امربیل — قسط نمبر ۱۲

عمر نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اگلے دو سال لاہور اور اسلام آباد میں گزارے تھے۔ وہ نانو کے گھر نہیں رہا تھا مگر وہ مستقل علیزہ سے ملتا اور اسے فون کرتا رہتا تھا۔ کبھی ایسا کوئی دن نہیں گزرتا تھا جب وہ علیزہ کو فون نہ کرتا ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو اپنے پورے دن کی روداد سناتے۔ عمر اسے وقتاً فوقتاً اپنے مشوروں سے نوارتا رہتا تھا، اور وہ آنکھیں بند کرکے ان پر عمل کرتی۔
عمر پر اس کا انحصار ہر معاملے میں بڑھ گیا تھا اور ایسا کرنے میں بڑا ہاتھ عمر ہی کا تھا۔ شاید وہ ہر معاملے میں اس کی اس طرح مدد نہ کرتا تو وہ ہر معاملے میں اسے انوالو کرنا چھوڑ دیتی۔
انہیں دو سالوں کے دوران معاذ حیدر کا انتقال ہو گیا۔ ان کے انتقال کے بعد نانو میں یک دم بہت ساری تبدیلیاں آگئیں۔ ان کی سوشل سرگرمیاں بہت محدود ہو گئیں اور علیزہ پر ان کی توجہ بہت بڑھ گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اب اکیلی ہو چکی تھیں اور ان کے لاشعور میں یہ احساس تھا کہ کچھ عرصہ کے بعد علیزہ کی شادی کی صورت میں وہ مکمل طور پر تنہا ہو جائیں گی۔شایداسی وجہ سے انہوں نے علیزہ پر بہت سی پابندیاں ختم کر دیں تھیں۔ وہ اب اسے کسی بات پر مجبور نہیں کرتی تھیں۔
عمران دنوں اپنی پہلی بیرون ملک پوسٹنگ پر امریکہ جا چکا تھا۔ ان کے درمیان رابطہ بھی ابھی قائم تھا مگر فون کالز کے تسلسل میں کمی ہو چکی تھی۔ نانو کے ساتھ زندگی میں پہلی بار اس کی بے تکلفی اور دوستی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ یہ اسی دوستی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اے لیولز کے دوران اس کے لئے پرپوزلز کی تلاش ترک کر دی تھی۔ ثمینہ اور سکندر کے اصرار اور دباؤ کے باوجود انہوں نے اس معاملے میں وہی کیا تھا جو علیزہ نے چاہا تھا۔ اس میں بڑا ہاتھ عمر کا بھی تھا جو مسلسل نانو کی برین واشنگ کرتا رہتا تھا۔




نانو کے لاشعور میں شاید کہیں یہ بات بھی تھی کہ عمر اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے یہ خواہش رکھتا ہے کہ علیزہ کی ابھی کہیں شادی نہ ہو اور کچھ عرصہ کے بعد جب وہ مکمل طور پر اسٹیبلش ہو جائے گا تو تب وہ خود اس سے شادی کرنا چاہے گا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جو اس کی تعلیم مکمل کروانے پر اتنا اصرار کر رہا ہے تو اس کی وجہ بھی یہی پسندیدگی ہے۔
عمر کی امریکہ پوسٹنگ ہونے کے بعد بھی نانو کے ذہن سے یہ خیال محو نہیں ہوا کیونکہ عمر کا ابھی بھی ان کے اور علیزہ کے ساتھ رابطہ تھا۔ اگرچہ یہ رابطہ پہلے کی طرح مستقل نوعیت کا تھا مگر پھر بھی ابھی اس رابطے نے رسمی نوعیت اختیار نہیں کی تھی۔
وہ اب بھی علیزہ کے بارے میں فکر مند رہتا تھا اور اس کے بارے میں اکثر نانو سے گفتگو کرتا رہتا۔ اہم مواقع پر بھی وہ کبھی علیزہ کو کال کرنا نہ بھولتا۔
لیکن پھر آہستہ آہستہ علیزہ اور نانو کے لئے کی جانے والی فون کالز میں کمی آنے لگی۔ وہ اپنی جاب سے مطمئن نہیں تھا… کیوں مطمئن نہیں تھا یہ بات اس نے کبھی تفصیل سے بتانے کی کوشش نہیں کی تھی، مگر وہ جب بھی فون پر نانو یا علیزہ سے بات کرتا… وہ تلخ ہو جاتا… اس کے لہجے میں رچ جانے والی اس تلخی کی وجہ کیا تھی… جہانگیر معاذ… پا پھر ہر چیز سے بہت جلد اکتا جانے کی اس کی اپنی عادت… یا پھر جہانگیر معاذ کے دباؤ پر کئے جانے والے مسلسل غیر قانونی کام۔
”پاپا مجھے ربر اسٹیمپ کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ مجھے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ میں کوئی بھی کام اپنی مرضی سے کبھی کر ہی نہیں سکتا۔ ہر چیز میں پاپا کی انوالومنٹ بہت ضروری ہے۔”
وہ فون پر علیزہ اور نانو سے شکایت کرتا۔
”وہ کہیں گے دن تو مجھے دن کہنا ہے… وہ کہیں گے رات تو مجھے رات کہنا ہے… مجھے اگر یہ اندازہ ہو جاتا کہ پاپا میری پرسنل اور پروفیشنل لائف میں اس قدر مداخلت کریں گے تو میں کبھی اس پروفیشن میں نہ آتا… میں نارتھ پول پر بیٹھنے کو ترجیح دیتا… واشنگٹن میں کام کرنے کی نسبت۔۔۔” وہ بولتا رہتا۔
”تمہیں اگر جہانگیر کی اپنے کام میں مداخلت ناپسند ہے تو تم اسے صاف کہہ دو… پہلے بھی تو تم اس سے دو ٹوک بات کرلیتے تھے۔” نانو اسے مشورہ دیتیں اور وہ آگے سے خاموش ہو جاتا۔
”ایک پاپا کو مداخلت کرنے سے منع کر دوں تو اور کتنوں کو روکوں… جس سسٹم کا میں حصہ بن گیا ہوں وہاں کھڑے ہو کوئی تقریریں تو کر سکتا ہے تبدیلی نہیں لا سکتا… غلط کام کرنے سے بچنے کے لئے میں اپنے آفس ٹیبل کے نیچے چھپ سکتا ہوں نہ فائل پر سائن کرنے سے انکار کر سکتا ہوں… جو چیز مجھ تک پہنچتی ہے اور اسے کسی نے غلط نہیں سمجھا تو اسے میں غلط سمجھنے والا کون ہوتا ہوں… بہترین بیورو کریٹ وہ ہوتا ہے جو آنکھیں، کان اور منہ بند رکھے۔ جو سسٹم کا Cog بن کر رہے Maker بننے کی کوشش نہ کرے۔” وہ استہزائیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہتا۔
نانو کو تب ہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس ہوتا گیا کہ علیزہ میں عمر کی دلچسپی کم ہو گئی ہے۔ یا پھر سرے سے ہی ختم ہو گئی ہے۔ پھر وہ بھی جان گئیں کہ جہانگیر، عمر کی شادی ایک بڑے اور نامور سیاسی گھرانے میں کرنا چاہ رہا تھا۔ اگرچہ عمر اس پر تیار نہیں تھا، مگر تب پہلی بار انہیں یہ اندازہ ہو گیا کہ علیزہ کے ساتھ عمر کی شادی ممکن نہیں ہے۔ جلد یا بدیر جہانگیر، عمر کو اس گھرانے میں شادی پر تیار کر ہی لے گا۔ جہانگیر معاذ کے دباؤ کے سامنے ٹھہرنا عمر کے لئے بہت مشکل تھا اور اگر وہ کسی طرح جہانگیر کے دباؤ میں نہ آتے ہوئے اس شادی سے انکار کر بھی دیتا تب بھی اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ وہ علیزہ میں گزشتہ دلچسپی کی وجہ سے شادی کی خواہش کرتا۔
علیزہ کی عمر میں دلچسپی حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی مگر اس کے باوجود نانو یہ بات اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ عمر کو پسند کرتی ہے اور خود علیزہ کو بھی احساس تھا کہ نانو اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں۔
نانو کا خیال تھا، عمر کے واپس آنے کے امکان بہت کم ہیں… اور وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں وہ میچور ہو گی… وہ یقیناً عمر کو اپنے ذہن سے نکال دے گی، خاص طور پر اس صورت میں جب ان دونوں کے درمیان ہونے والا رابطہ کم سے کم ہوتا جارہا تھا۔
ان دونوں کے درمیان رابطہ تقریباً ختم ہو گیا تھا… اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ نانو کی توقعات کے مطابق میچور بھی ہو گئی تھی۔ مگر نانو کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا تھا کہ وہ عمر کو اپنے ذہن سے نکال دے گی… عمر کے لئے اس کی پسندیدگی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور رہی سہی کسر پانچ سال بعد اس کی یک دم واپسی نے پوری کر دی تھی۔
عمر کی شخصیت میں یقیناً بہت زیادہ تبدیلیاں آچکی تھیں اور یہ ذہنی اور جذباتی تبدیلیاں اس کی پوری شخصیت کا احاطہ کئے ہوئے تھیں… مگر علیزہ ایک بار پھر کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف کھنچ رہی تھی… اور نانو کو اس بات کا خدشہ تھا عمر پاکستان میں رہتا تو کسی نہ کسی طرح وہ دونوں رابطے میں رہتے… اور ا سکے بعد کیا ہو گا۔ وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتی تھیں۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!