امربیل — قسط نمبر ۱۲

علیزہ نے اس کے باہر جاتے ہی اپنے سامنے پڑے ہوئے آرٹیکلز ایک طرف رکھ دیئے۔ ان آرٹیکلز کو پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اس وقت ان کا سر پیر سمجھنے سے قاصر تھی۔ جنید اس وقت اسے آفس میں فون کیا کرتا تھا۔ آج اس نے فون نہیں کیا تھا۔ وہ کوشش کے باوجود اس کو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھی۔ پچھلی رات اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو ایک بار پھر اسے یاد آرہی تھی اور وہ ایک بار پھر خفگی کی ایک لہر سی اپنے اندر اٹھتی محسوس کر رہی تھی۔ ” آخر اسے عمر کی خاطر مجھ سے لڑنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک ایسے شخص کی حمایت کرنے کی جسے وہ براہ راست جانتا تک نہیں۔۔۔”اسے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔
”کیا اسے مجھ سے زیادہ میری فیملی کی فکر ہو سکتی ہے؟” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پین ٹیبل پر رکھ دیا۔” اور آخر اسے مجھ سے یہ سب باتیں کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔” وہ جھنجھلا رہی تھی۔
”پھر اتنی چھوٹی سی بات پر وہ اس طرح ناراض ہو گیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔” وہ بہت مضطرب تھی۔
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ میں اسے فون کر لوں؟” اسے یکدم ایک خیال آیا۔
”مگر میں اسے فون کیوں کروں…ناراض وہ مجھ سے ہے، میں تو نہیں۔”
”غلط بات اس نے کی تھی میں نے تو نہیں۔۔۔” اس نے ایک بار پھر آرٹیکلز کو اپنے سامنے کھینچ لیا۔
”مگر اس سے بات کرکے میں کم از کم اس ٹینشن سے تو نکل سکتی ہوں۔” اسے ایک بار پھر خیال آیا۔
”لیکن اگر فون کرنے پر اس نے ایک بار پھر مجھ سے وہی مطالبہ کیا تو…؟” اس کے دل میں خدشہ پیدا ہوا۔




”اسے خود مجھے فون کرنا چاہیے، میں اسے فون کیوں کروں…اسے احساس ہونا چاہیے اپنی غلطی کا۔۔۔” علیزہ نے ایک بار پھر اپنا ارادہ بدل دیا۔
صالحہ اس دن بہت خوش تھی۔ اس کے آرٹیکل پر ملنے والا رسپانس بہت اچھا تھا، شاید وہ علیزہ سے اس رسپانس کو ہی ڈسکس کرنا چاہتی تھی مگر علیزہ کے خراب موڈ نے اسے قدرے حیران کر دیا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ علیزہ کا موڈ اس طرح خراب ہو ۔ وہ عام طور پر خوشگوار موڈ میں رہا کرتی تھی۔
تین چار بجے کے قریب صالحہ ایک بار پھر علیزہ کے کمرے میں آگئی۔
”تمہارا موڈ کچھ ٹھیک ہوا؟” اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
علیزہ اس بار اسے دیکھ کر مسکرائی ”ہاں ٹھیک ہو گیا۔”
”خدا کا شکر ہے ورنہ میں سوچ رہی تھی کہ شاید تم آج سارا دن ہی اسی طرح منہ لٹکائے پھرو گی۔” صالحہ نے ایک گہری سانس لے کر کرسی کھینچ لی۔
”تمہارا کام ختم ہو گیا ہے؟”
”تقریباً ختم ہو گیا ہے۔” علیزہ نے اس کی بات کا جواب دیا۔
”چلو اچھا ہے، کچھ دیر گپ شپ تو کر سکتی ہوں تمہارے ساتھ۔” صالحہ اطمینان سے بولی۔
”مجھے لگتا ہے، آج تمہارے پاس کرنے کے لیے اور کچھ بھی نہیں ہے؟” علیزہ مسکرائی۔
”ہاں واقعی آج میرے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایک فنکشن کی کوریج کرنی تھی۔ وہ میں کر آئی ہوں۔ چند چھوٹے موٹے دوسرے کام تھے۔ وہ بھی کر چکی ہوں۔ اس لیے آج میری کوئی اور مصروفیت نہیں ہے۔”
”یعنی راوی چین ہی چین لکھتا ہے تمہارے لیے۔” علیزہ نے تبصرہ کیا۔
”کہہ سکتی ہو، کم از کم آج تو راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ دو دن سے تو ویسے بھی میں تعریفی کالز اور کلمات کا ڈھیر اکٹھا کرتی پھر رہی ہوں۔” صالحہ نے فخریہ انداز میں کہا۔
علیزہ نے سر اٹھائے بغیر صرف نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بولتی جا رہی تھی۔
”حالانکہ مجھے شرمندگی بھی ہو رہی ہے کہ اس آرٹیکل میں میرا کوئی کنٹری بیوشن نہیں ہے۔ سارا کام تو زین العابدین کا ہے۔ میں نے تو صرف ایک دو گھنٹے بیٹھ کر اس کی دی گئی معلومات پر وہ آرٹیکل لکھ دیا۔”
علیزہ نے ایک گہری سانس لے کر اپنے سامنے پڑی فائل بند کرکے ایک طرف سرکا دی۔ صالحہ اب بھی بول رہی تھی۔
”اگر اصل کریڈٹ کسی کو جاتا ہے تو وہ زین العابدین کو جاتا ہے مگر تم زین العابدین کو دیکھو۔ اس نے خود بھی فون کر کے مجھے اتنا اچھا آرٹیکل لکھنے پر سراہا ہے۔” صالحہ نے زین العابدین کی تعریف کی۔
”ویسے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ اس آدمی کے پاس الٰہ دین کا چراغ ہے ورنہ جس طرح کی معلومات اس کے پاس اس آسانی سے پہنچ جاتی ہیں، وہ کبھی کسی دوسرے کے پاس نہیں پہنچ سکتیں۔” وہ اپنی کرسی کو جھلاتے ہوئے تحسین آمیز انداز میں بولی۔
”تمہیں پتا ہے علیزہ! عمر جہانگیر اور رضی محمود کے خلاف انکوائری شروع ہونے والی ہے۔” بات کرتے کرتے اچانک صالحہ کو جیسے کچھ یاد آیا۔
”مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟” علیزہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”ہاں واقعی تمہیں کیسے پتا ہو سکتا ہے۔ بہرحال مجھے یہ خبر بھی زین العابدین نے دی ہے۔ تم خود سوچو۔ کتنا زبردست امپیکٹ پڑے گا اس آرٹیکل کا اور میرا کہ ایک آرٹیکل کی وجہ سے مجبور ہو کر کسی بیورو کریٹ کے خلا ف کارروائی شروع کر دی جائے۔” صالحہ کے لہجے میں جوش تھا ”اور وہ بھی عمر جہانگیر اور رضی محمود جیسے بیورو کریٹس کے خلاف…پاکستان کے سب سے طاقتور ترین خاندانوں میں سے دو کے خلاف، تصور کرو۔”
علیزہ خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، صالحہ کو ابھی اس نیوز پیپر کو جوائن کیے دو تین ماہ ہی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے وہ فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی تھی مگر اب اس نے علیزہ کے اخبار کو جوائن کر لیا تھا اور پہلے دن سے ہی علیزہ کے ساتھ اس کی بہت اچھی دوستی ہو گئی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کی فیملی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھیں نہ علیزہ نے کبھی اپنے انکلز اور کزنز کے بارے میں وہاں کسی کو بتایا تھا نہ ہی صالحہ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے بارے میں بات کی تھی اور اب وہ علیزہ کو عمر جہانگیر اور اس کے خاندان کے بارے میں معلومات فراہم کر رہی تھی۔
”عمر جہانگیر کے خاندان کو بدمعاشوں کا ٹولہ کہا جا سکتا ہے۔” علیزہ کا چہرہ صالحہ کے تبصرے پر سرخ ہو گیا۔ صالحہ ہمیشہ بے لاگ قسم کے تبصرے کیا کرتی تھی۔ اس سے پہلے اس کے ایسے کسی تبصرے نے علیزہ کو کبھی پریشان نہیں کیا کیونکہ ایسے تبصرے کا تعلق اس سے نہیں تھا مگر اب وہ براہ راست اس کے خاندان کی بات کر رہی تھی اور علیزہ سننے پر مجبور تھی۔
”میں تو حیران ہو گئی، زین العابدین سے اس کے خاندان کے بارے میں سن کر۔ کسی دوسرے ملک میں یہ لوگ ہوتے تو ڈیڑھ سو سال کی قید کاٹ رہے ہوتے۔ بیوی بچوں سمیت…مگر ان کی خوش قسمتی ہے کہ یہ پاکستان میں ہیں اور اس Land of the pure میں گُل چھرے اڑا رہے ہیں۔” صالحہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اور ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ آج کہیں اس فیملی کے حوالے سے تعارف کروایا جائے تو ریڈ کارپٹڈ استقبال ہوگا، سمجھ نہیں آتا ایسے سسٹم پر ہنسا جائے یا رویا جائے۔”
علیزہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”تمہیں پتا ہے، پچھلے سال ان لوگوں نے میرے انکل اور ان کے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟” صالحہ نے دوسرا قصہ شروع کیا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!