امربیل — قسط نمبر ۱۲

رات دس بجے کے قریب وہ سب واپس آئے تھے۔ شہلا، علیزہ کے ساتھ تھی اور اسے رات وہیں اس کے ساتھ رکنا تھا۔
پورا گھر مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے سارے انکلز اپنی فیملیز کے ساتھ وہاں موجود تھے، اس کے کزنز میں سے کچھ منگنی کی تقریب میں شرکت کے بعد ہوٹل سے ہی واپس چلے گئے تھے مگر ابھی بھی کافی کزنز وہیں تھے جنہیں اگلے دن واپس جانا تھا۔
ایک لمبے عرصے کے بعد لاؤنج میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان خوشگوار گپ شپ ہو رہی تھی۔
وہ بھی کپڑے تبدیل کرنے کے بعد کافی دیر اپنی کزنز کے ساتھ گفتگو کرتی رہی پھر وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں آگئی۔
اس نے عمر کو بھی وہیں موجود دیکھا تھا اور اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ تقریب کے فوراً بعد واپس کیوں نہیں گیا۔
شہلا کچھ دیر اس کے ساتھ باتیں کرتی رہی پھر وہ دونوں لائٹ بند کرکے سونے لیٹ گئیں مگر بستر پر لیٹتے ہی علیزہ کی آنکھوں سے نیند غائب ہو گئی تھی۔ نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں وہ چھت کو دیکھتے ہوئے پچھلے کچھ گھنٹوں کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس کے لیے سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح تھا، جواب شروع ہوا تھا اور شاید کبھی ختم نہیں ہونے والا تھا۔




وہ لائٹ جلائے بغیر اپنے بیڈ سے نیچے اتر گئی، شہلا گہری نیند میں تھی۔ علیزہ جانتی تھی وہ ایک بار سونے کے بعد اتنی معمولی سی حرکت پر نہیں جاگے گی۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر کوریڈور میں نکل آئی۔ لاؤنج سے ابھی بھی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ یقیناً وہ سب ابھی بھی وہاں موجود تھے۔ وہ لاؤنج میں جانے کے بجائے گھر کے پچھلے حصے کی طرف آئی اور دروازہ کھول کر عقبی لان میں نکل آئی۔
باہر عجیب سی خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا۔ دور بیرونی دیوار کے پاس لگی لائٹس اگرچہ تاریکی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھیں مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں، لان بڑی حد تک تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، تاریکی، خاموشی اور تنہائی اسے اس وقت ان ہی چیزوں کی ضرورت تھی۔
نیچے لان میں اترنے کے بجائے وہ ماربل کی سیڑھیوں میں سب سے اوپر والی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ بایاں ہاتھ اپنی گود میں رکھتے ہوئے اس نے دایاں ہاتھ ماربل کے فرش پر رکھ دیا۔ فرش کی ٹھنڈک اسے پوروں کے ذریعے اپنے اندر اترتی محسوس ہوئی۔
”تو آج بالآخر آپ کے یوٹوپیا کا خاتمہ ہو گیا اور اب ایلس ونڈر لینڈ سے باہر آگئی ہے۔”
باہر کی خاموشی نے اس کے اندر کی خاموشی کو توڑ دیا تھا۔ وہ بہت آہستگی سے فرش پر انگلیوں کی پوریں پھیرنے لگی۔
”کاش معجزے ہونا بند نہ ہوتے، ایک معجزہ میری زندگی میں بھی ہوتا، میں آنکھیں بند کروں اور پھر کھولوں تو مجھے پتا چلے یہ سب خواب تھا۔ حقیقت یہ ہو کہ جنید کی جگہ پر عمر ہو جو ڈتھ اور جنید ہم دونوں کی زندگی میں موجود ہی نہ ہوں۔” اس نے سوچتے ہوئے آنکھیں بند کیں پھر آنکھیں کھولیں۔ خواب ختم نہیں ہوا، حقیقت بدل نہیں سکی۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے مسکرائی۔
ہم کہ دشت جہاں کو آباد کیے بیٹھے ہیں
آرزوئے یار کو اب خاک کیے بیٹھے ہیں
خواب کے تار سے خواہش کو رفو کرتے
دامنِ دل کو اب چاک کیے بیٹھے ہیں
اس نے زیر لب اس غزل کے شعروں کو دہرانے کی کوشش کی جنہیں وہ دو سال سے بڑی باقاعدگی سے سنتی آرہی تھی۔
کاش وہ آئے جلائے یہاں کوئی چراغ
دل کے دربار کو ہم طاق کیے بیٹھے ہیں
اس نے دور دیوار پر لگی ہوئی لائٹس پر نظریں جمادیں۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ لائٹس بھی بجھ جائیں۔ مکمل تاریکی، ویسی جیسی اس وقت میرے اندر ہے۔ کیا چند لمحوں کے لیے ویسی تاریکی نہیں ہو سکتی ہر طرف؟ اس کے اندر خواہش ابھری۔
”علیزہ !” اس نے بے اختیار گردن موڑ کر پیچھے دیکھا پھر اسی رفتار سے گردن واپس موڑی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپانا چاہتی تھی ، پھر اسے یاد آیا یہ کام پہلے ہی وہاں چھائی ہوئی تاریکی کر رہی تھی۔ اس نے بھی عمر کو اس کی آواز اور قدوقامت سے ہی پہچانا تھا اور عمر نے اسے کیسے پہچانا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا۔
وہ اتنے دبے قدموں آیا تھا کہ اسے اس کی آمد کی خبر ہی نہیں ہوئی یا پھر شاید وہ اپنی سوچوں میں اس قدر گم تھی کہ اپنے اردگرد ہونے والی ہر چیز سے مکمل طور پر بے نیاز ہو گئی تھی۔
”تم اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟” وہ اب اس کے عقب میں کھڑا پوچھ رہا تھا۔
”کچھ نہیں ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اس لیے باہر آگئی۔” اس نے اپنی آواز پر قابو رکھتے ہوئے اسے دیکھنے کی کوشش کیے بغیر کہا۔ اس کا خیال تھا، وہ اسے اندر جانے کا کہے گا…یا پھر اندر جانے کی ہدایت دے کر خود چلا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔
وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ کہے بغیر اس کے عقب میں خاموشی سے کھڑا رہا۔ پھر علیزہ نے اسے چند قدم آگے بڑھتے اور اسی سیڑھی پر بیٹھتے دیکھا جس پر وہ بیٹھی تھی۔
اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے یا پھر پوری قوت سے دھکا دے کر اسے وہاں سے دھکیل دے وہ چند لمحے اور اس کے پاس بیٹھتا تو اپنے آنسوؤں پر قابو پانے کی اس کی ساری کوششیں ناکام ہو جاتیں اور وہ اب عمر جہانگیر کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔
اس کی طرف دیکھے بغیر گردن سیدھی رکھے، وہ دور دیوار پر موجود لائٹس کو دیکھتی رہی مگر اس کی ساری حسیات بالکل بیدار تھیں۔ وہ اس کے سانس کی آواز سن رہی تھی۔ وہ اس کے کولون کی مہک کو محسوس کر رہی تھی۔ اسے اپنی گردن سیدھی رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ سیڑھیاں دونوں کے لیے نئی نہیں تھیں، وہ بہت بار وہاں بیٹھے تھے دن کی روشی میں۔ رات کی تاریکی میں مگر اس بار خاموشی ایک تیسرے فرد کی طرح ان دونوں کے درمیان موجود تھی۔ پہلے وہ کبھی نہیں آئی تھی، وہ دونوں یہاں بیٹھ کر گپیں ہانکتے رہتے، گفتگو میں کسی بھی وقفے کے بغیر، انہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر عمر نے اسے بہت سے لطیفے سنائے تھے۔ وہ ہر بار لطیفہ سنانے سے پہلے اس سے کہتا۔ ”تمہیں ایک جوک سناتا ہوں۔”
علیزہ ہنسنا شروع ہو جاتی۔ ”کم آن یار! پہلے سن تو لو۔ تم تو پہلے ہی ہنسنا شروع ہو جاتی ہو۔” وہ اسے ٹوکتا وہ سنجیدہ ہو جاتی۔
”ایک باپ اپنے بچے کو ایک سائیکولوجسٹ کے پاس لے کر گیا۔” وہ لطیفہ شروع کرتا پھر رک کر اضافہ کرتا۔” میری طرح کے بچے کو، اس نے سائیکولوجسٹ سے کہا کہ یہ بچہ بہت ضدی ہے۔ اس نے مجھے اور باقی گھر والوں کو بہت پریشان کر دیا ہے۔ اپنی فضول ضدوں کی وجہ سے۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کا علاج کریں تاکہ یہ اپنی اس عادت سے باز آ جائے۔
سائیکولوجسٹ نے باپ کی بات غور سے سنی اور پھر بچے کو سمجھانے کے بجائے باپ سے کہا کہ وہ کچھ تحمل سے کام لے، وقت گزرنے کے ساتھ وہ خود ہی یہ عادت چھوڑ دے گا۔
باپ نے کہا۔ ”اس وقت جو ضد کر رہا ہے اسے ہم نہیں مان سکتے اور یہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔”
سائیکولوجسٹ نے پوچھا ”اب یہ کون سی ضد کر رہا ہے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!