امربیل — قسط نمبر ۱۲

عمر جہانگیر اور زین العابدین کے جھگڑے کی ابتدا کب اور کس طرح ہوئی تھی؟ اس کا اندازہ کوئی بھی صحیح طرح سے نہیں لگا سکتا تھا۔
عمر کی پوسٹنگ اس وقت پاکستان کے پہلے پانچ بڑے شہروں میں سے ایک میں تھی۔ عمر اور تجربہ کے لحاظ سے وہ پولیس سروس کے سب سے جونیئر آفیسرز میں شامل تھا اور ایک جونیئر آفیسر کے پاس اس شہر کا ہونا حیران کن بات تھی۔ پاکستان میں شاید یہ اتنی حیران کن بات سمجھی نہیں جانی چاہیے تھی جہاں پوسٹنگز میں خاندانی اثرورسوخ ایک بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے اور عمر جہانگیر کے خاندان میں بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جو کسی غیر اہم پوسٹ پر ہوتا اور یہ صرف عمر پر ہی موقوف نہیں تھا، سول سروس کے زیادہ تر آفیسرز بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے یقیناً یہ اس قدر غیر معمولی بات نہیں تھی جو زین العابدین جیسے جرنلسٹ کو عمر کی طرف متوجہ کرتی۔ اس سے پہلے زین العابدین کے ریکارڈ پر کسی نو آموز بیورو کریٹ کی چھوٹی موٹی ہاتھ کی صفائیاں شامل نہیں تھیں۔ اس نے جب بھی کسی بیورو کریٹ پر لکھا تھا وہ بیس اور اکیس گریڈکا بڑا آفیسر ہوتا تھا اور زین العابدین نے کسی بڑے سکینڈل کی وجہ سے ہی اس پر لکھا تھا پھر عمر جہانگیر کس طرح اس کی توجہ کا مرکز بنا تھا علیزہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
تیسرے دن اخبار میں صالحہ کا آرٹیکل چھپ چکا تھا۔




علیزہ نے جب سے اس نیوز پیپر میں کام کرنا شروع کیا تھا۔ عمر کی اپنے شہر میں کارکردگی کے حوالے سے کئی بار اخبار میں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ شائع ہوتا رہتا تھا۔ بعض دفعہ اس پر تنقید ہوتی، بعض دفعہ اسے سراہا جاتا اور بعض دفعہ اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے معلومات ہوتیں۔
پھر ایک دم اس کے حوالے سے آنے والی خبروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے ضلع میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوتی جا رہی تھی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے حوالے سے حساس ترین شہروں میں سے ایک میں اس کی تعیناتی کے عرصہ کے دوران وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی فرقہ وارانہ قتل کی گونج نیشنل پریس میں سنائی دیتی رہی اور ردعمل کے طور پر پولیس کے کیے جانے والے اقدامات جن میں ضرورت سے زیادہ گرفتاریاں شامل تھیں وہ بھی اخبارات میں آتی تھیں۔ پھر اکثر اوقات وہ پریس کانفرنس میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے صفائیاں دیتا بھی نظر آتا۔
کچھ عرصے کے بعد اس نے دھڑادھڑ اپنے علاقے میں معطلیاں شروع کر دیں، اس کا نتیجہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری کی صورت میں آیا مگر دوسری طرف ضلع میں، اپنے محکمہ میں اس کے لیے ناپسندیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔
پھر اچانک اپنے شہر میں نئی سبزی منڈی کے حوالے سے اس کا اور اس کے شہر کے ڈپٹی کمشنر کا چرچا نیشنل پریس میں چند کالم نویسوں کے تعریفی کالموں میں سنا گیا۔
اس کے شہر میں موجود سبزی منڈی ملک کی چند بڑی، گندی ترین اور غلط منصوبہ بند سبزی منڈیوں میں سے ایک تھی۔ منڈی کو صرف دو راستے جاتے تھے اور ان دونوں راستوں پر اس قدر رش ہوتا تھا کہ ٹریفک کو گزرنے اور نکلنے میں کئی کئی گھنٹے لگ جاتے۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے وہاں ہر وقت ایک ہنگامے کی حالت برپا رہتی۔ خاص طور پر صبح فجر اور رات کے اوقات میں جب وہاں ٹرکوں اور ٹرالیوں پر دوسرے شہروں سے پھل اور سبزی آتی اور ان اجناس کے خریدار مختلف دکاندار اور ریڑھیوں والے وہاں آتے۔
منڈی میں نہ صرف ٹریفک کا نظام بہت برا تھا بلکہ گندگی کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
وہاں سے گزرنے والا گندے پانی کا نالہ گلی سڑی سبزیوں اور پھلوں اور ان کے چھلکوں سے ہر وقت بھرا رہتا۔ کوڑے کی مقدار اس حد تک زیادہ ہو جاتی کہ پانی کا بہنا بھی مشکل ہو جاتا، نتیجہ یہ تھا کہ پانی بری طرح متعفن ہو جاتا، منڈی میں کچھ دیر کھڑے رہنا جان جوکھوں کا کام لگتا تھا۔
برسات کے دنوں میں صورت حال اس وقت اور بھی خراب ہو جاتی جب نالے میں یکدم پیچھے سے بہت زیادہ پانی آ جاتا اور وہ پانی گزرنے کے بجائے منڈی میں سیلابی ریلے کی صورت میں بھرتا رہتا، پانی کا یہ کیچڑ نما ریلا کئی کئی ہفتے منڈی میں موجود رہتا اور لوگ اسی حالت میں وہاں کاروبار کرتے رہتے۔ کئی ہفتوں کے بعد یہ پانی اتر بھی جاتا تب بھی زمین کو خشک ہونے میں کئی کئی دن لگتے۔ بعض دفعہ وہاں وبائیں بھی پھوٹ پڑتیں۔ مگر لوگوں کو ان چیزوں کی زیادہ پرواہ نہیں تھی۔
شہر کی انتظامیہ کئی سال پہلے نئی سبزی منڈی کے لیے نہ صرف جگہ مخصوص کر چکی تھی بلکہ بڑے اچھے طریقے سے اس کی پلاننگ کے بعد دکانوں کی تعمیر بھی کی گئی، اس کام میں کروڑوں روپیہ خرچ ہوا لیکن جب انتظامیہ اور بلدیہ نے سبزی منڈی کو نئی جگہ پر منتقل کرنے کی کوشش کی تو ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
نئی سبزی منڈی آبادی سے خاصی دور تھی جب کہ موجودہ سبزی منڈی شہر کے تقریباً وسط میں تھی اور شہر کے اندر ہونے کا یہ فائدہ کوئی بھی کھونے کے لیے تیار نہیں تھا۔
منڈی کے آڑھتیوں، بیوپاریوں اور خریداروں نے آسمان کو کچھ اس طرح سر پر اٹھایا کہ انتظامیہ نے منڈی کو عوام کی سہولت کے پیش نظر نئی جگہ پر منتقل کرنے کا کام معطل کر دیا۔ آڑھتیوں اور بیوپاریوں کی دھمکیاں کوئی بھی سیاسی حکومت افورڈ نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ہر ایک کو ان کے ووٹوں کی ضرورت تھی اور کوئی رکن اسمبلی یا بلدیہ کا میئر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹ اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ اس لیے جتنے شور شرابے سے ”عوام کی سہولت” کے پیش نظر اس منڈی کو منتقل کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیاتھا، اتنی ہی خاموشی کے ساتھ اس منصوبے کو عوام کی سہولت کے لیے ترک کر دیا گیا تھا۔
نئی تعمیر شدہ منڈی شہر سے باہر اپنے مکینوں کا انتظار ہی کرتی رہی۔ پھر ہر بار نئی آنے والی انتظامیہ اور بلدیہ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ہر بار وہ دودھ کے جھاگ کی طرح بیٹھتے رہے۔ بلدیاتی انتخابات میں ہر بار شہریوں سے منڈی کی شہر سے باہر منتقلی کے وعدے پر ووٹ لیے جاتے اور الیکشن جیتنے کے بعد اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا جاتا۔ پھر اس کام کا بیڑا رضی محمود اور عمر جہانگیر نے اٹھایا تھا۔ تمام سیاسی دباؤ کو پس پشت ڈالتے ہوئے سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والے لوگوں کو ڈیڈ لائن دے دی تھی۔ دونوں پر پیچھے سے پڑنے والا دباؤ اس لیے کارگر ثابت نہیں ہو رہا تھا کیونکہ دونوں ہی بہت بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی ٹرانسفر کروانا آسان کام نہیں تھا۔
رضی محمود، عمر جہانگیر کے بیج میں سے تھا اور اس کی عمر کے ساتھ اچھی خاصی دوستی تھی۔ ایک ہی ضلع میں اتفاقاً ہونے والی تعیناتی کے دوران دونوں کے درمیان ہر معاملے میں اچھی خاصی کوآرڈی نیشن رہی اور سبزی منڈی کی تبدیلی کا کام اسی مطابقت کا ایک نتیجہ تھا۔
جب کسی قسم کا کوئی دباؤ کام میں نہیں آیا تو آڑھتیوں اور بیوپاریوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ رضی محمود اور عمر جہانگیر نے بڑے اطمینان سے اس ہڑتال کی دھمکی کو نظر انداز کر دیا۔
منڈی کے لوگوں کے احتجاج میں اور شدت آ گئی اور مقررہ تاریخ پر ان کی ہڑتال شروع ہو گئی۔
مقررہ تاریخ پر رضی محمود نے قریبی شہر کی سبزی منڈی میں وہاں کے بااثر لوگوں کے ذریعے پھل اور سبزیاں منگوائیں اور شہر میں کئی جگہوں پر انتظامیہ اور بلدیہ کی زیر نگرانی سستے داموں فراہم کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ سارے شہر میں اعلان ہوتا رہا کہ اگلے دو ہفتوں میں انتظامیہ اور کن کن جگہوں پر ایسے بازاروں کا انعقاد کرے گی اور ان کے اوقات کیا ہوں گے۔
غیر محدود مدت کے لیے شروع ہونے والی ہڑتال اگلے دن ہی ختم ہو گئی، انہیں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایسے کسی اقدام کا اندازہ نہیں تھا۔
ہڑتال ختم ہونے کے باوجود سبزی منڈی میں کاروبار کرنے والوں کا احتجاج ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں اور شدت آ گئی اور جب مقررہ ڈیڈ لائن پر پولیس منڈی کو خالی کروانے گئی تو آڑھتیوں کی انجمن کے صدر نے انہیں وہ اسٹے آرڈر دکھایا جو وہ کورٹ سے لے چکے تھے۔ عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو تب تک سبزی منڈی کو خالی کروانے سے روک دیا تھا جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا اور مقدمہ کرنے والوں کو یقین تھا کہ مقدمے کا فیصلہ ہونے میں اتنا وقت ضرور لگ جائے گا کہ عمر جہانگیر اور رضی محمود وہاں سے پوسٹ آؤٹ ہو جاتے اور ان کی جگہ پر آنے والے نئے افسر ضروری نہیں تھا کہ ان جیسے ہی ہوتے، سبزی منڈی کے لوگوں کو یقین تھا کہ ان کا مسئلہ حل ہو چکا تھا۔ اسٹے آرڈر دیکھنے کے بعد ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی قیادت میں آنے والا پولیس کا دستہ بڑی خاموشی کے ساتھ سبزی منڈی کے لوگوں کے بلندوبانگ فاتحانہ نعروں کی گونج میں کسی قسم کے ردعمل کا اظہار کیے بغیر وہاں سے چلا گیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!