امربیل — قسط نمبر ۱۱

”تمہیں ان چاروں سے اتنی ہمدردی جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”کیوں نہیں ہے… جب میں یہ جانتی ہوں کہ ان چاروں کو پولیس نے واقعی قتل کیا ہے۔ وہ کسی پولیس مقابلے میں انوالوڈ نہیں تھے تو پھر میں ان سے ہمدردی کیوں نہ جتاؤں… جب میں یہ بھی جانتی ہوں کہ وہ صرف میری وجہ سے اس طرح مارے گئے ہیں۔”
نانو یک دم اٹھ کر کھڑی ہو گئیں ” میں تم سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں۔ وہ تمہاری وجہ سے نہیں اپنی حرکتوں کی وجہ سے مارے گئے ہیں، ایسے لوگوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے… آج نہیں تو کل… تمہاری وجہ سے نہیں تو کسی اور کی وجہ سے مارے جاتے… مگر مارے ضرور جاتے۔”
وہ کہہ کر لاؤنج سے نکل گئیں، واضح طور پر وہ علیزہ کے ساتھ کسی مزید بحث سے بچنا چاہتی تھیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر انہیں کمرے سے نکلتے دیکھتی رہی۔
وہ نانو کے جانے کے بعدوہ بے بسی سے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کرے۔ اس کے کانوں میں بار بار اس رات عباس کی گفتگو گونجتی رہی اور یاد آنے والا ہر جملہ اس کے غم و غصہ میں اضافہ کرتا رہا۔




شہلا نے کچھ دیر بعد ایک بار پھر فون کیا تھا اور علیزہ نے دوسری طرف سے شہلا کی آواز سنتے ہی کہا۔
”شہلا! میں ابھی تم سے بات نہیں کر سکتی… تم تھوڑی دیر کے بعد مجھے رنگ کرنا۔”
شہلا کچھ حیران ہوئی ”تم ٹھیک تو ہو؟”
”نہیں۔ میں ٹھیک نہیں ہوں… میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں۔ اسی لئے تو تم سے بات نہیں کر سکتی۔” اس نے فون کا ریسیور پٹخ دیا۔ وہ خود نہیں سمجھ سکی تھی کہ اسے شہلا پر اتنا غصہ کیوں آیا تھا۔
وہ کچھ دیر اسی طرح اپنے اگلے اقدام کے بارے میں سوچتی رہی پھر اس نے ایک بار پھر عباس کو فون کیا۔ آپریٹر نے پہلے والا جواب دوبارہ دہرایا۔
”وہ میٹنگ میں ہیں۔”
”کب فارغ ہوں گے؟”
”اس کے بارے میں پتا نہیں ، آپ میسج چھوڑ دیں۔”
علیزہ نے کوئی پیغام چھوڑنے کے بجائے فون بند کر دیا اور عباس کے موبائل پر کال کرنے لگی۔ موبائل آف تھا۔ اس نے عمر کے موبائل پر نمبرملایا، عمر کا موبائل بھی آف تھا۔ اس کی بے چینی بڑھنے لگی۔ عمر آخر اس وقت کہاں تھا؟ وہ جاننا چاہتی تھی، پچھلی دوپہر عباس کے ساتھ تھا۔ یہ وہ جانتی تھی اورکیوں تھا؟ اب وہ اندازہ کر سکتی تھی۔
”وہ یقیناً عباس کے ساتھ اس سارے معاملے کے بارے میں بات کر رہا ہو گا، میری طرح اسے بھی شاک لگا ہو گا اور وہ شاید کل ہی یہ سب کچھ جان گیا تھا۔ اسی لئے وہ واپس جانے کے بجائے لاہور میں ٹھہر گیا تھا۔ اس نے یقیناً عباس سے اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہو گا۔ اسے بتایا ہو گا کہ اس نے کتنا غلط کام کیا ہے۔ وہ ضرور اس سارے معاملے کے بارے میں کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھائے گا۔ کم ازکم اس بار وہ عباس کو بچنے نہیں دے گا… اس طرح جس طرح انکل ایاز شہباز کو قتل کروانے کے بعد بچ گئے۔ اس بار تو عمر کے پاس ہر ثبوت موجود ہے۔ میں گواہی دوں گی۔ پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انکل ایاز کے بیٹے کو سزا نہ ملے۔” وہ لاؤنج میں بیٹھی سوچ رہی تھی۔
”مگر عمر… عمر کہاں ہے؟… اسے موبائل تو آف نہیں کرنا چاہئے تھا… مجھے فون کرنا چاہئے تھا اسے… مجھ سے بات کرنی چاہئے۔ یہ تو وہ جان ہی گیا ہو گا کہ نیوز پیپرز کے ذریعے ہر چیز مجھے پتا چل گئی ہے… اسے احساس ہونا چاہئے تھا کہ میں اسے کال کر سکتی ہوں۔”
وہ بری طرح جھنجھلا رہی تھی، جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا۔
٭٭٭
”جسٹس نیاز بہت غصے میں تھے اور ان کا غصہ بجا ہے۔” چیف جسٹس ثاقب شاہ اس وقت فون پر چیف منسٹر سے فون پر بات کر رہے تھے۔
”اگر کسی کے بیٹے کو گھر سے اس طرح اٹھا کر مار دیا جائے گا اور وہ بھی ہائی کورٹ کے ایک جج کے بیٹے کو… تو پھر ایک عام شہری کے ساتھ آپ کی یہ پولیس کیا کرتی ہو گی؟” چیف منسٹر نے ان کے لہجے کی تلخی محسوس کی۔
”شاہ صاحب! میں اس واقعے پر کس قدر شرمندہ ہوں۔ میں بتا نہیں سکتا۔ ” ثاقب شاہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”خالی شرمندگی سے تو کچھ نہیں ہو گا۔”
”میں نے انکوائری شروع کروا دی ہے۔ جیسے ہی۔۔۔” ثاقب شاہ نے ایک بار پھر ان کی بات کاٹی۔
”کیسی انکوائری؟… پولیس نے اس کو مارا ہے اور آپ پولیس کے ہاتھوں ہی انکوائری کروا رہے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ پولیس سچ سامنے لے آئے گی؟”
”ٹھیک ہے پولیس کے بجائے کسی جج سے کروا لیتے ہیں ؟ آپ نام تجویز کر دیں۔میں آرڈر ایشو کر دیتا ہوں۔” چیف منسٹر نے فوراً تجویز پیش کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کمیشن پہ کمیشن بٹھائے جائیں، مگر عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے۔”اس بار ثاقب شاہ کی آواز پہلے سے زیادہ بلند تھی۔
”شاہ صاحب! آپ غصہ نہ کریں… آپ بتائیں کہ میں کیا کروں… کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟” چیف منسٹر نے اپنی آواز قدرے مدہم کرتے ہوئے کہا۔
”جسٹس نیا زکا مطالبہ کیوں نہیں مانتے آپ؟”
”کون سا مطالبہ؟”
”عباس حیدر کی معطلی کا۔”
”انہوں نے مجھ سے تو ایسی کوئی بات نہیں کی، بلکہ میرا تو وہ فون اٹینڈ کر رہے ہیں نہ ہی مجھے اپنے گھر آنے کی اجازت دے رہے ہیں، میرا پی۔اے دو گھنٹے لگا تار ان کی منت سماجت کرتا رہا ہے کہ وہ میرا فون اٹینڈ کر لیں یا پھر مجھے اپنی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع دیں۔ مجھے بھی افسوس ہے ان کے بچے کی موت کا… اور میں چاہتا تھا کہ خود ان کی فیملی سے ملاقات کروں… ان کے گھر جاؤں… مگر انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ چیف منسٹر کو میرے گھر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ آئے گا تو گیٹ کے باہر کھڑا رہے گا ۔ میں اس کی شکل تک نہیں دیکھوں گا۔ آپ خود سوچیں کہ یہ کوئی طریقہ ہے ایک صوبے کے چیف منسٹر کے بارے میں بات کرنے کا۔” چیف منسٹر نے پہلی بار قدرے بلند آواز میں جسٹس نیاز کے رویے کی شکایت کی۔
”غصے میں انسان بہت کچھ کہہ جاتا ہے… آپ یہ بھی تو دیکھیں کہ ان کا جوان بیٹا مار دیا ہے آپ کی پولیس نے۔” ثاقب شاہ نے فوراً جسٹس نیاز کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے… مانتا ہوں… وہ غصہ میں ہیں، مگر یہ سب کچھ انہیں پریس کے سامنے تو نہیں کہنا چاہئے تھا۔ چار اخباروں نے آج اسی خبر کو انہی کے الفاظ کے ساتھ فرنٹ پیج پر ہیڈ لائن بنا دیا ہے۔ جسٹس نیاز کا چیف منسٹر سے ملنے سے انکار… آپ خود سوچیں انتظامیہ پر کیا اثر ہو گا اس ہیڈ لائن کا۔۔۔”
ثاقب شاہ نے اس کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”جسٹس نیاز نے آپ سے ملنے سے تب انکار کیا تھا۔ جب آئی جی نے عباس حیدر کو معطل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ نہ صرف اس سے انکار کیا بلکہ اسے بے گناہ بھی قرار دیا۔ میرے کہنے پر بھی آئی جی اپنی بات پر اڑا رہا… اس نے کہا کہ امتنان صدیقی نے اسے جو رپورٹ دی ہے ، اس کے مطابق تو عباس حیدر نے ایک کارنامہ کیا ہے… بروقت کارروائی سے اس نے ایک پورے خاندان کی جان بچائی ہے۔ جب میں نے کارروائی پر اصرار کیا۔ تو آئی جی نے کہا کہ چیف سیکریٹری سے بات کرلیں یا چیف منسٹر سے اگر اوپر سے آرڈرز آجائیں تو میں عباس کو معطل کر دوں گا۔” ثاقب شاہ اب غصے میں بول رہے تھے۔
”اور چیف سیکریٹری دو گھنٹے پہلے سروسز ہاسپٹل کے کارڈیک یونٹ میں داخل ہو گیا ہے۔ اس کے پی اے کے مطابق اسے دل کی تکلیف شروع ہو گئی ہے اور اس نے دو ہفتے کی میڈیکل لیو مانگ لی ہے۔ ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق… دو ہفتے کے بعد جب سارا معاملہ ختم ہو جائے گا تو وہ فوراً صحت یاب ہو کر سروسز سے باہر آجائے گا اور آپ سے بات کر رہا ہوں تو آپ کہہ رہے ہیں کہ جسٹس نیاز نے ایسا کوئی مطالبہ کیا ہی نہیں۔”
”شاہ صاحب… جسٹس نیاز صاحب کا مطالبہ مجھ تک پہنچا تھا۔ آئی جی نے بتایا تھا مجھے… لیکن تحقیق کے بغیر میں ایک سینئر پولیس آفیسر کو کیسے معطل کر سکتا ہوں؟ آئی جی نے تو مجھ پر اپنی ناراضی ظاہر کی تھی جس طرح آپ نے اورجسٹس نیازنے ان سے بات کی… انہوں نے کہا تھا کہ آپ پولیس کے کام میں دخل اندازی کر رہے ہیں، شکایت کی جاتی ہے کہ لااینڈ آرڈر ٹھیک کیا جائے جب ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر اوپر سے اس طرح کا پریشر پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کو ان کی بات پر اور غصہ آیا۔
”آئی جی کے بیان کی آپ کے نزدیک ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس سے زیادہ اہمیت ہے؟”
”ایسی بات نہیں۔۔۔” ثاقب شاہ نے ان کی بات نہیں سنی۔
”جسٹس نیاز کے معصوم بیٹے کو اس کے گھر سے اٹھا کر قتل کرنے کے بعد آپ کی پولیس کہتی ہے کہ وہ لا اینڈ آرڈر ٹھیک کر رہی ہے… ہائی کورٹ کے جج کے بیٹے کو مارنے سے لا اینڈ آرڈر ٹھیک ہو جائے گا؟” چیف منسٹر مشکل میں پھنس گئے۔
”آپ میری بات نہیں سمجھے شاہ صاحب! میں تو آئی جی کا بیان دہرا رہا تھا آپ کے سامنے، میں نے تو نہیں کہا کہ ان ہی کا بیان ٹھیک ہے، ہو سکتا ہے ان کے پاس بھی صحیح معلومات نہ ہوں۔”
”آئی جی کے پاس صحیح معلومات نہ پہنچیں… یہ ممکن نہیں ہے تو وہ کیسے ایک صوبہ سنبھالے گا… پھر تو اس کو بھی اتارنا چاہئے۔ اس سے بہتر شخص لے کر آئیں اس پوسٹ پر۔”
”میں آپ کے غصے کو سمجھ سکتا ہوں۔”
”نہیں، آپ میرے غصے کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ آپ اپنی انتظامیہ کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ میرا غصہ کسی فرد کا غصہ نہیں ہے۔ سارے ججز ناراض ہیں… آج جسٹس کے بیٹے کو مارا ہے۔ کل میرے بیٹے کو اٹھا کرلے جائیں گے آپ لوگ۔”
”ابھی تو چوبیس گھنٹے ہی گزرے ہیں اس واقعہ کو… اتنی جلدی نتائج اخذ مت کریں۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوکا۔
”آپ عباس کو معطل کر دیں۔ میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔”
”میں اسے معطل نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے اپنی بے بسی کا پہلی بار اظہار کیا۔
”کیوں ؟….اس لئے کہ وہ ہوم سیکرٹری کا بیٹا ہے؟”
”بات صرف ایک ہوم سیکریٹری کی نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر بیورو کریسی کا ایک پورا حصہ ہے اس کے ساتھ۔ عباس کی بہن کور کمانڈر کے بیٹے کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے… عباس کی بیوی کا چچا وفاقی حکومت میں وزیر ہے… وہ کوئی عام سول سرونٹ تو ہے نہیں جسے میں اٹھا کر باہر پھینک دوں۔ آپ میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔”
”آپ بھی میری پوزیشن سمجھنے کی کوشش کریں۔ چیف جسٹس کے طور پر اپنے ماتحت کام کرنے والے ججز کے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی پر ایکشن لینا میرا فرض بنتا ہے۔ ” ثاقب شاہ کی آواز کچھ دھیمی پڑ گئی۔
”جسٹس نیاز نے باقاعدہ مجھ سے شکایت کی ہے… بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی خود فون کرکے مجھ سے اسی سلسلے میں بات کی ہے۔”
”میں سمجھتا ہوں سب کچھ… شاہ صاحب آپ جسٹس نیاز کو تھوڑا سمجھائیں، عباس کے خلاف انکوائری کروا دیتے ہیں مگر معطل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باپ نے بات کی ہے مجھ سے… کل وہ لاہور آرہا ہے تو اس سے آمنے سامنے بات ہو گی… میں ان کانسٹیبلز اور انسپکٹرز کو معطل کر دیتا ہوں جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا تھا… پھر اگر انکوائری میں عباس کے خلاف کوئی ثبوت مل گئے تو ایکشن لینے کا کوئی جواز تو ہو گا پاس… ابھی اگر اس کو معطل کر بھی دیتے ہیں… اور بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہوا تو میری وزارت اعلیٰ چلی جائے گی۔ اس لئے میں اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتا۔ آپ جسٹس نیاز کو سمجھائیں، ان سے بات کریں… بلکہ وہ کل میرے گھر آجائیں، ان سے وہاں ایاز حیدر اور عباس کی بھی ملاقات کروا دوں گا… آمنے سامنے بات ہو تو زیادہ بہتر ہے۔”
ثاقب شاہ خاموشی سے ان کی بات سنتے رہے۔
”میں جسٹس نیاز تک آپ کا پیغام پہنچا دوں گا… جہاں تک سمجھانے کا تعلق ہے تو یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ آپ اس سلسلے میں خود ان سے بات کریں۔”
”آپ نے انکوائری کے لئے کسی کا نام تجویز نہیں کیا؟” چیف منسٹر نے انہیں یاد دلایا۔
”میں پہلے جسٹس نیاز سے بات کرلوں، اس کے بعد ہی اس سلسلے میں آپ کو کوئی نام دے سکوں گا… اگر انہوں نے آپ کی پیش کش مان لی تو ٹھیک ہے ورنہ پھر میں کسی کا نام تجویز نہیں کروں گا۔”
چیف جسٹس نے صاف لفظوں میں کہا اور پھر اختتامی کلمات کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!