امربیل — قسط نمبر ۱۲

وہ اپنے اعصاب پر قابو رکھے ان کی باتیں سنتے ہوئے ناشتہ کرتی رہی۔ وہ منتظر تھی، وہ ابھی خود بات شروع کریں گی۔ نانو نے ایسا نہیں کیا جب اس کا صبر جواب دے گیا تو اس نے سلائس کو سامنے پڑی پلیٹ میں رکھتے ہوئے نانو سے کہا۔
”آپ نے عمر سے بات کی۔”
نانو نے چائے پیتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کپ پرچ میں رکھ دیا۔ وہ سانس روکے، پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والے لفظوں کی منتظر رہی۔
”وہ تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ عمر اتنا دو ٹوک انکار کرے گا نہ ہی یہ توقع تھی کہ نانو اس دوٹوک انکار کو اسی طرح کسی لگی لپٹی کے بغیر اس کے سامنے پیش کردیں گی۔
”کیوں؟” زندگی میں کبھی ایک لفظ بولنے کے لئے اسے اتنی جدوجہد نہیں کرنی پڑی تھی جتنی اس وقت کرنی پڑی۔
نانو نے ایک گہرا سانس لیا۔ اب اس کا میں کیا جواب دوں؟”
”کیا عمر سے آپ نے یہ نہیں پوچھا؟”
”پوچھا تھا۔”
”پھر؟”
”اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔”
”مثلاً؟”
”وہ خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔”




”یہ تو کوئی وجہ نہیں۔” اس نے بے یقینی سے نانو کو دیکھا۔ ”کیا صرف اس بنا پر وہ مجھے رد کر رہا ہے کہ میں اس کی کزن ہوں۔ میں صرف اس کی کزن ہی تو نہیں ہوں۔”
”میں نے اس سے کہا تھا یہ مگر اس نے کہا کہ اگر اس بات کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تب بھی تم سے شادی نہ کرنے کے لئے اس کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیا کہا ہو گا اس نے یہی کہ وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔” علیزہ نے رنجیدگی سے نانو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”یا یہ کہا ہو گا کہ و ہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”نانو! میں اس کا انتظار کر سکتی ہوں، دس سال بیس ، تیس سال، ساری زندگی۔”
نانو خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔
”اور میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گا کبھی نہ کبھی تو اسے شادی کرنا ہی پڑے گی۔ وہ ساری زندگی اکیلا تو نہیں رہ سکتا پھر اس طرح کی بات کیوں کرتا ہے وہ؟” اس کے لہجے میں اب بے چارگی تھی ۔
”آپ بتائیں یہی سب کہا ہے نا اس نے؟”
”نہیں۔” اس نے حیرانی سے نانو کے چہرے کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلنے والا لفظ دہرایا۔
”اس نے یہ سب نہیں کہا؟”
”تو پھر اس نے یہ کہا ہو گا کہ میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور اس کی ہر بات پر اعتراض کرتی ہوں اس لئے اسے لگا ہو گا کہ ایسا کوئی رشتہ دیرپا ثابت نہیں ہوسکتا اس نے یہی سب کہا ہے نا آپ سے؟”
نانو نے ایک لمحہ کے لئے اس کا چہرہ دیکھا۔ علیزہ کو محسوس ہوا، وہ بات کرتے ہوئے کچھ متامل تھیں۔
”اس نے مجھ سے ایسا کچھ نہیں کہا کہ وہ ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا۔” نانو نے چند لمحوں کے بعد بات شروع کی ”یا پھر کبھی شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔” وہ رکیں ”وہ خود بھی شادی کے بارے میں سوچ رہا ہے اور وہ کہہ رہا تھااکہ ایک دو سال تک وہ شادی کر لے گا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھ کو ہٹا لیا۔ وہ نہیں چاہتی تھی، نانو اس کے ہاتھ کی لرزش دیکھیں مگر اس وقت اس کے چہرے پر کتنے رنگ بدل رہے ہوں گے، یہ وہ جانتی تھی۔
”اس نے مجھ سے کہا کہ اسے تم میں کبھی بھی کوئی دلچسپی نہیں رہی، تم اس کے لئے ایک کزن یا دوست سے زیادہ کچھ بھی نہیں رہی۔” وہ دم سادھے ان کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ” اس نے یہ بھی کہا کہ تم اس سے آٹھ سال چھوٹی ہو اور تم اس کے ٹمپرامنٹ کو سمجھ نہیں سکتیں۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”اس کا خیال ہے کہ اس کے اور تمہارے درمیان کوئی انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہے۔ تم امیچور ہو اور خوابوں میں رہنے والی بھی، اس کو اپنی بیوی میں زیادہ Pragmatic (عملی) اپروچ چاہئے جو تم میں نہیں۔”
نانو چند لمحوں کے لئے رکیں اور پھر انہوں نے علیزہ سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ جوڈتھ میں انٹرسٹڈ ہے۔ اس کی جوڈتھ کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے اور اس کا خیال ہے کہ ایک دو سال میں جب وہ شادی کرے گا، تو جوڈتھ سے ہی کرے گا وہ اس بات پر حیران ہو رہا تھا، کہ میں تمہارے پرپوزل کے بارے میں اس سے بات کر رہی تھی۔ اسے تو ایسی کوئی توقع ہی نہیں تھی کہ میں تمہارے لئے اس کے بارے میں سوچوں گی۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں تمہارے کہنے پر اس سے بات کر رہی ہوں۔”
نانو خاموش ہو گئی تھیں، شاید اب ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا، بالکل ویسے ہی جیسے علیزہ کے پاس پوچھنے کے لئے کچھ نہیں رہا تھا۔
”میں نے تمہیں پہلے ہی ان سب باتوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔” نانو کا لہجہ بہت نرم تھا۔ شاید وہ علیزہ کی جذباتی کیفیت سمجھ رہی تھیں۔”مگر اب ان سب باتوں کو بھول جاؤ جو ہو گیا اسے جانے دو عمر میں ایسے کون سے سر خاب کے پر لگے ہوئے ہیں اور پھر تمہار ے لئے میرے پاس عمر سے بہتر پرپوزلز ہیں۔” انہوں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اس نے رونا شروع نہیں کیا تھا حالانکہ انہیں توقع تھی کہ وہ ان کی باتیں سننے کے بعد… لیکن وہ خاموش تھی نانو کو یوں لگا جیسے وہ شاکڈ تھی۔
وہ شاکڈ نہیں تھی، اسے صرف یقین نہیں آرہا تھا کہ عمر کے بارے میں اس سے اندازے کی اتنی بڑی غلطی ہو سکتی ہے… یا وہ ضرورت سے زیادہ بیوقوف تھی یا پھر خوش گمانی کی حدوں کو چھو رہی تھی جو بھی تھا، اس وقت اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا، جیسے شدید سردی کے موسم میں کسی نے اسے گرم کمرے سے نکال کر یخ پانی میں پھینک دیا ہو۔
”Pragmatism (عملی) اور Realism(حقیقت پسند)” اس نے اپنے کانوں سے عمر کی آواز کی جھٹکنے کی کوشش کی، بے یقینی ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔

Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!