امربیل — قسط نمبر ۱۲

”اب بتاؤ… کیا ہوا ہے… اتنی افراتفری میں مجھے کیوں لائی ہو؟”
”میں ان لوگوں کو Avoidکرنا چاہتی تھی اس لئے۔” علیزہ نے اطمینان سے کہا۔
”کیوں؟ ” شہلا نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے حیرت سے کہا۔
”وہ آئس کریم کھانے کے لئے ساتھ چلنے کی آفر کر رہے تھے، اس لئے۔”
”تھے کون یہ؟” وہ گاڑی کو پارکنگ سے نکالتے ہوئے بولی۔
”اس لڑکے کا نام جنید ابراہیم ہے۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہنا شروع کیا۔ ”چند ہفتے پہلے بھوربن میں ملاقات ہوئی تھی میری اس کے ساتھ۔ آنٹی سجیلہ کے کسی جاننے والوں کا بیٹا ہے۔”
”پھر؟”
علیزہ چند لمحوں کے لئے خاموش رہی۔
”میرے لاہور واپس آنے سے پہلے اس کے گھر والے نانو کے پاس آئے تھے… پرپوزل لے کر۔”
”پھر نانو نے کیا کہا… زیجیکٹ کر دیا؟” شہلا نے قیاس آرائی کی۔
”نہیں… انہوں نے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا ہے۔”
وہ اب ونڈ اسکرین سے باہر سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ شہلا نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔
”نانو نے تم سے بات کی ہو گی۔”
”ہاں۔”
”اور تم نے حسب معمول انکار کر دیا ہو گا۔” علیزہ خاموش رہی۔
شہلا نے ایک گہرا سانس لیا۔ ”کیا کرتا ہے یہ؟”اس کا اشارہ جنید کی طرف تھا۔
”آرکیٹکٹ ہے۔”
”اس کے ساتھ کون تھا؟”
”اس کی بڑی بہن اور بھانجا۔”




”مجھے دیکھنے میں اچھا لگا ہے۔ سوبر اور ڈیسنٹ ۔” شہلا نے رائے دی۔ ”تمہیں کیسا لگا؟”
اس بار علیزہ نے گردن موڑ کر کچھ ترشی سے پوچھا۔
”کس حوالے سے…؟” ”تمہارا کیا اندازہ ہے۔ میں کس حوالے سے پوچھ رہی ہوں۔”
”جس حوالے سے تم پوچھ رہی ہو۔ میں نے وہ حوالہ ذہن میں رکھ کر اس پر غور نہیں کیا۔ ویسے وہ اچھا ہے۔ بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا اور ایک بار پھر ونڈ اسکرین سے باہر دیکھنے لگی۔
گاڑی میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر شہلا نے اس سے کہا۔
”تمہیں آخر پریشانی کس بات کی ہے… تم کو یہ پرپوزل قبول نہیں ہے، انکار تم کر چکی ہو۔ نانو یہ انکار ان تک پہنچا دیں گی۔ بات ختم ہوئی۔”
”میں نے انکار نہیں کیا۔” شہلا نے بے اختیار گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ اب بھی باہر سڑک پر نظریں جمائے تھی۔
”انکار نہیں کیا… تمہیں یہ پرپوزل قبول ہے؟”
”میں نے یہ تو نہیں کہا۔”
”یہ کیا بات ہوئی… تم نے انکار نہیں کیا تو اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ وہ تمہیں پسند ہے یا کم از کم تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر اب تم کہہ رہی ہو کہ تم نے اقرار بھی نہیں کیا۔” شہلا کچھ الجھ گئی۔
”میں نے نانو کو عمر سے بات کرنے کے لئے کہا ہے۔”
” کیا بات کرنے کے لئے؟”
علیزہ نے گردن موڑ کر شہلا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ”It’s very humiliating. لیکن میں نے ان سے کہا ہے کہ وہ عمر سے میرے پرپوزل کے بارے میں بات کریں۔۔۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔ ”یہ بہت تکلیف دہ ہے مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے… میں آخر کب تک عمر کے لئے ہر پرپوزل کو ریجیکٹ کرتی رہوں گی۔”
وہ ہونٹ بھینچتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”نانو نے عمر کو لاہور بلوایا ہے…وہ ابھی کچھ مصروف تھا۔ اس لئے نہیں آسکا… چند دن تک آجائے گا… تب نانو اس سے بات کریں گی۔” اس نے شہلا کو بتایا۔
”تمہیں پتا ہے جوڈتھ پاکستان آئی ہوئی ہے…؟”
پانچ چھ سال پہلے جب جوڈتھ ایک دو بار پاکستان آئی تھی، تب نانو کے گھر پر شہلا سے بھی اس کی چند ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ بعد میں بھی علیزہ، جوڈتھ کے بارے میں اسے خاصی تفصیلات بتاتی رہی مگر اب اچانک اس کے منہ سے جوڈتھ کا نام سن کر اسے حیرت ہوئی تھی۔
”تمہیں کیسے پتا ہے؟” علیزہ نے بے اختیار کہا۔
”اس کا مطلب ہے ، تم اس کی یہاں موجودگی سے بے خبر نہیں ہو۔”
وہ شہلا کی بات پر چپ سی ہو گئی۔ ”دونوں پچھلے کئی دنوں سے لاہور میں ہیں۔ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتی تھی۔ میرا خیال تھا۔ تم پریشان ہو گی۔” وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوئی۔ ”ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں دونوں ایک ہی روم میں … مسٹر اینڈ مسز عمر جہانگیر کے طور پر۔”
علیزہ نے فق ہوتے چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہی تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!