امربیل — قسط نمبر ۱۱

”یہ کیا ہو رہا ہے؟” نانو بہت خوفزدہ لگ رہی تھیں۔
”مجھے نہیں معلوم نانو! یہ کیا ہو رہاہے؟”
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”ہاں میں ٹھیک ہوں۔ آپ ٹھیک ہیں؟”
”ہاں میں ابھی تمہارے پاس ہی آنا چاہ رہی تھی مگر اندھیرے میں رستہ۔۔۔” وہ خاصی سراسمیگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔ ”اور لائٹ… پتا نہیں لائٹ کیوں چلی گئی ہے؟”
”نانو! یہ فائرنگ کہاں ہو رہی ہے؟”
”پتا نہیں… مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے۔۔۔” اندھیرے میں نانو کی آواز ابھری۔
”ہمیں فون کرنا چاہئے۔ پولیس کو۔” علیزہ نے بے تابی سے کہا۔
”کیا آپ نے پولیس کو فون کیا ہے؟”
”نہیں… میں تو کچھ سمجھ ہی نہیں پا رہی… ابھی میں چند منٹ پہلے ہی اٹھی ہوں۔۔۔”
”پتا نہیں اصغر کہاں ہے؟” علیزہ نے چوکیدار کا نام لیا۔ ”میں لاؤنج میں جا کر اس سے انٹر کام پر فائرنگ کے بارے میں پوچھتی ہوں… ہو سکتا ہے یہ ہمارے گھر کے باہر نہ ہو رہی ہو۔” علیزہ نے کسی امید کے تحت کہا۔
”ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں، مجھے ٹارچ نکال لینے دو۔” نانو نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ فائرنگ ابھی بھی اسی طرح جا ری تھی، اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
نانو اب خاموش تھیں۔ وہ کمرے میں ٹارچ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
”نانو پلیز، جلدی کریں۔ اگر ٹارچ نہیں مل رہی تو رہنے دیں۔ کچن سے ٹارچ لے لیں گے یا پھر اسی طرح لاؤنج میں چلتے ہیں۔” علیزہ نے بے صبری سے کہا۔
”نہیں مل گئی ہے مجھے۔” نانو نے اسی وقت ٹارچ روشن کر دی۔ کمرے کی تاریکی یک دم ختم ہو گئی۔
وہ نانو کے ساتھ چلتے ہوئے لاؤنج میں آگئی۔ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر اس نے گیٹ پر چوکیدار کے کیبن میں اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔
”کیا ہوا؟” نانو نے بے تابی سے پوچھا۔
”میں یہ تو بھول ہی گئی تھی لائٹ نہیں ہے۔ انٹر کام کیسے کام کر سکتا ہے۔” علیزہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”کیا باہر نکل کر اسے دیکھیں۔”
وہ کہتے کہتے رک گئی۔” علیزہ بی بی! آپ باہر مت آئیے گا۔” پیچھے سے خانساماں کی آواز آئی تو وہ چونک کر مڑی۔
”کیوں؟”
”ہمارے گھر پر فائرنگ ہو رہی ہے۔”
”ہمارے گھر پر؟” اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
”ہاں، میں کچھ دیر پہلے باہر نکلا تھا مگر اصغر نے مجھے واپس بھجوا دیا۔” خانساماں نے چوکیدار کا نام لیا۔
”فائرنگ کون کر رہا ہے؟” علیزہ نے پوچھا۔
”یہ تو نہیں پتا… مگر اصغر کہہ رہا تھا کہ باہر کوئی گاڑی ہے اور کچھ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش بھی کی۔ وہ اندر آنا چاہ رہے تھے۔ کتوں کے بھونکنے پر اصغر نے انہیں دیکھ لیا اور وہ اندر نہیں آئے مگر اس کے بعد سے وہ مسلسل فائرنگ کر رہے ہیں۔ اصغر بھی ان پر جوابی فائرنگ کر رہا ہے۔ مگر وہ لوگ تعداد میں زیادہ ہیں اور ابھی تک گیٹ کے باہر موجود ہیں۔ا نہوں نے گیٹ پر بھی بری طرح فائرنگ کی ہے۔ ” وہ مرید بابا کی آواز میں لرزش محسوس کر سکتی تھی۔
”ہمارے گھرکے علاوہ ارد گرد کے تمام گھروں میں لائٹ موجود ہے۔ شاید انہوں نے بجلی کی سپلائی کاٹ دی ہے۔ اصغر خوفزدہ ہے کہ کہیں وہ اندر نہ آجائیں۔ اندھیرے میں وہ انہیں دیکھ نہیں سکے گا۔”
”مرید بابا! میں ابھی پولیس کو فون کرتی ہوں۔ آپ گھبرائیں مت، بس اپنے کوارٹر میں ہی رہیں۔”
علیزہ نے اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کی۔
”علیزہ،! یہ کیا ہو رہاہے؟” نانو بے حد خوفزدہ تھیں۔




”ہمیں پولیس کو فون کرنا چاہئے۔ ابھی پولیس آجائے گی، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
علیزہ نے انٹر کام بند کر دیا اور تیزی سے فون کی طرف بڑھی۔ ٹیلی فون کا ریسیور اٹھاتے ہی وہ ساکت ہو گئی۔
”کیا ہوا؟ … فون ملاؤ۔”
”نانو! فون ڈیڈ ہے، شاید کسی نے فون کی تار کاٹ دی ہے۔” اس نے کانپتے ہاتھ کے ساتھ ریسیور واپس رکھتے ہوئے کہا۔
”اور میرا موبائل بھی کام نہیں کر رہا، اس کا کارڈ ختم ہو چکا ہے۔”
”میرے خدا اب کیا ہو گا؟ اگر یہ لوگ اندر آگئے تو ؟” نانو اپنے قدموں پر کھڑی نہیں رہ سکیں۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئیں۔
”نہیں ، وہ اندر کیسے آئیں گے؟ پورا علاقہ جاگ چکا ہے… اتنی فائرنگ ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ دیر میں ساتھ والے گھروں کے چوکیدار بھی باہر نکل آئیں گے۔ پھر تو یہ لوگ بھاگ جائیں گے۔” علیزہ نے اپنے خشک ہوتے ہوئے حلق کے ساتھ کہا۔
”بے وقوفی کی باتیں مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا ”کون اپنے گھر سے اتنی بے تحاشا فائرنگ میں باہر نکلے گا؟ کوئی نہیں۔۔۔”
”مگر نانو! وہ لوگ پولیس کو ضرور اطلاع کر دیں گے، بلکہ ہو سکتا ہے اب تک وہ پولیس کو انفارم کر چکے ہوں۔ ابھی پولیس آنے والی ہی ہو گی۔”
علیزہ نے کہا۔ نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے خاموش رہیں۔
ٹارچ کی مدہم روشنی میں بے تحاشا فائرنگ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازوں میں ، وہ چند لمحے دم سادھے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔
”یہ سب عمر کی وجہ سے ہوا۔ اس نے پولیس گارڈ کیوں ہٹا لی ہے۔” نانو اچانک غصیلی آواز میں بولیں۔ ”شام کو پولیس گارڈ ہٹی اوراب ہم یہ سب بھگت رہے ہیں۔”
علیزہ کچھ نہیں بول سکی، وہ کچھ چور سی بن گئی۔ وہ انہیں بتا نہیں سکتی تھی کہ یہ سب کچھ خود اس کی وجہ سے…
نانو ایک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں۔ ” میں مرید سے بات کرتی ہوں۔ وہ کچھ کرے۔”
وہ ٹارچ پکڑے باہر کی طرف بڑھیں، علیزہ خاموشی سے انہیں جاتا دیکھتی رہی۔ نانو اب مرید بابا سے بات کر رہی تھیں۔
”تم کسی طرح کوارٹر سے باہر نکل کرساتھ والے گھر کی دیوار پھلانگ کر ان کے ہاں جانے کی کوشش کرو۔ انہیں ساری صورت حال بتاؤ۔”
علیزہ نے اچانک ان کے پاس آتے ہوئے ان کی بات کاٹی۔
”مگر نانو! مرید بابا کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اگر ساتھ والوں کے چوکیدار نے ان پر فائرنگ کر دی تو… اور وہاں بھی تو کتے موجود ہیں۔”
”تو پھر کیا کیا جائے۔ آخر کتنی دیر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جا سکتا ہے۔ ” نانو نے اسے جواب دیا
علیزہ ان کی گھبراہٹ اور پریشانی کا اندازہ کر سکتی تھی۔ وہ خود بھی ان ہی کیفیات سے دوچار تھی مگر وہ پھر بھی سوچ رہی تھی کہ چند منٹوں کے بعد پولیس کسی نہ کسی طرح وہاں آجائے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ چند دن پہلے ہونے والے واقعہ نے اگر ایک طرف اسے خوف اور سراسمیگی سے دوچار کیا تھا تو دوسری طرف وہ یہ بھی جان گئی تھی کہ اسے مضبوط پشت پناہی حاصل ہے اور ایسی کسی صورتِ حال میں وہ کسی عام شہری کی طرح غیر محفوظ نہیں تھی اس لئے پریشان ہونے کے باوجود وہ پچھلی بار کی طرح سراسمیگی کا شکار نہیں تھی۔
”پتا نہیں اور کیا کیا مصیبت ابھی باقی ہے۔” نانو نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی اور اب اچانک۔۔۔”
انہوں نے بات ادھوری چھوڑ دی اور سر پکڑے ہوئے صوفہ پر بیٹھ گئیں۔ علیزہ ان کی ادھوری بات بہت اچھی طرح سمجھ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کچھ اسی کی وجہ سے ہو رہا تھا اور پچھلے کچھ دنوں سے نانو کے لئے وہی کسی نہ کسی طرح پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
اسے اندازہ نہیں تھا کہ پولیس گارڈ ہٹائے جاتے ہی اس طرح کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس کا خیال تھا کہ عباس اور عمر ضرورت سے زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کر رہے تھے اور اس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی… مگر اس وقت وہاں بیٹھے، وہ دل ہی دل میں اعتراف کر رہی تھی کہ وہ بہت سے معاملات میں ضرورت سے زیادہ امیچیور تھی۔
اگر اسے معمولی سا شائبہ بھی ہوتا کہ اسے ایسی کسی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ تو وہ عمر کو کبھی پولیس گارڈ ہٹانے نہ دیتی۔ اگرچہ وہ جانتی تھی کہ پولیس گارڈ ہٹانے کی واحد وجہ اس کی اپنی ذات تھی۔ اگر وہ جسٹس نیاز کو فون نہ کرتی تو شاید سب کچھ پہلے ہی کی طرح رہتا۔ وہ اس قدر غیر محفوظ نہ ہوتی مگر ان تمام اعترافات کے باوجود وہ اس وقت وہاں پر بالکل بے بس بیٹھی ہوئی تھی۔
باہر ہونے والی فائرنگ یک دم بند ہو گئی۔ وہ دونوں چونک گئیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ابھی بھی پہلے کی طرح آرہی تھیں۔ مگر فائرنگ کی آواز بند ہو گئی تھی۔
”مجھے لگتا ہے وہ لوگ چلے گئے ہیں۔” علیزہ نے غیر معمولی پر امیدی سے کہا۔
”ہاں شاید ۔۔۔” نانو نے مدہم آواز میں کہا۔ وہ باہر کان لگائے بیٹھی تھیں۔
”میں مرید بابا سے بات کرتی ہوں۔ وہ باہر نکل کر دیکھیں کہ چوکیدار کہاں ہے۔ ” علیزہ نے باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ نانو خاموش رہیں۔
اسی وقت لاؤنج کے دروازے کے بیرونی جانب کچھ آہٹیں ابھریں، وہ دونوں یک دم چونک گئیں۔
”میرا خیال ہے مرید بابا اور چوکیدار آئے ہیں… وہ لوگ یقیناً بھاگ گئے ہیں۔” علیزہ نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ وہ بے اختیار لاؤنج کے دروازسے کی طرف گئی اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول دیتی۔ نانو نے اسے روک دیا۔
”دروازہ مت کھولو، پہلے تصدیق کر لو کہ باہر چوکیدار یا مرید ہی ہے۔”
نانو نے دبی آواز میں کہا۔ علیزہ رک گئی۔ دروازے سے کچھ فاصلے پر رک کر اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے کی دوسری جانب کچھ مدہم آوازیں ابھر رہی تھیں مگر ان میں سے کوئی آوز بھی شناسا نہیں تھی۔ پھر کسی نے دروازے کی ناب پر ہاتھ رکھ کر اسے گھمایا۔ علیزہ کے پورے جسم میں سنسناہٹ ہونے لگی۔ مرید بابا یا اصغر اگر دروازے کے دوسری طرف موجود ہوتے تو وہ کبھی اس طرح دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کرتے۔ وہ بلند آواز میں اجازت لیتے۔
اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے اس نے خوف کے عالم میں پلٹ کر نانو کو دیکھا۔ وہ بھی صوفے پر بالکل ساکت بیٹھی تھیں۔
”باہر کون ہے؟” علیزہ نے یک دم اپنی آواز کی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔ دروازے کے باہر یک دم خاموشی چھا گئی۔
”باہر کون ہے؟” اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہا اس بار بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ وہ یک دم بدک کر نانو کی طرف گئی۔
”اب کیا ہو گا نانو؟ وہ لوگ اندر آچکے ہیں… اور پتا نہیں… پتا نہیں انہوں نے چوکیدار اور مرید بابا کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟”
اس نے نانو کے قریب جا کر دبی ہوئی آواز میں کہا۔ نانو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
”پتا نہیں اب کیا ہو گا؟”
”اگریہ لوگ دروازہ کھول کر اندر آگئے تو؟”
”علیزہ ہمیں لاؤنج سے چلے جانا چاہئے۔” نانو نے دبی ہوئی آواز میں سرگوشی کی۔
”کہاں چلے جانے چاہئے؟”
”اندر… اندر کسی کمرے میں۔”
”نانو! وہ وہاں بھی آجائیں گے… ہم کہاں چھپیں گے… وہ ہمیں ڈھونڈ لیں گے۔” وہ اب روہانسی ہو رہی تھی۔
دروازے پر ایک بار پھر آوازیں گونج رہی تھیں۔ ناب کو ایک مرتبہ پھر گھمایا جا رہا تھا۔ پھر باہر سے ایک بھاری اور بلند مردانہ آواز میں کسی نے کہا۔
”ہم لوگ جانتے ہیں اندر صرف تم دونوں ہو… ہم صرف علیزہ کو یہاں سے لے جانے کے لئے آئے ہیں… اور اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے… بہتر ہے تم دونوں دروازہ کھول دو… ورنہ ہم دروازہ توڑ دیں گے۔”
درشتی اور کرختگی سے کہے گئے، ان جملوں نے اندر موجود دونوں عورتوں کے باقی ماندہ حواس بھی گم کر دیئے تھے۔
”میرا نام… یہ میرا نام کیسے جانتے ہیں؟ ” علیزہ نے خوف اور بے یقینی کے عالم میں کہا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!