امربیل — قسط نمبر ۱۲

”جنید کا اب فون آئے تو کیا کہوں؟”
”وہی جو میں نے کہا ہے…بتا دینا کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ وہ مجھے فون نہ کرے۔” وہ اب اپنے کپڑے ہینگر سے نکال رہی تھی۔
”اس کی امی نے بھی فون کیا تھا۔ وہ بھی تم سے بات کرنا چاہتی تھیں۔” شہلا نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”میں اس کی امی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی تم انہیں بھی بتا دو۔” اس کے لہجے میں ابھی بھی وہی پہلے والی سرد مہری تھی۔
”تم ٹھیک تو ہو؟”
”بالکل ٹھیک ہوں۔”
”رات کو توتم نے جنید سے بات کی تھی۔ اس وقت تم نے اعتراض نہیں کیا۔”
”غلطی کی تھی اب نہیں کروں گی۔”
”تم جا کر نہاؤ پھر تم سے بات کروں گی اس وقت تم عقل سے پیدل ہو۔” شہلا نے ڈریسنگ روم سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ کے بعد بیڈ روم میں آئی تھی۔
”تمہارا موڈ خراب کیوں ہے؟” وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کر بالوں کو برش کرنے لگی تو شہلا نے اس سے کہا۔




”تمہیں غلط فہمی ہو رہی ہے۔ میرا موڈ خراب نہیں ہے۔” علیزہ نے بالوں میں برش کرتے ہوئے پرسکون انداز میں کہا۔
”مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی میں بے وقوف نہیں ہوں۔” شہلا نے قدرے خفگی سے کہا۔
”میرے علاوہ اور کوئی بے وقوف ہو بھی کیسے سکتا ہے۔ ” علیزہ اس کی بات کے جواب میں بڑبڑائی۔
”جنید اتنا اچھا بندہ ہے۔ میں اس سے بہت متاثر ہوئی ہوں۔” شہلا نے اس کی بات پر کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر کہا۔ ” سب کو ہی بہت اچھا لگا ہے سب تعریف کر رہے تھے۔”
”مجھے اس کی خوبیوں اور اچھائیوں میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ یقیناً اتنا ہی اچھا ہے وہ جتنا تم کہہ رہی ہو۔” علیزہ نے آئینے میں دیکھتے ہوئے اس سے کہا ۔
”تو پھر اس سے خفگی کی وجہ کیا ہے؟”
”میں اس سے ناراض نہیں ہوں۔”
”پھر تم اس سے بات کرنے سے انکار کیوں کر رہی ہو؟”
”یہ میں نہیں جانتی۔”
”یہ کیا بات ہوئی؟” شہلا نے کچھ برا مانتے ہوئے کہا۔
”بس میں اس سے بات کرنا نہیں چاہتی۔”
”یہی تو پوچھ رہی ہوں …کیوں؟”
”یہ ضروری نہیں ہے ہر شخص کے پاس ہر سوال کا جواب ہو۔”
”یہ اتنا مشکل سوال نہیں ہے جس کے جواب میں تمہیں دقت پیش آئے۔” شہلا بحث کرنے کے موڈ میں تھی۔
”میں اس سے کیا بات کروں؟” علیزہ نے اچانک ہیئر برش ڈریسنگ ٹیبل پر پٹختے ہوئے شہلا کی طرف مڑ کر کہا۔
”کیا ڈسکس کروں اس سے؟”
شہلا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ”اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اس سے بات کروں یا پھر اظہار محبت کرنے کے لیے کہ مجھے منگنی ہوتے ہی آپ سے محبت ہو گئی ہے اور آپ جیسا آدمی میں نے پہلے زندگی میں نہیں دیکھا نہ ہی آپ سے پہلے میں نے کسی سے۔” وہ بات کرتے کرتے اچانک رک گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
شہلا نے اسے مڑ کر ایک بار پھر ہیئر برش اٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں جنید کسی طور پر بھی قصوروار نہیں ہے۔”
علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں نے اسے قصوروار نہیں ٹھہرایا۔”
”تمہارے رویے سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔”
”شہلا! میں جنید کو کوئی سزا دے رہی ہوں نہ ہی میں اسے قصوروار سمجھ رہی ہوں۔ میں بس اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ کچھ عرصہ کے لیے ، تب تک جب تک میں ذہنی طور پر اس کے اور اپنے تعلق کو تسلیم نہیں کر لیتی۔ مجھے کچھ وقت چاہیے، کسی کی یادوں سے نکلنے کے لیے نہیں۔ صرف اس پچھتاوے سے نکلنے کے لیے جس کا میں شکار ہوں۔”
وہ بات کرتے کرتے تھکے ہوئے انداز میں ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر بیٹھ گئی۔
”کوئی شخص پچھتاوے اور احساس جرم کی اس اذیت کا اندازہ نہیں کر سکتا جس کا میں شکار ہوں۔ اس سے بات کرنے کے لیے جس اخلاقی جرأت کی ضرورت ہے، وہ میرے پاس نہیں ہے۔ کس منہ سے میں فون پر اس سے بات کروں۔ مجھے کتنی شرمندگی ہے یہ میں نہیں بتا سکتی اور تمہارا اصرار ہے میں اس سے بات کروں۔ میں کچھ عرصہ اس سے کیا کسی سے بھی بات نہیں کرنا چاہتی۔ نانو کا اصرار تھا منگنی کر لوں۔ وہ میں نے کروا لی۔ اب مجھے آزاد چھوڑ دیا جانا چاہیے۔”
شہلا کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!