امربیل — قسط نمبر ۱۲

”تم سے کس نے کہا کہ زین العابدین اس اسائنمنٹ پر کام کر رہا ہے؟” زہرہ جبار نے کچھ چونک کر کہا۔
”صالحہ سے پتا چلا ہے مجھے۔” علیزہ نے صالحہ کا حوالہ دیا۔
”میرے پاس ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے اور زین العابدین۔۔۔” زہرہ جبار کچھ سوچ میں پڑ گئیں۔ ”وہ کبھی بھی پہلے سے اپنی اسائنمنٹس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتا، پھر صالحہ…جو بھی ہو، یہ زین العابدین اور تیمور صاحب کا مسئلہ ہے۔ وہ خود ہی اسے ورک آؤٹ کر لیں گے۔” انہوں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا علیزہ وہاں سے باہر آگئی۔
٭٭٭
اگلا دن بہت دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ وہ دوپہر کے وقت آفس میں کام کر رہی تھی جب نغمانہ یکدم اس کے کیبن میں داخل ہوئی۔
”مائی گاڈ علیزہ ! تمہیں پتا ہے، صالحہ کے ساتھ کیا ہوا ہے؟” اس نے کیبن میں داخل ہوتے ہی کہا۔
”نہیں…کیا ہوا ہے؟” علیزہ اس کے سوال سے زیادہ اس کے تاثرات دیکھ کر خوفزدہ ہوئی۔
”اس کی گاڑی پر کسی نے فائرنگ کی ہے۔ آج صبح جب وہ آفس آرہی تھی تو۔۔۔”
”مائی گاڈ…تمہیں کس نے بتایا؟ وہ ٹھیک تو ہے؟” علیزہ یکدم پریشان ہو گئی۔
”صالحہ نے خود فون کیا تھا ابھی کچھ دیر پہلے آفس میں…اسی نے بتایا ہے۔”
”اس کا مطلب ہے، صالحہ ٹھیک ہے۔” علیزہ نے سکون کا سانس لیا۔
”ہاں…وہ بہت لکی تھی جو بچ گئی۔” نغمانہ نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا ”ان لوگوں نے اس وقت اس کی گاڑی پر فائرنگ کی جب وہ ابھی اپنے گھر سے نکلی تھی۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اس کے گھر کا گارڈ بھی باہر نکل آیا اور اس نے بھی فائرنگ کی جس کی وجہ سے وہ لوگ بھاگ گئے مگر صالحہ تو بہت زیادہ اپ سیٹ ہے۔ اس نے تیمور صاحب سے بھی بات کی ہے اور کل وہ پریس کانفرنس کر رہی ہے۔”
”وہ جانتی ہے کہ فائرنگ کس نے کی ہے؟”
”سب جانتے ہیں، وہ جن کے خلاف آج کل لکھ رہی ہے، ظاہر ہے ان لوگوں نے ہی۔” نغمانہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”تم عمر جہانگیر کا نام لینا چاہتی ہو۔” علیزہ نے اس کی بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں…میں جانتی ہوں، تمہیں یہ بات بری لگے گی مگر عمر جہانگیر کے علاوہ یہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ کم از کم آفس میں سب یہی کہہ رہے ہیں اور خود صالحہ کا بھی یہی کہنا ہے عمر جہانگیر نے اس کی چھٹی کے دوران اسے گھر بھی فون کرکے دھمکایا تھا۔”
علیزہ کچھ بے دم ہو گئی۔ اسے یکدم ڈپریشن ہونے لگا تھا۔ آخر عمر جہانگیر کیوں اس طرح کی حرکات میں انوالو ہوتا ہے۔ نغمانہ کچھ اور بھی کہہ رہی تھی۔ مگر علیزہ کو اب کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
عمر کے لیے ایسی کوئی حرکت کرنا ناممکن تھا مگر وہ پھر بھی یہ توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ کسی عورت پر بھی ایسا حملہ کروا سکتا ہے اور وہ بھی تب جب وہ اخبار پر اتنا پریشر ڈال چکا تھا کہ اب اس کے خلاف کچھ بھی شائع نہیں ہو رہا تھا۔ اسے عمر سے گھن آئی…اسے اپنے خاندان سے گھن آئی۔
٭٭٭
شام کو وہ صالحہ سے ملنے اس کے گھر گئی، ملازم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھایا، کچھ دیر کے انتظار کے بعد وہ واپس آیا۔
”بی بی سو رہی ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔ علیزہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہاتھ میں پکڑا پھولوں کا بوکے اس نے ملازم کی طرف بڑھا دیا۔
”یہ میری طرف سے اسے دے دیں اور اسے بتا دیں کہ علیزہ سکندر اس سے ملنے آئی تھی۔ میں اسے کال کروں گی۔”
”ٹھیک ہے، میں ان کو آپ کا پیغام دے دوں گا۔” ملازم نے سر ہلاتے ہوئے بوکے اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ علیزہ نے دو گھنٹے کے بعد گھر سے اسے فون کیا مگر ملازم نے فون پر اس کا نام پوچھنے کے بعد اس سے کہا ”بی بی ابھی بھی سو رہی ہیں۔”
”آپ نے انہیں میرا پیغام دیا؟”
”جی…وہ کھانا کھانے کے بعد دوبارہ اپنے کمرے میں چلی گئی ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ کوئی انہیں ڈسٹرب نہ کرے۔” ملازم نے اسے صالحہ کا پیغام دیا۔
علیزہ نے فون بند کرکے صالحہ کے موبائل پر اسے کال کی۔ کال ریسیو نہیں کی گئی۔ وہ صاف طور پر اسے نظر انداز کر رہی تھی۔ اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
علیزہ اس کی کیفیات کو سمجھ سکتی تھی۔ وہ یقیناً اس وقت عمر جہانگیر کے خاندان کے ہر فرد کو اپنا دشمن سمجھ رہی ہو گی اور چند دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے اس نے یہی اخذ کیا ہو گا کہ علیزہ بھی عمر جہانگیر اور اس کے ہر اقدام کی مکمل حمایت کرتی ہے۔
اگلے دن کے اخبارات نے اس خبر کو فرنٹ پیج نیوز بنایا تھا۔ عمر جہانگیر پر اور کیچڑ اچھالا گیا تھا۔ اس کے حوالے سے اگلی پچھلی بہت سی خبروں کو اخبار میں لگایا گیا تھا اور اس بار صرف ان کا اخبار ہی یہ سب شائع نہیں کر رہا تھا بلکہ ہر اخبار اس کے بارے میں اسی طرح کی خبریں لگا رہا تھا۔
تیسرے دن کے اخبارات عمر کے بارے میں کچھ اور خبریں لے کر آئے تھے۔ صالحہ پرویز کی پریس کانفرنس کو نمایاں کوریج دی گئی تھی جب کہ عمر جہانگیر کی تردید کو ایک سنگل کالمی خبر بنا کر پچھلے صفحے کے ایک کونے میں لگایا گیا تھا۔ اے پی این ایس کی طرف سے اس حملے کی مذمت اور عمر جہانگیر کا برطرفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
٭٭٭
”آج شام کو لاہور کے سارے صحافی پریس کلب سے گورنر ہاؤس تک احتجاجی واک کر رہے ہیں۔ عمر جہانگیر کی معطلی اور اس کے خلاف اس قاتلانہ حملہ کی انکوائری کے لیے۔ ہمارے اخبار کے سارے لوگ بھی جار ہے ہیں۔ علیزہ تم چلو گی؟”
نغمانہ نے تیسرے دن اسے صبح آفس آتے ہی بتایا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اسے کیا جواب دے۔
”کوئی زبردستی نہیں ہے، اگر تم اس واک کو جوائن نہیں کرنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں۔۔۔” نغمانہ نے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں۔۔۔” اس نے جیسے علیزہ سے ہمدردی کی۔
”میں نے ابھی کچھ طے نہیں کیا، ہو سکتا ہے میں شام کو وہاں آجاؤں۔” علیزہ نے اس سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
وہ شام کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس احتجاجی واک میں شرکت کرنے کے لیے چلی گئی۔ اگلے دن آفس میں کولیگز کی چبھتی اور سوالیہ نظروں سے بچنے کے لیے یہی بہتر تھا۔
اسے دیکھ کر وہاں سب کو حیرت ہوئی تھی شاید کوئی بھی وہاں اس کی اس طرح آمد کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ باقی لوگوں کے ساتھ ساتھ خود صالحہ پرویز بھی خاصی حیران نظر آئی۔ فائرنگ والے واقعہ کے بعد اس دن پہلی بار ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا تھا علیزہ اس کی طرف بڑھ آئی۔
”ہیلو صالحہ…تم کیسی ہو؟” اس نے صالحہ سے پوچھا۔
”میں ٹھیک ہوں۔”
”میں تم سے کونٹیکٹ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہوں مگر…شاید تم بہت مصروف تھیں۔” اس نے صالحہ سے کہا۔
”نہیں، میں مصروف نہیں اپ سیٹ تھی۔”
”میں سمجھ سکتی ہوں…اور میں اسی حوالے سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی، مجھے بہت افسوس ہوا ہے اس واقعہ پر۔”
”شکریہ…میں جانتی ہوں، اور اس بوکے کے لیے بھی شکریہ جو تم نے مجھے بھجوایا۔” صالحہ نے پہلی بار مسکراتے ہوئے کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں تھی۔” علیزہ نے اس کاکندھا تھپتھپایا۔
”ویسے مجھے توقع نہیں تھی کہ تم آج یہاں آؤ گی۔” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اچانک صالحہ نے اس سے کہا۔
”لیکن میں آگئی۔ کم از کم اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ میں اپنی فیملی کے ہر غلط قدم کی حمایت نہیں کرتی ہوں۔”
”ہاں، کم ازکم اب میں یہ ضرور جان گئی ہوں۔” صالحہ نے ایک گرم جوش مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ پھر وہ دونوں دوسری باتوں میں مصروف ہو گئیں۔
واک میں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی تھی اور ان سب نے پوسٹرز پکڑے ہوئے تھے جن پر عمر جہانگیر کے خلاف بہت سے نعرے درج تھے۔ نغمانہ نے ایک پوسٹر علیزہ کو بھی پکڑا دیا۔
علیزہ نے زندگی میں پہلی بار پوسٹر پکڑ کر سڑک پر اس طرح کسی واک میں حصہ لیا تھا اور وہ خاصی خفت کا شکار ہو رہی تھی مگر وہاں موجود باقی سب صحافیوں کے لیے یہ سب عام سی بات تھی بہت سی واکس میں سے ایک بلکہ احتجاجی واک سے زیادہ ان کے لیے یہ گپ شپ کرنے کا ایک موقع تھا۔ پریس کلب سے گورنر ہاؤس جا کر کچھ سینئر صحافیوں نے گورنر ہاؤس کے ایک اہلکار کو ایک یادداشت بھی پیش کی تھی اور پھر گورنر کے پرسنل سیکرٹری سے بھی ان صحافیوں کی ملاقات کروائی گئی۔
ان صحافیوں کی واپسی پر ان کے چہروں پر خاصا اطمینان تھا۔
”گورنر صاحب نے یقین دلایا ہے کہ وہ زیر اعلیٰ سے بات کرکے کل عمر جہانگیر کو معطل کر دیں گے۔”
صحافیوں میں سے ایک نے بلند آواز میں وہاں کھڑے دوسرے صحافی کو بتایا تھا۔ کچھ دیر کی مزید گپ شپ کے بعد تمام صحافی وہاں سے جانے لگے۔ علیزہ بھی وہاں سے واپس گھر آگئی۔
٭٭٭
رات آٹھ بجے جب وہ گھر واپس آئی تو جنید اس کا منتظر تھا، وہ اور نانو دونوں لاؤنج میں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے۔
”میں نے تمہیں بہت دفعہ رنگ کیا۔ تم کہاں تھیں۔ تم نے موبائل کیوں آف کیا ہوا تھا؟” جنید نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”بس ایسے ہی آف کر دیا تھا۔ کچھ فرینڈز کے ساتھ فورٹریس چلی گئی تھی میں۔” علیزہ نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے جھوٹ بولا۔
”مگر کم از کم موبائل کو تو آف نہ کیا کرو اور خاص طور پر شام کے وقت۔ وہ بھی اتنے لمبے عرصے کے لیے۔ میں تمہیں ٹریس ہی نہیں کر پا رہا تھا۔”
”مگر آپ کے ساتھ تو آج میرا کوئی پروگرام طے نہیں ہوا تھا ورنہ میں جاتی ہی نا۔۔۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں، پروگرام تو کوئی نہیں تھا۔ میں ویسے ہی آگیا…یہاں کالونی میں کسی کام سے آیا تھا سوچا کہ تم سے اور نانو سے ملتا چلوں۔” جنید نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔
”اب تم کپڑے چینج کر لو تو میں کھانا لگواؤں۔” نانو نے اسے اطمینان سے بیٹھے دیکھ کر کہا۔ وہ اپنا بیگ اٹھا کر اپنے کمرے میں آگئی۔
٭٭٭
اگلے دن صبح ناشتہ کی میز پر آتے ہی اسے نانو کا موڈ آف ہونے کا احسا س ہوا اور اخبار ہاتھ میں لیتے ہی اسے اس کی وجہ پتا چل گئی تھی۔ پہلے ہی صفحے میں چند دوسرے صحافیوں کے ساتھ اس کی اپنی تصویر موجود تھی اور نیچے اس تصویر کے ساتھ صحافیوں کی اس احتجاجی ریلی کم واک کی تفصیلات چھپی ہوئی تھیں۔
علیزہ کو یوں لگا جیسے کسی نے اسے چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا ہو۔ اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی کوئی تصویر بنائی جائے گی اور پھر اسے اخبار میں اتنی نمایاں جگہ لگا دیا جائے گا۔ اس نے کن اکھیوں سے نانو کو دیکھا۔ وہ بالکل خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ان سے کیا بات کرے۔ پھر ناشتہ شروع کرتے ہوئے اس نے اس وقت ان سے کوئی بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
بہتر تھا کہ وہ آفس سے واپس آکر ہی ان سے بات کرتی۔ کیونکہ تب تک ان کا غصہ کسی حد تک کم ہو گیا ہوتا۔ عمر کے بارے میں پچھلے کچھ عرصے سے شائع ہونے والی خبروں سے وہ پہلے ہی بہت پریشان تھیں اور اب اسے بھی اس مہم کا حصہ دیکھ کر یقیناً انہیں شاک پہنچا تھا۔
ناشتہ خاموشی سے کرنے کے بعد وہ آفس چلی آئی مگر آفس آنے کے بعد وہ لاشعوری طور پر جنید کی کال کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی اس وقت تک وہ بھی اخبار دیکھ چکا ہوگا اور دیکھنا چاہتی تھی کہ اس تصویر پر اس کا ردعمل کیا ہوگا۔ خاص طور پر یہ جان کر کہ اس نے جنید سے اپنی کل شام کی مصروفیت کے بارے میں جھوٹ بولا تھا۔
وہ اکثر اسے اسی وقت فون کرتا تھا مگر اس روز اس کا فون نہیں آیا۔ گیارہ بجے کے قریب علیزہ نے کچھ ہمت کرتے ہوئے اس کے موبائل پر اسے فون کیا۔ دوسری طرف سے کال ریسیو کر لی گئی۔
”ہیلو جنید! میں علیزہ ہوں۔”
”میں جانتا ہوں۔” جنید نے اس کی بات کے جواب میں بڑے سپاٹ سے انداز میں کہا۔
”میں آپ کے فون کا انتظار کر رہی تھی۔” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اس کے علاوہ اس سے کیا کہے۔
”یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔” علیزہ اس کے لہجے میں ناراضی تلاش کرنے لگی۔ ”میرا تو خیال تھا کہ آپ خاصی Self reliant (خودمختار )ہیں۔ دوسروں کے انتظار جیسی حماقت نہیں کر سکتیں۔ بہرحال آپ کی بہت مہربانی کہ آپ میرے فون کا انتظار کر رہی تھیں۔”
وہ پہلی بار اس بات سے آگاہ ہوئی تھی کہ جنید طنزیہ گفتگو بھی کر سکتا ہے۔ ”میں مصروف تھا اس لیے فون نہیں کیا۔”
کچھ دیر دونوں طرف خاموشی رہی پھر علیزہ نے ہی ہمت کرتے ہوئے پوچھا ”آپ نے اخبار دیکھا؟”
”روز دیکھتا ہوں؟” اس کا لہجہ اب بھی بے تاثر تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!