امربیل — قسط نمبر ۱۱

”تو علیزہ بی بی ! کیا کرنا چاہتی ہیں آپ؟”
عباس نے اس کے بالمقابل صوفہ پر بیٹھے ہوئے کہا۔ اس نے سر اٹھا کر اسے اور عمر کو دیکھا۔ سرد مہری اور سنجیدگی کے علاوہ ان دونوں کے چہرے پر اور کچھ بھی نہیں تھا۔
فون پر عباس سے بات کرنا اور بات تھی۔ آمنے سامنے اس سے کچھ کہنا دوسری بات… اور وہ بھی ان حالات میں جس میں وہ گرفتار تھی۔ وہ عمر نہیں تھا جس پر وہ چلا لیتی۔ اس کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے اس نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتی تھی اب نانو سب کچھ جان جائیں گی۔ پچھلے دن عمر کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے سامنے کیا جانے والا انکشاف۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے؟” اس کی آواز میں اب کچھ تیزی تھی۔
”میں… میں کیا کرنا چاہتی ہوں؟” اس نے بمشکل کہا۔
”کل فون پر کچھ کہہ رہی تھیں تم مجھ سے؟” علیزہ نے نانو کی طرف دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہی تھیں۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا۔ وہ عباس کی بات کے جواب میں کیا کہے۔ اس کا غصہ اور اشتعال یک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔
”اب خاموش کیوں ہو تم؟” عباس نے ایک بار پھر تلخی سے کہا۔
”آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں مجھ سے؟” اس نے سر اٹھایا۔
”وہی سب کچھ جو تم فون پر مجھ سے کہہ رہی تھیں۔” عباس نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”جو کچھ میں نے آپ سے فون پر کہا۔ مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” اس نے عباس سے نظریں ملائے بغیر کہا۔
”اور جو کچھ تم نے جسٹس نیاز سے کہا…؟”
”مجھے اس پر بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”جسٹس نیاز… کیا علیزہ نے جسٹس نیاز سے کچھ کہا ہے؟” نانو بے اختیار چونکیں۔




”کچھ؟… سب کچھ گرینی ! یہ انہیں فون پر سب کچھ بتا چکی ہے۔ کس طرح میں نے اور عمر نے ان کے بیٹے اور اس کے دوستوں کو مارا… کیوں مارا؟ سب کچھ۔”
”علیزہ؟” نانو کو جیسے عباس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
عباس یک دم ہونٹ بھینچتے ہوئے اپنے صوفہ سے اٹھا اور اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ علیزہ کے ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اس کی جگہ سے اٹھادیا۔ علیزہ عباس کی اس حرکت کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ اسی طرح اسے بازو سے کھینچتے ہوئے لاؤنج کے دروزے کی طرف جانے لگا۔
”عباس! اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟” نانو نے مداخلت کرنے کی کوشش کی۔
”کہیں نہیں گرینی! ابھی واپس لے آتا ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھیں۔”
اس نے علیزہ کی مزاحمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا۔ جو اب اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ دروازہ کھول کر اسی طرح اسے کھینچتے ہوئے باہر لے آیا۔
”عباس بھائی! میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔ آپ کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں مجھے؟” عباس نے یک دم اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
”کہیں نہیں لے کر جانا چاہتا تمہیں۔ میں تمہیں صرف باہر کی دیوار اور وہ گولیاں دکھانا چاہتا ہوں جو چند گھنٹوں میں یہاں برسائی گئی ہیں۔ تمہیں دیکھنا چاہئے، تمہاری حماقت کی وجہ سے کیا ہوا ہے؟”
”مجھے کچھ نہیں دیکھنا۔” علیزہ نے واپس اندر جانے کی کوشش کی۔
عباس نے ایک بار پھر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے کھینچتے ہوئے گیٹ کی طرف لے جانے لگا۔
”کیوں نہیں دیکھنا جو چیز تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ اسے دیکھنا چاہئے تمہیں۔” وہ کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے مزاحمت ختم کر دی۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
گیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے بہت دور سے گیٹ پر بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ دیکھ لیے تھے۔ وہ سوراخ کس چیز کے تھے، اسے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور اس کے باہر پولیس کی دو گاڑیاں موجود تھیں۔ گیٹ پر موجود پولیس والے عباس کو آتا دیکھ کر مستعد ہو گئے تھے۔ علیزہ کی شرمندگی میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا۔ عباس اب خاموش تھا مگر وہ اب بھی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا۔
گیٹ کے باہر جاتے ہوئے اس نے انگلش میں علیزہ سے کہا۔
”دروازے بند کرکے گھر کے اندر بیٹھے ہوئے باتیں کرنا، بہت آسان ہوتا ہے۔ تمہاری طرح ہر ایک کو اخلاقیات یاد آسکتی ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر اس دیوار کو دیکھو اور پھر سوچو کہ دیوار کی جگہ تم ہوتیں تو۔”
اس نے عباس کی بات کے جواب میں کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ صرف خاموشی سے باؤنڈری وال کو دیکھتی رہی جو بری طرح مسخ ہو چکی تھی۔ باہر لگے ہوئے آرائشی پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ادھر ادھر پڑے ہوئے تھے۔ رات کو فلڈ لائٹس کی روشنی میں وہ دیوار اور گیٹ جتنا خوفناک لگ رہا تھا۔ دن کے وقت اس سے زیادہ لگتا۔
”تمہارے لئے صرف ایک گولی کافی تھی۔” وہ مدھم آواز میں انگلش میں بولا۔ شاید وہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی وجہ سے احتیاط کر رہا تھا۔ علیزہ کچھ بول نہیں سکی۔ وہ اب اس کا ہاتھ چھوڑ چکا تھا۔
”اندر آؤ۔” وہ درشتی سے اس سے کہتے ہوئے واپس گیٹ کی طرف مڑ گیا۔
علیزہ نے اسی خاموشی کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اس کی پیروی کی۔ اس نے گیٹ کے اندر آکر اس سے کچھ نہیں کہا۔ تیز قدموں کے ساتھ وہ اندر جا رہا تھا۔علیزہ سر جھکائے اس کے پیچھے چلتی رہی۔
آگے پیچھے چلتے ہوئے جب وہ لاؤنج میں پہنچے تو نانو اور عمر ابھی بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ نانو کے چہرے پر تشویش تھی جبکہ عمر کے ہاتھ میں اس وقت پائن ایپل کا ایک ٹن تھا اور وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہوئے بڑے اطمینان سے کانٹے کے ساتھ پائن ایپل کے سلائس کھانے میں مصروف تھا۔ ان دونوں کو اندر آتے دیکھ کر اس نے ایک لمحے کے لئے نظر اٹھائی اور پھر ایک بار پھر پائن ایپل کھانے میں مصروف ہو گیا۔
علیزہ خاموشی کے ساتھ صوفہ پر جا کر بیٹھ گئی۔
”اب اس کے بعد اور کیا ہے آپ کے ذہن میں؟” عباس نے اس بار علیزہ کا نام نہیں لیا تھا مگر علیزہ جانتی تھی، یہ سوال اس سے ہی کیا گیا ہے۔
”مجھے اب بھی کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ یہ سب میری وجہ سے نہیں ہو رہا ۔”
عمر پائن ایپل کھاتے کھاتے رک گیا۔ عباس اوراس نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”اگر عمر گارڈ نہ ہٹاتا تو وہ لوگ یہاں کبھی حملہ نہ کرتے۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”کون لوگ؟” عباس نے تلخ اور تیز آواز میں اس سے کہا۔
”جو لوگ بھی یہاں آئے ہیں۔”
”کون لوگ آئے ہیں؟”
”مجھے نہیں پتا۔”
”کیوں نہیں پتا۔”
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟”
”تمہارے علاوہ اور کس کو پتا ہو سکتا ہے۔”
”آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے کہ یہاں کون آیا ہے۔”
”تم فون کرکے لوگوں کو یہاں بلواتی ہو اور پھر یہ کہتی ہو کہ تمہیں پتا نہیں ہے۔”
وہ عباس کا منہ دیکھنے لگی۔ ”میں لوگوں کو فون کرکے بلواتی ہوں؟”
”ہاں تم۔”
”میں نے کسی کو فون کرکے یہاں نہیں بلوایا۔”
”تم نے جسٹس نیاز کو فون کیا تھا۔”
اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ”آپ… آپ کا مطلب ہے کہ ان… ان لوگوں کو جسٹس نیاز نے بھجوایا تھا؟”
”اور کون ہو سکتا ہے۔”
وہ الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ ” یہ … یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس نیاز یہ کیسے کر سکتے ہیں؟”
”تم کس دنیا میں رہتی ہو۔ اپنی آنکھوں پر کون سے بلائنڈز لگا کر پھر رہی ہو۔”
وہ ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ عباس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”جسٹس نیاز… جسٹس نیاز مجھے… مجھے اغوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ… وہ یہ سب کریں گے… کیوں… یا اللہ۔” اس کا ذہن سوالوں کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔
”مجھے یقین نہیں ہے کہ جسٹس نیاز نے یہ سب کیا ہے۔”
عباس بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”فون پڑا ہوا ہے تمہارے سامنے … نمبر تم جانتی ہو، فون ملاؤ اور ان سے بات کر لو… اپنی خیریت کی اطلاع دو انہیں اور ساتھ یہ بھی بتا دو کہ ابھی تک تم یہیں ہو۔ وہ دوبارہ کسی کو بھیجیں۔”
علیزہ اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔
”تم عقل سے پیدل ہو۔”
”آپ مجھے اس لئے یہ سب کچھ کہہ رہے ہیں کیونکہ آپ خوفزدہ ہیں… یہ سب کچھ آپ دونوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ لوگ ان چاروں کوقتل نہ کرتے تو آج یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا۔” اس نے سر اٹھاکر عباس سے کہا۔
”ایکسکیوزمی میڈم…! کون خوفزدہ ہے اور کس سے… تم سے؟ … جسٹس نیاز سے… مائی فٹ۔” عباس اس بار بری طرح ہتھے سے اکھڑا تھا۔
”تم کیا سمجھتی ہو کہ میں بہت خوفزدہ ہوں کل سے۔” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہوا کہہ رہا تھا۔ ”مجھے اپنا کیرئیر تاریک نظر آرہا ہے؟”
علیزہ نے سر جھکالیا۔
”اپنی گردن میں پھانسی کا پھندہ نظر آرہا ہے؟”
وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی رہی۔
”تمہارے اس انکشاف کی وجہ سے میں نے کھانا پینا چھوڑدیا ہے؟ ” عباس کی آواز بہت بلند تھی۔
” جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی گفتگو نے میری نیند اور سکون حرام کر دیا ہے؟”
اس نے عباس کو کبھی اتنے اشتعال میں نہیں دیکھا تھا۔ انکل ایاز کی طرح وہ بھی ایک نرم خو شخص تھا مگر اس وقت وہ جس طرح بول رہا تھا۔
”تمہارا خیال ہے کہ کل میں سلاخوں کے پیچھے ہوں گا؟ ”
علیزہ نے سر جھکائے ہوئے کن اکھیوں سے عمر کو دیکھا۔ وہ عباس یا علیزہ کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ہاتھ میں پکڑے ہوئے کانٹے اور پائن ایپل کے ڈبے کے ساتھ مصرو ف تھا… ہر چیز سے بے پروا… ہر چیز سے بے نیاز… یوں جیسے وہاں بہت دوستانہ گفتگو ہو رہی تھی۔
”تم کون ہو علیزہ سکندر… اور جسٹس نیاز کون ہے۔”
علیزہ ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگی جواب لرز رہے تھے، وہ اس لرزش کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”جس خاندان سے تم اور میں تعلق رکھتے ہیں، اس خاندان کے کسی شخص کو کورٹ میں لے جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سورج کا مغرب سے نکلنا۔ تم نے کل فون پر مجھ سے جو بھی کچھ کہا۔ میں اس سب پر لعنت بھیجتا ہوں۔”
”تم میرے خلاف پرائم Witness (عینی گواہ) بننا چاہتی ہو ضرور بنو، لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دوں۔”
اس نے سر اٹھا کر عباس کو دیکھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!