امربیل — قسط نمبر ۱۱

”آپ جا رہے ہیں؟”
”ہاں۔۔۔” عمر نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ کرسٹی کو اس نے دوسرے بازو میں پکڑا ہوا تھا۔
”’کھانے کے لئے نہیں رکیں گے؟” علیزہ نے اس کے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے مایوسی سے کہا۔ ”نہیں۔۔۔”
علیزہ نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔
اس کا خیال تھا وہ اس سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا مگر ایسا نہیں تھا۔ عمر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔
”اٹھ جاؤ علیزہ۔۔۔” وہ نرم آواز میں کہہ رہا تھا۔ علیزہ اس کے ہاتھ کو پکڑ کر کھڑی ہو گئی۔
”ناراضی ختم ہو گئی تمہاری؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ناراض نہیں ہوں، آپ ناراض ہیں۔”
”واک آؤٹ تو تم نے کیا تھا۔”
”آپ بھی تو کر رہے ہیں۔” وہ اس بار اس کی بات پر مسکرایا۔
”ہاں میں بھی کر رہا ہوں مگر یہ احتجاجاً نہیں ہے اور جہاں تک تم سے خفگی کا تعلق ہے تو میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا۔”
”پھر آپ کھانا کھائے بغیر کیوں جا رہے ہیں؟” علیزہ نے فوراً کہا۔
”کیونکہ مجھے جوڈی کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی۔ وہ اب کرسٹی کو اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ علیزہ نے بے دلی کے عالم میں کرسٹی کو پکڑ لیا۔
”آپ کے لئے جوڈتھ بہت اہم ہے۔”
”میرے لئے تم بھی بہت اہم ہو۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بلا تامل کہا۔
”مگر جوڈتھ جتنی نہیں۔” اس کی آواز میں مایوسی تھی۔




”اگر تم میرے لئے کم اہم ہوتیں تو میں تمہارے کہنے پر یوں فوراً نہ آجاتا…اپنا موازنہ کسی دوسرے سے مت کرو… میرے لئے جو تم ہو، وہ تم ہو۔”
وہ خوش نہیں ہوئی۔ ”اور جو جوڈتھ ہے، وہ جوڈتھ ہے۔”
”ہاں۔” عمر نے ایک بار پھر بلا تامل کہا۔
ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے وہ لان سے باہر آنے لگے۔
”آپ اور وہ دونوں یہاں آجائیں… ہوٹل میں نہ رہیں۔” علیزہ نے اس سے کہا۔
”نہیں… اب نہیں۔۔۔” عمر نے قطعی لہجے میں کہا۔
”کیوں…؟”
”جو لوگ مجھ سے وابستہ ہوں، میں ان کی بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو مجھے عزت دینی ہے مجھ سے پہلے ان لوگوں کو دینی ہو گی جو مجھ سے منسلک ہیں۔ مجھے جوڈتھ کے ساتھ تمہارا رویہ اچھا نہیں لگا اور ایک بار واپس لے جانے کے بعد میں اسے دوبارہ رہنے کے لئے تو یہاں نہیں لاؤں گا۔ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو یہ جوڈتھ کی انسلٹ ہو گی، اور میں ایسا کبھی نہیں کروں گا۔”
”میں نے ان کی انسلٹ نہیں کی۔” اس نے کمزور لہجے میں کہا۔
”ہاں مگر تم نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ تم اسے ناپسند کرتی ہو۔”
”میں ان سے ایکسیکیوز کر لوں گی۔” علیزہ چلتے چلتے رک گئی۔
”اور میں یہ بھی کبھی نہیں چاہوں گا، میں تم کو ڈی گریڈ کبھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اس میں بھی اپنی بے عزتی محسوس ہو گی۔”
اس کے لہجے میں صاف گوئی تھی، وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔”آپ جوڈتھ سے محبت کرتے ہیں؟”
وہ خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔
”اس لئے اسے ناپسند کر رہی ہو تم؟ ” اس کے بات کے جواب میں اس نے بڑے پر سکون لہجے میں کہا۔
علیزہ نے کرسٹی کو زمین پر اتار دیا۔ وہ جانتی تھی عمر کو اس کے جواب کی ضرورت نہیں۔ اس کا ہر جواب بقول عمر اس کے چہرے پر تحریر ہوتا تھا اور عمر کو یقیناً وہ جواب مل گیا تھا۔
”وہ آپ کو بہت اچھی لگتی ہے؟” اس نے اکھڑے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
”ہاں۔۔۔” عمر نے بلاتامل کہا۔
”پھر آپ اس سے شادی کرلیں۔”
”مجھے تو سڑک پر چلنی والی ہر خوبصورت لڑکی اچھی لگتی ہے۔ کیا سب سے شادی کر لوں؟”
”میں جوڈتھ کی بات کر رہی ہوں۔”
عمر نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”تم کو اور جوڈی کو کچھ دیر اکھٹے بیٹھنا چاہئے، اس کے ساتھ وقت گزارو گی تواتنا ناپسند نہیں کرو گی اسے اور اگر صرف اس لئے اسے ناپسند کررہی ہو کہ میں اسے پسند کرتا ہوں تو پھر تم کو یہ جان لینا چاہئے کہ میں ہمیشہ اسے پسند کرتا رہوں گا۔ میں اپنے دوست اور دشمن کبھی نہیں بدلتا، وہ میری دوست تھی، دوست ہے، اور ہمیشہ دوست ہی رہے گی۔”
عمر نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا۔ علیزہ نے پہلی دفعہ اس کو اس موڈ میں دیکھاتھا، پچھلے کئی ماہ سے وہ مسلسل اس کے ناز اٹھاتا رہا تھا۔ آج پہلی دفعہ وہ علیزہ کی ناپسندیدگی کی پروا کئے بغیر ایک دوسری ”ترجیح” کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس سے پہلے یہی ہوتا تھا کہ عمر ہر چیز میں اس کی پسندناپسند کو مدنظر رکھتا تھا۔ وہ کھانے کی کوئی ڈش ہو یا پھر خریدی جانے والی کوئی چیز… کوئی پکنک پوائنٹ ہو یا پھر کسی چیز کے بارے میں رائے۔
عمر بڑی آسانی سے اس کی بات مان لیا کرتا تھا۔ شاید لاشعوری طور پر علیزہ نے سوچا تھا کہ وہ جوڈتھ کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کرے گی تو عمر بھی ایسا ہی کرے گا مگر پہلی بار یہ نہیں ہوا تھا۔
”ہم لوگ کل دو چار جگہوں پر جا رہے ہیں تم چلو گی۔” وہ اس سے کہہ رہا تھا یقیناً وہ جوڈتھ کوشہر کی سیر کروانا چاہتا تھا۔
”نہیں۔۔۔”
عمر نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا وہ بہت رنجیدہ نظر آرہی تھی۔
”مجھے دیر ہو گئی ہے۔” اس نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”آپ کل آئیں گے؟” علیزہ اس کے پیچھے آئی۔
وہ ٹھٹک گیا۔ ”تم چاہتی ہو میں آؤں؟”
”ہاں۔۔۔”
”ٹھیک ہے میں آجاؤں گا۔”
”مگر آپ تو جوڈتھ کے ساتھ سیر کے لئے جا رہے ہیں۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔… تم یہ بتاؤ میں کب آؤں؟”
”کل رات ڈنر پر۔۔۔”
”ٹھیک ہے۔” وہ فوراً مان گیا۔ ”بس یا کچھ اور…؟”
”نہیں بس۔۔۔” عمر کو یک دم کچھ یاد آگیا، اپنی جینز کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے اس نے علیزہ سے کہا۔ ”ذرا اپنا ہاتھ بڑھاؤ۔”
علیزہ نے کچھ متجسس ہو کر ہاتھ آگے کر دیا، عمر نے اس کی کلائی میں کوئی چیز پہنائی۔ علیزہ نے دیکھا وہ ایک خوبصورت فرینڈ شپ بینڈ تھا۔
”بارسلونا میں ایک سوینئر شاپ سے لیا تھا۔۔۔” عمر نے بتایا۔ بینڈ کے ساتھ لٹکنے والی چین کے ساتھ ایک ملوربل فائٹر ، کی تھی۔ ”Amigo” علیزہ نے بینڈ پر کندہ لفظ پڑھا۔ اس نے سر اٹھا کر عمر کو دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔
”تھینک یو۔۔۔”وہ واقعی مسرور تھی۔ وہ ایک بار پھر گاڑی کی طرف جانے لگا، جہاں ڈرائیور اس کا منتظر تھا۔ علیزہ اس بار خاصی خوشی کے عالم میں اسے گاڑی تک چھوڑنے آئی۔
”اگلی صبح وہ جب بیدار ہو کر ناشتہ کے لئے لاؤنج میں آئی تو اس نے نانو اور نانا کو خاصی پریشانی کے عالم میں لاؤنج میں بیٹھے دیکھا۔ نانا فون پر کسی سے بات کر رہے تھے مگر ان کے چہرے کے تاثرات… نانو اسے دیکھ کر علیزہ کے پاس آگئیں جو ابھی کھڑی تھی۔
”کیا ہوا نانو؟ نانا پریشان ہیں، کیا بات کر رہے ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”جہانگیر کی بڑی بیٹی کی ڈیتھ ہو گئی ہے امریکہ میں… رات دو بجے اس کا فون آیاتھا۔” علیزہ نے بے اختیار سانس روکا۔ ”نمرہ کی؟؟”
”ہاں۔” نانو نے سر ہلایا۔
”کیسے…؟ اس کو کیا ہوا؟”
”نیند میں اپنے اپارٹمنٹ کی کھڑکیوں سے نیچے گر گئی۔” نانو کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”مائی گاڈ… آپ نے مجھے رات کو کیوں نہیں بتایا”
”تم سو رہی تھیں… فائدہ کیا تھا، میں اور تمہارے نانا تو ساری رات نہیں سو پائے۔”
”عمر کو پتا ہے؟” علیزہ کے ذہن میں پہلا خیال عمر ہی کا آیا۔
”ہاں اس کو بھی جہانگیر نے فون کر دیا تھا۔”
”مگر نانو ثمرین آنٹی تو اسلام آباد نہیں آگئی تھیں؟” علیزہ کو یاد آیا۔
”ثمرین اسلام آباد میں ہی ہے۔ مگر ولید اور نمرہ وہیں تھے۔”
”اب کیا ہوگا…؟ آپ امریکہ جائیں گی؟”
”نہیں، جہانگیر ڈیڈ باڈی پاکستان لا رہا ہے۔ ابھی کچھ انتظامات ہیں جو وہ کرنے میں مصروف ہے، مگر وہ کہہ رہا تھا کل یا پرسوں تک وہ اسے یہاں لے آئے گا۔”نانو نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
”یہاں ہمارے گھر لے کر آئیں گے؟”
”ہاں… تمہارے نانا سب رشتہ داروں کو فون کر رہے ہیں اسی سلسلے میں… جہانگیر کو ابھی کچھ گھنٹوں کے بعد دوبارہ فون کریں گے۔ اس سے فلائٹ کے بارے میں کنفرم کرنا ہے، تاکہ نیوز پیپرز میں ایڈ دیا جا سکے۔”
”آپ نے ثمرین آنٹی سے بات کی ؟”
”وہ امریکہ چلی گئی ہیں، ابھی تو پہنچی بھی نہیں ہوں گی، وہاں پہنچ جائے پھر اس سے بات کروں گی”
”اور عمر… وہ واپس جا رہا ہے؟”
”نہیں ، جہانگیر نے اسے یہیں ٹھہرنے کے لئے کہا ہے۔ میں نے انیکسی کھلوائی ہے۔ ملازموں سے کہا ہے کہ وہ وہاں کی صفائی کریں، اوپر والے پورشن کو بھی صاف کرنا ہے۔ تم انیکسی کو دیکھ لینا۔ کافی لوگ آئیں گے۔ تمہارے سارے انکلز اپنی فیمیلیز کے ساتھ آرہے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں ٹھہرنا بھی پڑے کیونکہ فلائٹ کا کوئی پتا نہیں ، تم ناشتہ کرلو۔”
نانو کو ہدایت دیتے ہوئے اچانک خیال آیا۔ علیزہ کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔
”میں کر لوں گی۔” اس نے نانو کو ٹالا، وہ واپس نانا کے پاس چلی گئی۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!