امربیل — قسط نمبر ۱۲

سارا دن سبزی منڈی میں مٹھائیاں بٹتی رہیں، انتظامیہ کو ایک بار پھر شکست دے دی گئی تھی۔ انہیں شہر سے کوئی نہیں نکال سکتا تھا۔
اگلی رات دو بجے سبزی منڈی کی طرف دوسرے شہر سے آنے والا ٹرک پویس کے قائم کیے گئے اس ناکے پر کھڑا اوپر لدی ہوئی ایک ایک پیٹی اتروا کر پولیس کے ان چار لوگوں کو دکھا رہا تھا جو کرسیوں پر بڑے اطمینان سے بیٹھے تھے۔ اس سڑک پر وہ پہلا ناکہ تھا اور اس ناکہ کے بعد آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر چھ اور ایسے ہی ناکے تھے۔ وہ ٹرک جو عام طور پر رات ڈھائی بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچ جاتا تھا، وہ اس دن صبح دس بجے کے قریب سبزی منڈی پہنچا پولیس نے سبزی منڈی کی دونوں بیرونی سڑکوں کو بلاک کرکے اس پر جابجا ناکے لگا دیئے تھے اور وہ دونوں سڑکیں مکمل طور پر بلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس والے ایک ایک پیٹی اترواتے پھر چڑھاتے اگلے ناکے پر پھر یہی عمل دہرایا جاتا، اس سے اگلے ناکے پر پھر…انتظامیہ نے شہر میں اعلان کر دیا تھا کہ امن و امان کی بگڑی ہوئی صورت حال کے پیش نظر شہر میں آنے والے تمام ٹرکوں کے سامان کی اچھی طرح چھان بین کی جائے گی اور شہر میں آنے والے زیادہ تر ٹرک سبزی منڈی ہی جاتے تھے۔ نتیجتاً اس سڑک پر ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور گرمی کے موسم میں بہت سے ٹرکوں میں لدا ہوا پھل اور سبزیاں خراب ہونے لگے۔ دوسرے شہروں سے بھیجے جانے والے پھلوں اور سبزیوں کے سودے ختم ہونے لگے۔
ٹرکوں پر لدے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کے خراب ڈھیر کو خریدنے کے لیے سبزی منڈی میں کوئی تیار نہیں تھا اور دوسرے شہروں سے لوگ اپنی اجناس اس طرح ضائع کروانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پولیس اسٹے آرڈر کی پوری طرح پاس داری کر رہی تھی۔ سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے کسی شخص کو تنگ نہیں کیا گیا تھا البتہ امن و امان کی حالت کو ٹھیک رکھنا ایک ایسا فرض تھا جو پولیس کو ہر صورت پورا کرنا تھا اور یہ کام رضی محمود اور عمر جہانگیر اپنی نگرانی میں کروا رہے تھے۔
چھٹے دن پرانی سبزی منڈی کے لوگ خاموشی سے نئی سبزی منڈی منتقل ہونا شروع ہو گئے، ایک ہفتہ میں یہ منتقلی ختم ہو گئی، ایک ہفتہ کے بعد پولیس نے اس سڑک پر تمام ناکے یہ کہتے ہوئے ختم کر دیئے کہ امن و امان کی صورت حال میں بہت زیادہ بہتری آنے کی وجہ سے اب ان دو سڑکوں پر ناکوں کی ضرورت نہیں رہی۔ پرانی سبزی منڈی سے نئی سبزی منڈی میں منتقلی کا کام جس قدر سہولت سے ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں شہریوں کو جو سکون کا سانس نصیب ہوا تھا۔ اس نے رضی محمود اور عمر جہانگیر کے لیے بھی عام شہریوں کے اندر خاصے اچھے جذبات پیدا کیے تھے لوکل پریس میں شائع ہونے والی تعریفی خبریں ملکی پریس میں بھی آئیں اور پھر کچھ کالم نویسوں کے کالمز کی زینت بھی بنیں۔




بات شاید یہیں تک رہتی تو رضی محمود اور عمر جہانگیر کا ہیرو والا درجہ اسی طرح قائم رہتا اور دوسرے لوگوں کی طرح علیزہ بھی یہی سمجھتی رہتی کہ ان دونوں نے بڑے اچھے طریقے سے ایک مشکل صورت حال کو ہینڈ کیا تھا مگر صالحہ کے آرٹیکل نے اس تمام معاملے پر سے ایک نیا پردہ اٹھاتے ہوئے عمر اور رضی کی ہیرو والی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے انہیں ولن کی حیثیت دے دی تھی۔
سبزی منڈی کی نئی جگہ منتقلی کے بعد رضی محمود اور عمر جہانگیر نے شہر کے وسط میں موجود اس سبزی منڈی کی کروڑوں مالیت کی زمین کو بیچ کر رقم آپس میں تقسیم کر لی تھی اور صالحہ نے اس فراڈ کی تمام تفصیلات کو اپنے آرٹیکل میں شائع کیا تھا۔ اس نے نہ صرف زمین کے نئے مالکان کے ناموں کی تفصیل دی تھی بلکہ یہ بھی بتایا تھا کہ چند کالم نویسوں کو کس طرح روپیہ دے کر اخبارات میں رضی محمود اور عمر جہانگیر کے نام نہاد پروفیشنلزم کی تعریف کرتے ہوئے انہیں مثالی بیورو کریٹ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے بیورو کریٹ جن پر اس ملک اور آنے والی نسلوں کو فخر ہوگا…دلچسپ بات یہ تھی کہ پرانی سبزی منڈی کا علاقہ اب شہر کے مصروف ترین کمرشل ایریاز میں شامل ہو گیا تھا اور اسی کمرشل ایریا میں اس شہر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے کالم نویس کو بھی کچھ زمین عطا کی گئی تھی جو اپنے کالمز میں وقتاً فوقتاً اپنے آبائی شہر کے ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی تعریفوں میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتا رہتا تھا۔ صالحہ نے زمین کے اس ٹکڑے کی مالیت کے حوالے سے بھی تحریری ثبوت فراہم کیے تھے۔
صالحہ کے آرٹیکل نے بہت سارے کچے چٹھے کھول کر رکھ دیئے تھے اور اس رات اس آرٹیکل کو پڑھتے ہی علیزہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ آرٹیکل عمر جہانگیر کے لئے خاصے مسائل کھڑے کر سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا تھا اخبار کے دفتر میں اس آرٹیکل کے حوالے سے دھڑا دھڑ فون آ رہے تھے لوگ اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے اور ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو زمین کی اس خرید و فروخت کے حوالے سے مزید معلومات فراہم کرنا چاہتے تھے۔
شام کو وہ گھر آئی تو بہت زیادہ تھکی ہوئی تھی …اپنے اخبار میں شائع ہونے والا وہ آرٹیکل اسے اپنے کندھوں پر ایک بوجھ کی طرح لگ رہا تھا …وہ جانتی تھی وہ آرٹیکل عمر کو بھی خاصا پریشان کر رہا ہو گا اور عمر کی پریشانی کا تصور اس کے لئے بہت نا خوشگوار ثابت ہو رہا تھا۔
وہ ابھی اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کال ریسیو کی۔
”ہیلو! علیزہ کیسی ہو؟” دوسری طرف سے ہمیشہ کی طرح جنید نے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہوں۔” علیزہ نے اپنے سر کا بوجھل پن جھٹکتے ہوئے کہا۔
”بالکل ٹھیک ہو تو یہ اچھی بات ہے۔ اس کا مطلب ہے میں اگلے پندرہ منٹ کے بعد تمہیں ڈنر کے لئے پک کر سکتا ہوں۔” جنید نے بڑے خوشگوار انداز میں کہا۔
وہ انکار کر دینا چاہتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا، وہ اپنے سر سے اس آرٹیکل کو جھٹک دینا چاہتی تھی اور اس وقت جنید کے ساتھ گزارا ہوا کچھ وقت یقیناً اسے یہ موقع فراہم کر دیا۔
”ٹھیک ہے، میں تیار ہو جاتی ہوں، آپ مجھے پک کر لیں۔” اس نے ہامی بھرتے ہوئے کہا۔
فون بند کر کے وہ اپنے کپڑے لے کر باتھ روم میں گھس گئی، اس کو اندازہ تھا۔ جنید واقعی پندرہ منٹ بعد یہاں ہو گا اور وہ اس کو انتظار نہیں کروانا چاہتی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو جنید واقعی وہاں موجود نانو سے گپ شپ کر رہا تھا۔ وہ دونوں باہر نکل آئے۔
گاڑی میں جنید اس کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں مصروف رہا …علیزہ کو ہمیشہ کی طرح اپنی ٹینشن ریلیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
جنید کم گو مگر اچھی گفتگو کرنے والا آدمی تھا اور وہ جتنا اچھا سامع تھا۔ جب بولنے پر آتا تو اس سے بھی زیادہ اچھا گفتگو کرنے والا ثابت ہوتا۔ اسی خوبی کے باعث علیزہ نے جنید کو ذہنی طور پر جلد ہی قبول کر لیا تھا۔
”کہاں چلیں؟” اس نے بات کرتے کرتے اچانک علیزہ سے پوچھا۔
”کہیں بھی …میرے ذہن میں کوئی خاص جگہ نہیں ہے۔” علیزہ نے ڈنر کی جگہ کے انتخاب کو اس پر چھوڑتے ہوئے کہا۔
”فاسٹ فوڈ؟” جنید نے ایک بار پھر اس سے پوچھا۔
”یہ بھی آپ پر منحصر ہے …میں کسی خاص کھانے کا سوچ کر باہر نہیں نکلی۔” علیزہ نے ایک بار پھر پہلے کی طرح اس سے کہا۔
جنید اس کے جواب پر مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر تک وہ خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے علیزہ سے کہا۔
”میں آج تمہارا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔”اس نے علیزہ کے اخبار کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ نے گردن موڑ کر دیکھا۔ اسے احساس ہوا کہ جنید خلاف معمول کچھ سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
”اس میں، میں نے وہ آرٹیکل پڑھا، تمہاری دوست صالحہ کا آرٹیکل۔”
علیزہ کو بے اختیار سبکی اور ہتک کا احساس ہوا۔ جنید کے منہ سے اس آرٹیکل کا تذکرہ سننا اس کے لئے سب سے زیادہ شرمندگی کا باعث تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی وہ اس کے خاندان کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔
”اس نے تمہارے کزن کے بارے میں لکھا ہے، عمر جہانگیر، تمہارا وہی کزن ہے نا جس سے میں ملا تھا اور یہ آرٹیکل اسی کے بارے میں ہے نا؟” جنید نے جیسے تصدیق چاہی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!