امربیل — قسط نمبر ۱۱

”آپ نے خود سجیلہ آنٹی سے کہا تھا کہ آپ کمپنی کے بغیر بھی آرام سے ہیں۔” اس نے کچھ پہلے کہا جانے والا علیزہ کا جملہ دہرایا۔ وہ اسے دیکھتی رہ گئی۔ اسے کیا کہنا چاہئے، فوری طور پر کچھ بھی اس کے دماغ میں نہیں آیا۔
وہ اب اپنا کھانا تقریباً ختم کر رہا تھا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ اب اسے افسوس ہو رہا تھا کہ وہ جنید کی پیش کش قبول کرکے وہاں سے چلی کیوں نہیں گئی۔ آخر اسے وضاحت کی ضرورت ہی کیا تھی۔
”آپ کچھ پریشان ہیں؟” علیزہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
”نہیں کیوں؟ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟” وہ نروس ہو گئی۔ ”آپ کا چہرہ آپ کے اندر کی کیفیت کا آئینہ ہے۔ آپ مجھے پریشان لگی ہیں تو میں نے کہا ہے۔”
جنید نے نرمی سے کہا وہ اب نیپکن سے اپنا منہ پونچھ رہا تھا۔ ”Tell tale quality” عمر کے بعد وہ دوسرا شخص تھا جس نے اس سے یہ بات کہی تھی۔
”کیا میرا چہرہ واقعی ایک آئینہ بنتا جا رہا ہے کہ میں اپنی کسی ذہنی کیفیت کو چھپا نہیں پاتی۔” وہ دل ہی دل میں پریشان ہوئی۔
کھانا ختم کرنے کے بعد جنید وہاں رکا نہیں چلا گیا لیکن وہ کافی دیر تک وہیں بیٹھی اس کے جملے پر غور کرتی رہی، اور اب وہ ایک بار پھر اس کے سامنے تھا۔
٭٭٭
ایاز حیدر اور عباس کے باہر نکلتے ہی جسٹس نیاز نے مشتعل انداز اور تند لہجے میں چیف منسٹر سے کہا۔ ”دیکھا آپ نے اس شخص اور اس کے بیٹے کا لب و لہجہ؟”
چیف منسٹر نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر جسٹس نیاز نے ان کی بات نہیں سنی۔
”اور آپ نے مجھے اس شخص کے ساتھ سیٹل منٹ کے لئے بلایا تھا۔۔۔”
”نیاز صاحب! آپ … ”جسٹس نیاز نے ایک بار پھر ان کی بات کو مکمل طورپر نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس شخص نے مجھ پر من گھڑت الزامات کی بھرمار کر دی… مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں یہ دونوں باپ بیٹا۔” اس بار چیف منسٹر بالآخر اپنی بات کہنے میں کامیاب ہو گئے۔




”نیاز صاحب! آپ نے ان کی بات نہیں سنی۔ کم از کم میری بات تو سنیں… مجھے تو کچھ کہنے کا موقع دیں۔” چیف منسٹر کے لہجے میں تلخی اور ترشی نمایاں تھی۔ جسٹس نیاز ہونٹ بھنچتے ہوئے انہیں دیکھنے لگا۔
”میں اگر یہ چاہتا ہوں کہ آپ دونوں کی سیٹل منٹ ہو جائے تو یہ میں آپ کے لئے کر رہا ہو… ایاز حیدر کے لئے نہیں۔” چیف منسٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی فیملی اور خود آپ کا نام کتنا خراب ہو جائے گا۔ آپ کا کیرئیر داؤ پر لگ جائے گا۔”
”آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا آپ کو بھی اس شخص کی بکواس پر یقین آگیا ہے کہ میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے بے اختیار مشتعل ہو کر کہا۔
”نیاز صاحب ! بات یقین کی نہیں ہے۔ بات ان ثبوت اور حقائق کی ہے جو میرے سامنے ہیں… آپ کے بیٹے نے واقعی ایسی حرکت کی تھی۔” چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی بات کاٹتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرے بیٹے نے… ” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر اپنا مؤقف دہرانے کی کوشش کی، مگر چیف منسٹر نے ان کی بات ایک بار پھر کاٹ دی۔
”ٹھیک ہے مان لیتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بے قصور تھا، اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ نے اس کی بھانجی کو اغوا کرنے کی کوشش کی نہ ہی اس کے گھر پر حملہ کروایا… تو پھر اس سب سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”اس معاملہ کو طے تو آپ کو پھر بھی کرنا پڑے گا… ایاز حیدر کے ساتھ آپ جھگڑا جتنا بڑھائیں گے۔ آپ کو اتنا ہی نقصان پہنچے گا… آپ اس کی دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے۔” چیف منسٹر نے آہستہ آہستہ ان کے سامنے حقائق رکھنا شروع کر دیئے۔
”کیوں نہیں افورڈ کر سکتا… کیس کروں گا میں۔ ”
”بچوں جیسی باتیں نہ کریں نیاز صاحب! آپ خود جج ہیں… اس ملک میں قانون اور انصاف کے نظام کو کوئی آپ سے بہتر نہیں سمجھ سکتا۔” چیف منسٹر نے انہیں ٹوک دیا۔
”کتنے سال بھاگیں گے آپ، اس کیس کے پیچھے اور عدالت ثبوت مانگتی ہے… یہ دونوں کہاں سے لائیں گے؟”
”اگر مجھے اصلی گواہ اور ثبوت نہ ملے تو میں بھی جھوٹے گواہ اور ثبوت لے آؤں گا… آپ نے خود ہی کہا ہے میں جج ہوں… عدالت کے نظام کو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔”جسٹس نیاز نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ٹھیک ہے۔ آپ یہ کر لیں گے مگر یہ ثبوت اور گواہ استعمال کس کے خلاف کریں گے… ایاز حیدر ایک واحد شخص نہیں ہے ایک پورے گروپ کا نمائندہ ہے… مجھ پر پہلے ہی کہاں کہاں سے پریشر پڑ رہا ہے، آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ میں ان لوگوں کو Resist (مزاحمت) نہیں کر سکتا۔” چیف منسٹر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”مجھے ابھی اپنی معیاد پوری کرنی ہے اور میں اپنے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرنا نہیں چاہتا۔ آپ ایاز حیدر کو اچھی طرح جانتے ہیں وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کا ماہر ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ اگلے الیکشنز میں پریس میرے خلاف کوئی الزامات لگائے اور مجھے اور میری پارٹی کو نقصان پہنچے۔ ہم نے ان لوگوں کے ذریعے اگر اپنے غلط اور ناجائز کام کروائے ہیں تو پھر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ وہ آنکھیں اور منہ صرف اسی وقت تک بند رکھتے ہیں، جب تک ہم ان کی دم پر پیر نہ رکھیں۔”
”مجھے افسوس ہو رہا ہے، یہ دیکھ کر آپ اس حد تک ایاز حیدر سے خوفزدہ ہیں… مگر میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوں… اگر اس کے پاس ایک پریشر گروپ ہے تو میرے پاس بھی پولیٹیکل سپورٹ ہے، میں اسے اس کے خلاف استعمال کروں گا۔”
”میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں، صرف سمجھداری سے کام لے رہا ہوں۔ اسی سمجھداری سے جس کا مظاہرہ قاسم درانی نے کیا ہے۔اگر آپ کے پاس پولیٹیکل سپورٹ ہے تو اس کے پاس بھی ایک پریشر گروپ ہے، مگر وہ بھی چار دن اخبارات میں بیانات دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکا۔”
”میں قاسم کی طرح بزدل نہیں ہوں۔” جسٹس نیاز اب بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے۔
”بزدلی اور سمجھداری میں فرق ہوتا ہے۔ قاسم نے بزدلی کا نہیں سمجھداری کا ثبوت دیا۔ بیٹا تو اس کا چلا گیا وہ تو آنہیں سکتا، چاہے وہ کچھ بھی کر لے ۔ مگر انکم ٹیکس کی فائلز کھلوا کر وہ اپنا بزنس کیوں تباہ کروائے… باقی دونوں فیمیلیز نے بھی آپ سے معذرت کر لی ہے کہ انہوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے اور وہ اس کیس کی پیروی کرنا نہیں چاہتے… یقیناً یہ بھی انہوں نے بغیر سوچے سمجھے تو نہیں کیا ہو گا… کچھ نہ کچھ تو سوچا ہی ہو گا انہوں نے۔” چیف منسٹر اب بے دھڑک انہیں سب کچھ بتاتے جا رہے تھے۔
”میں چاہتا ہوں آپ بھی ایسی ہی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں پریس میں شائع ہونے والی خبروں سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو ہی گیا ہو گا کہ ایاز حیدر کس حد تک جا سکتا ہے… اب جب وہ آپ کے بیٹے کے بارے میں یہ سارا مواد پریس کو دے دے گا تو پریس کیا شور مچائے گا۔ آپ کو اس کا اندازہ ہونا چاہئے۔”
جسٹس نیاز چیف منسٹر کا منہ دیکھتے رہے۔
”ابھی تو اسے اپنی فیملی کی عزت اور ساکھ کا احساس ہے اس لئے وہ اصل تفصیلات نہیں بتا رہا اخبارات تک نہیں پہنچا رہا، اگر اس نے ایسا کر دیا تو آپ کو اپنے بیٹے، اس کے کردار اور اس کی حرکات کے حوالے سے کتنے سوالات کے جوابات دینا پڑیں گے، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔”
”ایاز حیدر آپ کے ساتھ واقعی اچھی ڈیل کرنا چاہتا ہے… اگر آپ اس کے بیٹے اور بھتیجے کے خلاف انکوائری پر اصرار نہ کریں اور اس کیس کو ختم کر دیں تو وہ سپریم کورٹ کا جج بنوانے کے لئے آپ کے لئے لابنگ کرے گا اور اسے حکومت اور عدلیہ کے حلقوں میں جتنا اثر و رسوخ حاصل ہے، یہ کام اس کے لئے بالکل مشکل نہیں ہو گا۔”
”میں اپنے بیٹے کے قتل کا سودا کر لوں… آپ یہ چاہتے ہیں؟” جسٹس نیاز نے ایک بار پھر تلخ لہجے میں کہا، مگر اس بار ان کی آواز پہلے کی طرح بلند نہیں تھی۔
”میں آپ کو مجبور نہیں کرتا… آپ اپنے آپشنزکو دیکھ لیں… اگر کوئی اور بہتر صورت حال نظر آتی ہے تو وہ اختیار کر لیں۔ مگر میرے خیال میں اس سے بہتر موقع آپ کے پاس نہیں ہے… آپ اپنے بیٹے کے لئے اپنا کیریئر تو داؤ پر نہیں لگا سکتے؟”
جسٹس نیاز اس بار ان کی بات کے جواب میں خاموش رہے۔ چیف منسٹر کو ان کے تاثرات سے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنا اعتماد کھو رہے ہیں۔ شاید وہ اب پہلی بار اپنے عمل کے نتائج پر غور کر رہے تھے۔ جو چیف منسٹر نے ان کے سامنے رکھے تھے۔
”ایاز حیدر اور اس کی قبیل کے لوگوں کو ہر پنجرے سے نکلنا آتا ہے۔ مگر آپ اور میں اتنی چابیاں نہیں بدل سکتے، بہتر ہے ایک با عزت سیٹلمنٹ کے ساتھ اس معاملہ کو ختم کر دیا جائے۔ ” چیف منسٹر کا لہجہ اور مستحکم ہو تا جا رہا ہے۔
”کون سی سیٹلمنٹ ؟ میری خاموشی کے عوض صرف سپریم کورٹ کی ایک سیٹ؟” جسٹس نیاز نے کچھ سوچتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تو آپ کیا چاہتے ہیں؟… سپریم کورٹ کا جج بننا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔”
”میرے لئے معمولی ہی ہے۔ میں جو کچھ گنوا کر یہ عہدہ حاصل کر رہا ہوں… وہ ایسے بہت سے عہدوں سے بڑھ کر ہے۔
مجھے ایاز حیدر سے کچھ نہیں چاہئے… مگر مجھے آپ سے یہ گارنٹی چاہئے کہ مجھے واقعی سپریم کورٹ میں سیٹ مل جائے گی… میں اس سلسلے میں واضح یقین دہانی چاہتا ہوں۔”
”آپ کو میں زبان دیتا ہوں… مجھ پر بھروسا ہونا چاہئے …آپ کو… آپ کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ ہر صورت میں پورا کیا جائے۔” چیف منسٹر نے انہیں یقین دلایا۔
”یہ تو وقت بتائے گا۔” جسٹس نیاز نے ایک طویل سانس لی۔ ان کے پورے وجود سے اب شکست خوردگی عیاں تھی۔
٭٭٭
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ آپ میوزک کو اتنا ناپسند کرتی ہوں گی۔” وہ اب اس کے قریب آتے ہوئے بڑے خوشگوار لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آپ کا اندازہ ٹھیک نہیں ہے میں میوزک کو قطعاً ناپسند نہیں کرتی۔” علیزہ نے اس کے تبصرے پر مسکرا کر کہا۔
”پھر اس وقت یہاں آپ کی موجودگی کیا ظاہر کر رہی ہے؟” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا ہو گیا۔
”میں کچھ دیر خاموشی میں بیٹھنا چاہتی تھی۔ اس لئے باہر نکل آئی۔ ” اس نے وضاحت کی۔
”پھر تو شاید میں نے آپ کو ڈسٹرب کیا؟” اس کا لہجہ اس بار معذرت خواہانہ تھا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔”
”میں بیٹھ سکتا ہوں یہاں؟”
وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے پھر اس خاموشی کو ایک بار پھر جنید نے ہی توڑا۔
”آپ کو خاموش رہنا اچھا لگتا ہے؟” وہ اس کے سوال پر کچھ حیران ہوئی۔
”پتا نہیں۔۔۔”
”مجھے اچھا لگتا ہے۔”
”خاموش رہنا؟”
”ہاں۔”
”دوسروں کا؟” علیزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”نہیں بھئی اپنا۔”
علیزہ نے غور سے اسے دیکھا۔ ”مگرآپ خاموش تو نہیں رہتے۔”
جنید یک دم کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ”آپ کو لگتا ہے کہ میں بہت باتیں کرتا ہوں؟” وہ جیسے اس کے تبصرے پر پوری طرح محظوظ ہوا تھا۔
”بہت نہیں مگر باتیں تو کرتے ہیں۔”
اس نے کہا۔ ”مجبوری ہے۔ تھوڑا بہت تو بولنا پڑے گا مجھے، بالکل خاموش رہ کر تو کام نہیں چلے گا۔”
علیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا، وہ صرف مسکرائی۔
”یہاں پہلے کبھی آئی ہیں؟”
”ہاں چند بار۔”
”کیسی لگی یہ جگہ؟”
”اچھی ہے۔”
”صرف اچھی؟” وہ حیران ہوا۔
”آپ کے پاس کوئی Superlatives (بہترین اصطلاح) نہیں ہیں اس جگہ کے لئے؟”
علیزہ نے کندھے اچکائے۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!