امربیل — قسط نمبر ۱۲

”یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے۔ عمر واقعی جوڈتھ کے ساتھ اس ہوٹل۔۔۔”
علیزہ نے خفگی سے شہلا کی بات کاٹ دی۔” ”Enough is enough… کم از کم میرے سامنے ان دونوں کے حوالے سے کچھ بھی مت کہنا۔”
”تمہیں اگر یقین نہیں آتا تو تم خود وہاں جا کر اس بات کو کنفرم کر لو۔”
”میں اتنی تھرڈ کلاس حرکت کبھی نہیں کر سکتی کہ اس کی جاسوسی کرتی پھروں، تمہیں مجھ سے ایسی باتوں کی توقع تو نہیں کرنی چاہئے۔ ” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ شہلا سے کہا۔
”تم میری بات ماننے کو تیار نہیں ہو… میری ہر بات تمہیں جھوٹ لگ رہی ہے۔ پھر میں اس کے علاوہ اور کیا کر سکتی ہوں کہ تمہیں خود تمہاری آنکھوں سے سب کچھ دکھا دوں۔”
علیزہ ناراضی سے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی۔
”اب کم از کم مجھ سے ناراضی تو ختم کر دو۔” شہلا نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔
”تمہیں نانو کا ماؤتھ پیس بننے کے لئے کس نے کہا تھا۔” اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر اکھڑے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
”مجھے تمہاری فکر تھی… اس لئے ۔۔۔”
”کم آن شہلا ! یہ پروا اور فکر جیسے لفظ استعمال مت کرو۔ دوستوں کو کبھی فکر اور پروا کے نام پر حقائق چھپانے اور جھوٹ بولنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس سے دوستی جیسا رشتہ کتنی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں نہیں ہے۔۔۔” وہ اس بار سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ ”تم اب مجھ سے عمر اور جوڈتھ کے علاوہ اور کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ لینا… مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں۔ میں اس سارے معاملے سے خود نپٹنا چاہتی ہوں اور اگر میں نانو کو عمر سے بات کرنے کے لئے کہہ سکتی ہوں تو پھر نانو کے سامنے بیٹھ کر یہ سب باتیں بھی ڈسکس کرسکتی ہوں۔” وہ رکی پھر قدرے توقف سے بولی۔




”نانو کو مجھے اب واقعی میچور سمجھ لینا چاہئے کہ میں ہر ایموشنل کرائسس کا سامنا کر سکتی ہوں… کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے والے فیز سے گزر چکی ہوں میں… بلکہ اسے بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں۔”
”مجھے نانو اور تمہارے خلوص اور میرے لئے اپنی محبت پر شبہ نہیں ہے… مگر تم لوگوں کو عمر کے لئے میری فیلنگز کو بھی تو سمجھنا چاہئے۔ میں اسے صرف کسی سنی سنائی بات کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتی۔ یہ میرے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں اس بار نمایاں بے بسی تھی۔
”جہاں تک جوڈتھ کا تعلق ہے تو وہ تو ہمیشہ سے اس کی زندگی میں رہی ہے… تب بھی جب وہ کئی سال پہلے یہاں ہمارے گھر میں ہمارے ساتھ رہا تھا… اور اگر اسے مجھ میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تو وہ … میرے لئے وہ سب کچھ کیوں کرتا رہتا جو وہ آج تک کرتا آیا ہے… ہر ایک کے لئے تو نہیں کرتا وہ …کچھ تو ہو گا اس کے دل میں میرے لئے… اور مجھ سے یہ نہ کہو کہ یہ محبت نہیں ہے… ہمدردی ہے… یا مروت … یہ کم از کم ان دونوں چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔” اس نے اپنے ہونٹوں کی لرزش چھپانے کے لئے ہونٹ بھینچ لئے۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ انہیں چھلکنے سے روکنے کی کوشش میں مصروف تھی۔
شہلا نے ہمدردی سے اسے دیکھا پھر اس نے نرمی سے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلا دیا۔ ”میں تمہاری فیلنگز سمجھ سکتی ہوں… تم اگر واقعی یہ سمجھتی ہو کہ عمر کے علاوہ… تو ٹھیک ہے تم نانو کو کہو۔ ایک بار پھر… کہ وہ اس سے بات کریں… ہو سکتا ہے وہ … واقعی تمہارے لئے کچھ خاص فیلیگز رکھتا ہو… اور اگر ایسا ہوا تو مجھ سے زیادہ تمہارے لئے اور کوئی خوش نہیں ہو گا… بلکہ اگر تم چاہو تو میں خود عمر سے۔۔۔” وہ اب تلافی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
٭٭٭
”میں نے آج شام عمر کو بلوایا ہے۔” نانو نے صبح ناشتے کی میز پر علیزہ کو بتایا۔ وہ سلائس پر جام لگاتے ہوئے رک گئی۔ اسے اپنے خون کی گردش اور دھڑکن تیز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ شام کے بجائے رات کو آیا تھا۔ علیزہ اس وقت اپنے کمرے میں تھی۔ نانو نے اس کیلئے رات کا کھانا تیار کروایا ہوا تھا اور اس کے آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی نانو نے علیزہ کو کھانے کے لئے پیغام بھجوایا۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔” اس نے ملازم سے کہلوایا تھا۔
وہ اس وقت عمر کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی… نہ ہی وہ کر سکتی تھی۔ اس کے اسلام آباد کے قیام کے بعد وہ آج پہلی بار یہاں آیا تھا۔اس کے آنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمرے کی لائٹ بند کرکے وہ اپنے بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔ اس کی آنکھوں سے نیند مکمل طور پر غائب تھی۔ نائٹ بلب کی روشنی میں وہ چھت کو گھورتی رہی۔
عمر بارہ بجے کے قریب واپس گیا تھا۔ اس نے اس کی گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی تھی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا، وہ اٹھ کر باہر جائے اور نانو سے پوچھے کہ اس نے کیا کہا ہے۔ کیا ہمیشہ کی طرح وہی رٹا رٹایا جملہ۔
”میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا نہ ہی کبھی کروں گا… میں آزاد ہوں اور مجھے اپنی یہ آزادی پسند ہے۔” یا پھر یہ کہ ”میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا… کچھ سال کے بعد اس کے بارے میں غور کروں گا اور جب شادی کے بارے میں سوچوں گا تو علیزہ کے بارے میں بھی غور کروں گا۔”
اسے کئی سال پہلے نانو کے ساتھ ہونے والی اس کی گفتگو یاد آئی جو اس نے اتفاقاً سن لی تھی اور تب پہلی بار اس نے عمر کے بارے میں بڑی حیرت سے سوچا تھا۔ ”عمر سے شادی…؟ کیا وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے…؟ کیا میں اس سے شادی کر لوں گی۔” ایک ٹین ایجر کے طور پر اسے اس بات پر ہنسی آئی تھی مگر وہ بات اس کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوئی… وہ اس کے لاشعور کا ایک حصہ بن گئی تھی اور وقتاً فوقتاً اس کے ذہن میں ابھرتی رہتی تھی۔
وہ اٹھ کر باہر نانو کے پاس نہیں گئی۔ ”نانو یقیناً اب سونے کے لئے جا چکی ہوں گی۔ اگر وہ سونے کے لئے نہ بھی گئیں تب بھی ہو سکتا ہے، وہ اس موضوع پر مجھ سے اس وقت بات نہ کریں۔ بہتر ہے میں ان سے صبح ہی بات کروں۔”
اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سونے کی کوشش شروع کر دی۔ یہ کام خاصا مشکل تھا مگر وہ رات کے کسی پہر سونے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔
٭٭٭
وہ صبح جس وقت بیدار ہوئی نو بج رہے تھے۔ آنکھیں کھولتے ہی جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا، وہ رات کو عمر کی نانو کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں تھا۔ ہر روز صبح بیدار ہونے کے بعد کی معمول کی بے فکری یک دم کہیں غائب ہو گئی تھی۔ رات والی بے چینی اور اضطراب نے یک دم اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
ناشتہ کرنے کے لئے وہ جس وقت ڈائننگ ٹیبل پر آئی، اس وقت نانو پہلے ہی وہاں موجود تھیں۔ علیزہ نے ان کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کی، اسے ناکامی ہوئی۔ نانو سنجیدہ نظر آرہی تھیں۔ وہ عام طور پر سنجیدہ ہی رہتی تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح علیزہ کو ناشتہ پیش کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس وقت ان کے منہ سے یہ نہیں سننا چاہتی تھی۔
”آج میں نے تمہارے لئے فرنچ ٹوسٹ بنوائے ہیں۔ تم کھاؤ ، تمہیں پسند آئیں گے۔”
”یا پھرآملیٹ لو گی یا بوائلڈ ایگ یا فرائیڈ ؟”
وہ کم از کم آج صبح ان سے ایسی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھی اور وہ اس سے وہی باتیں کر رہی تھیں۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!