امربیل — قسط نمبر ۱۲

”میں یہاں کوئی حق جتانے نہیں آیا۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی ”اور میں نے کبھی گرینی کے گھر پر بھی کوئی حق نہیں جتایا۔” اس کی آواز پرسکون تھی۔ ”تم مجھ پر کم از کم یہ الزام عائد نہیں کر سکتیں۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ گھر تمہارا ہے اور تم مجھے یہاں سے دھکے دے کر نکلوا سکتی ہو۔”
وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
”مگر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں اس کے بغیر ہی یہاں سے چلا جاتا ہوں، ابھی اتنی تہذیب تو باقی ہے مجھ میں کہ میرے ساتھ کسی کو زبردستی نہ کرنا پڑے۔” وہ مدھم آواز میں بولا۔
”تم میں جتنی تہذیب ہے میں جانتی ہوں۔” علیزہ نے تلخ لہجے میں کہا۔ ”بلکہ مجھ سے زیادہ یہ بات تو کوئی جان بھی نہیں سکتا۔” عمر نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر مڑنے لگا۔
”تم دوبارہ کبھی اس گھر میں مت آنا۔”
عمر مڑتے مڑتے رک گیا۔
”کبھی بھی نہیں۔ عمر جہانگیر نام کے کسی شخص کو میں نہیں جانتی اور نہ ہی میں جاننا چاہتی ہوں۔”
عمر کے چہرے پر ایک سایہ سا گزرا۔ ”ٹھیک ہے…اور کچھ؟” اس نے بہت سکون سے علیزہ سے پوچھا۔
”اب تم یہاں سے چلے جاؤ۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔ وہ واپس مڑ گیا علیزہ وہاں نہیں رکی۔ وہ لمبے قدموں کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلی آئی۔
جنید کی امی نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اس کا استقبال کیا۔




”ابھی تمہارا کزن آیا ہوا تھا۔” انہوں نے بڑے سرسری انداز میں کہا۔
”ہاں میں ملی ہوں باہر پورچ میں۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”تمہارا چہرہ کیوں سرخ ہو رہا ہے؟” انہوں نے اچانک چونک کر علیزہ کو دیکھا۔
”کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔” علیزہ نے بہانہ بنایا۔ ”آپ عمر کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔” علیزہ نے بات کا موضوع بدلا۔
”وہ کس لیے یہاں آیا تھا؟” علیزہ نے ان سے پوچھا۔
”وہ بس ویسے۔۔۔” جنید کی امی روانی سے کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔ ”یہ تو اس نے مجھے نہیں بتایا شاید جنید سے ملنے آیا ہوگا۔” جنید کی امی نے کہا۔
”ویسے اچھا ہے…کیوں علیزہ؟” جنید کی امی نے اس کی رائے لی۔
”عباس بھائی بھی آتے رہے ہوں گے پچھلے دنوں؟” علیزہ نے ان کے سوال کو گول کرتے ہوئے پوچھا۔
”عباس…کون؟” جنید کی امی کچھ الجھیں علیزہ نے حیرانی سے انہیں دیکھا۔
”جنید کے دوست ہیں…وہ بھی میرے کزن ہیں انکل ایاز کے بیٹے۔”
”ہاں…ہاں یاد آیا…بس میرے ذہن سے ہی نکل گیا۔” جنید کی امی نے کچھ گڑبڑا کر کہا۔ ”عباس تو یہاں نہیں آیا۔”
”اچھا…پھر میرا خیال ہے انہوں نے جنید سے فون پر رابطہ کیا ہوگا؟” علیزہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”ہاں ہو سکتا ہے جنید اور اس کا فون پر رابطہ ہو۔ بہرحال وہ یہاں تو نہیں آیا۔” جنید کی امی نے کہا۔
”اور یہ عمر…کیا آج پہلی بار آیا ہے؟” علیزہ نے ایک خیال آنے پر ان سے پوچھا۔
”عمر…؟” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں۔۔۔”ہاں پہلی بار آیا ہے۔”
”کیا تمہیں اس کا آنا اچھا نہیں لگا؟” اس بار علیزہ ان کے سوال پر گڑبڑا گئی۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے اس کا یہاں آنا برا کیوں لگے گا؟”
”مجھے لگا کہ تمہیں برا لگا ہے۔”
”نہیں برا نہیں مجھے کچھ عجیب لگا ہے۔ عمر دراصل کہیں جاتا نہیں اس لیے۔” علیزہ نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
”مگر۔۔۔” وہ ایک بار پھر کچھ کہتے کہتے رکیں اور انہوں نے علیزہ کو غور سے دیکھا۔ علیزہ کو یوں لگا جیسے ایک بار پھر وہ کچھ کہتے کہتے رکی ہیں۔
”تمہاری بہت تعریف کر رہا تھا۔”
انہوں نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔ علیزہ نے جواباً کچھ نہیں کہا وہ صرف بات کرتے ہوئے انہیں دیکھتی رہی۔
”جنید کہہ رہا تھا کہ تم اسے زیادہ پسند نہیں کرتیں۔” انہوں نے یکدم اس سے کہا وہ چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکی اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اپنی امی سے ایسی کوئی بات کہہ دے گا اور خود جنید نے یہ اندازہ کیسے لگایا کہ میں عمر کو ناپسند کرتی ہوں۔ صرف پچھلے چند واقعات کی وجہ سے۔” وہ سوچنے لگی۔
”تم کیا سوچ رہی ہو علیزہ؟” جنید کی امی نے یکدم اس سے پوچھا۔
”نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔” اس نے یکدم چونک کر کہا۔
”میں نے تم سے کچھ پوچھا تھا؟” جنید کی امی نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”میں اسے ناپسند نہیں کرتی۔ پتا نہیں جنید کو ایسا کیوں لگا۔ بس میری اس کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہماری ملاقات ہی بہت کم ہوتی ہے۔” وہ بے اختیار کہتی گئی۔ ”شاید زیادہ ملاقات کا موقع ملتا تو…میں انہیں پسند کرتی اور شاید وہ بھی…مگر جب اتنے عرصے ملاقات کا موقع نہ ملے تو پھر یہ چیزیں اتنی اہم نہیں رہتیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی اور اسے لگا کہ شاید وہ ہو بھی گئی تھیں۔
”ہاں میں بھی سوچ رہی تھی کہ آخر تم عمر کو ناپسند کیوں کرو گی…وہ تو اتنا۔۔۔”
اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتیں فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ جنید کی امی چونک کر فون کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ علیزہ نے گفتگو کا سلسلہ اس طرح ٹوٹنے پر خدا کا شکر ادا کیا۔
”میں دیکھوں کس کا فون ہے۔” وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”میں فری کے پاس جا رہی ہوں…اپنے کمرے میں ہی ہے نا؟”
علیزہ نے بھی اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ نہیں چاہتی تھی فون پر بات کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر اس کے پاس آئیں اور موضوع گفتگو پھر عمر جہانگیر ہی ہو۔
”ہاں اپنے کمرے میں ہی ہے۔” انہوں نے کہا۔ ”ٹھیک ہے میں اس کے پاس جا رہی ہوں۔” علیزہ لاؤنج سے نکل گئی۔
٭٭٭
وہ تقریباً ایک گھنٹہ وہاں رہی اور اس کے بعد واپس گھر آگئی مگر گھر آکر اسے پھر کوفت ہوئی تھی، عمر کی گاڑی اب وہاں کھڑی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ عمر یہاں موجود ہو گا ورنہ وہ ابھی کچھ اور وقت وہاں گزارتی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے نانو اور عمر کو وہاں بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ اس نے دوسری نظر ان پر نہیں ڈالی سلام دعا کیے بغیر وہ سیدھی وہاں سے گزرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی اسے توقع تھی عمر کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہاں سے چلا جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔
وہ ابھی کپڑے بدل کر باتھ روم سے نکلی تھی جب اس نے دروازے پر دستک کی آواز سنی۔
”دروازہ کھلا ہے” اس نے اپنے بالوں کو ہیئر بینڈ میں جکڑتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحے دروازہ کھلا اور عمر اندر آگیا۔ وہ کچھ دیر شاکڈسی اسے دیکھتی رہی ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہونے والے جھگڑے کے بعد اسے توقع نہیں تھی کہ وہ ابھی فوراً ہی دوبارہ اس طرح اس کے سامنے آ جائے گا۔
”تم مجھے دیکھ کر حیران ہو رہی ہو؟” وہ جیسے اس کے تاثرات بھانپ گیا تھا۔
”نہیں میں نے تمہارے بارے میں حیران ہونا چھوڑ دیا ہے۔ میں تم سے کبھی بھی کسی بھی چیز کی توقع کر سکتی ہوں۔” علیزہ نے ترشی سے کہا۔
وہ دروازے سے چند قدم آگے بڑھ آیا۔ ”میں بیٹھ سکتا ہوں؟”
”ہاں بالکل جہاں چاہو…بیٹھو…اس گھر پر تمہارا حق ہے یہاں میں تمہیں اس طرح Treat نہیں کر سکتی جیسے میں نے جنید کے گھر پر کیا تھا اور یہ بات تم اچھی طرح جانتے ہو۔ پھر اس طرح فارمل کیوں ہو رہے ہوں۔ یوں جیسے تم بڑے مہذب ہو۔ جیسے ہر کام تم مجھ سے پوچھ کر کرتے ہو۔” وہ تلخی سے ہنس کر بولی۔
”ہم کچھ دیر بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں؟” وہ کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر بولا۔
”نہیں میں اب تمہارے ساتھ کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”میں وجہ جان سکتا ہوں؟”
”نہیں یہ جاننا ضروری نہیں ہے۔” علیزہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”مجھے ضرورت ہے۔” عمر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم کسی دن آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا چہرہ دیکھنا۔ پھر تمہیں وجہ جاننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔”
”میں آج یہاں آئینے میں اپنا چہرہ ہی دیکھنے آیا ہوں۔ تم مجھے میرا…بقول تمہارے…اصلی چہرہ دکھاؤ۔”
”یہاں تم کیا ثابت کرنے آئے ہو؟”
”مجھے تم پر کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے علیزہ !”
”Then just get out of my room” (تب آپ میرے کمرے سے تشریف لے جائیں) ”نہیں فی الحال میں یہاں سے جاؤں گا نہیں۔” عمر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تم سے صرف تمہارے غصے اور ناراضی کی وجہ جاننا چاہتا ہوں۔ تمہیں مجھ سے آخر کیا شکایت ہے؟” وہ کمرے کے وسط میں کھڑا کہتا گیا۔ ”آخر میں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تم مجھ کو اس طرح ناپسند کرنے لگی ہو؟”
”ناپسند؟عمر…! میں تمہاری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی، مجھے نفرت ہے تم سے۔” وہ بلند آواز میں بولی۔
”اسی لیے آیا ہوں یہاں پر ، کیوں نفرت ہے، یہی جاننا چاہتا ہوں۔” وہ اسی طرح پرسکون انداز میں کہتا رہا۔
”میں یہ سب کچھ جنید کے گھر بھی پوچھ سکتا تھا مگر میں وہاں کوئی سین کری ایٹ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر جو کچھ تم نے وہاں مجھ سے کہا مجھے یقین نہیں آیا۔ میں تمہارا گھر برباد کرنا چاہوں گا۔ میں؟” عمر نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ”میں تمہیں پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے سکون ملتا ہے تمہیں تکلیف پہنچا کر۔ مجھے یقین نہیں آتا۔ علیزہ کہ یہ سب تم نے میرے بارے میں کہا ہے۔”
عمر نے مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں…وضاحتیں دینا نہیں چاہتی۔” علیزہ نے بپھر کر کہا۔
”میں تم سے کوئی وضاحت مانگنے نہیں آیا۔ صرف پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں مجھ سے کیا شکایت ہے۔ تم مجھے بتاؤ تاکہ میں ایکسکیوز کر سکوں۔”
علیزہ کو اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا۔ ”تمہیں پتا ہے عمر! تم کس قدر جھوٹے، منافق اور کمینے انسان ہو۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کا سرخ ہوتا ہوا چہرہ دیکھتا رہا۔ ”تم میں ذرہ برابر بھی انسانیت نہیں ہے۔” وہ بلند اور تیز آواز میں کہتی رہی۔
”اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم کس حد تک گر سکتے ہو میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ لوگوں کے پیچھے بھکاریوں کی طرح پھر رہے ہو تم اپنے آپ کو بچانے کے لیے۔”
وہ اس وقت آپے سے بالکل باہر ہو رہی تھی۔ اسے بالکل پتا نہیں تھا کہ اسے کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں۔
”میں بیٹھ جاتا ہوں…تم آرام سے جتنی گالیاں دینا چاہتی ہو…دو…جتنا برا بھلا کہنا چاہتی ہو، کہو” وہ صوفے کی طرف بڑھ گیا۔ علیزہ کو اس کے پرسکون لہجے نے اور مشتعل کیا۔
”تم ایک ہارڈ کور کریمنل ہو۔ بس تم نے یونیفارم پہنا ہوا ہے۔ جس دن یہ اتر جائے گا اس دن تم بھی اسی طرح کسی پولیس مقابلے میں مارے جاؤ گے جس طرح تم دوسرے لوگوں کو مارتے ہو۔”
”میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاعلیزہ! تمہیں اتنا غصہ بھی آ سکتا ہے اور تم اس طرح چلا سکتی ہو۔”
”تم میں اور انکل جہانگیر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تم ان سے زیادہ سفاک اور بے رحم ہو۔ وہ کم از کم اپنوں پر ترس تو کھاتے ہیں اور تم…تم وہ آدمی ہو جسے رشتوں کا کوئی پاس سرے سے ہے ہی نہیں۔” وہ انگلی اٹھا کر اس سے کہہ رہی تھی۔ ”نہ تم اچھے بیٹے ہو نہ اچھے بھائی ۔ You are a total failure اور ایسا پتا ہے کیوں ہے کیونکہ تم اچھے انسان ہی نہیں ہو۔”
عمر نے اسے نہیں روکا بس وہ کچھ عجیب سے انداز میں مسکرا دیا۔
”آج اگر صالحہ پرویز کی جگہ میں ہوتی اور تمہیں مجھ سے کوئی خطرہ ہوتا تو تم مجھ پر بھی اسی طرح فائرنگ کرواتے۔ زیادہ خطرہ ہوتا تو جان سے مارنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!