امربیل — قسط نمبر ۱۲

”میں بہت کوشش کروں تو بھی میں اپنے اندر تمہارے لیے کوئی خاص قسم کے جذبات دریافت کرنے میں ناکام ہو جاتا ہوں۔ میں نے بارہا خود کو ٹٹولا ہے لیکن میرے دل سے کوئی آواز نہیں آئی۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے؟” اس کی سفاک حقیقت پسندی عروج پر تھی، وہی سفاکی جس کے لیے وہ مشہور تھا۔
”دس سال میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تم سے اظہار محبت کیا ہو…؟ نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کیا…اگر دنیا میں محبت نام کا کوئی جراثیم موجود بھی ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل کبھی متاثر نہیں ہوا۔”
علیزہ کے آنسو رک چکے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اندھیرے میں اپنے سے چند انچ دور اس شخص کے ہیولے کو دیکھ رہی تھی جسے اس نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔
”مرد اور عورت کے درمیان ہر رشتہ محبت کا رشتہ نہیں ہوتا…چاہو تو بھی نہیں بن سکتا…جیسے تمہارا اور میرا رشتہ…اپنے اور میرے رشتے کو اگر تم نے اتنے سالوں میں نہیں پرکھا تو یہ تمہاری غلطی ہے، میری نہیں…میں کسی حماقت آمیز خوش فہمی کا حصہ نہیں بن سکتا۔”
وہ ہر چیز کے چیتھڑے اڑا رہا تھا…اس کے اعتماد کے…عزت نفس کے…زندگی کے…خوابوں کے…خواہشات کے…اور علیزہ سکندر کو دس سال یہ زعم رہا تھا کہ یہ سب چیزیں اس نے اسی شخص سے لی تھیں۔




”اگر تم نے میرے حوالے سے کوئی خوش فہمیاں پال لیں تو میں کیا کر سکتا ہوں …میرا اس سب میں کیا حصہ ہے، در حقیقت میں اس سارے معاملے میں کبھی بھی حصہ دار نہیں رہا۔” اس نے عمر کو کندھے اچکاتے دیکھا۔
”میں تو اتنے سالوں میں سینکڑوں لڑکیوں سے ملتا رہا ہوں …میں سب کے ساتھ فرینڈلی رہا ہوں …سب کے ساتھ میرا ایک جیسا رویہ رہا ہے …اور میرے لئے تم بھی ان سب سے مستثنیٰ نہیں تھیں۔” وہ دم بخود تھی۔
”دوست تم تھیں …ہو …رہو گی …مگر اس سے دو قدم آگے بڑھ کر کسی خاص رشتے کے حوالے سے تمہیں دیکھنا بہت مشکل ہے …بلکہ نا ممکن۔”
Rude,harsh,bitter اس سے پہلے اس نے عمر کو دوسرے لوگوں کے ساتھ ان خصوصیات کا استعمال کرتے دیکھا تھا۔ آج وہ اس پر استعمال کر رہا تھا۔
”شادی کوئی ون سائیڈڈ افئیر نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے بنانے کی کوشش کرو …یہ ایسا نہیں ہوتا کہ تم نے کہا اور میں نے مان لیا …نہ ہی یہ کوئی کیک ہوتا ہے جو میں بیکری سے بنوا کر لا دوں …ساری زندگی کے لئے کسی شخص کو چن کر، اس کے ساتھ رہنا بہت سوجھ بوجھ مانگتا ہے …صرف دماغ ہی نہیں دل بھی اس جگہ پر ہونا چاہیے جس شخص کے ساتھ جس جگہ پہ رشتہ آپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔”
اس کی آواز میں ٹھنڈک تھی …وہ اس عمر سے پہلی بار ملی تھی۔
”گرینی نے مجھ سے تمہارے بارے میں بات کی …میں نے انکار کر دیا …مجھے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ It was like a reflex action …کوئی ہچکچاہٹ …کوئی تامل …کوئی تردد …میں نے کچھ محسوس نہیں کیا …تو اس کا صاف صاف مطلب تو یہی ہے کہ جن خواتین کے بارے میں، میں نے کبھی کچھ خاص جذبات محسوس کرنے یا خاص خیالات رکھنے …یا آسان لفظوں میں جن سے شادی کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی …ان میں تم کبھی نہیں آئیں …نہ شعوری طور پر، نہ لا شعوری طور پر۔”
علیزہ کو اب اپنے ہونٹ خشک ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔
”پھر اگر صرف تمہاری ضد پر یہ یک طرفہ شادی ہو جائے تو کیا ہو گا۔ a total disaster میں زندگی میں سارے حساب کتاب کر کے رسک لیتا ہوں، آنکھیں بند کر کے سوچے سمجھے بغیر کسی کھائی کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں چھلانگ لگانے کا عادی نہیں ہوں …اور تم مجھ سے یہی سب کچھ چاہتی ہو۔”
وہ پانی پینا چاہتی تھی …اس کے حلق اور بدن پر کانٹوں کا جنگل اگ آیا تھا۔
”ممکن ہے، تم مجھ سے شادی کر کے خوش رہو …مگر سوال یہ ہے کہ کیا میں خوش رہ سکتا ہوں …کیا تم نے میری خوشی کا سوچا ہے؟ تم نے نہیں سوچا ہو گا …میں کسی شاپنگ آرکیڈ کے کسی شو کیس میں لگی ہوئی چیز نہیں ہوں جو تمہیں پسند آ جائے اور تم ہر قیمت پر اسے گھر لے جانے پر تل جاؤ۔” اس کی آواز کے چابک اپنا کام بخوبی کر رہے تھے۔
”جہاں تک تمہاری اس غلط فہمی کا تعلق ہے کہ میں نے تمہیں اپنی زندگی سے نکال دیا …تو میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ نہ میں تمہیں زندگی کے اندر لایا تھا، نہ میں نے باہر نکالا ہے۔ تم جس رول میں میری زندگی موجود ہو …اس رول میں ہمیشہ رہو گی …ہاں، مگر تم جو رول لینا چاہتی ہو، وہ میرے لئے قابل قبول نہیں ہے …اگر اس بات کو تم زندگی سے نکال دینا سمجھتی ہو تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔”
اس کا دل چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے۔
”میں نے تمہاری زندگی تباہ کر دی …میں نے تمہیں معذور کر دیا …نہیں علیزہ ! میں نے ایسا کچھ نہیں کیا …اگر یہ کسی نے کیا ہے تو تم نے خود کیا ہے۔” اس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔
”جہاں تک جنید کا تعلق ہے …اس کے ساتھ تمہاری وفاداری کا سوال ہے …یا تمہاری خوشی کا مسئلہ ہے تو میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں …سوائے اس کے کہ یہ بھی صرف اور صرف تمہارا مسئلہ ہے اور تمہیں ان دونوں چیزوں کے بارے میں منگنی سے پہلے سوچ لینا چاہئے تھا۔ تمہیں یہ محسوس ہوتا تھا کہ تم اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتیں تو تمہیں اس سے منگنی کرنا ہی نہیں چاہئے تھی۔ کسی نے یقیناً تمہیں پریشرائز نہیں کیا ہو گا اس پرپوزل کے لئے کہ تم یہیں شادی کرو …تم نہ کرتیں۔”
وہ اسے مسئلے کا حل نہیں بتا رہا تھا، وہ اسے اس کی حماقت جتا رہا تھا۔
”بلکہ اب منگنی توڑ دو …اگر تمہیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ تمہیں وہ پسند نہیں ہے یا وفاداری اور خوشی کا سوال ہے تو ٹھیک ہے یہ رشتہ ختم کر دو …ابھی صرف منگنی ہوئی ہے اور منگنی کوئی ایسا بڑا رشتہ نہیں ہوتا جس کے باے میں دوبارہ نہ سوچا جا سکے۔”
علیزہ کو اپنے ہاتھ پیر سن ہوتے ہوئے لگ رہے تھے۔
”لیکن اگر اس خوشی اور وفاداری کے ایشو کو تم میری ذات سے منسلک کر رہی ہو تو فار گیٹ اباؤٹ اٹ …مجھے ہر چیز …ہر تعلق …ہر رشتے …ہر بیک گراؤنڈ …ہر فور گراؤنڈ سے نکال کر دیکھو …مجھ کو بھول کر جنید کو جج کرو …پھر بھی تمہیں یہی لگے کہ وہ تمہارے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ تو یہ رشتہ ختم کر دو …مگر یہ ذہن میں ضرور رکھو کہ جنید نہیں ہو گا تو کوئی دوسرا ہو گا …کوئی دوسرا نہیں ہو گا تو کوئی تیسرا ہو گا… کوئی بھی سہی مگر …وہ …میں …نہیں …ہوں گا …نہ آج …نہ آئندہ کبھی۔”
اس نے آخری جملے کا ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر کہا تھا …ہر لفظ پر زور دیتے ہوئے …صاف …واضح اور دو ٹوک انداز میں …کسی مغالطے یا خوش فہمی کی گنجائش رکھے بغیر۔
علیزہ نے ہر لفظ سنا تھا۔ کسی دشواری …یا رکاوٹ کے بغیر …کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کے بغیر …عمر کے وہاں آنے سے پہلے وہ خواہش کر رہی تھی، سب کچھ ختم ہو جائے …اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!