امربیل — قسط نمبر ۱۲

عمر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا۔
”سیلف ریسپکٹ نام کی کوئی چیز تمہارے اندر ہے ہی نہیں…مجھ پر اثر انداز ہونے کے لیے تم نے جنید کے ساتھ رابطے بڑھانا شروع کر دیئے۔ اس کے گھر آنے جانے لگے، اس سے ملنے لگے تاکہ اس کے ذریعے مجھے مجبور کرو کہ میں صالحہ پرویز پر آرٹیکلز نہ لکھنے کے لیے دباؤ ڈالوں اور میں سوچتی رہی کہ جنید شاید عباس کے کہنے پر مجھے یہ سب کہہ رہا ہے مگر مجھے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ اتنا صرف تم ہی کر سکتے ہو۔ کوئی دوسرا نہیں۔ عباس کم از کم اس طرح دوسروں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ جس طرح تم ٹیک رہے ہو۔ جس راستے سے بھی تمہیں اپنا بچاؤ نظر آرہا ہے تم اس طرف دوڑ رہے ہو۔ یہ دیکھے بغیر کہ دوڑتے ہوئے تم کس پر سے گزر رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے عمر!”
عمر کا چہرہ اب بھی اسی طرح بے تاثر تھا۔
”مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں، میں تمہیں کیا سمجھتی رہی اور تم…تم…آستین کے سانپ ہو۔ کم از کم میرے لیے تو آستین کے سانپ ہی ثابت ہوئے ہو اور اب تم ایک بار پھر یہاں میرے سامنے آگئے ہو۔ اپنی صفائیاں دینے۔”
اس کی آواز غصے سے لرز رہی تھی۔ وہ یکدم بات کرتے کرتے رک گئی۔
”جس طرح تم نے میرے اعتماد کا مذاق اڑایا ہے اسی طرح۔۔۔”
عمر اب سگریٹ سلگا رہا تھا۔ علیزہ کو اس کی خاموشی اور بے نیازی پر اور غصہ آیا، تیزی سے اس کے پاس جا کر اس نے اس کے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ اور ہاتھ میں پکڑا ہوا لائٹر کھینچ لیا۔ عمر نے مزاحمت نہیں کی۔ علیزہ نے کونے میں پڑے ہوئے ڈسٹ بن میں وہ دونوں چیزیں اچھال دیں۔




”یہاں تم سگریٹ پینے کے لیے نہیں آئے ہو۔” اس نے ترشی سے عمر سے کہا۔
”ہاں میں بھول گیا تھا۔ یہاں تو میں سگریٹ پینے نہیں…گالیاں کھانے آیا ہوں۔” وہ مسکرایا۔
”تم…تم کسی سے گالیاں کھا سکتے ہو۔ اپنی مظلومیت کا ڈرامہ کیوں کر رہے ہوں؟” علیزہ کو اس کے جملے پر اور غصہ آیا۔
”میں مظلومیت کا کوئی ڈرامہ نہیں کر رہا ہوں۔” عمر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔” مجھے کسی ڈرامے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔”
”ہاں یہی تو میں تمہیں کہہ رہی ہوں کہ خود کو اتنا مظلوم اور بے بس ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
وہ غرائی، عمر سنجیدگی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”جھوٹ…جھوٹ…جھوٹ…فریب، دھوکا عمر جہانگیر تم اس کے سوا اور کیا ہو؟” اس کا سکون اس وقت علیزہ کے لیے جلتی پر تیل کا کام کر رہا تھا۔
”میرے دل میں تمہارے لیے ذرہ برابر بھی عزت موجود نہیں ہے…ذرہ برابر بھی…شرم آتی ہے مجھے۔ جب لوگوں کو یہ پتا چلتا ہے کہ تم میرے کزن ہو۔ تمہارے حوالے سے تعارف پر تکلیف ہوتی ہے مجھے۔ اسی طرح کی تکلیف جتنی دس سال پہلے تمہیں اپنے باپ کے تعارف پر ہوتی تھی۔”
عمر کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا۔
”یاد ہے نا کیا کہا کرتے تھے تم؟” وہ غرائی۔
”یاد ہے۔” عمر نے سرد آواز میں کہا۔
”ہاں یاد کیوں نہیں ہوگا تمہیں…وہی سب کچھ سامنے رکھ کر تو سٹینڈرڈ اور پیرامیٹرز سیٹ کیے ہوں گے تم نے اپنے لیے۔” وہ تلخی سے بولی۔ ”مجھے جھوٹ کا یہ معیار حاصل کرنا ہے۔ انسانیت کے اس نچلے درجے تک گرنا ہے۔ سفاکی کی اس سیڑھی پر کھڑا ہونا ہے۔ لوگوں کی زندگی کی تباہی کی یہ سٹیج حاصل کرنی ہے۔ خود غرضی اور بے ضمیری کی اس اونچی منزل پر جا کھڑا ہونا ہے۔”
اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، عمر ہونٹ بھینچے اسے خاموشی سے دیکھتا جا رہا تھا۔
”سارے سٹینڈرڈ تو تم نے وہیں سے سیٹ کیے ہیں۔ اپنے باپ کی ریپوٹیشن کو روتے تھے تم ، اپنی ریپوٹیشن کے بارے میں جا کر پوچھو کسی سے۔ لوگ تمہارے بارے میں کیا کہتے ہیں۔”
عمر نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں۔ وہ بالکل ساکت تھا۔ علیزہ کو اس پر ترس نہیں آیا۔ اس نے زندگی میں یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کرے گی۔ کبھی عمر جہانگیر سے اس طرح بات کر سکتی ہے۔
کمرے کے وسط میں کھڑے اب وہ سرخ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اسے گھور رہی تھی۔
”کوئی جواب ہے تمہارے پاس میری باتوں کا یا نہیں…؟” وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بلند آواز میں چلائی۔
”اس سے پہلے کہ عمر کچھ کہتا کمرے کا دروازہ کھول کر نانو اندر آگئیں۔
”کیا ہو رہا ہے یہاں علیزہ…! تم دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہو۔ باہر تک آواز آرہی ہے تمہاری۔”
انہوں نے ان دونوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد کہا۔ اس سے پہلے کہ علیزہ کوئی جواب دیتی عمر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور نانو کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے نرمی سے انہیں باہر کی جانب دھکیلا۔
”نہیں ہم میں کوئی جھگڑا نہیں ہو رہا، ہم کچھ باتیں ڈسکس کر رہے ہیں ۔ گرینی پلیز! آپ باہر چلی جائیں، ہم ابھی بات ختم کرکے باہر آ جائیں گے۔”
نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی ”مگر عمر۔۔۔”
”پلیز گرینی! میں ریکویسٹ کرتا ہوں۔”
عمر نے انہیں اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی، وہ بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئیں۔
عمر ایک بار پھر صوفہ پر جا کر بیٹھ گیا۔
”میرے پاس ہر بات کا جواب ہے مگر بہتر ہے کہ پہلے تم جو کچھ کہنا چاہتی ہو کہہ لو…میں بعد میں بات کروں گا۔”
”مجھے اور کچھ نہیں کہنا، میں کہہ چکی ہوں سب کچھ۔” وہ غرائی۔ وہ صوفہ پر کچھ آگے کو جھک گیا۔
”ٹھیک ہے۔ سب سے پہلے، جھوٹ کی بات کر لیتے ہیں۔ میں نے تم سے کیا جھوٹ بولا ہے۔”
”میں تمہارے کون کون سے اور کتنے جھوٹ گنواؤں۔”
”جتنے یاد ہیں اتنے گنوا دو۔”
”اس گھر پر جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا؟ مجھ پر اور نانو پر…مجھے وہ لوگ اغوا کرنا چاہتے تھے ہے نا…یہ سب تو سچ ہی ہوگا۔ اب بولو…اب کیوں نہیں بولتے، جسٹس نیاز نے حملہ کروایا تھا نا اس گھر پر؟”
”نہیں۔۔۔” عمر کے چہرے پر اب بھی سکون تھا، علیزہ کو اس کے جواب نے مزید مشتعل کیا۔
”جسٹس نیاز نے نہیں کروایا، بڑی حیرت کی بات ہے۔ تم نے تو مجھ سے یہی کہا تھا کہ جسٹس نیاز نے حملہ کروایا ہے کہا تھانا؟”
”ہاں کہا تھا۔”
”اور یہ جھوٹ نہیں ہے۔ کسی بھی طرح اسے جھوٹ نہیں کہا جا سکتا ۔”
”یہ جھوٹ تھا مگر مجھے اس جھوٹ پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔”
”تمہیں شرمندگی ہو بھی نہیں سکتی۔ شرمندہ ہونے کے لیے باضمیر ہونا ضروری ہے اور یہ چیز تو تمہارے پاس کبھی تھی ہی نہیں۔” عمر نے اس کے طنزیہ جملے کو نظر انداز کر دیا۔
”جسٹس نیاز والے معاملے میں تم سے جھوٹ بولا گیا ، مگر میں اکیلا نہیں تھا اس جھوٹ میں ہر ایک نے تم سے جھوٹ بولا کیونکہ تم کسی کی بات ماننے پر تیار ہی نہیں تھیں۔”
”ہر ایک سے تمہاری مراد عباس اور تم ہو؟”
”گرینی بھی۔” علیزہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”اس حملے کے بارے میں وہ پہلے سے جانتی تھیں؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”ہاں۔۔۔”
”چوکیدار کا زخمی ہونا بھی ایک ڈرامہ ہوگا۔ وہ بھی کہیں چھٹیاں گزار کر آگیا ہوگا۔”
عمر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ”میرے rape کا جھوٹ کس نے گھڑا، یقیناً تم نے۔”
”نہیں یہ میں نے نہیں کہا ۔ مجھے اس کے بارے میں بعد میں عباس سے پتا چلا تھا اور میں نے اس پر عباس۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر بات کاٹ دی۔
”تم…کو بعد میں پتا چلا…تم کو…یہ بھی ایک اور جھوٹ ہوگا۔ ہر معاملے میں تم لوگ اکٹھے ہوتے ہو۔ ہر بات کی خبر رکھتے ہو اور تمہیں اس کے بارے میں بعد میں پتا چلا میں یقین نہیں کر سکتی۔”
”مت کرو…مگر یہ سچ ہے کہ مجھے اس بات کے بارے میں بعد میں پتا چلا۔ اگر پہلے پتا چلتا تو میں کبھی بھی انہیں ایسی بات کہنے نہ دیتا۔ میں اتنا گرا ہوا نہیں ہوں۔” عمر اب صوفہ سے کھڑا ہو گیا تھا۔
”میری جگہ اگر تمہاری اپنی بہن ہوتی…یا…یا جو ڈتھ ہوتی تو اس کے بارے میں ایسی بات برداشت کر سکتے تھے تم…مجھ سے تو خیر تمہارا رشتہ ہی کوئی نہیں ہے۔”
”تم میرے لیے کسی بھی شخص اور کسی بھی رشتہ سے زیادہ اہم ہو۔”
”نہیں ، میں نہیں ہوں…ایسی باتوں سے اب بے وقوف نہیں بن سکتی عمر جہانگیر۔ اب میچور ہو گئی ہوں میں” اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”جہاں تک صالحہ کا تعلق ہے تو میں نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ ایسا کام کوئی بے وقوف ہی کر سکتا ہے اور میں کم از کم بے وقوف تو نہیں ہوں۔” اس نے قدرے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میں اس وقت آفس میں تھی جب تم نے اسے فون کیا تھا۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ”اور میں نے خود فون پر سنا تھا…تم اسے دھمکا رہے تھے۔”
”دن میں، میں اگر دس لوگوں کو دھمکاؤں گا تو کیا دس لوگوں پر حملہ کرواؤں گا۔” عمر نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میں دوسرے لوگوں کے بارے میں نہیں جانتی مگر صالحہ کا تمہارے علاوہ اور کوئی دشمن نہیں ہے۔” علیزہ نے دو بدو کہا۔
”صالحہ خود اپنی سب سے بڑی دشمن ہے۔”
”کیوں وہ تمہارے بارے میں سچ لکھتی ہے اس لیے۔”
”سچ…کیا سچ؟” وہ تلخی سے ہنسا۔
”مجرموں کے بھی انسانی حقوق ہوتے ہیں۔” اس نے صالحہ پرویز کے آرٹیکل کا عنوان کچھ تنفر سے پڑھا۔
”ہاں مجرموں کے بھی کچھ انسانی حقوق ہوتے ہیں، وہ کتے بلیاں نہیں ہوتے کہ کہیں بھی کیسے بھی پکڑ کر انہیں مار دو۔ اگر تم لوگوں نے یہی سب کچھ کرنا ہے تو عدالتیں بند کر دو۔ لوگوں کو پکڑو کھڑے کھڑے شوٹ کرو اور بس… یہ دیکھو بھی مت کہ کس نے کیا کیا ہے؟”
”جن مجرموں کو پکڑ کر ہم پولیس مقابلوں میں مارتے ہیں ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے کیونکہ وہ انسان نہیں ہوتے۔” عمر نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔
”اس طرح کے مجرم جن چاروں کو۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”ان چاروں کو چھوڑ دو۔ وہ ایک علیحدہ کیس تھا۔ باقیوں کی بات کرو، ہر بار بے گناہوں کو نہیں مارا جاتا۔ چودہ چودہ قتل کیے ہوتے ہیں ان لوگوں نے جنہیں پولیس مقابلوں میں مارا جاتا ہے۔” وہ اب تیز آواز میں کہہ رہا تھا”اور تم لوگ ان کے حقوق کی بات کرتے ہو۔”
”پولیس کا کام مجرموں کو پکڑنا ہوتا ہے، انہیں سزائیں دینا نہیں۔ کورٹس ہیں اس کام کے لیے۔” وہ اس کے لہجے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”کورٹس…کون سے کورٹس۔۔۔” وہ تنفر سے ہنسا ”کورٹس کہتے ہیں ثبوت لائیں، گواہ پیش کریں، چودہ افراد کو قتل کر دینے والے شخص کے خلاف کون گواہی دینے کے لیے کھڑا ہوگا جس ملک میں ریوالور کی گولی بلیک میں سات روپے کی اور ایک لائف سیونگ ٹیبلٹ سو روپے میں ملتی ہو، وہاں کون اٹھ کر یہ کہے گا کہ ہاں یہ وہ آدمی ہے جس کو میں نے سڑک پر چار لوگوں کو قتل کرتے دیکھا۔”
وہ تنفر سے اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”جہاں لوگ بدلہ لینے کے لیے انتظار کرتے ہیں کہ کوئی اپنی پیشی بھگتانے کورٹ میں آئے تو اسے وہاں مارا جائے، کیونکہ کورٹ میں مارنا سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ وہاں تم Rule of law اور کورٹس کی Supremacy (برتری ) کی بات کرتی ہو۔” وہ مسلسل بول رہا تھا۔
”جہاں Lowercourts کے سینکڑوں ججز میں سے نہ بکنے والے ججز کو آدمی انگلی پر گن سکتا ہو اور جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے قابلیت کے بجائے سیاسی بیک گراؤنڈ اور اپروچ معیار ہو۔ جہاں ایک وزیراعظم یہ کہے کہ اس کی خواہش تھی کہ اس کی پارٹی کے ایک وفادار جیالے کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائے اور دوسرے وزیراعظم کی پارٹی کے لوگ سپریم کورٹ پر حملہ کر دیں اور سپریم کورٹ توہین عدالت کا فیصلہ کرنے میں تین سال لگا دے وہاں کورٹس مجرموں کو سزا دلائیں گے۔”
وہ ایک بار پھر ہنسا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!