امربیل — قسط نمبر ۱۲

”ایسے ہی ایک دوست کی۔۔۔” اس نے عمر کو ٹال دیا۔
”تم کیا کہہ رہے تھے؟” اس نے عمر کو بات جاری رکھنے کے لیے کہا۔
علیزہ نے موبائل کان سے ہٹا لیا۔
اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔
”کیا ہوا؟” شہلا نے پوچھا۔ علیزہ نے جواب دینے کے بجائے عمر کو اور جنید کو دیکھا۔
”جنید کو کال کی ہے؟” شہلا کو اچانک خیال آیا۔
”ہاں اور اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ جب تک یہ شخص اس کے ساتھ ہے۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اچھا چلو…ہم جا رہے تھے یہاں سے۔” شہلا نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا۔ اس نے ایک ہاتھ میں اپنی ٹرے پکڑی ہوئی تھی، علیزہ اس کے ساتھ چلنے لگی مگر ساتھ چلتے ہوئے اب وہ ایک بار پھر موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کر رہی تھی۔
”علیزہ ! بار بار نمبر ڈائل مت کرو۔ موبائل کو بیگ میں ڈالو۔ جنید ابھی بات کرنا نہیں چاہ رہا ہوگا کیونکہ وہ کھانے میں مصروف ہے اور پھر عمر کے سامنے وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہ رہا ہوگا۔”
***




عمر نے حیرانی سے اپنے موبائل پر نمودار ہونے والا نمبر دیکھا اور پھر جنید کو۔
”کیا ہوا؟” جنید نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”علیزہ کال کر رہی ہے۔” عمر نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا مگر اس کے ہیلو کہتے ہی دوسری طرف سے موبائل بند ہو گیا۔
”بات نہیں کی تم نے؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”نہیں بند کر دیا اس نے۔” عمر نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اس کی کال پر اتنے حیران کیوں ہو رہے ہو تم؟” جنید نے کہا۔
”کیونکہ بہت عرصہ بعد اس نے آج اچانک موبائل پر مجھے کال کی ہے۔” عمر اب بھی الجھا ہوا تھا۔ جنید یکدم کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔
”تمہیں کیا ہوا؟” عمر نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مجھے بھی کال کی تھی۔”
”وہ کال جو تم کسی دوست کی کہہ رہے تھے؟”
”ہاں…اب میں سوچ رہا ہوں کہ اگر وہ تمہیں موبائل پر کال نہیں کرتی تو اس طرح آج اچانک اس نے ہم دونوں کو باری باری کال کیوں کی ہے؟”
”میں جانتا ہوں اس نے کیوں بار بار ہم دونوں کو کال کی ہے۔” عمر نے اچانک اپنی ٹرے پیچھے کھسکاتے ہوئے کہا۔
”کیونکہ وہ اسی ہال میں کہیں موجود ہے اور اس نے ہم دونوں کو دیکھ لیا ہے۔” عمر نے ادھر ادھر نظریں دوڑائیں۔
”اب رش اتنا ہے کہ اس طرح بیٹھے بٹھائے تو کچھ بھی نظر نہیں آئے گا۔ کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیے۔” عمر اپنی کرسی کھسکا کر اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف نظریں دوڑانے لگا جبکہ جنید نے ایسی کوئی زحمت نہیں کی۔ وہ اطمینان سے اسی طرح بیٹھے ہوئے ایک بریسٹ پیس کو ساس کے ساتھ کھاتا رہا۔ عمر چند منٹوں کے بعد کندھے اچکاتے ہوئے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”مجھے ہال میں تو کہیں نظر نہیں آئی۔ حالانکہ میرے اندازے کے مطابق اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے تھا۔”
”اگر کال کی وجہ ہم دونوں کا اکٹھے دیکھ لینا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ یوں آرام سے ہمیں کال کرتی پھرے گی۔” جنید نے سو فٹ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔ ”وہ تو ہمیں دیکھتے ہی یہاں موجود ہوتی اور مجھے بازو سے پکڑ کر اس ٹیبل سے لے جاتی۔”
عمر اس کی بات پر مسکرایا۔ ”نہیں میرا خیال ہے، وہ پہلے مجھے دو تین تھپڑ لگاتی اور اس کے بعد تمہارا بازو پکڑ کر تمہیں یہاں سے لے جاتی۔” اس بار جنید اس کی بات پر مسکرایا اور ٹشو سے اپنا منہ صاف کرنے لگا۔
”اس کے باوجود میرا خیال ہے وہ یہیں کہیں ہے۔” عمر اب سو فٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اپنے اطراف میں نظریں دوڑاتا ہوا کہہ رہا تھا۔
”اگر تمہارا اندازہ ٹھیک ہے تو مجھ سے اس کی شکایتوں میں ایک اور شکایت کا اضافہ ہو گیا ہے اور آج رات کو وہ ایک بار پھر مجھے فون کرے گی اور مجھ سے تمہارے ساتھ ہونے والی میری ملاقات کے بارے میں پوچھے گی۔ اس کا مطلب ہے مجھے پہلے ہی خاصا خبردار ہو جانا چاہیے۔” جنید نے اطمینان سے کہا۔
”اور اچھا ہی ہوا مجھے یہ پتا چل گیا ورنہ میں پھر اس بارے میں اس سے جھوٹ بولتا۔”
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے عمر سے کہا۔ عمر نے اس کی بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، وہ سوفٹ ڈرنک کے سپ لیتے ہوئے اب کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
٭٭٭
شہلا نے علیزہ سے فون چھین کر آف کر دیا اور اس کے بیگ میں ڈال دیا وہ اب کے ایف سی کی سیڑھیوں سے اتر رہی تھیں۔
”عمر کو فون کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔ اسے فون کرکے تم کیا کہو گی؟” اس نے علیزہ کو سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
”جوبھی دل میں آئے گا میں کہوں گی۔”
”اور اس نے سب کچھ جنید کو بتا دیا تو؟”
”کیا بتائے گا وہ جنید کو؟”
”اس کے پاس بتانے کے لیے خاصا کچھ ہے۔” شہلا نے رک کر اسے دیکھا۔
”مثلاً کیا ہے اس کے پاس؟”
”وہ جنید کو اپنے لیے تمہاری ناپسندیدگی کی وجہ بتا دے گا۔”
”جنید پہلے ہی جانتا ہے کہ میں اسے کیوں ناپسند کرتی ہوں۔” علیزہ اس کی بات سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”نہیں جنید نہیں جانتا…اگر جانتا ہوتا تو۔۔۔”
شہلا نے بات ادھوری چھوڑ دی، وہ دونوں اب پارکنگ میں اپنی گاڑی کے پاس پہنچ چکی تھیں۔
”جنید اچھی طرح جانتا ہے، میں سب کچھ بتا چکی ہوں اسے۔”
”کیا بتا چکی ہو؟” شہلا نے درشتی سے گاڑی کے پاس رکتے ہوئے کہا۔
”میں عمر کو اس کی حرکتوں کی وجہ سے پسند نہیں کرتی۔” علیزہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”اس کے باوجود تم اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں، یہ پتا ہے جنید کو؟”
علیزہ جواب میں کچھ نہیں بول سکی۔
”تمہاری ناپسندیدگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے تم سے شادی نہیں کی۔”
”ایسا نہیں ہے۔” علیزہ نے کمزور آواز میں کہا۔
”ایسا ہی ہے علیزہ! چاہے تم اسے مانو یا نہ مانو اور اگر تمہاری حرکتوں کی وجہ سے عمر نے جنید کو یہ بات بتا دی تو نتائج کا اندازہ تم کر سکتی ہو۔ ” شہلا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
”کیامطلب ہے تمہاری اس بات کا۔” علیزہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”یہ مطلب ہے کہ تم اپنے دماغ کو استعمال کیا کرو اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں دوبار سوچا کرو۔۔۔” شہلا نے اس بار تیز آواز میں کہا۔
”کیا بتا دے گا وہ اسے، میرے بارے میں ؟ کون سی قابل اعتراض بات ہے جو…” شہلا نے اس کی بات کاٹ دی۔
”قابل اعتراض ہونے کا فیصلہ تم نہیں جنید کرے گا اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ عمر اسے کس طرح ساری بات بتاتا ہے۔”
علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر سر جھٹک کر گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔
”اب چلیں یہاں سے؟” شہلا نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم کو ایک بات بتاؤں۔” علیزہ نے یکدم گردن موڑ کر شہلا سے کہا۔
”عمر ایک انتہائی کمینہ اور گھٹیا آدمی ہے، وہ بے حد خودغرض شخص ہے، اس کی نظر میں کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔” وہ بات کرتے کرتے لمحہ کے لیے رکی ”مگر اس نے آج تک میری کوئی بات کسی سے نہیں کہی۔ مجھے اس سے یہ خوف کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ میرا کوئی راز کسی تیسرے آدمی کو بتا دے گا۔ اس نے میرے ساتھ ایسا کبھی کیا ہی نہیں اور تمہیں ایک اور بات بتاؤں۔۔۔”
وہ ایک لحظہ کے لیے پھر رکی۔ ”وہ اگر جنید کو یہ بات بتا دے گا تو جنید پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تم جس بات سے مجھے ڈرا رہی ہو مجھے اس سے اس لیے خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتی ہوں جنید مجھے اتنی معمولی سی بات پر کبھی نہیں چھوڑے گا۔”
شہلا اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی۔ علیزہ اب ونڈ سکرین سے باہر نظر آنے والی کے ایف سی کی عمارت کو دیکھ رہی تھی۔
***
رات کو جنید نے اسے فون کیا تھا مگر علیزہ نے فون پر اس سے بات نہیں کی، وہ شاید اس کال پر بہت خوش ہوتی اگر وہ چند گھنٹے پہلے ان دونوں کو وہاں بیٹھے اور پھر جنید کے اس کی کال کو اس طرح نظر انداز کرتے نہ دیکھ چکی ہوتی۔
”آپ اس سے کہہ دیں کہ میں اس سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ میں مصروف ہوں جب فرصت ملے گی تو اس سے بات کر لوں گی۔” اس نے بڑی بے رخی کے ساتھ اپنے کمرے میں پیغام لے کر آنے والے ملازم سے کہا۔ ملازم نے حیرانی سے اسے دیکھا اور واپس آگیا۔
جنید کی اگلی کال اس کے موبائل پر آئی تھی۔ اس نے موبائل پر اس کا نمبر دیکھ کر موبائل آف کر دیا، جنید نے اس کے بعد کال نہیں کی۔
اگلے روز صبح جنید نے اس وقت کال کی جب وہ ناشتہ کر رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر موبائل آف کر دیا۔ جنید نے دوبارہ گھر کے فون پر کال کی۔ اس بار فون نانو نے اٹھایا۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
”علیزہ ناشتہ کر رہی ہے، میں اسے بلواتی ہوں۔”
پھر انہوں نے ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے آواز دی۔ وہ کچھ دیر کانٹا ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچتی رہی پھر کانٹے کو پلیٹ میں پٹخ کر فون کی طرف آگئی، نانو سے فون لیتے ہی اس نے کسی سلام دعا کے بغیر چھوٹتے ہی کہا۔
”میں آفس کے لیے نکل رہی ہوں، آج آفس میں بہت کام ہے مجھے …اور مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے۔ اس لیے بہتر ہے آج آپ مجھے فون نہ کریں ،میں رات کو بھی دیر سے گھر واپس آؤں گی اور آتے ہی سو جاؤں گی۔ کوشش کروں گی کہ کل آپ سے کچھ بات کروں۔”
”نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، کل میں بہت مصروف ہوں گا اور میں تمہیں بالکل بھی ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا جب تمہیں فرصت ملے تب بات ہو جائے گی۔”
دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا۔ جنید کی آواز میں کوئی گرم جوشی نہیں تھی، وہ جان گئی تھی کہ جنید کو اس کی بات بری لگی ہے مگر اس وقت اسے اس پر اتنا غصہ آ رہا تھا کہ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں تھی۔
”ہر بار اسے میں ہی فون کروں۔ ہر بار اسے میں ہی مناؤں …اور یہ ، یہ ہر بات مجھ سے چھپاتا رہا یہاں تک کہ عمر سے میل جول بھی ۔ عمر کے سامنے اس نے مجھ سے بات تک کرنا پسند نہیں کیا۔ فون بند کر دیا۔ یہ اہمیت ہے اس کی نظر میں میری۔”
وہ بری طرح کھولتی رہی۔ جنید پر اسے پہلے کبھی اتنا غصہ نہیں آیا تھا۔ اس کا خیال تھا جنید جیسے مزاج اور عادات والے شخص پر اسے غصہ آ ہی نہیں سکتا یا کم از کم اس طرح کا غصہ نہیں، جیسا غصہ وہ اس وقت اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔
جنید نے اگلے دن اسے فون نہیں کیا۔ رات کو جب وہ یہ طے کر رہی تھی کہ وہ بھی آئندہ اسے اس وقت تک فون نہیں کرے گی جب تک وہ خود اسے فون نہیں کر لیتا تو اچانک جنید نے اسے موبائل پر کال کر لیا۔ اس کا لہجہ اتنا پرسکون اور خوشگوار تھا کہ علیزہ کو جیسے حیرانی کا ایک جھٹکا لگا۔
”تو جناب…کیا ہو رہا ہے؟” رسمی سلام دعا کے بعد اس نے علیزہ سے پوچھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ وہ کیا جواب دے۔ وہاں دوسری طرف لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ان کے درمیان کوئی ناراضی ہوئی تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!