا جو تمہارے بیٹے نے کئے۔” جسٹس نیاز نے بلند آواز میں ایاز حیدر کو کہا۔
ایاز حیدر اور عباس چلتے چلتے ایک لمحہ کے لئے رک گئے، پھر عباس نے پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ اپنا شوق ضرور پورا کریں… یہ آپ کا حق ہے اور قانونی جنگ کوئی آپ سے بہتر تو نہیں لڑ سکے گا۔ ” وہ دونوں باہر نکل گئے۔
٭٭٭
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
گلوکارہ کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ سامعین غزل کے ہر بول کے ساتھ اپناسر دھن رہے تھے۔ علیزہ غائب دماغی کے ساتھ… غزل کو سن رہی تھی۔ یہ طاہرہ سید کی چوتھی غزل تھی۔ اگر وہ ذہنی طور پر کمپوزڈ ہوتی تو شاید اس وقت باقی سب لوگوں کی طرح ہی عمدگی سے گائی جانے والی غزل کو سراہ رہی ہوتی۔ مگر اس ذہنی کیفیت کے ساتھ کسی غزل کو سراہنا…
ہر نئی غزل کے ساتھ محفل کا رنگ جمتا جا رہا تھا۔ اس کا دل اور اچاٹ ہوتا جا رہا تھا۔ لوگوں کی فرمائشی چٹیں اب ایک تواتر کے ساتھ گلوکارہ کے پاس پہنچنا شروع ہو گئی تھیں۔ اب کافی سرو کی جا رہی تھی۔ علیزہ نے اپنے سامنے پڑی پلیٹ میں سے کچھ سونف اور الائچی منہ میں رکھی اور کافی کا ایک کپ اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔
کھڑے ہونے سے پہلے اس نے اپنے بائیں جانب بیٹھی ہوئی سجیلہ آنٹی کے کان میں تھوڑا سا جھک کر سرگوشی کی۔
”میں کچھ دیر کے لئے باہر جا رہی ہوں… تھوڑی دیر بعد آجاؤں گی۔” سجیلہ آنٹی نے سر ہلا دیا۔ وہ پوری طرح غزل سے محظوظ ہو رہی تھیں۔
علیزہ اپنی شال کو اپنے گرد مزید لپیٹتے ہوئے ایک ہاتھ میں کافی کا مگ لئے باہر کی طرف چلی گئی۔ موسیقی کے شور اور روشنیوں سے یک دم قدرے تاریکی اور خاموشی میں آکر اس نے عجیب سا سکون محسوس کیا۔ فضا میں خنکی بہت بڑھ گئی تھی، اس نے اپنی طرح کچھ اور لوگوں کو بھی کافی کے مگ کے ساتھ یا خالی ہاتھ باہر موجود پایا۔ ان میں اور اس میں فرق صرف یہ تھا کہ وہ اکیلی تھی۔
کافی کے گھونٹ لیتے وہ وہاں ٹہلنے لگی۔ دانستہ طور پر اس نے باقی لوگوں سے خاصی دور جانے کی کوشش کی۔ وہ اس وقت وہاں کسی سے ہیلو ہائے نہیں چاہتی تھی۔
اسلام آباد میں اس کے چند ماہ کے قیام نے اسے ایاز اور سجیلہ کے حلقہ احباب میں خاصا متعارف کروا دیا تھا، اور اس وقت بھی بھوربن میں تقریباً وہی سب لوگ موجود تھے۔ جنہیں وہ اسلام آباد کی مختلف تقریبات میں دیکھا کرتی تھیں۔
اوپن ایئر کی سیڑھیوں میں بیٹھے وہ دور تاریکی میں پہاڑوں کے دھندلے ہیولوں اور ان پر کہیں کہیں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھنے لگی۔
اسے وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہوئی تھی، جب اس نے بہت دور سے کسی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ آنے والا مرد تھا۔ وہ بہت دور سے اسے پہچان نہیں پا رہی تھی، مگر آنے والے کا رخ چونکہ اس کی سمت تھا اس لئے اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی آنے والے شخص پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے بہت قریب آجاتا، اس نے اسے پہچان لیا۔ وہ جنید ابراہیم تھا۔
٭٭٭
جنید سے اس کا پہلا تعارف وہیں بھوربن میں ہی ہوا تھا۔
وہ دوپہر کے قریب سجیلہ کے ساتھ وہاں پہنچی تھی۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام کلب کی طرف سے تھا۔ ہوٹل کے ہال میں بوفے کے لئے وہ بھی سجیلہ کے ساتھ گئی تھی۔ سجیلہ ہال میں جاتے ہی لیڈیز کلب کی وہاں پہلے سے موجود بہت سی خواتین کے ساتھ گفتگو اور خوش گپیوں میں مصروف ہو گئیں۔ علیزہ نے اپنی پلیٹ میں کچھ کھانا لیا اور ایک خالی میز پر جا کر بیٹھ گئی۔
اسے کھانا کھاتے ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب سجیلہ اس کی طرف آئیں۔ ان کے ساتھ ایک دراز قد نوجوان بھی تھا۔
”جنید! یہ ہے علیزہ ، جس کا میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ذکر کر رہی تھی۔”
سجیلہ آنٹی نے قریب آتے ہی بڑی بے تکلفی سے جنید نامی اس شخص سے علیزہ کا تعارف کروایا۔ علیزہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچ پلیٹ میں رکھ دیا اور کچھ حیرت سے اس کے ساتھ ہیلو ہائے کی جو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف متوجہ تھا۔
”اور علیزہ! یہ جنید ابراہیم ہے۔ ہمارے بہت ہی اچھے جاننے والوں کا بیٹا ہے۔ آرکیٹکٹ ہے… میں تمہیں اکیلے بیٹھے دیکھ کر اسے پکڑ لائی ہوں تاکہ تمہیں کمپنی دے… میں ابھی کچھ دیر مصروف ہوں۔” سجیلہ آنٹی نے بڑی بے تکلفی کے ساتھ کہا۔
”نہیں کوئی بات نہیں ہے بہت آرام سے ہوں۔” اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سجیلہ آنٹی کو یقین دلایا۔
سجیلہ آنٹی مسکراتے ہوئے واپس چلی گئیں۔ جنید وہیں کھڑا تھا۔
”آپ بیٹھ جائیں۔” علیزہ نے اس سے کہا۔ پچھلے چند ماہ میں مختلف لوگوں کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اس کے لئے نئی چیز نہیں تھی۔
”نہیں میں سوچ رہا ہوں پہلے کچھ کھانے کے لئے لایا جائے۔” جنید نے مسکراتے ہوئے اس کی پیش کش کے جواب میں کہا اور ہال کے کونے میں لگی ہوئی ڈشز کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کھانا کھانے میں مصروف ہو گئی۔
وہ کچھ دیر بعد ایک پلیٹ میں کچھ کھانا لئے اس کے پاس آگیا۔ کچھ دیر دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے، پھر جنید ابراہیم نے ہی گفتگو کا آغاز کیا۔
”آپ کیا کرتی ہیں؟”
”میں؟” علیزہ نے سر اٹھاکر اسے دیکھا۔
”میں نے حال ہی میں سوشیالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور… اور کچھ بھی نہیں کرتی۔” وہ مسکراتے ہوئے ایک بار پھر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
”سوشیالوجی؟” جنید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہابیز کیا ہیں اپ کی؟”وہ شاید گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنا نہیں چاہتا تھا۔
”کوئی خاص نہیں پینٹنگ کرتی ہوں… بکس پڑھتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”Nice Hobbies” (اچھے مشاغل ہیں) وہ مسکرایا۔
”تھینک یو۔”
”آپ آرکیٹیکٹ ہیں؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس بار علیزہ نے اس سے پوچھا۔ جنید نے اثبات میں سر ہلایا۔
”یہاں آپ ان میوزیکل ایوننگز کے لئے آئے ہیں۔”
”نہیں۔” جنید نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”مجھے میوزک میں اتنی دلچسپی نہیں ہے… میں اپنے کام کے سلسلے میں یہاں آیا ہوں۔”
”کام؟”
”ہاں اس ہوٹل کی عمارت میں کچھ توسیع کر رہے ہیں۔ ہماری فرم نے اسی سلسلے میں مجھے یہاں بھجوایا ہے۔” جنید نے بتایا۔
”میں پچھلے ایک ہفتہ سے یہاں ہوں ابھی چند اور ہفتے یہیں رہوں گا…آپ تو یقیناً ان ایوننگز کے لئے ہی یہاں آئی ہوں گی؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
علیزہ کچھ کہنے کے بجائے صرف مسکرا دی۔ وہ… کھانا تقریباً ختم کر چکی تھی اور اس کی خواہش تھی کہ وہ اب سجیلہ کے پاس چلی جائے یا پھر اوپر اپنے کمرے میں۔
مگر جنید ابھی تک کھانا کھا رہا تھا اور اس طرح اٹھ کر وہاں سے چلے جانا غیر مہذب بات ہوتی۔ وہ جنید کی پلیٹ کے خالی ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
”آپ اگر جانا چاہ رہی ہیں تو چلی جائیں۔” جنید نے اچانک سر اٹھا کر اس سے کہا وہ بے اختیار گڑ بڑا گئی۔ اسے جنید سے اس جملے کی توقع نہیں تھی۔
”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔”
”مجھے لگا شاید آپ جانا چاہ رہی ہیں، مگر میرا کھانا ختم نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔” اسے جنید کی گہری نظر پر حیرت ہوئی۔
”نہیں ایسا نہیں ہے… میں جانتی ہوں، آپ مجھے کمپنی دینے کے لئے سجیلہ آنٹی کے کہنے پر آئے ہیں۔”
اس نے اپنی خفت مٹانے کے لئے کہا۔
”مگر آپ کو تو کمپنی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔” وہ مسکرایا۔
”یہ اندازہ آپ نے کیسے لگایا؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!