امربیل — قسط نمبر ۱۲

”نہیں میں پریشان تو نہیں ہوئی۔”
”تو پھر آپ کی فرینڈ کا نام لینے پر آپ کو اتنی حیرت کیوں ہوئی؟” جنید نے دلچسپی سے کہا۔
”کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ کوئی مجھے ٹھیک سے جانتا بھی نہ ہو اور میری فرینڈز کو پہچانتا ہو۔”
”میں نے آپ کو بتایا…میں آپ کی فرینڈ کو نہیں پہچانتا… صرف آپ کے منہ سے میں نے ان کا نام سنا تھا… وہی دہرا دیا۔” جنید نے معذرت خواہانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”لیکن جہاں تک آپ کو جاننے کا تعلق ہے تو۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکا۔ ”تو آپ کا یہ اندازہ غلط ہے کہ میں آپ کو جانتا نہیں ہوں… ہم بھوربن میں اچھا خاصا وقت اکٹھے گزار چکے ہیں۔” اس نے جیسے علیزہ کو یاد دہانی کروائی۔ ”اور… مجھے لگتا ہے ، میں آپ کے بارے میں بہت کچھ جاننے لگا ہوں۔”
علیزہ کا دل چاہا وہ اس سے کہے۔ ”آپ مجھے اتنا بھی نہیں جاننے لگے کہ مجھے پرپوز کرنے لگیں۔” مگر کچھ کہنے کے بجائے اس نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
”میں آپ کو اپنی بہن کے بارے میں بتا رہا تھا۔” جنید نے ایک بار پھر بات شروع کرتے ہوئے کہا۔ ”آئیں، میں آپ کو ان سے ملواؤں۔” جنید نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں١ میں پھر کبھی ان سے مل لوں گی۔” علیزہ نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا۔ ” اس وقت مجھے کچھ جلدی ہے۔”
جنید نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر انکار صاف تحریر تھا۔
”چند منٹوں کی بات ہے۔ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔”




”میری فرینڈ کو بھی بہت جلدی ہے، ہمیں گھر سے نکلے خاصی دیر ہو گئی ہے۔”
”آپ کی فرینڈ اس وقت کتابیں دیکھنے میں مصروف ہے… جب تک وہ کچھ خریدیں اور بل بنوائیں تب تک آپ رابعہ سے مل سکتی ہیں۔”
جنید نے ایک بار پھر کہا۔ علیزہ شش و پنج کا شکار تھی۔
”لیکن میں اصرار نہیں کروں گا… اگر آپ کو پسند نہیں ہے تو ٹھیک ہے۔ ” جنید نے نرمی سے کہا۔
”میں مل لیتی ہوں۔” اس نے ایک گہری سانس لے کر قدم آگے بڑھا دیا۔
”رابعہ! یہ علیزہ سکندر ہیں۔” رابعہ کے قریب جاتے ہی جنید نے تعارف کروایا مگر رابعہ کے چہرے پر پہلے سے موجود شناسا مسکراہٹ نے علیزہ کو بتا دیا تھاکہ یہ تعارف رسمی ہے… وہ اس کے بغیر بھی علیزہ کو جانتی… اور شاید پہچانتی بھی تھی… کیسے؟ اسے حیرانی تھی۔
رابعہ نے چند قدم آگے بڑھ کر اس کے گالوں کو خیر مقدمی انداز میں چوما۔
”اور یہ میری بڑی بہن ہیں رابعہ… یہ ان کا بیٹا ہے صالح۔”
”جنید نے کافی ذکر کیا تھا تمہارا؟” رابعہ اب بڑی بے تکلفی سے کہہ رہی تھی۔ ”مجھے بہت خواہش تھی تم سے ملنے کی۔” وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”جنید نے آپ کا ذکر بھی کیا تھا… کچھ ہفتے پہلے… جب ہم بھوربن میں ملے تھے۔ ”علیزہ نے کہا۔
”میں نے تو جنید سے جب بھی کہا تھا کہ تمہیں میرے گھر کھانے پر لائے… تم اسلام آباد میں ٹھہری تھیں نا!… میری رہائش وہیں پر ہے۔”
علیزہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ وہ جنید سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ ”میں تمہیں بہت اچھی کمپنی دے سکتی تھی… تمہاری بوریت خاصی کم ہو جاتی… خود میرا بھی کچھ وقت اچھا گزرجاتا۔”
”میں بھوربن سے آنے کے بعد زیادہ دن اسلام آباد میں نہیں ٹھہری۔ تیسرے دن ہی واپس آگئی تھی اس لئے یہ ہو نہیں سکتا تھا۔” علیزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”نہیں بھئی! میں بھوربن جانے سے پہلے کی بات کر رہی ہوں… تم دوتین ماہ رہی ہو وہاں۔” علیزہ مسکرائی۔
”پہلے آپ سے ملاقات کیسے ہوسکتی تھی۔ میں تو جنید کو جانتی بھی نہیں تھی۔”
علیزہ نے جنید اور رابعہ کو ایک لمحے کیلئے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے پایا پھر اگلے ہی لمحے جنید نے کہا۔
”ہم لوگ صالح کی فرمائش پر اب آئس کریم کھانے کے لئے جائیں گے… ہمیں بہت خوشی ہو گی اگر آپ اور آپ کی فرینڈ بھی ہمیں جوائن کریں۔”
بات کا موضوع ایک بار پھر بدل گیا تھا… یہ دانستہ طور پر ہوا تھا یا نادانستہ طور پر… علیزہ اندازہ نہیں کر سکی۔
”مجھے اور شہلا کو واپس جانا ہے… میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ ہمیں جلدی ہے… کافی دیر سے نکلے ہوئے ہیں گھر سے۔” علیزہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”اگر تھوڑا سا وقت تم میرے ساتھ گزار دو تو مجھے بہت اچھا لگے گا۔” اس بار رابعہ نے کہا۔
”میں ضرور گزارتی… اور مجھے انکار کرتے ہوئے شرمندگی بھی ہو رہی ہے مگر یہ ممکن نہیں ہے۔”
”کوئی بات نہیں… آپ کے پاس واقعی جینوئن ایکسکیوز ہے۔” جنید نے اس کی معذرت قبول کرتے ہوئے کہا۔
وہ انہیں خدا حافظ کہہ کر جب واپس شہلا کی طرف آئی تو وہ پہلے ہی اس کی طرف متوجہ تھی۔
”یہ کون تھے؟” اس نے علیزہ کے قریب آتے ہی پوچھا۔
”تم یہاں سے چلو… پھر بتاتی ہوں۔” علیزہ نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
”مگر مجھے تو ابھی کچھ اور کتابیں دیکھنی ہیں۔”
”وہ تم دوبارہ کسی دن دیکھ لینا…فی الحال یہاں سے چلو۔” علیزہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
جنید اور رابعہ ابھی وہیں تھے اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان سے جھوٹ بولنے کے بعد اب وہ شہلا کے ساتھ زیادہ دیر ان کے سامنے ٹھہرے۔
”تمہیں جلدی کس بات کی ہے؟” شہلا نے قدر حیرانی سے کہا۔
”تم باہر چلو، میں تمہیں بتا دیتی ہوں۔” اس نے شہلا کے ساتھ باہر نکلتے ہوئے کہا۔
بل ادا کرنے کے بعد شہلا نے اپنی کتابیں لیں اور دونوں باہر نکل آئیں۔ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہی شہلا نے علیزہ سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!