امربیل — قسط نمبر ۱۲

”بس کزن اور دوست کیا میں یہ بات مان سکتی ہوں کہ اس کے علاوہ عمر نے مجھے کبھی کچھ اور سمجھا ہی نہ ہو۔”
وہ ماؤف ذہن کے ساتھ ٹیبل پر پڑی ہوئی اپنی پلیٹ کو بے دھیانی کے عالم میں دیکھتی رہی۔
”علیزہ کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
انڈر سٹینڈنگ کے علاوہ اور تھا ہی کیا جو مجھے تمہاری طرف کھینچ رہا تھا۔” اس کی رنجیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔
”ٹمپرامنٹ اور ایج ڈفرنس….! کیا مذاق ہے۔ پچھلے دس سالوں میں تو ان دونوں چیزوں میں سے کسی نے ہمارے تعلق کو متاثر نہیں کیا پھر اب یہ دونوں چیزیں درمیان میں کہاں سے آگئیں؟”
وہ ہونٹ بھینچے ٹیبل کو دیکھتی جا رہی تھی۔
”یا پھر… یا پھر یہ بس جوڈتھ ہے جو کسی خلیج کی طرح تمہار ے اور میرے درمیان حائل ہے اور میری حماقت یہ تھی کہ میں نے اتنے سالوں میں بھی تم دونوں کے تعلق کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا بھی نہیں ورنہ شاید بہت سال پہلے… تم میری زندگی سے نکل چکے ہوتے۔ Pragmatism تم ٹھیک کہتے ہو، میں نے کبھی اپنے تصورات کی دنیا سے باہر نکل کر اپنے اور تمہارے تعلق کے بارے میں غور ہی نہیں کیا تھا۔”
”علیزہ !” نانو نے اس کی غائب دماغی کو محسوس کر لیا تھا۔
”مجھے چائے بنا دیں۔” اس نے انہیں دیکھے بغیر کہا۔ نانو کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئیں۔ وہ سلائس کو ایک بار پھر کھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سلائس کے ٹکڑوں کو حلق سے نیچے اتارنے کے لئے بھی اس قدر جدوجہد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ا س کا اندازہ اسے پہلی بار ہوا تھا۔
نانو نے چائے بنا کر اس کے سامنے رکھ دی۔ سر جھکائے کسی مشین کی طرح اس نے سلائس ختم کیا، چائے پی اور پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
نانو نے اسے روکا نہیں۔ وہ لاؤنج سے نکل گئی۔ نانو نے اس کے جانے کے بعد شہلا کو فون کیا۔ انہوں نے مختصراً اسے فون پر اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو بتانے کے بعد آنے کے لئے کہا۔
آدھے گھنٹہ کے بعد جب شہلا اس کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ کارپٹ پر بیٹھی اپنے سامنے ایزل پر رکھی ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں مصروف تھی۔
اس نے شہلا سے رسمی سی ہیلو ہائے کرنے کے بعد ایک بار پھر کینوس اسٹروک لگانے شروع کر دیئے، شہلا اس سے کچھ فاصلے پر فلور کشن پر بیٹھ گئی۔ علیزہ خاموشی سے کینوس پر اسٹروک لگاتی رہی۔ اس نے شہلا سے کوئی بات کرنے کی کوشش نہیں کی وہ واقعی مصروف تھی۔ مصروف نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی یا پھر شہلا کو نظر انداز کرنا چاہتی تھی۔شہلا اندازہ نہیں کر سکی۔ مگر اس کا چہرہ اتنا بے تاثر تھا کہ شہلا کو اس سے بات شروع کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔
اسے ویسے بھی اپنے اندازے کے غلط ہونے پر حیرت ہو رہی تھی۔نانو سے بات کرنے کے بعد اس کا خیال تھا کہ جب وہ علیزہ کے پاس آئے گی تو وہ اسے روتا ہوا پائے گی اور وہ سارا راستہ یہی سوچتی ہوئی آئی تھی کہ اسے علیزہ سے کیا کیا کہنا ہے۔ اسے کس طرح تسلی دینی ہے۔
مگر اب اسے اس طرح دیکھ کر اس کے سارے لفظ ، ساری تسلیاں غائب ہو گئی تھیں۔
”پینٹنگ کیسی لگ رہی ہے؟” اس نے بہت دیر بعد کینوس پر اسٹروک لگاتے لگاتے یک دم ہاتھ روک کر شہلا سے پوچھا۔
”پتہ نہیں۔”
”کیوں تم پینٹنگ کو دیکھ نہیں رہیں؟”
”نہیں۔ میں یہاں پینٹنگ کو دیکھنے نہیں آئی۔” علیزہ اسٹروک لگاتے لگاتے مسکرائی۔
”تم یقیناً یہاں مجھے دیکھنے کے لئے آئی ہو، پھر کیا مجھے یہ پوچھنا چاہئے کہ میں کیسی لگ رہی ہوں؟” وہ جیسے مذاق اڑاتے ہوئے بولی۔
اس کی مسکراہٹ اب غائب ہو گئی تھی مگر وہ اب بھی کینوس کی طرف ہی متوجہ تھی۔ شہلا نے ایک گہرا سانس لیا کم از کم اس کی خاموشی ختم ہو گئی تھی۔
”میں تم کو دیکھنے نہیں آئی، تم سے باتیں کرنے آئی ہوں۔”
”کس چیز کے بارے میں؟” اس کے لہجے میں سرد مہری تھی۔ شہلا کچھ بول نہیں سکی۔
”اوہ! یاد آیا۔ عمر کے انکار پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتی ہو۔” وہ اسی طرح کینوس پر اسٹروک لگاتے ہوئے بولی۔
”یا پھر شاید تم یہ جاننا چاہتی ہو کہ ریجیکشن کے بعد میں کیا محسوس کر رہی ہوں۔ بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔ اپنی اوقات کا پتا چل جانے کے بعد بندہ جتنا ہلکا پھلکا محسوس کر سکتا ہے۔ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔”
وہ ہاتھ روک کر شہلا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی۔ ”وہ کسی نے کہا ہے نا۔ ” وہ رک کر کچھ یاد کرنے لگی۔ ” ہاں یاد آیا۔
Since i gave up hope i feel much better.
تو میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔”
وہ پلیٹ پر کچھ اور رنگ بنانے لگی۔
”میں نے پہلے ہی تمہیں یہ سب کچھ بتا دیا تھا ، اس تکلیف سے بچانا چاہتی تھی تمہیں۔” شہلا نے نرم آواز میں کہا۔
علیزہ بے اختیار ہنسی۔ ”دنیا میں لڑکیوں سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہوتا۔ خوش فہمی کا آغاز اور اختتام ہم پر ہی ہوتا ہے۔ ساری عمر ہم محبت کی بیساکھیوں کا انتظار کرتی رہتی ہیں تاکہ زندگی کی ریس شروع کر سکیں۔ ہمیں ہر مرد کے بارے میں خوش فہمیاں رہتی ہیں کہ وہ آئے گا، ہمیں دیکھے گا اور ہمارا ہو جائے گا۔ کوئی ہم سے ہمدردی کرے تو ہمیں خوش فہمی ہونے لگتی ہے۔ کوئی ہمیں سرا ہے تو ہمیں وہ اپنی مٹھی میں قید نظر آنے لگتا ہے۔ کوئی ہمارے ساتھ وقت گزارے تو ہمارے ہوش و حواس اپنے ٹھکانے پر نہیں رہتے۔ ” وہ رکی۔ ”عمر کا خیال ہے مجھ میں میچورٹی نہیں ہے، یہ تو کسی لڑکی میں بھی نہیں ہوتی کبھی لڑکیاں بھی میچور ہو سکتی ہیں؟”
وہ ایک بار پھر ہنسی۔
”ہم میں میچورٹی صرف تب آتی ہے جب ہمیں اس طرح ریجیکٹ کیا جاتا ہے۔ جیسے اب میں میچور ہو گئی ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے پیلٹ نیچے رکھ دی۔
”اگر دنیا میں بیوقوفی اور حماقت کا کوئی سب سے بڑا ایوارڈ یا میڈل ہوتا تو میں اس کے لئے علیزہ سکندر کا نام ضرور بھجواتی۔” وہ بڑبڑائی ”اور اس سال کم از کم میرے علاوہ کوئی اور اس ایوارڈ کا حقدار ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ a die-hard، فول ۔” شہلا خاموشی سے اسے بولتا دیکھتی رہی۔
”عمر کا خیال ہے کہ میری اور اس کی انڈر اسٹینڈنگ ہی نہیں ہے اور میں ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ میری اگر کسی کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے تو وہ عمر ہی ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا برش بھی پیلٹ میں رکھ دیا۔ ”ویسے انڈر سٹینڈنگ کس کو کہتے ہیں؟”شہلا جانتی تھی یہ سوال نہیں تھا۔
”یہ سب میری حماقت تھی۔ تم نے ٹھیک کہا تھا۔ عمر کو اگر مجھ میں دلچسپی ہوتی تو وہ پچھلے دس سال میں کبھی تو مجھ سے اس دلچسپی کا اظہار کرتا۔” وہ مدھم آواز میں بول رہی تھی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!