امربیل — قسط نمبر ۱۱

”لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے؟… جسٹس نیازنے کیوں یہ سب کچھ کروایا … جب میں اپنی مرضی سے ان کا ساتھ دینے پر تیار تھی تو پھر اس سب کا کیا مطلب تھا۔” وہ اپنے فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”اور پھر میں نے عمر اور عباس کو نہیں کہا تھا کہ وہ ان چاروں کو مار دیں۔ پھر میں آخر کس چیز کی سزا بھگتوں۔” وہ جانتی تھی ساری دلیلیں شرمندگی کے اس احساس کو مٹانے میں ناکام تھیں جس نے اس کا گھیراؤ کیا ہواتھا۔
ستے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ جس وقت اپنا بیگ اٹھائے لاؤنج میں آئی، اس وقت عباس، عمر اور نانو تینوں وہیں تھے۔ شاید وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ عمر نے آگے بڑھ کر اس کا بیگ اٹھا لیا۔ کچھ کہے بغیر ساتھ چلتے ہوئے وہ لاؤنج سے باہر نکل آئے جہاں اب ایک کار کھڑی تھی۔ وہ چاروں بڑی خاموشی کے ساتھ اس میں سوار ہو گئے۔نانو کے گھر سے عباس کے گھر تک کا سفر بھی اسی خاموشی سے طے ہوا تھا۔ عباس کی بیوی تانیہ ان کا انتظار کر رہی تھی۔ شاید عباس نے اسے فون کیا تھا۔
”کیا ہوا عباس! میں تو بہت پریشان ہو گئی تھی… سب کچھ ٹھیک تو ہے؟” اس نے پورچ میں ان لوگوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
”کون لوگ تھے گرینی؟” وہ اب نانو سے پوچھ رہی تھی۔
”کون لوگ ہو سکتے ہیں… ڈاکو وغیرہ تھے۔” عباس نے بات گول کرتے ہوئے کہا۔
”اوہ گاڈ… کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟” وہ اب تشویش بھرے لہجے میں علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔
”نہیں۔ بس فائرنگ کی تھی انہوں نے اور پھر بھاگ گئے۔ چوکیدار معمولی زخمی ہوا تھا۔”اس بار بھی عباس نے ہی جواب دیا۔
”تم نے کمرے ٹھیک کروا دیئے؟”
”ہاں میں نے بستر وغیرہ لگوا دیئے ہیں… ویسے تو صبح ہونے والی ہے مگر آپ لوگ تو ساری رات سوئے ہی نہیں ہوں گے۔ بہتر ہے کچھ دیر آرام کر لیں۔” تانیہ نے کہا۔
ملازم ان کا سامان لے کر پہلے ہی جا چکا تھا۔ تانیہ نانو کو ساتھ لے کر اندر جانے لگی۔ علیزہ نے بھی ان کے پیچھے جانا چاہا مگر عباس نے اسے روک دیا۔
”علیزہ !” وہ رک گئی۔ عباس کی آواز نرم تھی، کچھ دیر پہلے والی تلخی اور ترشی غائب ہو چکی تھی۔
”پریشان مت ہو علیزہ!” اس نے عباس کو دیکھا اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ عباس دو قدم آگے بڑھ آیا اور اس نے علیزہ کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا دیا۔
”ہمیں تمہاری بہت پروا ہے اور اگر میری کوئی بات تمہیں بری لگی ہو تو آئی ایم سوری۔” علیزہ نے صرف سر ہلا دیا۔
”تمہاری چوٹ اب کیسی ہے؟” وہ اب اس کے گال پر پڑے ہوے نیل کو چھوتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔




”ٹھیک ہے۔”
”تانیہ اگر اس چوٹ کے بارے میں پوچھے تو اس سے یہی کہنا کہ تمہیں گھر میں ہی لگی ہے… میں نے اسے چند دن پہلے کے واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔”
علیزہ نے سر ہلا دیا۔
”تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ملازم یا تانیہ سے کہہ دو… اور آرام سے سو جاؤ… میں سہ پہر کی فلائٹ سے تمہیں اسلام آباد بھجوا دوں گا… سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
وہ اب اسے تسلیاں دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ علیزہ کو شرمندگی ہورہی تھی۔ وہ عباس کے ساتھ کیا کرنا چاہتی تھی اور وہ کیا کر رہا تھا۔ ”کیا وہ احسان فراموش تھی؟” اسے خیال آیا وہ سر جھکا کر اس کمرے کی طرف چلی گئی جہاں اسے رہنا تھا۔
عمر اور عباس نے اسے وہاں سے جاتے دیکھا۔ پھر عباس ایک گہرا سانس لیتے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”علیزہ نے کل میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی تھی۔” اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے اس نے کہا۔
”بہرحال اب تو سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے۔” عمر بھی مسکراتے ہوئے دوسرے صوفہ پر بیٹھ گیا۔
”You are a master plan maker.” (تم بلا کے سازشی ہو) عباس نے ستائشی انداز میں عمر سے کہا۔
“Planmaker?” عمر نے اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا۔ ”اس نے تو اندھی گلی میں لا کر کھڑا کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ اور چارہ کیا تھا؟”
عباس نے اب اپنا موبائل اٹھا لیا۔ ”پاپا کو انفارم کر دینا چاہئے۔” اس نے ایک نمبر ڈائل کرتے ہوئے عمر سے کہا۔ عمر نے کچھ کہے بغیر سر ہلا دیا۔
عباس کا رابطہ قائم ہو چکا تھا۔
”ہیلو !” وہ اب ایاز حیدر سے بات کر رہا تھا۔ ” علیزہ ہمارے ساتھ آگئی ہے۔” اس نے چھوٹتے ہی انہیں اطلاع دی۔
”گڈ۔ اسے کوئی شک تو نہیں ہوا؟”
”نہیں، میرا خیال ہے، اسے کوئی شک نہیں ہوا… وہ خاصی شرمندہ ہے۔” عباس نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ تم اب کل اسے اسلام آباد بھیج دو۔”
”آپ نے ماما سے بات کی ہے؟”
”نہیں، ابھی تھوڑی دیر بعد کروں گا۔ پہلے کرنے کا کیا فائدہ ہوتا… پہلے یہ تو کنفرم ہو جاتا کہ پلان کامیاب رہے گا یا نہیں۔” دوسری طرف سے ایاز حیدر نے کہا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ ماما سے بات کرلیں اور ایک بات کا خیال رکھیں ، ہم نے علیزہ کو یہی بتایا ہے کہ آپ کو کچھ پتا نہیں ہے اور ہم جو بھی کر رہے ہیں یا اس نے جو بھی کیا ہے۔ اس کے بارے میں آپ کو بتایا نہیں گیا۔” عباس نے اچانک یاد آنے پر کہا۔
”یہ کیوں؟… میں اس سے واقعی بات کرنا چاہتا ہوں… اس کی اس ساری حماقت پر؟” ایاز حیدر نے کہا۔
”پاپا! یہ عمر نے کہا ہے… آپ اس سلسلے میں عمر سے بات کر لیں۔” عباس نے موبائل پر کہا اور بات کرتے ہوئے موبائل عمر کی طرف بڑھا دیا۔
عمر ایاز حیدر کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا، اس نے کسی سوال یا اعتراض کے بغیر عباس کے ہاتھ سے موبائل پکڑ لیا۔ رسمی سی سلام دعا کے بعد ایاز حیدر نے چھوٹتے ہی اس سے بھی وہی کہا جو وہ عباس سے کہہ چکے تھے۔
”علیزہ کو یہ کیوں کہا ہے تم نے کہ تم لوگوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا؟” انہوں نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”انکل ! وہ پہلے ہی خاصی شرمندہ ہے میں اسے اور شرمندہ کرنا نہیں چاہتا۔۔۔” عمر نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”ہو سکتا ہے۔ وہ شرمندہ ہو لیکن اس سے اس سلسلے میں بات تو ہونی چاہئے۔ جو کچھ اس نے کرنے کی کوشش کی ہے۔It is simply outrageous … میں تو اس سے اس سب کی توقع ہی نہیں کر رہا تھا اور نہ ہی عباس۔۔۔”
”لیکن انکل۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی ایاز حیدر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”اسے اندازہ تو ہونا چاہئے کہ اس کی یہ حماقت کتنی سنگین ثابت ہو سکتی تھی۔”
”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر وہ آج کل جس فریم آف مائنڈ میں ہے، شاید اسے صحیح اندازہ ہی نہیں ہے۔۔۔” ایاز حیدر نے عمر کی بات کاٹ دی۔
”نہیں، اسے اندازہ تو ہے… عباس سے اس نے جو کچھ کہا۔ اس سے یہ بات تو خاصی واضح ہو جاتی ہے کہ وہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر نہیں کر رہی۔”
”انکل! وہ اس وقت غصے میں تھی… غصے میں بہت ساری باتیں سوچے سمجھے بغیر کہی جاتی ہیں… اورپھر اسے حالات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ آپ اس کی کمپنی اور مزاج تو جانتے ہی ہیں۔” عمر اب مکمل طور پر اس کا دفاع کر رہا تھا۔
”وہ ابھی تک اس شاک سے باہر نہیں آئی… کچھ عرصہ کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گی۔ تو اپنی اس حرکت کی (نامعقولیت) Absurdity کو خود ہی محسوس کرلے گی۔ اس لئے میں آپ سے ریکویسٹ کرتا ہوں کہ آپ اس سے ابھی کوئی بات نہ کریں۔” ایاز حیدر نے ایک گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے۔ میں اس سے بات نہیں کرتا تم اسے صبح اسلام آباد بھجوا دو۔”
”ہاں، وہ میں کردوں گا اور گرینی۔۔۔” عمر نے سکون کا سانس لیتے ہوئے پوچھا۔
”فی الحال تو انہیں عباس کے پاس ہی رہنے دو۔ بعد میں وہ واپس چلی جائیں گی۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”اور میں؟” عمر نے ان سے پوچھا۔
”تم بھی ابھی واپس مت جاؤ۔ جب تک سارا معاملہ کلیئر نہیں ہو جاتا… لاہور میں ہی رکو… میں نے آئی جی سے بات کی ہے۔ وہ تمہاری ایک ہفتے کی چھٹی اپروو کر دیں گے۔” وہ اسے بتانے لگے۔
”آپ کی جسٹس نیاز کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے؟”
”ابھی نہیں… شاید کل یا پرسوں … میں خود بھی یہ معاملہ نمٹا کر ہی واپس جاؤں گا۔ صورتِ حال ضرورت سے زیادہ خراب ہے۔” عمر ان کے جملے پر کچھ چونکا۔
”کیوں کیا ہوا؟”
”چیمبر آف کامرس کا ایک وفد آج چیف منسٹر سے ملا ہے اور کل وہ انٹریئر منسٹر سے مل رہے ہیں… انٹریئر منسٹر نے آج فون پر مجھ سے بات کی ہے۔ معاملہ خاصا طول پکڑ رہا ہے۔”
وہ سنجیدگی سے ان کی بات سنتا رہا۔
”تم لوگوں نے بھی احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا۔”
”کیسی احتیاط؟”
”اکٹھے چار اٹھا کر مار دیئے۔”
”انکل! آپ جانتے ہی ہیں ساری صورتِ حال کو ، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔”
”میں جانتا ہوں، اس کے باوجود اتنی Poor ہینڈلنگ کی ہے تم دونوں نے… کہ مجھے حیرانی ہو رہی ہے… تم تو چلو… ابھی نئے ہو فیلڈ میں… مگر عباس پر حیرت ہو رہی ہے مجھے… اتنے جھول چھوڑے ہیں اس نے کہ اب مجھے سب کچھ کور اپ کرنے میں دقت پیش آرہی ہے۔”
عمر نے عباس کو دیکھا، وہ اس کی طرف متوجہ تھا اور شاید اسے ہونے والی گفتگو کا کچھ اندازہ بھی تھا۔
”جب تم لوگوں کو ان کی فیمیلیز کا پتا چل گیا تھا تو بہتر تھا تم سب کو نہ مارتے… جسٹس نیاز کے بیٹے کو مار دیتے… باقیوں کو چھوڑ دیتے… کم از کم یہ جو گروپنگ ہو گئی ہے ان چاروں فیملیز کی… یہ تو نہ ہوتی۔”
”انکل! وہ چاروں اسی قابل تھے… وہاں ایک دو کو چھوڑنے کا سوال ہی نہیں تھا۔”
”ٹھیک ہے مگر تم لوگوں کو اتنی عقل کا مظاہرہ تو کرنا چاہئے تھا کہ خود سامنے نہ رہتے… پولیس کے ہی کسی اہلکار کو اس سارے آپریشن کو کنڈکٹ کرنے دیتے۔”
”یہ ہم نے اس لئے کیا کیونکہ ہم سب کچھ بہت جلدی اور احتیاط سے کرنا چاہتے تھے اور ہمیں یہ بھی خدشہ تھا کہ نچلے درجے کے اہلکار سب کچھ اچھے طریقے سے نہیں کر پائیں گے۔”
”تو خود تم لوگوں نے کون سے تیر مار لئے اور سیکریسی کہاں رہی… چیف منسٹر کے پاس پوری رپورٹ پہنچی ہوئی ہے۔”
”انکل! اب اس چیز کو ہم کیسے روک سکتے تھے… چیف منسٹر کے پاس تو رپورٹ جانی ہی تھی اور ہمیں اس چیز کا کوئی خوف نہیں تھا… وہ کیا کر سکتے ہیں؟” عمر نے خاصی لاپروائی سے کہا۔
”کیا کر سکتے ہیں یا نہیں… یہ تو بعد میں ہی پتا چلے گا۔ فی الحال تو میں آج اپنے کچھ دوستوں سے بات کر رہا ہوں۔ اب یہ پریشر گیم ہے۔”
”آپ نے چیف منسٹر سے کیا کہا؟”
”چیف منسٹر کی مجھے بھی زیادہ فکر نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہمارے لئے زیادہ مسئلہ کھڑا کرے گا… مسئلہ ان چاروں فیملیز کا ہے خاص طور پر جسٹس نیاز اور چیمبر آف کامرس کے وائس پریذیڈنٹ کا۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئے۔
”میں تم لوگوں سے بعد میں بات کروں گا، فی الحال ایک کال آرہی ہے میرے لئے۔”
عمر نے انہیں فون بند کرتے سنا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے موبائل واپس عباس کی طرف بڑھا دیا۔
”پاپا کیا کہہ رہے تھے کہ معاملہ کافی طول پکڑتا جا رہا ہے۔”
”To hell with it” عباس نے نفرت سے اپنے ہونٹ سکوڑتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں انہوں نے لاہور میں رکنے کے لئے کہا ہے؟”
”ہاں بار بار آنے جانے سے بہتر ہے کہ ایک بار ہی سب کچھ ختم کرکے واپس جاؤں۔ انہوں نے شاید آئی جی سے بات بھی کی ہے… میری چھٹی کے لئے۔” عمر نے صوفہ پر نیم دراز ہو کر اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔
”کیا تمہیں یقین ہے… علیزہ جسٹس نیاز سے دوبارہ روابط کرنے کی کوشش نہیں کرے گی؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد عباس نے اس سے کہا۔
عمر نے آنکھیں کھول دیں ”اسے رابطہ کرنا تو نہیں چاہئے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!