امربیل — قسط نمبر ۱۲

”میں سوچتی تھی کہ شاید یہ ایک پروفیشن ایسا ہے جہاں ایمانداری سے سب کچھ ہوتا ہے مگر اب میں جانتی ہوں کہ یہاں بھی ایمانداری کا تناسب اتنا ہی ہے جتنا سوسائٹی کے کسی دوسرے حصے میں۔۔۔” اس نے سر جھٹکا ”ہم اپنے آرٹیکلر اور ایڈیٹوریلز میں لوگوں کو اخلاقیات سکھاتے پھرتے ہیں۔ انہیں تہذیب، شائستگی جیسی باتوں پر لیکچر دیتے ہیں۔ بہتان اور الزام تراشی پر ملامت کرتے ہیں۔ گرتی ہوئی اخلاقی اقدار کا رونا روتے ہیں اور پھر ہم ایکٹرز سے لے کر سیاست دانوں اور اب عام آدمیوں کی بھی عزتیں اچھالتے پھرتے ہیں اور پھر ہم اسے نام دیتے ہیں انفارمیشن کا اور دعویٰ کرتے ہیں کہ عوام کو سب پتا ہونا چاہیے ۔ ہم ہر خبر کو مرچ مسالہ لگا کر اخبار کی سرکولیشن بڑھانے کے لیے فرنٹ پیج پر لگا دیتے ہیں۔ فلاں نے فلاں کے ساتھ گھر سے بھاگ کر کورٹ میں شادی کر لی۔ فرنٹ پیج نیوز اگلا پورا ہفتہ ہم اسے ہی کور کرتے رہتے ہیں۔ کسی جگہ سات آدمی قتل ہو گئے ہم ساتوں کی کٹی ہوئی گردنیں فرنٹ پیج پر شائع کر دیں گے، ہم نے آج تک معاشرے میں کون سا انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ہم جن ایکٹرسز کے لباس اور کردار پر تبصرے اور تنقید کرتے ہیں ان ہی ہیروئنوں کی ان ہی ملبوسات میں تصویریں شائع کرتے ہیں اور ہم دوسروں میں قول و فعل کا تضاد ڈھونڈتے ہیں۔” وہ ہنسی۔




”ہم جن سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالتے پھرتے ہیں انہیں کی حمایت ، ان ہی کی تعریفیں شائع کر تے ہیں۔ فخر سے لکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں چائے پر بلایا، فلاں ساتھ دورے پر لے گیا۔ فلاں نے اپنے بیٹے کی شادی پر بلایا۔ ہم ان کے ساتھ تصویریں بھی کھنچواتے ہیں اور پھر ان تصویروں کو فریم کروا کر اپنی دیواروں پر بھی لٹکاتے ہیں۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکی ۔ ”ہم بیورو کریسی پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ان کے ہر کام پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنے تمام غلط کاموں کے لیے ان کے پاس بھی جاتے ہیں۔ اگر عمر جہانگیر نے تمہارے کزن کے ساتھ یہ سب کچھ نہ کیا ہوتا تو کیا تمہیں کبھی یاد آتا کہ وہ کس شہر میں کیا کارنامے کر رہا ہے، کبھی نہیں ہمارے لیے پریشانی کھڑی ہو تو ہمیں ان پر اعتراض ہوتا ہے۔ ہمارے سارے کام کسی رکاوٹ کے بغیر ہو جائیں تو ہم ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ ہم ریاست کا چوتھا ستون۔۔۔”
وہ ایک بار پھر ہنسی…اس بار صالحہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات اب پہلے سے زیادہ بگڑے ہوئے تھے۔
”تمہاری اس ساری گفتگو کے باوجود میں عمر جہانگیر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کروں گی۔” اس نے علیزہ کو دوٹوک انداز میں بتایا۔
”ضرور کرو… میں تمہیں نہیں روکوں گی۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا، چند لمحے تک صالحہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر کمرے سے باہر نکل گئی۔
علیزہ کے چہرے پر پہلی بار پریشانی کے آثار نظر آئے۔
٭٭٭
اگلے دن صبح ناشتہ کرتے ہوئے اس نے کچھ بے دلی سے اخبار کھولا۔ اسے توقع تھی کہ اخبار میں صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی تفصیلات ہوں گی۔ عمر کے لیے ایک اور نئی مصیبت، وہ جانتی تھی عمر اس گفتگو کی تردید نہیں کر سکے گا، کیونکہ صالحہ کے پاس آفس کے ایکسچینج میں موجود آپریٹر کی ریکارڈ شدہ گفتگو ہو گی اور اس بات کا اندازہ عمر کو بھی ہونا چاہیے تھا، اسے ویسے بھی عمر کی حماقت پر حیرت ہو رہی تھی کہ اس نے اس طرح فون کرکے صالحہ کو دھمکانے کی کوشش کی۔ وہ جس قدر محتاط فطرت رکھتا تھا اس سے اس قسم کی غلطی کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی مگر وہ غلطی کر چکا تھا اور علیزہ جانتی تھی یہ غلطی عمر کو خاصی مہنگی پڑے گی۔ خاص طور پر اس صورت میں اگر صالحہ نے پریس کانفرنس میں وہ گفتگو صحافیوں کو سنانے کا فیصلہ کر لیا تو۔
مگر اخبار دیکھ کر اسے حیرت ہوئی تھی۔ صالحہ کی کوئی تحریر اس میں شامل نہیں تھی نہ صرف یہ کہ اس کی تحریر نہیں تھی بلکہ اخبار میں کہیں بھی صالحہ اور عمر کے درمیان ہونے والی گفتگو کے حوالے سے کوئی نیوز آئٹم بھی نہیں تھا۔
علیزہ نے اخبار کی ایک ایک خبر دیکھ لی…مگر وہاں عمر کے حوالے سے کچھ بھی موجود نہیں تھا کچھ دیر بے یقینی سے وہ اخبار کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے رکھ دیا۔ اب اسے آفس جانے کی بے چینی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ صالحہ نے عمر کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کو شائع کیوں نہیں کی۔ کیا اس پر علیزہ کی باتوں کا اثر ہو گیا تھا یا پھر…یا پھر کوئی اور وجہ تھی۔
اس دن آفس جا کر اسے پتا چلا کہ صالحہ آفس نہیں آئی۔
”صالحہ آفس کیوں نہیں آئی؟” علیزہ نے اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک سب ایڈیٹر سے پوچھا۔
”وہ چند دن کی چھٹی پر چلی گئی ہے۔” نغمانہ نے اسے بتایا۔
علیزہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔” چند دن کی چھٹی پر…؟” کل تک تو اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اب اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا ، مجھے تو خود آج صبح ہی پتا چلا ہے کہ وہ چھٹی پر چلی گئی ہے۔ وہ بھی تب جب مجھے اس کا کام سونپا گیا ہے۔” نغمانہ نے لاپروائی سے کہا۔ ”تم فون کرکے پوچھ لو اس سے کہ اچانک اسے چھٹی کی کیا ضرورت آن پڑی۔”
علیزہ کو ہچکچاہٹ ہوئی اگر اس کے اور صالحہ کے درمیان کل والی گفتگو نہ ہوئی ہوتی تو وہ یقیناً اسے کال کرنے میں تامل نہ کرتی مگر اب اس کے لیے صالحہ کو فون کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
”تم کیا سوچنے لگیں؟” نغمانہ نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں کچھ نہیں…بس ایسے ہی۔” علیزہ نے کہا کچھ دیر بعد ایک خیال آنے پر اس نے نغمانہ سے پوچھا۔
”کیا صالحہ نے کوئی آرٹیکل لکھا ہے۔ کوئی نیا آرٹیکل؟” نغمانہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تم کب کی بات کر رہی ہو؟”
”کل کی…یا آج۔۔۔”
”نہیں، اس نے کوئی نیا آرٹیکل نہیں دیا۔ ہو سکتا ہے گھر سے کچھ بھجوا دے یا پھر چھٹیوں کے بعد کچھ لکھ لائے مگر فی الحال اس کا کوئی آرٹیکل میرے پاس نہیں ہے۔”
”اچھا۔۔۔”علیزہ کچھ اور الجھی۔
”کیا اس نے تم سے کسی آرٹیکل کی بات کی تھی؟” نغمانہ نے اچانک اس سے پوچھا۔
”نہیں ایسے کسی خاص آرٹیکل کی بات تو نہیں کی۔ میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی کہ شاید چھٹی پر جاتے ہوئے وہ کوئی نئی چیز دے کر گئی ہو۔”
کچھ دیر نغمانہ کے پاس رہنے کے بعد وہ واپس اپنے کیبن میں آگئی۔ اپنے کیبن میں آنے کے بعد اس نے فون اٹھا کر آفس کے آپریٹر سے بات کی۔ ”ذکا…صالحہ نے کل آپ سے کسی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ لی ہے؟” اسے لگا دوسری طرف ذکا جواب دیتے ہوئے کچھ تامل کر رہا ہے۔
”آپ کس کی گفتگو کی بات کر رہی ہیں؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ذکا نے اس سے پوچھا۔
”کل میرے آفس میں آپ نے صالحہ کی عمر جہانگیر کے ساتھ بات کروائی تھی۔ میں اس کی ریکارڈنگ کی بات کر رہی ہوں۔” علیزہ نے اسے یاد دلایا۔
”نہیں، وہ میں نے صالحہ کو نہیں دی… آپ جانتی ہیں، چیف ایڈیٹر کو بتائے بغیر اور ان سے اجازت لیے بغیر ایسی کوئی ریکارڈنگ کسی کو نہیں دی جاتی۔” کل صالحہ نے مجھ سے وہ ریکارڈنگ مانگی تھی مگر جب میں نے تیمور صاحب سے بات کی تو انہوں نے وہ ریکارڈنگ دینے سے منع کر دیا۔” ذکا نے چیف ایڈیٹر کا نام لیتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ پرسکون ہو گئی۔
”تو وہ ریکارڈنگ آپ کے پاس ہے؟” اس نے ذکا سے پوچھا۔
”نہیں۔ وہ میرے پاس بھی نہیں ہے۔”
”آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر کس کے پاس ہے؟” علیزہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”وہ تیمور صاحب نے اپنے پاس منگوا لی تھی۔ شاید سننے کے لیے؟” ذکا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”پھر بعد میں انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ میں اس کو ضائع کر دوں۔”
”آپ نے ضائع کر دی؟”
”جی۔۔۔”
”اچھا ٹھیک ہے۔ میں بس یہی جاننا چاہتی تھی۔” اس نے ریسیور رکھ دیا اور کچھ دیر پر سوچ انداز میں فون کو دیکھتی رہی۔
یکدم تیمور صاحب کے دل میں عمر جہانگیر کے لیے اس قدر ہمدردی کہاں سے اُمڈ پڑی تھی کہ انہوں نے اس ٹیپ کو ضائع کر دیا جس میں موجود مواد کے شائع ہونے سے عمر کی پوزیشن اور خراب ہوتی وہ الجھ رہی تھی۔
”جب کہ ابھی چند دن سے تو وہ صالحہ کو اس کے آرٹیکلز پر داد دے رہے تھے اور پھر زین العابدین ، کیا اس نے صالحہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا یا صالحہ نے اس سے کوئی رابطہ نہیں کیا؟” وہ اس معمے کو حل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔
اب کم از کم اسے صالحہ پرویز کے چھٹی پر جانے کی وجہ سمجھ میں آگئی تھی۔ وہ یقیناً احتجاجاً چھٹی پر گئی تھی جب اسے تیمور صاحب سے اس گفتگو کو شائع کرنے کی اجازت نہیں ملی ہو گی تو…اس نے یقیناً یہی بہتر سمجھا ہو گا کہ وہ اپنی ناراضی کا اظہار کرے مگر کیا عمر نے چیف ایڈیٹر سے بھی بات کی تھی؟ اس کے ذہن میں اچانک ایک خیال آیا۔
”یقیناً کی ہو گی ورنہ انہوں نے صالحہ کو وہ گفتگو شائع کرنے سے منع کرنے اور اس ٹیپ کو ضائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا اور اب وہ کل کیا کریں گے ۔ کیا اخبار میں معذرت شائع کریں گے۔ صالحہ پرویز کی طرف سے اور اخبار کی طرف سے یا پھر۔۔۔”
وہ اب عمر کی حکمت عملی کے بارے میں اندازے لگانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
اگلے دن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جیسا وہ توقع کر رہی تھی۔ اس کے اخبار میں عمر کے بارے میں اس دن بھی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہر طرف یکدم ایک خاموشی چھا گئی تھی۔ آفس میں بھی کچھ نئی خبریں تھیں جن کو ڈسکس کیا جا رہا تھا اور علیزہ کے تجسس میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ تجسس ہی تھا جو اسے زہرہ جبار کے پاس لے گیا تھا وہ ان کے انڈر کام کرتی تھی۔
”میں آپ سے پرسوں کے حوالے سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔” اس نے کچھ رسمی سی باتوں کے بعد ان سے اپنے مطلوبہ موضوع پر گفتگو شروع کر دی۔
”پرسوں کے بارے میں؟”
”ہاں صالحہ کے حوالے سے۔” علیزہ نے کہا۔
”پرسوں صالحہ سے میری بات ہو رہی تھی۔ وہ ایک اور آرٹیکل لکھنا چاہ رہی تھی عمر جہانگیر کے بارے میں” اس نے بات شروع کی۔ ”دراصل اس دن عمر جہانگیر نے فون کیا تھا یہاں صالحہ کو…میرے آفس میں ہی بات ہوئی تھی دونوں کی بلکہ کچھ جھگڑا بھی ہوا تھا اور فون پر بات ختم کرنے کے بعد صالحہ نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ عمر کے بارے میں ایک اور آرٹیکل لکھے گی بلکہ اس کی تمام گفتگو شائع کر دے گی مگر پھر وہ چھٹی پر چلی گئی اور میرا کوشش کے باوجود اس سے رابطہ نہیں ہو سکا۔” علیزہ نے جھوٹ بولا۔
”پھر کل مجھے پتا چلا کہ تیمور صاحب نے صالحہ کو وہ آرٹیکل لکھنے سے منع کر دیا ہے اور وہ گفتگو کی ریکارڈنگ بھی ضائع کروا دی۔” اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں…اوپر سے کچھ پریشر تھا۔” زہرہ جبار نے اس کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیسا پریشر…؟” علیزہ نے پوچھا۔
”تمہیں پتا ہونا چاہیے علیزہ کیسا پریشر ہو سکتا ہے۔ تم آخر اس خاندان کی ایک فرد ہو۔” وہ عجیب سے انداز میں مسکرا کر بولیں۔
علیزہ چند لمحے کچھ نہیں بول سکی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ بات جانتی ہو گی۔ ”یقیناً صالحہ نے یہ بات۔۔۔” اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔
”میں تو صالحہ سے یہ جان کر حیران رہ گئی کہ تم عمر جہانگیر کی کزن ہو، میرے تو وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا، اور مجھے حیرت اس بات پر بھی تھی کہ تم اور صالحہ اتنی اچھی فرینڈز ہو اور صالحہ پھر بھی تمہاری فیملی کے بارے میں لکھ رہی ہے اور تم نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔” زہرہ جبار اب کہہ رہی تھیں۔
”یہ تو مجھے صالحہ نے بتایا کہ وہ خود بھی چند دن پہلے تک یہ بات نہیں جانتی تھی۔ تم نے اس سے بھی کبھی اس بات کا ذکر ہی نہیں کیا۔”
”یہ ضروری تو نہیں تھا کہ میں ایسا کرتی۔”
”ہاں ٹھیک ہے ضروری تو نہیں تھا مگر پھر بھی…چلو کوئی بات نہیں، اب تو ویسے بھی سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کے جواب میں قدرے لاپروائی سے کہا۔
”میں یہی جاننا چاہ رہی ہوں کہ سب کچھ کیسے ختم ہو گیا ہے۔ کل تک تو۔۔۔” زہرہ جبار نے اس کی بات کاٹ دی۔
”یہ تو میں نہیں جانتی۔ تیمور صاحب نے اتنی تفصیل نہیں بتائی مگر پرسوں کافی کالز آئی تھیں ان کے پاس، کافی اوپر سے اور وہ قدرے پریشان تھے۔ پھر انہوں نے صالحہ کو بلوا کر اس سے بات کی۔”
”مگر وہ کیوں پریشان تھے۔ خود گورنمنٹ نے بھی تو انکوائری کا اعلان کیا تھا۔ عمر کے خلاف۔”
”ہاں گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا مگر اعلان کرنے میں اور انکوائری کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ صالحہ تو پرسوں بہت غصہ میں تھی۔ غصہ میں ہی چھٹی لے کر گئی ہے۔” انہوں نے اسے ایک اور اطلاع دی۔ ”تمہارے اور صالحہ کے درمیان تو آپس میں کوئی بات نہیں ہوئی؟”
”کیسی بات؟”
”کوئی جھگڑا…؟”
”نہیں، مجھ سے اس کا کوئی جھگڑا کیوں ہوگا۔ ہم ابھی بھی دوست ہیں۔” اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔
”مجھے صرف تجسس ہو رہا تھا۔ اس لیے میں نے یہ سب کچھ آپ سے پوچھا۔” علیزہ نے وضاحت کی۔ ”مگر مجھے حیرانی ہو رہی ہے۔”
”کس بات پر؟”
”تیمور صاحب اتنی آسانی سے تو پریشرائز نہیں ہوتے ، بلکہ ہمارے اخبار کی کریڈ یبیلٹی اسی بات پر بیس کرتی ہے کہ ہم ہر قسم کے پریشر کو فیس کرنا جانتے ہیں اور کبھی بھی پریشر کے آگے سرنڈر نہیں کرتے پھر اب اتنے چھوٹے سے ایشو پر۔۔۔”زہرہ جبار نے کندھے اچکائے۔
”ہاں مجھے بھی حیرت ہے مگر…ظاہر ہے…پیچھے کوئی نہ کوئی بات تو ہو گی۔ کوئی ایسی بات ہو گی کہ تیمور صاحب نے اس سارے معاملے کو ختم کرنا بہتر سمجھا۔۔۔”
”اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ زین العابدین بھی اسی اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے۔ تیمور صاحب اسے کیسے روکیں گے؟ وہ تو کمپرومائز نہیں کرتا۔”

Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!