امربیل — قسط نمبر ۱۲

”علیزہ ! جنید کا فون ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔” وہ ناشتہ کرنے کے لیے لاؤنج میں داخل ہو رہی تھی جب نانو نے اس کو مخاطب کیا۔ وہ فون کا ریسیور ہاتھ میں تھامے ہوئے تھیں۔
علیزہ ایک لحظہ کے لیے ٹھٹھکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔ صوفہ پر بیٹھ کر اس نے نانو کے ہاتھ سے ریسیور لے لیا۔ وہ حیران تھی، جنید عام طور پر اس وقت فون نہیں کیا کرتا تھا۔
”ہیلو!” اس نے ریسیور تھامتے ہوئے ماؤتھ پیس میں کہا۔
”کیسی ہو علیزہ؟” دوسری طرح سے وہی نرم پچکارتی ہوئی آواز سنائی دی جس کی اب وہ کچھ عادی ہو گئی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ نے اس وقت فون کیسے کیا؟”
”تمہیں حیرانی ہو رہی ہے۔” جنید نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”کسی حد تک۔”
”تمہیں لنچ پر لے جانا چاہ رہا تھا۔” اس نے کسی تمہید کے بغیر کہا۔
”آپ رات کو مجھے بتا دیتے جب آپ نے مجھے کال کی تھی۔”
”اس وقت مجھے یاد نہیں رہا فون بند کر دیا، تب یاد آیا پھر میں نے سوچا کہ دوبارہ کال کرنا ٹھیک نہیں۔ میں صبح کر لوں گا اسی لیے تمہیں اب کال کر رہا ہوں۔” جنید نے بتایا۔
وہ کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ ”تمہارا لنچ آور کب شروع ہو رہا ہے؟” اسے خاموش پا کر جنید نے پوچھا۔
”ایک بجے۔” علیزہ نے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آفس سے ساڑھے بارہ بجے نکلتا ہوں۔ آدھے گھنٹہ میں تمہارے آفس پہنچ جاؤں گا۔” جنید نے پرگرام طے کرتے ہوئے کہا۔ ”تم لنچ آور شروع ہوتے ہی باہر آ جانا۔ ہم کسی قریبی ریسٹورنٹ میں لنچ کر لیں گے پھر میں تمہیں واپس ڈراپ کر دوں گا۔”
”مگر آج تو میں لنچ کرنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔” علیزہ نے کہا۔
”کیوں ؟”




”آج خاصا مصروف دن گزرے گا آفس میں…شاید ایک دو فنکشنز کور کرنے کے لیے بھی جانا پڑے تو لنچ آور تو نکل ہی جائے گا۔” اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی پھر جنید نے کہا۔
”تمہیں یقین ہے کہ تم کسی طرح بھی کچھ وقت نہیں نکال سکتیں؟”
”اگر مجھے یقین نہیں ہوتا تو میں آپ سے کبھی نہیں کہتی۔” علیزہ نے کہا ”ہم کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔” اس نے فوری طور پر ایک متبادل حل پیش کیا۔
”ٹھیک ہے۔ کسی اور دن لنچ کر لیتے ہیں۔ آپ بتا دیجئے کہ آپ کس دن دستیاب ہوں گی۔”
علیزہ اس کی بات پر مسکرائی۔ وہ اسے آپ اسی وقت کہتا تھا جب وہ خاصے خوشگوار موڈ میں ہوتا تھا۔
”کل چلتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی گھڑی پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
”کل…؟ ایک منٹ میں ذرا اپنا شیڈول دیکھ لوں…مجھے لگتا ہے کل، میں آفس سے نکل نہیں سکوں گا۔”
علیزہ نے اسے بڑبڑاتے سنا پھر کچھ دیر خاموشی رہی…چند منٹوں کے بعد جنید کی آواز دوبارہ آئی۔
”کل ممکن نہیں ہوگا علیزہ…! پرسوں چلتے ہیں…پرسوں میرے پاس خاصا وقت ہوگا۔”
”ٹھیک ہے پھر پرسوں ہی چلتے ہیں…آپ سے میں نے ایک کام کہا تھا۔ آپ کو یاد ہے۔” علیزہ کو بات کرتے کرتے اچانک یاد آیا۔
”نہ صرف یاد ہے بلکہ میں پہلے ہی آپ کا کام کر چکا ہوں…دو دن میں، میں نے وہ نقشہ مکمل کر لیا تھا۔ اب میں نے اپنے ایک اسسٹنٹ کو اسے دیا ہے تاکہ ایک دفعہ دوبارہ وہ اسے دیکھ لے۔ مجھے امید ہے، آج یا کل تک وہ یہ کام کر دے گا۔ پھر میں تمہیں سارے پیپرز بھجوا دوں گا۔”
”مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے؟” علیزہ نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”یقیناً…اس میں تو پوچھنے والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔” دوسری طرف سے جنید نے بڑی سنجیدگی سے کہا ”بلکہ بہتر ہے تم مجھے شکریہ کا ایک کارڈ بھجوا دو۔ فارمیلٹی اچھی ہوتی ہے۔ اس سے میرے جیسے بندے کو اپنی اوقات کا پتا چلتا رہتا ہے۔” وہ اسی سنجیدگی سے کہتا گیا۔
علیزہ بے اختیار ہنسی ”ایک کارڈ ٹھیک رہے گا؟” اس نے بظاہر سنجیدگی کے ساتھ جنید سے پوچھا۔
”ہاں ٹھیک رہے گا…گزارہ ہو جائے گا۔” جنید کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
”اچھا میں بھجوا دوں گی…اور بہت زیادہ شکریہ۔”
”کیا مجھے My pleasureکہنا چاہیے؟” وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا۔
”ویل… کہنے میں کوئی حرج نہیں۔” اس نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے اسی سنجیدگی کے ساتھ کہا۔
”My pleasure”…جنید نے اس کی بات سننے کے بعد بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ بے اختیار مسکرائی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!