امربیل — قسط نمبر ۱۲

”اور اگر اس نے تم سے شادی سے انکارکر دیا تو؟ ”
”تو… پتا نہیں… پھر نانو کسی سے بھی میری شادی کر دیں… میں کچھ نہیں کہوں گی۔”
”اور وہ ”کسی” یقیناً جنید ابراہیم ہو گا۔”
”ہاں… وہ بھی ہو سکتا ہے۔”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم جنید ابراہیم کو ہی اپنا پہلا انتخاب رکھو۔ کم از کم اس کی زندگی میں کوئی جوڈتھ نہیں ہے۔”
”عمر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے بارے میں سوچنے کے لئے بڑے حوصلے کی ضرورت ہے اور میرے پاس یہ حوصلہ نہیں ہے۔” اس نے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”مجھے حیرت ہے علیزہ… چند ماہ پہلے یہ تم ہی تھیں جو عباس اور عمر کے خلاف اتنی باتیں کر رہی تھیں اور اب… تم خود اس کی زندگی کا ایک حصہ بننا چاہتی ہو… اس کی ساری برائیوں کو جانتے ہوئے بھی۔۔۔” شہلا عجیب سے انداز میں ہنسی۔”حالانکہ میرا خیال تھا کہ ان حالیہ واقعات نے عمر کے بارے میں تمہاری فیلنگز کو خاصا بدل دیا ہو گا… لیکن میں غلط تھی۔ ” شہلا کی آواز میں افسوس جھلک رہا تھا۔ ” عمر پر اتنی تنقید کرنے کے بعد بھی تم ابھی تک اس کی محبت میں اسی طرح گرفتار ہو جس طرح پانچ سال پہلے تھیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔”
وہ اندازہ نہیں کر سکی۔ وہ اسے ڈانٹ رہی تھی یا نصیحت کر رہی تھی۔ جو کچھ بھی تھا، اس وقت اسے ناگوار لگ رہا تھا۔
”میری اس کے ساتھ جو جذباتی انوالومنٹ ہے۔ وہ کسی اور کے ساتھ نہیں ہے… میرے لئے اس سے نفرت کرنا ممکن نہیں ہے۔ کم از کم تم تو یہ بات سمجھو۔” اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔




”میں نے تمہیں اس سے نفرت کرنے کے لئے نہیں کہا… میں جانتی ہوں۔ تم ایسا نہیں کر سکتیں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہی ہوں کہ تم اس کے بارے میں سوچتے ہوئے وقتی طور پر جذبات کو ایک طرف رکھ دو۔ جس آدمی کے ساتھ شادی کرکے زندگی گزارنی ہو۔ اس کے بارے میں صرف جذبات سے کام نہیں لیا جاسکتا۔ بہت سی باتوں کو مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔” وہ اب قدرے مدھم آواز میں اسے سمجھا رہی تھی خاص طور پر اس صورت میں جب یہ صرف ون سائیڈڈ لو افیئر ہو۔”
”شہلا ! یہ افیئر نہیں ہے۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ افیئر نہیں چلا رہا… میری اس کے لئے کچھ خاص فیلنگز ہیں… یا تم یہ کہہ لو کہ مجھے اس سے محبت ہے… مگر یہ کسی افیئر کی کیٹگری میں نہیں آتی۔”
”ٹھیک ہے۔ تم جو کہہ رہی ہو۔ میں مان لیتی ہوں… یہ افیئر نہیں ہے… محبت ہے… مگر تم اس کے ساتھ انوالوڈ ہو… اور وہ کسی اور کے ساتھ انوالوڈ ہے… کتنا پر سکون رہ سکتی ہو تم اس طرح کے آدمی کے ساتھ۔”
”شہلا! اس ٹاپک پر بات نہ کرو… تم اس طرح بات کرو گی تو مجھے بہت تکلیف ہو گی۔”
”ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو رہا ہو مگر کبھی نہ کبھی تو تمہیں اس تکلیف سے گزرنا ہی ہے۔ میں نہیں کہوں گی… کوئی اور کہے گا… پانی میں نظر آنے والے عکس کو چادر ڈال کر چھپایا نہیں جا سکتا۔” شہلا نے صاف گوئی سے کہا۔ ”تم اپنے لئے فیصلے کرنے میں آزاد ہو۔ میں یا کوئی دوسرا تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہے نہ ہی تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ سکتا ہے… عمر کے حوالے سے تم نے جو ٹھیک سمجھا وہ کیا… میری صرف اتنی خواہش ہے کہ تم اس کے بارے میں ذرا جذبات سے کام لئے بغیر سوچو۔”
”تم اگر میری جگہ ہوتیں تو کیا کرتیں؟” اس نے گردن موڑ کر شہلا کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ” کیا تم بھی وہی نہیں کرتیں جو میں نے کیا ہے… کیا تم بھی اس شخص سے شادی کرنے کی خواہش نہ رکھتیں جسے تم پسند کرتی ہوتیں۔”
”ہاں یقیناً اگر اس کی زندگی میں کوئی جوڈتھ نہ ہوتی تو۔” وہ شہلاکی بات کے جواب میں چند لمحوں کے لئے کچھ نہیں کہہ سکی۔
کچھ کہنے کے بجائے اس نے شہلا کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کرلیں۔
”عمر کے علاوہ دوسروں کے بارے میں بھی غور کرو… عمر سے بہتر لوگ موجود ہیں… ہر لحاظ سے … مجھے جنید بھی اچھا لگا ہے۔” علیزہ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔
”عمرکا کیا پتا… ہو سکتا ہے اس نے واقعی جوڈتھ کے ساتھ شادی کرلی ہو… ہو سکتا ہے، وہ کہہ دے…ہمیشہ کی طرح کہ وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔ ہو سکتا ہے… وہ اگر کچھ عرصہ کے بعد شادی کرے بھی تو جوڈتھ سے ہی… وہ ناقابل یقین شخصیت ہے۔ میں مانتی ہوں تمہاری اس کے ساتھ بہت انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ مگر وہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے… یہی حال ایموشنل اٹیچمنٹ کا ہوتا ہے۔ وہ بھی ڈیو لپ کی جا سکتی ہے… یہ ضروری تو نہیں ہے کہ عمر کے علاوہ تم کسی دوسرے کے لئے یہ سب محسوس ہی نہ کر سکو۔” وہ اسی مدھم آواز میں بول رہی تھی۔
”تم سے ایک بات پوچھوں؟” علیزہ نے یک دم آنکھیں کھول کر شہلا سے کہا۔
”ہاں۔”
”تم سے نانو نے کہا ہے کہ مجھ سے یہ سب کہو۔”
شہلا کچھ بول نہیں سکی۔ اسے علیزہ سے ایسے سوال کی توقع نہیں تھی۔ اسے اس طرح چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر علیزہ عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”مجھے پہلے ہی اندازہ ہو رہا تھا… آج فیروز سنز بھی تم مجھے جان بوجھ کر لے گئی تھیں… یہ بھی یقیناً تم سے نانو نے کہا ہو گا۔”
”تمہیں کیسے پتا چلا…؟” شہلا نے کچھ خفت سے کہا۔
”شہلا! میں بے وقوف نہیں ہوں… میں اب بچی بھی نہیں رہی… اور تم لوگوں کو بھی یہ بات جان لینی چاہئے۔۔۔” اس کی آواز میں خفگی تھی۔ ”میں بھی حیران تھی کہ جنید کو تمہارا نام کیسے پتا ہے… وہ بھی جھوٹ بول رہا تھا مجھ سے کہ اس نے مجھے تمہارا نام لیتے سنا ہے… جبکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے فیروز سنز پر ایک بار بھی تمہارا نام نہیں لیا۔”
”علیزہ! میں۔۔۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹ دی۔
”کبھی سجیلہ آنٹی مجھے ٹریپ کرکے اس سے ملوا رہی ہیں… کبھی نانو… اور اب تم… میں اس قدر احمق اور امیچور نہیں ہوں جتنا تم لوگ مجھے سمجھ رہے ہو۔” اس کا غصہ اب بڑھتا جا رہا تھا۔
”نانو اگر عمر سے بات کرنا نہیں چاہتی تو نہ کریں مگر تمہارے ذریعے اس کے خلاف میری برین واشنگ کرنے کی کوشش بھی نہ کریں۔”
”علیزہ ایسی بات نہیں ہے میں تمہاری برین واشنگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہوں نہ ہی انہوں نے مجھ سے ایسا کچھ کرنے کے لئے کہا ہے۔” شہلا اب کچھ پریشان ہو گئی تھی۔
”اگر ایسی بات نہیں ہے، تو وہ یہ سب کچھ خود مجھ سے کہہ سکتی تھیں۔ تمہارے ذریعے کیوں کہلوایا ہے انہوں نے یہ سب ؟ ”
”ان کا خیال تھا ، میں تمہیں یہ سب کچھ زیادہ بہتر طریقے سے بتا سکتی ہوں۔”
”ہاں عمر کے خلاف باتیں کرکے… جھوٹ بول کر تم مجھے ہر چیز زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتی ہوں۔”
وہ مکمل طور پر شہلا سے برگشتہ ہو چکی تھی۔ ”انہوں نے مجھے خود صاف صاف یہ کیوں نہیں بتا دیا کہ وہ عمر سے بات نہیں کریں گی… ایسی من گھڑت کہانیاں سنانے کی کیا ضرورت ہے… عمر اور جوڈتھ کی شادی… نان سینس”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!