امربیل — قسط نمبر ۱۲

گیٹ پر انہیں جنید نے ہی ریسیو کیا تھا۔ رسمی سلام دعا کے دوران ان دونوں کے درمیان مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا۔
”مجھے آپ کو یہاں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔” نانو کے اس کی امی کے ساتھ آگے چلے جانے پر اس نے علیزہ سے کہا ”اور یہ رسمی الفاظ نہیں ہیں۔”
اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کوشش کے باوجود اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے میں ناکام رہی۔ ہر چیز پہلے سے زیادہ کھو کھلی لگنے لگی تھی۔ ساتھ چلتے ہوئے اس شخص سے اسے یکدم خوف آنے لگا تھا۔
”میری خاصی دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے آپ کو یہاں دیکھ کر۔” وہ ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”اور یہاں تک پہنچنے کے لیے میری ایک دیرینہ خواہش کا خون ہوا ہے۔” اس نے سوچا۔




جنید کے گھر والوں کے ساتھ اگلے چند گھنٹے اس نے بہت مشکل سے گزارے تھے۔ وہ ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ وہ بھوربن میں ہونے والی اس سے اپنی پہلی ملاقات میں ہی جان چکی تھی حالانکہ تب تک وہ اس کی فیملی سے ملی تھی نہ اس نے انہیں دیکھا تھا۔ اسے ان کے بارے میں اور کچھ بھی جاننے کی خواہش نہیں تھی۔
جنید کا گھرانہ بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہت روایتی تھا۔ وہ سب آپس میں بہت بے تکلف تھے اور علیزہ کی وہاں موجودگی اسی بے تکلفی کا ایک ثبوت تھی۔
جنید کی چھوٹی دونوں بہنیں گھر پر موجود تھیں۔ اس کا چھوٹا بھائی گھر پر نہیں تھا نہ ہی اس کی بڑی بہن جس سے وہ پہلے مل چکی تھی مگر اس کے باوجود اندازہ کر سکتی تھی، گفتگو کے دوران بار بار جنید کی امی اور پاپا کی طرف سے ان کے ذکر کی وجہ سے کہ ان کی غیر موجودگی سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا تھا۔
وہ جنید کی دادی اور دادا سے بھی ملی تھی۔ اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ دونوں علی گڑھ کے گریجویٹس تھے۔ اس کے دادا بہت عرصہ ایک انگلش اخبار سے منسلک رہے تھے ، وہ فری لانس جرنلسٹ تھے اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہت سی کتابیں بھی تحریر کر چکے تھے۔
جنید کے والد سول انجینئر تھے اور اس کمپنی کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی تھی جس میں اب جنید ابراہیم کام کر رہا تھا۔ اگرچہ اس کی امی اور دادی ورکنگ ویمن نہیں تھیں مگر وہ اس کے باوجود بہت ایکٹو تھیں۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے بہت سے کاموں میں وہ دونوں حصہ لیتی رہی تھیں۔
چند گھنٹے وہاں گزارنے کے دوران اسے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ سب اسے پہلے ہی اس گھر کے ایک فرد کی حیثیت دے چکے تھے۔ اب جو کچھ ہو رہا تھا وہ صرف رسمی نوعیت کا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد جب وہاں سے واپس آئی تو پہلے سے زیادہ خاموش اور مضطرب تھی۔ نانو نے اس کے چہرے کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیات جاننے کی کوشش کی، وہ متفکر ہو گئیں۔ وہ کسی طرح بھی خوش یا مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔
”علیزہ…!کیسے لگے تمہیں وہ لوگ؟” انہوں نے اسے کریدنے کی کوشش کی۔
”اچھے ہیں۔” وہ جتنا مختصر جواب دے سکتی تھی اس نے دیا۔ نانو نے بے اختیار سکون کا سانس لیا۔
”تو پھر تم اتنی پریشان نظر کیوں آرہی ہو؟ وہاں بھی تم بہت چپ چپ تھیں۔”
”کچھ نہیں آپ کو یوں ہی محسوس ہو رہا ہے۔” اس نے انہیں ٹالنے کی کوشش کی۔ نانو کچھ دیر خاموش رہیں۔ ”میں جنید کے گھر والوں کو تمہاری رضامندی دے دوں؟” انہوں نے کچھ دیر کے بعد پوچھا۔
”جیسے آپ کی مرضی۔” اس نے تھکے تھکے انداز میں کہا۔
”وہ لوگ فوری شادی نہیں چاہتے، ایک ڈیڑھ سال تک شادی چاہتے ہیں۔ جنید کو چند کورسز کے لیے سنگاپور جانا ہے۔ پھر کچھ عرصہ کے لیے کوئٹہ بھی رہنا ہے، وہاں کوئی پروجیکٹ ہے اس کا۔” وہ اسے بتانے لگیں۔
”ابھی وہ چاہتے ہیں کہ انگیجمنٹ ہو جائے۔” وہ خالی الذہنی کے عالم میں ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”میں نے ثمینہ سے بات کی تھی۔ وہ بہت خوش ہے، تمہاری انگیجمنٹ کے لیے آنا چاہتی ہے۔ اس کی فلائٹ کا پتا چل جائے تو ہم لوگ انگیجمنٹ کی ڈیٹ طے کر لیں گے۔” نانو اپنی رو میں اسے بتاتی جا رہی تھیں وہ ذہنی طور پر کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔
”ثمینہ چاہتی ہے کہ خاصی دھوم دھام سے تمہاری انگیجمنٹ ہو، پوری فیملی آرہی ہے اس کی۔”
”میں جاؤں نانو ؟” وہ یک دم کھڑی ہو گئی۔ نانو اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں۔
”ٹھیک ہے تم چلی جاؤ” وہ انہیں شب بخیر کہتے ہوئے ان کے کمرے سے نکل آئی۔
اگلے دو تین ہفتے اس کے لیے بہت صبر آزما ثابت ہوئے۔ ثمینہ اپنی فیملی کے ساتھ اس کی انگیجمنٹ میں شرکت کے لیے پاکستان آئی تھیں۔
وہ بڑے جوش و خروش سے آتے ہی اس کی انگیجمنٹ کی تیاریوں میں لگ گئی تھیں، ہر روز علیزہ کو ساتھ لے کر وہ مارکیٹس کی خاک چھاننے نکل کھڑی ہوتیں۔
انہیں علیزہ کے رویے سے بالکل یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے یا کسی چیز کی وجہ سے پریشان ہے اور علیزہ کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی۔ وہ اس کی ماں تھیں مگر اتنے سال ایک دوسرے سے کٹ کر رہنے کے بعد ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اس کے چہرے پر جھلکنے والے ہر رنگ کو پہچان سکیں عبث تھا۔
اپنے سوتیلے بہن بھائی اسے خونی رشتوں سے زیادہ مہمان لگ رہے تھے نہ صرف وہ بلکہ ثمینہ بھی اور علیزہ اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ وہ مہمانوں سے اچھے طریقے سے پیش آئے۔
منگنی والی شام سٹیج پر جنید کے ساتھ بیٹھے اس نے کچھ فاصلے پر عمر کو دیکھا تھا اس کے چہرے پر موجود مصنوعی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ عمر بہت خوش باش نظر آرہا تھا۔ متحرک اور زندہ دل، وہ سٹیج کی طرف ہی آرہا تھا۔
فوٹو گرافر اس وقت مختلف رشتہ داروں کے ساتھ ان دونوں کی تصویریں بنا رہا تھا۔ عمر سٹیج پر آنے کے بعد سیدھا جنید کی طرف گیا۔ جنید اٹھ کر عمر سے گلے ملا باقی لوگوں کا تعارف جنید سے باری باری کروایا گیا تھا چند کزنز کے سوا۔
علیزہ کو حیرت ہوئی عمر اور جنید کو ایک دوسرے سے تعارف کی ضرورت نہیں پڑی، کیا عمر جنید سے واقف تھا؟
”مبارک ہو علیزہ…!” اس نے علیزہ کے سامنے کھڑے ہو کر اسے مخاطب کیا۔ وہ اس کے سیاہ چمکتے جوتوں کو دیکھتی رہی۔ اس نے ان جوتوں کو دیکھتے ہوئے ہی اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔
وہ کچھ دیر جنید کے ساتھ باتیں کرتارہا پھر علیزہ نے اسے سٹیج سے اترتے دیکھا۔
اس کے بعد علیزہ نے اسے ہال میں کئی جگہ پر مختلف لوگوں کے ساتھ گفتگو میں مصروف دیکھا، وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس پر سے اپنی نظر اور دھیان نہیں ہٹا سکی، جنید یک دم پس منظر میں چلا گیا تھا بلکہ وہ شاید کبھی پیش منظر میں آیا ہی نہیں تھا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!