امربیل — قسط نمبر ۱۲

”یہ میں نہیں جانتی۔ صالحہ سے اس آرٹیکل کے بارے میں میری کوئی بہت تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی۔” علیزہ نے کہا۔
”کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ صالحہ نے ایک دم اس قسم کا متنازعہ ایشو لے کر اس پر لکھا جب کہ اسے اس کا کوئی تجربہ ہے، نہ ہی اس حوالے سے اس کا کوئی بیگ گراؤنڈ ہے۔”
”یہ بات اتنی حیران کن نہیں ہے جتنی آپ کو لگ رہی ہے، وہ جرنلسٹ ہے۔ جب چاہے جس چیز کے بارے میں لکھ سکتی ہے۔ اہم بات تو صرف یہ ہے کہ جو چیز لکھی جائے وہ اچھی طرح لکھی جائے اور اس میں کوئی جھول نہ ہو اور میں سمجھتی ہوں اس کے اس آرٹیکل میں کوئی جھول نہیں ہے۔” علیزہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”لیکن صالحہ کے پاس ان تمام باتوں کے بارے میں اتنی معلومات اور ثبوت کہاں سے آئے ہیں۔ کیا وہ عمر کے شہر گئی تھی۔” جنید نے پوچھا۔
”نہیں، وہ وہاں نہیں گئی۔ اس نے یہ ساری انفارمیشن ایک دوسرے جرنلسٹ سے لی ہیں۔” علیزہ نے کہا۔ ” دوسرے جرنلسٹ سے؟” جنید کچھ حیران ہوا۔
”ہاں ایک دوسرے جرنلسٹ سے۔ وہ اس ایشو پر کام کر رہی تھی۔ انفارمیشن کی ضرورت پڑی تو اس نے اس سے مدد لی۔” علیزہ نے بتایا۔
”کس جرنلسٹ سے؟” جنید نے پوچھا۔
”آپ اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، یہ عمر کا پرابلم ہے۔ ہم خواہ مخواہ اس کے بارے میں کیوں پریشان ہوں۔” علیزہ نے جنید کی بات کا جواب دینے کے بجائے کہا۔




”کیا تمہیں یہ حیرانی کی بات نہیں لگ رہی کہ صالحہ نے ایک دوسرے جرنلسٹ کی فراہم کردہ معلومات اپنے آرٹیکل میں شامل کیں۔ یہ پروفیشنلزم ہے۔ ان چیزوں کو شائع کرنا یہ
کہہ کر یہ proofs authenticated(مستند ثبوت) ہیں جب کہ درحقیقت آپ خود بھی اس کی authenticity کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔” جنید نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”یہ کوئی بات نہیں ہے ہم لوگ اکثر آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔” علیزہ نے اس کے اعتراض کے جواب میں کہا۔
” اور اگر وہ انفارمیشن غلط ہو تو؟” جنید نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”ایسا نہیں ہوتا۔” علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہو بھی سکتا ہے آخر جرنلسٹس پر وحی تو نازل نہیں ہوتی۔”
”ہم صرف وہی انفارمیشن ایک دوسرے کو دیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہو کہ وہ غلط نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اگر غلط انفارمیشن دیں گے تو اپنا امیج بھی خراب کریں گے اور اخبار کا بھی۔” علیزہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”صالحہ کو کس نے انفارمیشن دی تھی؟” جنید نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس سے پوچھا۔
”زین العابدین نے۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
”زین العابدین نے؟” وہ چونک سا گیا۔
”اور آپ جانتے ہیں زین العابدین غلط انفارمیشن فراہم نہیں کر سکتا۔ کم از کم اس معاملے میں اس کی کریڈیبلٹی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔” علیزہ نے کہا۔
”مگر زین العابدین کے پاس عمر کے بارے میں اتنی معلومات کیسے آگئی ہیں۔ عمر اور اس کا تو دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔” جنید نے کہا۔
”زین العابدین! عمر کے بارے میں اگلے کچھ ہفتوں میں کسی اسائنمنٹ پر کام کرنے والا ہے اور وہ اسی سلسلے میں عمر کے بارے میں تمام معلومات اکٹھی کر رہا ہے۔” علیزہ نے لاپروائی سے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا۔
”کس طرح کی اسائنمنٹ ، کیا تمہیں کچھ اندازہ ہے؟” جنید نے اس سے پوچھا۔
”نہیں، میں کچھ نہیں جانتی۔ ہو سکتا ہے اسی طرح کے چھوٹے موٹے معاملات ہوں۔” علیزہ نے اپنی رائے دی۔
”مگر زین العابدین چھوٹے موٹے معاملات پر تو کام نہیں کرتا۔” جنید بڑبڑایا
”ہو سکتا ہے، زین العابدین کے نزدیک یہ چھوٹا معاملہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ بھی کوئی اور بات ہو جو اس کی دلچسپی کا باعث ہو۔” علیزہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں۔ جانتا ہوں۔ اس کے نزدیک دلچسپی کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔” جنید بے اختیار بڑبڑایا اور علیزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”آپ زین العابدین کو ذاتی طور پر جانتے ہیں؟” اس نے جنید سے کہا۔
”کسی حد تک…تم صالحہ سے کہو کہ وہ ان معاملات سے دور رہے۔ یہ بہت خطرناک معاملات ہیں اور بہتر ہے وہ کسی دوسرے کے ہاتھ کا ہتھیار نہ بنے۔”
جنید نے اچانک گاڑی ایک ریسٹورنٹ کی پارکنگ میں داخل کرتے ہوئے کہا۔
”جنید! آپ چاہتے ہیں، میں صالحہ کو دھمکاؤں ؟” علیزہ کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔
”نہیں، میں چاہتا ہوں تم ایک اچھی دوست کی طرح اسے ایسے آرٹیکل تحریر اور شائع کرنے کی صورت میں پیش آنے والے اقدامات اور خطرات کے بارے میں آگاہ کرو۔” جنید نے گاڑی روکتے ہوئے کہا ”مجھے امید تو یہی ہے کہ وہ تمہاری نصیحت پر کان نہیں دھرے گی مگر پھر بھی تم اپنا فرض تو ادا کر دو۔”
”صالحہ کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟” وہ الجھے ہوئے تاثرات کے ساتھ جنید کو دیکھنے لگی۔
”یہ میں کیسے بتا سکتا ہوں۔ میں متعلقہ پارٹی نہیں ہوں یہ تو متعلقہ پارٹی ہی بتا سکتی ہے کہ وہ ایسی صورت حال میں کیا قدم اٹھاتی ہے۔ ”جنید نے لاپروائی سے اپنے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”فرض کریں اگر یہ آرٹیکل آپ کے بارے میں ہوتا تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟” علیزہ نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
”میرا ردعمل؟” جنید چند لمحے سوچتا رہا۔ ”میں مس صالحہ پرویز کو کورٹ میں لے جاتا، ہتک عزت کے دعویٰ میں” جنید نے چند لمحے سوچنے کے بعد کہا ”نہ صرف اسے بلکہ اس کے اخبار کو بھی۔”
”یہ آپ اس صورت میں کرتے اگر الزامات غلط ہوتے، فرض کریں اگر الزامات صحیح ہوتے تو پھر آپ کیا کرتے؟” جنید علیزہ کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”تب تو آپ کبھی بھی اسے کورٹ میں لے جانے کا نہیں سوچ سکتے تھے تب آپ کیا کرتے؟”
”میں نے ایسے ہی کسی اقدام سے بچنے کے لیے تمہیں صالحہ کو محتاط کرنے کے لیے کہا ہے۔” جنید نے پرسکون انداز میں کہا۔
”یعنی آپ بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ الزامات غلط نہیں؟” جنید کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکا۔ وہ دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
”کیا آپ سے انکل ایاز یا عباس نے مجھ سے یہ سب کچھ کہنے کے لیے کہا ہے؟” علیزہ نے پرسکون آواز میں پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!