”جن لوگوں کو پکڑنے میں پولیس کے کئی کئی سال لگ جاتے ہیں اور لاکھوں روپیہ خرچ ہو جاتا ہے…انہیں پکڑنے کے بعد ان کے خلاف ایک گواہ نہیں ملتا۔” اس نے سرخ چہرے کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
”لوگ اتنے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے قریبی عزیزوں کے قتل پر گواہ نہیں بنتے۔ جج پوچھتا ہے کوئی گواہ ہے۔ وکیل استغاثہ کہتا ہے نہیں۔ وکیل صفائی کہتا ہے ضمانت پر رہا کر دیں جناب! میرے موکل کو پولیس نے جان بوجھ کر گرفتار کیا ہے۔ جج پانچ ہزار کے ضمانت کے مچلکے پر اسے رہا کر دیتا ہے۔ ہمارا پورا ڈیپارٹمنٹ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ یہ ہے اس ملک کا نظام عدل۔”
وہ پلکیں جھپکائے بغیر ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”اور عدالت کو چھوڑو ان سے پہلے ہی بڑے بڑے سیاست دانوں کی سفارش آنا شروع ہو جاتی ہیں، ان کے لیے کیونکہ یہ لوگ ان کے پالے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک قتل یہ اپنے لیے کرتے ہیں تو دس ان کے لیے۔ وزیراعلیٰ یا گورنر فون کرکے کہے کہ فلاں آدمی جو آپ نے پکڑا ہے اسے چھوڑ دیں تو ہم اسے اس کے بارے میں مقدمات کی تفصیل کیسے بتا سکتے ہیں۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ایسے آدمیوں کو پکڑنے کے بعد مار دیا جائے، اس سے پہلے کہ ان کے لیے کوئی سفارش آئے یا عدالت انہیں رہا کرے اور وہ دوبارہ پولیس کا ناک میں دم کریں اور عمر جہانگیر ایسا کرنے والا واحد آدمی نہیں ہے کسی ایک ایسے ایس پی کا نام بتا دو جس کے ضلع میں ایسے جھوٹے پولیس مقابلے نہیں ہوتے۔ ہم مجبور ہیں یہ سب کرنے کے لیے۔ ایک پولیس مقابلے کے بعد لاء اینڈ آرڈر بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے۔ کم از کم کچھ عرصے کے لیے۔ کبھی آج تک کسی ایک ایس پی کو سزا ملی ہے اس کے ضلعوں میں ہونے والے کسی ایک بھی پولیس مقابلے کے لیے۔” اس نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”نہیں…اور نہ ہی آئندہ کبھی ملے گی کیونکہ وہ جو اوپر بیٹھے ہوتے ہیں نا…آئی جی…اور چیف سیکرٹری انہیں بھی سب پتا ہوتا ہے کہ یہ پولیس مقابلے کیوں ہوتے ہیں اور ہم یہ کرنے پر کیوں مجبور ہیں پھر صرف عمر جہانگیر کو اس طرح تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔ صرف مجھ پر الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں۔”
اس کی آواز میں اب غصہ تھا۔
”کرپشن…؟ کون کرپشن نہیں کرتا، ہاں میں نے اور رضی محمود نے وہ زمین بیچ دی تھی تو پھر کیا ہوا…یہاں سب ایسا ہی کرتے ہیں۔ جرنلسٹس کو موقع ملے تو وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ کیا وہ لفافے نہیں لیتے سیاست دانوں سے ، کسی جرنلسٹ کا نام بتاؤ میں تمہیں اس کا کچا چٹھا بتا دیتا ہوں۔
کس کا کتنا ریٹ ہے۔ کون کس وزیر کے ساتھ دورے پر جانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیل رہا ہے۔ کون کس سے پلاٹ الاٹ کروا رہا ہے اور میں نہ بھی کہوں تم جرنلسٹس کے کالم پڑھ لو…تمہیں پتا چل جائے گا کس کے منہ میں کس کی زبان ہے اور کس کی قیمت کتنی ہے۔ پھر اگر ان جیسے لوگ ہمیں گریبان سے پکڑنے کی کوشش کریں تو۔۔۔”
وہ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ہنسا۔
”پھر بھی میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ میں نے صالحہ پر فائرنگ نہیں کروائی۔ وہ میرے لیے اتنا خطرہ نہیں تھی۔ تمہاری دوست ہوتی یا نہ ہوتی مجھے اس پر فائرنگ کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ میں ایسا کام کیوں کرواؤں گا کہ سیدھا شک مجھ پر جائے۔” اس بار اس کی آواز نرم تھی۔
”پھر تمہارے علاوہ اور کون کر سکتا ہے یہ سب کچھ؟”
”وہ خود کروا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ پری پلانڈ ہو سکتا ہے۔ میرا کوئی دشمن کروا سکتا ہے۔” عمر نے لاپرواہی سے کہا۔
”وہ خود اپنے آپ پر فائرنگ کروائے گی؟” علیزہ نے بے یقینی سے کہا۔
”ہاں کیوں نہیں اس میں کون سے پہاڑ سر کرنے پڑتے ہیں۔ کرائے کا کوئی آدمی چاہیے ہدایات کے ساتھ…اور بس…اور وہ تو ہے بھی جسٹس نیاز کے خاندان سے۔”
علیزہ نے اسے غور سے دیکھا۔
”اور جہاں تک خود کو بچانے کے لیے بھکاریوں کی طرح ہر ایک کے آگے پیچھے پھرنے کا تعلق ہے تو میں ایسا کچھ بھی نہیں کر رہا۔” وہ ہنسا ”یہ معطلی میرے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی ہے…کیسے ، یہ تمہیں اگلے چند ہفتوں میں پتا چل جائے گا۔ جہاں تک انکوائری کا تعلق ہے انکوائری کمیٹی میں تین لوگ ہیں۔” وہ اب جیسے خود اپنی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ایک پاپا کے بیچ میٹ ہیں انکل اسحاق دوسرے اے ایچ قریشی ہیں۔ ان کا بیٹا شیراز میرا بیچ میٹ ہے۔ تیسرے فاروق ذوالفقار ہیں۔ ان کے ساتھ کل لاہور جم خانہ میں ٹینس کی پریکٹس کی تھی میں نے۔ میرے بیک ہینڈ سے وہ بہت متاثر ہوئے اور ان کے فور ہینڈ سے میں۔” اس نے ٹینس کے دو شاٹس کا نام لیتے ہوئے کہا۔
”سروس دونوں کی اچھی نہیں تھی۔ کل دو گھنٹے کے لیے مزید کھیلیں گے شاید بہتر ہو جائے۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
”اور تم سمجھ رہی ہو کہ میں لوگوں کے پیچھے پھر رہا ہوں کہ مجھے بچا لیں…میں یہاں بس چند ہفتے کی چھٹیاں گزارنے آیا ہوں۔” وہ ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔
”جنید…یا…تم…یا صالحہ مجھے کیا فائدہ پہنچا سکتے ہو۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ”اور تمہیں جنید کے ذریعے میں کیوں پریشرائز کراؤں گا۔”
علیزہ کو یکدم تھکن محسوس ہونے لگی۔ واپس پلٹ کر وہ اپنے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح ہر حل، ہر جواب اپنی مٹھی میں لیے پھر رہا تھا، وہ باتوں میں دلیلوں میں اس سے کبھی نہیں جیتی تھی۔ وہ آج بھی اس سے نہیں جیت سکی تھی۔
”بس ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ میں تمہاری زندگی کیسے برباد کر رہا ہوں؟” اس نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
”اور تمہارا یہی جملہ مجھے وہاں سے یہاں لایا ہے۔ کسی اور شخص کے کسی جملے سے مجھے اتنی تکلیف نہیں پہنچ سکتی جتنی تمہاری اس بات سے ہوئی ہے۔ میں تمہیں خوش نہیں دیکھ سکتا…میں…؟ علیزہ! میں تمہیں خوش دیکھنا نہیں چاہوں گا…؟ میں چاہوں گا کہ تمہاری زندگی برباد ہو…تمہیں پتا ہے، تم نے مجھ سے کیا کہا ہے؟”
علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”تمہاری وجہ سے جنید میرے ساتھ جھگڑا کر رہا ہے۔ تمہارے لیے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔ جب تک تم سے اس کا میل جول نہیں تھا ہم لوگوں میں کوئی تلخی نہیں تھی مگر اب جب تم اس سے ملنے لگے ہو…تو…تمہارے کہنے پر وہ۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے کہنے پر وہ کچھ نہیں کر رہا۔ وہ میرے کہنے پر کچھ کر بھی نہیں سکتا۔” عمر نے سختی سے کہا ۔ ”وہ کوئی ننھا بچہ نہیں ہے اور پھر میں تم لوگوں کے تعلقات کیوں خراب کروانا چاہوں گا۔” مجھے اس سے کیا فائدہ ہوگا؟”
”Why don’t you just get of our life” (تم ہماری زندگی سے نکل کیوں نہیں جاتے) وہ یکدم چلائی۔
عمر بات کرتے کرتے رک گیا۔ ”میں تمہاری زندگی سے پہلے ہی نکل چکا ہوں۔”
”نہیں تم نہیں نکلے ہو، اگر نکل گئے ہو تو پھر جنید کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔”
”اگر جنید سے ملنا چھوڑ دوں تو کیا مجھ سے تمہاری ناراضی ختم ہو جائے گی؟” عمر نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”میری ناراضی کی پروا مت کرو عمر! جو کچھ تم میرے ساتھ کر چکے ہو، اس کے بعد کیا تمہیں یہ سوال زیب دیتا ہے؟”
”ہم دونوں بہت اچھے دوست رہ سکتے ہیں علیزہ…! ہم کبھی بہت اچھے دوست تھے۔۔۔” اس نے اس بار قدرے مدھم آواز میں کہا۔
”نہیں ہم دونوں کبھی بھی دوست نہیں تھے۔ ہم دونوں آئندہ بھی کبھی دوست نہیں رہ سکتے۔” علیزہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
”تم مجھے اپنے اور جنید کے درمیان کبھی نہیں پاؤ گی۔ میں اس سے دوبارہ نہیں ملوں گا۔ کیا اس کے بعد تم میرے لیے اپنا دل صاف کر سکتی ہو؟”
”نہیں۔۔۔”
عمر کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا، وہ کچھ دیر کچھ بھی کہے بغیر اسے دیکھتا رہا پھر مسکرا دیا۔
”میرے لیے تم ایک بہت خاص دوست ہو۔ تم مجھے کیا سمجھتی ہو کیا نہیں، میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا مگر کم از کم میرے لیے تم ہمیشہ ہی خاص رہو گی اور اگر کبھی پوری دنیا بھی تمہارے خلاف ہو جائے تو تم یہ یاد رکھنا، عمر جہانگیر ہمیشہ تمہاری طرف کھڑا رہے گا۔ چاہے تم غلط ہو یا صحیح ہو، میں ہمیشہ تمہیں سپورٹ کروں گا علیزہ! میں وہ آخری شخص بھی نہیں ہوں گا جو کبھی تمہیں تباہ کرنا چاہے گا۔ تم زندگی تباہ کرنے کی بات کرتی ہو، میں تو تم پر ایک خراش برداشت نہیں کر سکتا۔” علیزہ اس کے علاوہ کمرے کی ہر چیز کو دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری یہ پینٹنگ لے جاؤں۔” کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ علیزہ نے بے اختیار اسے دیکھا۔ وہ اب دیوار پر لگی ہوئی ایک پینٹنگ کو دیکھ رہا تھا، علیزہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر کچھ کہے بغیر دیوار کی طرف گئی اور اس پینٹنگ کو اتار دیا۔ عمر سے نظریں ملائے بغیر اس نے وہ پینٹنگ اس کی طرف بڑھا دی۔
”میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا۔” اس نے عمر کو کہتے سنا۔
”مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔” اس کی بات کے جواب میں وہ اس کی بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ علیزہ نے اسے اپنی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک کیس برآمد کرتے اور اسے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے دیکھا۔
”یہ تمہارے لیے ہے، میں تمہاری برتھ ڈے پر دینا چاہتا تھا مگر نہیں دے سکا۔”
وہ اب دونوں ہاتھوں میں اس پینٹنگ کو پکڑ کر دیکھ رہا تھا۔
”او کے میں چلتا ہوں، اب۔۔۔”
وہ یکدم واپس مڑ گیا۔ علیزہ نے اسے کمرے سے باہر جاتے دیکھا کچھ دیر تک وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی پھر وہ اٹھ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل کی طرف آگئی۔ کیس آہستگی سے اٹھا کر اس نے اسے کھول دیا۔ اندر سونے اور ہیروں سے مرصع ایک خوبصورت بریسلیٹ تھا۔ وہ ہونٹ بھینچے اس تحفے کو دیکھتی رہی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی بھی اسے سونے کی کوئی چیز نہیں دی تھی۔ پھر اب…جب…اس نے بہت آہستگی سے ایک بار اس بریسلیٹ کو چھوا اور کیس کو بند کر دیا۔ باہر عمر کی گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز آرہی تھی، وہ کھڑکی کی طرف بڑھ آئی۔ بند کھڑکیوں سے اس نے عمر کی گاڑی کو گیٹ سے باہر نکلتے دیکھا۔
وہ اس شخص کو کبھی بھی نہیں سمجھ سکتی تھی۔ وہ اس شخص کو کبھی سمجھنا چاہتی بھی نہیں تھی۔
٭٭٭
صحافتی حلقوں میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں افواہیں زوروں پر تھیں۔ نہ صرف ملکی پریس بلکہ بین الاقوامی پریس بھی اس بارے میں اندازے پیش کر رہا تھا۔ علیزہ کے آفس میں بھی روز اسی بارے میں گفتگو ہوتی رہتی۔ یہ خبریں اس وقت اور زور پکڑ گئیں جب فوج کے ایک کور کمانڈر نے جو ایک حکومتی عہدے دار کے رشتے دار تھے وزیراعظم سے ملاقات کی۔ اگلے چند دنوں میں آرمی چیف نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ پریس کی قیاس آرائیاں تھیں کہ انہوں نے حکومتی حلقوں کو آرمی کے پلان آف ایکشن کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی تھی۔
”حکومت اب بس کسی وقت بھی جا سکتی ہے کیونکہ تمام تیاریاں پوری ہو چکی ہیں۔ بیورو کریسی کے بڑے بڑے نام جن کی اس حکومت میں رشتہ داریاں ہیں ان میں سے اکثر طویل رخصت پر ملک سے باہر جا چکے ہیں یا جارہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں۔ وزیر چاہے جتنے بھی بیان کیوں نہ دیتے پھریں کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کی بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔”
اس دن بھی لنچ بریک میں یہی ڈسکشن ہو رہی تھی اور اسد ہمایوں بڑے زور و شور سے اپنا تبصرہ کر رہا تھا۔ علیزہ لنچ کرتے ہوئے وہاں ہونے والی گفتگو سننے میں مصروف تھی وہ خود ایسی ڈسکشنز میں حصہ نہیں لیتی تھی۔ اس کی واحد سرگرمی ہر ایک کی رائے کو غور سے سننا ہوتا تھا۔
”خاص طور پر وہ بیورو کریٹس جن کے رشتہ دار آرمی میں ہیں، انہیں تو پہلے ٹپس دی جا رہی ہیں۔” مقصود جعفر نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا۔ ”ایک ہوتی ہے ملٹری بیورو کریسی ، اور دوسری ہوتی ہے سول بیورو کریسی۔ پاکستان میں دونوں باری باری حکومت کرتے ہیں۔ مل کر کھاتے ہیں مل کر آتے ہیں۔”
اسد ہمایوں کی بات میں مقصود جعفر نے ٹکڑا لگایا۔
”مگر مل کر جاتے نہیں ہیں۔”
”جائیں گے کیوں، ابھی اس ملک کی رگوں میں خاصا خون ہے۔ اگلے کئی سال چوسا جا سکتا ہے۔” اس بار صالحہ نے تبصرہ کیا تھا۔
”ہر چھ ماہ بعد فوج کے آنے کی افواہ گردش کرنے لگتی ہے۔ میری تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہم کب تک افواہوں پر اس طرح ڈسکشن کرتے رہیں گے۔” اس بار عصمت نے کہا تھا۔
”جرنلسٹس کا کام ہی افواہوں کو ڈسکس کرنا ہوتا ہے۔ آپ کو ہماری باتوں پر یقین آئے یا نہ آئے مگر اس بار آپ میری خبروں کی صداقت پریقین لے آئیں گی۔”
اسد ہمایوں نے عصمت کی بات کے جواب میں کہا تھا، عصمت نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چائے پینے پر اکتفا کیا تھا مگر علیزہ سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کیا چند دن پہلے عمر جہانگیر اسی تبدیلی کی بات کر رہا تھا۔ جس کے بعد وہ ایک بہتر پوزیشن میں آ جائے گا۔ وہ سوچ رہی تھی۔
”کیا اس کے خلاف ہونے والی انکوائری۔ کیا اس کی طرف سے کی جانے والی پریس کانفرنس ایک سوچی سمجھی سکیم کا حصہ ہے اور وہ آخر اس کانفرنس سے کیا ایڈوانٹیج حاصل کر سکتا ہے اور فوج اگر حکومت میں آ بھی گئی تو عمر جہانگیر کو اس سے کیا حاصل ہو سکتا ہے۔”
اسے بہت سارے سوال پریشان کر رہے تھے۔
اس کے سارے سوالوں کے جواب اسے اگلے ہفتے مل گئے تھے ، ملک میں فوج نے حکومت سنبھال لی تھی اور حکومت سنبھالنے کے بعد جو مختلف نوٹیفکیشنز جاری کیے گئے تھے ان میں سے ایک کچھ سرکاری افسروں کی بحالی کا بھی تھا اور ان سرکاری افسروں میں عمر جہانگیر بھی شامل تھا۔ اسے نہ صرف بحال کر دیا گیا تھا بلکہ اسی شہر میں دوبارہ تعینات کر دیا گیا تھا جہاں وہ پہلے پوسٹڈ تھا۔ اس کی انکوائری کا کیا بنا؟ اس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ حکومت ویسے بھی اتنے ضروری کاموں میں الجھی ہوئی تھی کہ عمر جہانگیر جیسے ایک معمولی افسر کے کیس کے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہو سکتا تھا اور پریس خود بھی حکومت کی ہر نئی حکمت عملی کو فالو کرنے میں اتنا مصروف تھا کہ عمر جہانگیر یکدم جیسے بیک گراؤنڈ میں چلا گیا تھا، اگر کسی کو وہ یاد تھا تو وہ علیزہ سکندر تھی یا صالحہ پرویز۔
اس کی بحالی کی خبر آفس میں ڈسکس ہونے پر صالحہ نے اس سے کہا تھا۔
”تمہارا کزن…واقعی بہت خوش قسمت ہے۔ ہر بار مکھن سے بال کی طرح نکل جاتا ہے یا نکال لیا جاتا ہے۔ واقعی اس کی قسمت کسی خاص قلم سے لکھی گئی ہے۔”
علیزہ جانتی تھی، یہ تعریف نہیں تھی۔
صالحہ خاصی مایوس نظر آرہی تھی۔
”اس کی پریس کانفرنس اور وہ الزامات یقیناً ایک Ploy تھا۔” صالحہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”تمہارے کزن کو یقیناً پتا ہوگا کہ گورنمنٹ جانے والی ہے اور اس کے بعد حکومت میں کون آ رہا ہے، اس کو حکومت کی good books میں رہنے کے سارے طریقے آتے ہیں۔ میری طرف سے مبارکباد دینا اسے۔” صالحہ کے لہجے میں تلخی نمایاں تھی۔
”اسی لیے تم بھی میری سپورٹ میں نکالی ہوئی اس ریلی میں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ ظاہر ہے تمہیں یہ سب کچھ پہلے ہی پتا ہوگا۔ میرے ساتھ ہمدردی کرکے تم نے میرے ساتھ ساتھ آفس کے دوسرے لوگوں کی نظروں میں بھی خاصا احترام پیدا کر لیا۔ دوسری طرف تمہیں عمر کے حوالے سے بھی کوئی خدشہ نہیں تھا۔ خاصی ”باخبر” ہو گی تم اس کے ہر ممکنہ اقدام کے بارے میں۔”
اسے صالحہ کے چہرے پر پھیلی ہوئی طنزیہ مسکراہٹ میں چھپی ہوئی ناراضی نظر آگئی لیکن اسے صالحہ کے شبہات پر افسوس ہوا۔
”تم سے یہ کہنا تو بے کار ہی ہوگا کہ مجھے کچھ علم نہیں تھا، میں بھی تمہاری طرح ہی لاعلم تھی کیونکہ تم میری بات پر کبھی یقین نہیں کرو گی۔ ” علیزہ نے اس کی طنزیہ گفتگو کے جواب میں کہا۔ ”وہ ہر کام میرے مشورے سے یا مجھ سے اجازت لے کر نہیں کرتا۔ نہ ہی مجھے باخبر رکھنا کوئی ضروری کام ہے۔”
”پھر بھی کسی نہ کسی حد تک تمہیں پتا تو ہوگا۔”
”وہ تو ہمیں یہاں نیوز پیپر کے آفس میں بھی پتا تھا کہ گورنمنٹ جانے والی ہے۔ مگر یہ کوئی authenticated (یقینی )خبر تو نہیں تھی۔”
”مگر خبر تو تھی ہمیں۔”
”جو بھی ہو تمہارا کزن۔۔۔”
علیزہ نے صالحہ کی بات کاٹ دی۔ ”میرا کزن بہت خوش قسمت ہے۔ ہر بار بچ جاتا ہے، اس بار بھی بچ گیا ہے۔ کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کر سکتیں تم، ہمارے پاس اور بھی بہت سے ٹاپک ہیں۔” علیزہ نے کچھ اکتاتے ہوئے کہا۔
”یا پھر شاید ہمیں کچھ ڈسکس کرنا ہی نہیں چاہیے۔ اگر ہر بار بات عمر جہانگیر سے شروع اور اسی پر ختم ہونی ہے تو!” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
صالحہ نے اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنا بیگ اٹھایا اور اس کے آفس سے نکل گئی۔ علیزہ ایک بار پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
***