امربیل — قسط نمبر ۱۱

”وہ جو چار لڑکے میں نے مارے ہیں نا ، وہ چاروں اگر خود بھی زندہ ہو جائیں اور کورٹ میں جا کر میرے خلاف بیان دیں تو بھی… مجھے سزا دلوانا تو دور کی بات، لاہور سے میرا ٹرانسفر تک کوئی نہیں کروا سکتا۔”
اس کی آواز اور انداز میں کھلا چیلنج تھا۔
”میں یہیں تھا۔ یہیں ہوں، یہیں رہوں گا۔”
اس کی آواز اب پہلے سے ہلکی اور پہلے سے زیادہ سرد تھی۔
”اگر جسٹس نیاز یا تم جیسے لوگوں کے کہنے پر پولیس کو سزائیں ملنے لگیں۔ تو پورے ملک کی پولیس تمہیں سلاخوں کے پیچھے نظر آئے گی۔”
علیزہ نے سر جھکا لیا۔
”تم نے کل خاصی لمبی چوڑی بات کی تھی مجھ سے … لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا اس سے۔
یہ سب کچھ میری نیندیں نہیں اڑا سکتا۔ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکالنے کے لئے تمہیں اس سے دس گناہ زیادہ بڑا سٹنٹ چاہئے۔” وہ جو کچھ کہہ رہا تھا وہ صرف بڑکیں نہیں تھیں۔ یہ وہ جانتی تھی عباس حیدر کو بڑکوں کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
”عباس بھائی! مجھے آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے… میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ ایک غلط کام۔۔۔”
عباس نے درشتی سے اس کی بات کاٹ دی۔




”مائنڈ یور اون بزنس۔ میرے پروفیشن کی اخلاقیات سکھانے کی کوشش مت کرو۔ میں اپنے پروفیشن کو تم سے بہتر سمجھتا ہوں۔ کیا صحیح ہے کیا غلط ، اس کی تعریف مجھے تم سے نہیں چاہئے۔”
وہ خاموش ہو گئی۔)”And don’t try to poke your nose into my affairs.” تمہیں میرے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔)
وہ اس کی کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
”دو ماہ کسی تھرڈ کلاس میگزین کے دفتر میں کام کرنے سے تم اس قابل نہیں ہو گئی ہو کہ دوسروں کو صحیح اور غلط کا فرق بتاتی پھرو۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔ ”تمہارے جیسے Self Employed reformers۔ ہمیں اور نہ ہی تمہیں ہیومن رائٹس کی چیمپئن بننے کی ضرورت ہے۔”
نانو نے اب تک ہونے والی گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ اگر مداخلت کرتیں بھی تو عباس انہیں بولنے کا موقع نہ دیتا۔ علیزہ کو اس کا اندازہ تھا۔
”چند منٹ اور اگر پولیس کو آنے میں دیر ہو جاتی تو وہ لوگ بیسمنٹ تک بھی پہنچ جاتے۔ اس کے بعد وہ کیا کرتے، تمہیں اس کا اندازہ ہے مائی ٹیلنٹڈ کزن؟” اس کے لہجے میں اب طنز تھا۔ ”تمہیں یہیں مار دیتے وہ یا پھر لے جاتے ساتھ… کہاں … یہ پھر کسی کو پتا نہ چلتا۔”
علیزہ کے ہونٹ لرزنے لگے۔” اپنے آپ کو کس طرح پھنسا لیا ہے تم نے… تمہیں اندازہ ہے؟” علیزہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
”تمہیں ان سب چیزوں سے بچانے کے لئے ان چاروں کو مارا تھا، لیکن تم نے خود ساری مصیبتوں کو دعوت دے دی ہے… اپنے ساتھ تم نے گرینی کی زندگی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔” وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”اب کیا کرو گی تم… بیٹھی رہو گی یہاں اندر… اسی تہہ خانے میں… کتنے دن رکھیں گے پولیس گارڈ باہر… اور کہاں کہاں پروٹیکشن دیں گے تمہیں… بڑا شوق ہے نا تمہیں ہیروئن بننے کا… لائم لائٹ میں آنے کا… تمہیں اندازہ ہے؟” اس کے آنسوؤں نے عباس پر کوئی اثر نہیں کیا۔
”جسٹس نیاز یا باقی تینوں کے گھر والے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے مگر تمہیں وہ نہیں چھوڑیں گے۔ آخر مارے تو وہ تمہاری وجہ سے ہی گئے تھے۔” اس کی آواز میں اب تلخی کے ساتھ بے رحمی بھی تھی۔
علیزہ نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔
”اپنے فیوچر کے بارے میں سوچا ہے، کیا ہو گا آگے؟”
اس کی آواز اب پہلے سے زیادہ مدہم تھی مگر آواز میں موجود تلخی کم نہیں ہوئی۔
”اخباروں میں تمہارا نام آئے گا… اور کس طرح آئے گا؟… لوگ سیلوٹ کریں گے تمہیں؟… یا تمہارے ہیرو ازم کو… یا پھر انگلیاں اٹھائیں گے تمہارے کریکٹر پر؟” وہ اب بھی اسی طرح بول رہا تھا۔ ”اور کون کھڑا ہو گا… تمہارے پیچھے… جسٹس نیاز … کب تک؟ … ٹشو پیپر کی طرح استعمال کریں گے وہ تمہیں… اس کے بعد… کیا کرو گی… تم؟”
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ، اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔ وہ عباس کی تمام باتیں سننے پر مجبور تھی۔
”اور فیملی کے لوگ کیا کہیں گے؟ اس کے بارے میں سوچا ہے ۔ جو بھی کیا گیا تمہارے لئے کیا گیا اوراگر تم دوسروں کو ڈبونے کی کوشش کرو گی تو تمہیں ڈبوتے ہوئے بھی کوئی تم سے اپنا رشتہ سوچے گا… نہ لحاظ کرے گا… اور جب تمہاری اپنی فیملی تمہارے خلاف ہو جائے گی تو تم کیا کرو گی؟ ” وہ تیکھے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”کیا اتنی بہادر ہو تم کہ اکیلے دنیا کا مقابلہ کر سکو… اور ایک دو دن کے لئے نہیں… ساری زندگی کے لئے۔”
وہ بے آواز رو رہی تھی۔
”جس معاشرے میں تم رہ رہی ہو… ا س کی Norms(اطوار) جانتی ہو… خاندان کی Discarded(ٹھکرائی ہوئی) عورت کا مقام جانتی ہو تم… تم کسی پہاڑ کی چوٹی پر ساری عمر کے لئے چلہ کاٹنے بھی بیٹھ جاؤ تو بھی تمہاری پاک بازی پر کوئی یقین نہیں کرے گا۔”
عباس کی باتوں میں وہی تلخی تھی جو عمر کی باتوں میں ہوا کرتی تھی۔ عمر کے لہجے میں اس کے لئے سرد مہری کے باوجود کبھی کبھار اپنائیت جھلکنے لگتی تھی… عباس کے لہجے میں ایسی کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ بہت ٹھوس لہجے میں بول رہا تھا۔
”اور تمہیں اگر کہیں یہ شائبہ ہے کہ میں کبھی اپنی اس حرکت پر پچھتاوا محسوس کروں گا یا مجھے اپنے فیصلے پر کوئی شرمندگی ہو گی… تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔”
وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”اگر دوبارہ وقت پیچھے چلا جائے تو میں ایک بار پھر وہی کروں گا جو میں نے کیا… میں ان چاروں کو پھر شوٹ کروا دوں گا… اوردس بار موقع ملنے پر بھی میں یہی کروں گا۔”
اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی تلخ تھا۔ ”یہ کوئی بے سوچا سمجھا فیصلہ نہیں تھا… طے شدہ تھا… میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور مجھے اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔” وہ اب اپنے صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میں نے ابھی تک پاپا کو تمہاری کل کی حرکت کے بارے میں نہیں بتایا۔ اب بتاؤں گا… باقی باتیں تم خود ان سے کر لینا۔” اس کی آواز کا اشتعال اب بہت کم ہو گیا تھا۔
”گرینی! آپ اپنی پیکنگ کر لیں۔ آپ ابھی میرے گھر شفت ہو رہی ہیں کیونکہ میں آپ کو یہاں نہیں چھوڑ سکتا… کم از کم تب تک جب تک سب کچھ ٹھیک نہیں ہوجاتا۔” وہ اب نانو سے مخاطب تھا۔
”اور علیزہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے۔ تم اپنی سیکورٹی کی خود ذمہ دار ہو… بہتر ہے تم خود جسٹس نیاز کے پاس چلی جاؤ۔ اس طرح کم از کم تمہاری زندگی محفوظ رہے گی… اور اگر تم یہاں ہی رہنا چاہتی ہو تو رہ سکتی ہو لیکن تمہارے لئے میں اب یہاں کوئی پولیس پروٹیکشن نہیں دے سکتا۔”
وہ بات کرتے کرتے اُٹھ گیا۔
”آئیے گرینی! آپ کے ساتھ آپ کی پیکنگ کرواؤں۔”
علیزہ اسی طرح سر جھکائے آنسو بہاتی رہی۔ چند منٹوں کے بعد اس نے نانو، عمر اور عباس کو لاؤنج سے نکلتے محسوس کیا۔
علیزہ نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹا لیے اور سر اوپر اٹھایا۔ چند لمحے کے لئے وہ ساکت ہو گئی۔ عمر وہیں تھا… سامنے صوفہ پر بیٹھے ہوئے… اس پر نظریں جمائے… اب اس کے ہاتھ میں پائن ایپل کا ٹن نہیں تھا۔ علیزہ نے ایک بار پھر سر جھکا لیا۔
عمر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آگیا۔ سینٹر ٹیبل کو کھینچ کر وہ اس کے بالمقابل لے آیا اور ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے اس نے علیزہ کی آنکھوں سے اس کے ہاتھ ہٹا دیئے۔ علیزہ نے برہمی سے اس کے ہاتھ پیچھے کرنے کی کوشش کی۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے عمر۔”
”میری وجہ سے؟”
”تم نے پولیس گارڈ ہٹائی تھی۔”
”وہ تمہاری خواہش تھی۔”
”تمہاری وجہ سے عباس نے میری انسلٹ کی ہے۔”
”اس نے تمہاری انسلٹ نہیں کی… تمہیں حقائق بتائے ہیں۔”
وہ جواب میں کچھ کہنے کی بجائے رونے لگی۔
”تم نے سوچا ہے، ابھی کچھ دیر کے بعد جب ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے تو کیا ہو گا؟… یہاں اکیلے رہ سکو گی… اور پھر جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو… یا اس کے نتائج پر غور کیا ہے تم نے، تم منظر سے ہٹ کیوں نہیں جاتیں؟”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکا۔” Why don’t you get out of every thing.
علیزہ نے سر اٹھا کر بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ” کیا یہ ممکن ہے؟… اب؟”
”کیوں نہیں؟”
”کیسے؟”
”یہ مجھ پر چھوڑ دو۔”
”لیکن کیسے؟”
”اپنا سامان پیک کرو اور عباس کے ساتھ چلی جاؤ… صبح وہ تمہیں اسلام آباد انکل ایاز کے پاس بھجوا دے گا۔ چند ماہ وہاں رہو… جب سب کچھ سیٹل ہو جائے تو واپس آجانا…It’s as simple as that…اس نے جیسے چٹکی بجاتے میں حل پیش کیا۔
”کیا عباس مجھے لے کر جائے گا؟”
”ہاں کیوں نہیں… وہ نہیں تو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔ تم اب بھی ہمارا حصہ ہو۔” اس نے جیسے علیزہ کو یقین دلایا۔
”مگر میں جو کچھ جسٹس نیاز کو بتا چکی ہوں… سب کچھ کل پریس میں آسکتا ہے… اور پھر۔۔۔”
”اس کو ہم ہینڈل کر لیں گے… وہ اب تمہارا درد سر نہیں ہے… تم بس خاموشی سے اسلام آباد میں رہنا۔ ” وہ پلکیں جھپکائے بغیر عمر کا چہرہ دیکھنے لگی۔
”میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا ہوں… تم فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہو، لیکن میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں… میں نہیں چاہتا کہ تمہاری زندگی برباد ہو جائے۔۔۔” وہ محتاط اور سنجیدہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”تمہیں کسی چیز کے لئے بھی گلٹی فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے… اگر تمہارے نزدیک کوئی غلط کام ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار میں اور عباس ہیں… پھر تم اپنی زندگی کیوں خراب کر رہی ہو۔” وہ چند لمحوں کے لئے رکا۔
”ابھی کسی کو کچھ بھی نہیں پتا… فیملی میں نانو، میرے اور عباس کے علاوہ اور کوئی بھی کچھ نہیں جانتا… اور ہم تینوں تمہاری اس حماقت کو بھلا سکتے ہیں… چند ماہ بعد تم اپنی زندگی دوبارہ یہیں سے شروع کر سکتی ہو۔”
اس کے بہتے ہوئے آنسو رک گئے۔ “Stay out of everything Aleeza! just stay out.” (دور چلی جاؤ علیزہ! اس سب سے دور چلی جاؤ)
وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے اور لفظوں کو سنتے ہوئے مکمل طور پر کنفیوژن کا شکار ہو چکی تھی۔ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے تھکے ہوئے انداز میں سر جھکا لیا۔
”ٹھیک ہے۔”
عمر کے چہرے پر پہلی بار ایک پر سکون مسکراہٹ ابھری۔
”تم جا کر اپنی چیزیں پیک کرو۔ میں عباس سے بات کرتا ہوں۔”
اس نے علیزہ کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئی۔
اپنے بیگ میں اپنے کپڑے اور دوسری چیزیں رکھتے ہوئے وہ بری طرح شکست خوردہ تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ جنگ کے میدان سے بھاگ جانے والا فوجی ہو۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!