امربیل — قسط نمبر ۱۲

بہت سے لیبلز کے ساتھ وہ آج بھی وہیں تھی، جہاں دس سال پہلے تھی …اندھیرے نے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی شناخت ختم نہیں کی تھی …یہ کام روشنی نے کیا تھا …روشنی معجزے کرتی ہے …وجود کو اس طرح عیاں کرتی ہے کہ کسی فریب اور دھوکے میں رہنا ممکن ہی نہیں رہتا …مقدر کو منور کر دیتی ہے …ہار ماننے پر قبر میں گاڑ دیتی ہے …نہ ماننے پر صلیب چڑھا دیتی ہے …بس چیزوں کو ان کے مقام پر نہیں رہنے دیتی …پارس چھوئے بغیر بھی انسان سونا بن جاتا ہے اور آگ کے پاس آئے بغیر بھی موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے …روشنی واقعی معجزے کرتی ہے۔
وہاں اب خاموشی تھی …مکمل خاموشی …علیزہ کبھی کسی ”اجنبی” کے اتنا قریب نہیں بیٹھی تھی …آج بیٹھی تھی …وہ انتظار کر رہی تھی عمر کچھ اور کہے …کچھ اور ملامتیں …اور عمر شاید ان تمام باتوں کے جواب میں اس کی طرف سے کچھ کہے جانے کا منتظر تھا …شاید چند وضاحتیں …کچھ معذرتیں …پچھتاوے …اسے توقع تھی۔ علیزہ اسی طرح کا اظہار کرے گی۔ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
سب کچھ اسی گھر میں شروع ہوا تھا …سب کچھ اسی گھر میں ختم ہو گیا تھا۔ علیزہ نے مڑ کے اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھ دیا …عمر نے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی …نہ ہی اس نے کچھ کہا۔




وہ غیر ہموار قدموں سے چلی آئی …اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی …وہ جانتی تھی۔ پیچھے رہ جانے والے شخص نے بھی اسے مڑ کر نہیں دیکھا ہو گا …وہ اس کا ماضی تھا …ایسا ماضی جس پر اس کا پچھتاوا اب شروع ہوا تھا۔
وہ اسی طرح چلتی ہوئی اندر اپنے کمرے میں آ گئی۔ شہلا سو رہی تھی۔ کمرے میں تاریکی تھی …وہ دبے قدموں ڈریسنگ روم میں چلی آئی۔ لائٹ جلاتے ہی سامنے قد آدم آئینے میں اس نے اپنا عکس دیکھا اور وہ چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ آئینے میں نمودار ہونے والا عکس کس کا تھا …اس نے نظریں چرا لیں …شکست …احساس جرم …پچھتاوا …ہر چیز اس کے چہرے پر تحریر تھی ۔۔۔”بولتا ہوا چہرہ” کوئی آواز اس کے کانوں میں لہرائی۔ اس نے آئینے کی طرف پشت کر لی …وہ اس وقت وہاں مزید کسی ماتم کے لئے نہیں آئی تھی …ماتم کی گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی۔
وہ باتھ روم میں چلی گئی۔ چہرے پر پانی کے چند چھینٹے مار کر، اس نے ان ابھری ہوئی تحریروں کو مٹانے کی کوشش کی …نیم گرم پانی نے اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں کو قدرے سکون پہنچایا …وہ بنا سوچے سمجھے کسی مشین کی طرح چہرے پر پانی کے چھینٹے مارتی گئی …واش بیسن میں گرتے ہوئے پانی کی آواز سے وہ جیسے اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی آوازوں کے شور کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی …جب وہ اس میں نا کام رہی تو اس نے ہار ماننے والے انداز میں چھینٹے مارنا بند کر دیئے۔ پانی کی ٹونٹی بند کر کے وہ واپس ڈریسنگ روم میں آ گئی اور دراز میں نیند کی گولیاں تلاش کرنے لگی۔
واپس نیم تاریک بیڈ روم میں جا کر، وہ ایک گلاس میں پانی لے کر ڈریسنگ روم میں آئی اور اس نے دو گولیاں پانی کے ساتھ نگل لیں۔ پھر وہ ڈریسنگ روم کی ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئی۔
اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس ابھی بھی موجود تھا، مگر اس میں پانی نہیں تھا۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں گلاس کو دونوں ہاتھوں کے درمیان گھماتی رہی …وہ نیند کا انتظار کر رہی تھی۔ واحد چیز جس کے سوا اسے اس وقت اور کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف نیند ہی اسے ان آوازوں سے چھٹکارہ دلا سکتی تھی جنہوں نے اس وقت اس کے پورے وجود کو گنبد بنا کر رکھ دیا تھا …آوازیں …باز گشت …سر گوشیاں …ہنسی …قہقہے …وہاں کیا نہیں تھا۔
”اگلی بار میں علیزہ کو Joy دوں گا …پھر …Eternity ”
گلاس پر علیزہ کی گرفت سخت ہو گئی۔ اسے نیند کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں تھا۔
”میں تمہیں مس کروں گا۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ شاید نیند لانے کے لئے دو گولیاں کافی نہیں تھیں۔ اس نے پانی کے ساتھ ایک اور گولی نگل لی اور دوبارہ وہیں بیٹھ گئی۔
”کیوں گرینی ! علیزہ پہلے سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو گئی۔”
اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا گلاس دور پھینک دیا۔ شیشے کا گلاس کارپٹ پر گرا لیکن ٹوٹا نہیں۔ اسے وہاں موجود ہر چیز سے الجھن ہو رہی تھی۔
”میں بہت کوشش کروں تو بھی میں اپنے اندر تمہارے لئے کوئی خاص قسم کے جذبات دریافت کرنے میں نا کام ہو جاتا ہوں اور ایسا متعدد بار ہوا ہے تو کیا میں یہ نہ سمجھوں کہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔”
علیزہ کو نیند آنے لگی تھی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو بوجھل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔
”دس سال میں کبھی ایسا ہوا کہ میں نے تم سے اظہار محبت کیا ہو …؟ میں نے نہیں کیا …اگر دنیا میں محبت نام کا کوئی جراثیم موجود ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل اور دماغ کبھی متاثر نہیں ہوا۔”
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ لڑ کھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ ڈریسنگ روم کا دروازہ بند کر کے بیڈ روم میں آ گئی۔
”مرد اور عورت کے درمیان ہر رشتہ محبت کا رشتہ نہیں ہوتا …چاہو تو بھی نہیں بن سکتا۔ جیسے تمہارا اور میرا رشتہ …اپنے اور میرے رشتے کو اگر تم نے اتنے سالوں میں کبھی غیر جانبداری سے نہیں دیکھا تو یہ تمہاری غلطی ہے …میں کسی Comedy of errors (حماقت) کا حصہ نہیں بن سکتا۔” وہ بیڈ روم کی کھڑکیوں کی طرف بڑھ گئی۔ وہ پردے کھینچ رہی تھی جب اس نے دور لان کی سیڑھیوں میں اسی جگہ ایک ہیولے کو براجمان پایا جہاں وہ کچھ دیر پہلے موجود تھی۔ سگریٹ کا شعلہ ابھی بھی نظر آیا تھا۔ اس نے ہاتھ روکے بغیر پردہ برابر کر دیا۔ ہیولہ اوجھل ہو گیا۔
”تم نے اپنے آپ کو خود برباد کیا ہے …جنید کے ساتھ منگنی تمہارا مسئلہ ہے۔ میں کھائی کو سوئمنگ پول سمجھ کر اس میں چھلانگ لگانے کا عادی نہیں ہوں …Total disaster (مکمل عذاب) …لیکن وہ میں …کبھی …نہیں …ہوں …گا …نہ آج …نہ آئندہ کبھی۔” وہ بیڈ پر لیٹ چکی تھی …آوازیں …جملے اور لفظ آپس میں بے ربطگی سے گڈ مڈ ہو رہے تھے۔ اسے بے تحاشا نیند آ رہی تھی، اس نے تکیے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!