”کچھ نہیں، میں سونا چاہ رہی تھی۔” اس نے کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد کہا۔
”تم نے اتنے دن سے مجھ سے بات نہیں کی۔ تمہیں محسوس نہیں ہوا۔ اب تم سونے جا رہی ہو۔” جنید نے جیسے افسوس کا اظہار کیا۔ ”مجھ سے ناراض ہو کر نیند آ جاتی ہے تمہیں؟”
”ہاں بالکل آ جاتی ہے۔”
دوسری طرف وہ ہنسا۔ ”شکر ہے تم نے یہ نہیں کہا…بلکہ پہلے سے زیادہ اچھی آتی ہے۔”
”نہیں پہلے ہی کی طرح آتی ہے۔”
”یعنی میری ناراضی نے تمہارے معمولات پر کوئی اثر نہیں ڈالا؟”
”اگر آپ میری ناراضی سے متاثر نہیں ہوئے تو میں کیوں متاثر ہوں گی۔”
”یہ کس نے کہا ہے کہ میں تمہاری ناراضی سے متاثر نہیں ہوا۔ کھانا پینا چھوڑا ہوا ہے میں نے۔” دوسری طرف سے بظاہر سنجیدگی سے کہا گیا۔ علیزہ کو غصہ آیا۔
”گھر سے نکلنا تک بند کر دیا ہے، اس کے علاوہ اور کیا اثرات ہوتے ہیں؟”
”آپ نے مذاق اڑانے کے لیے فون کیا ہے؟”
”ارے…کس کا مذاق اڑا رہا ہوں میں؟”
”انسان اگر کھانا وغیرہ کھا لے، باہر بھی آتا جاتا رہے مگر دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش نہ کرے تو باہمی تعلقات کے لیے یہ بہتر نہیں ہے۔”
”یہ تم میرے بارے میں کہہ رہی ہو؟” اس بار جنید نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپ اپنے بارے میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔”
”علیزہ! کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم پچھلے کچھ دنوں کے واقعات کو Skip (چھوڑ) کرکے ایک دوسرے سے بات کریں؟” اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”کیوں…؟”
”یہ ہم دونوں کے تعلقات کے لیے زیادہ بہتر رہے گا۔”
”کون سے تعلقات جنید…؟” اس نے اس بار بے صبری سے کہا۔ ”مجھے لگتا ہے کہ ہمارے درمیان اتنے لوگ ہیں کہ براہ راست والا تو کوئی تعلق شاید ہے ہی نہیں۔ آپ نے اتنے لوگوں کو اس رشتے میں فریق بنا لیا ہے کہ مجھے تو لگتا ہے ہماری کوئی پرائیویسی بھی نہیں ہے۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم عمر کی بات کر رہی ہو۔ میں جانتا ہوں۔”
”یقیناً جانتے ہوں گے، آپ نہیں جانیں گے تو کون جانے گا۔” علیزہ نے اس بار ناراضی سے کہا۔ ”آپ کی تو یہ اعلیٰ ظرفی ہے کہ آپ مان رہے ہیں کہ میں عمر کی بات کر رہی ہوں اور آپ یہ بات جانتے ہیں ورنہ آپ پہلے کی طرح صاف انکار کر دیتے اور یہ کہتے کہ عمر سے کبھی آپ کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی تو میں کیا کر سکتی تھی۔”
”کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم عمر کی بات نہ کریں۔” جنید کا لہجہ یکدم خشک ہو گیا۔
”اس کی بات میں نے نہیں آپ نے شروع کی۔ اسے اپنے اور میرے درمیان آپ لے کر آئے تھے پھر اب اس کی بات کرنے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں آپ؟”
”میں ہچکچا نہیں رہا ہوں۔ میں بس عمر کی بات نہیں کرنا چاہتا۔”
”آپ اس کے ساتھ کے ایف سی جا سکتے ہیں۔” علیزہ نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”آپ مجھے دھوکے میں رکھ سکتے ہیں۔ آپ اس کے معطل ہونے پر مجھ سے بات کرنا بند کر سکتے ہیں مگر آپ اس کے بارے میں مجھ سے بات نہیں کر سکتے۔ آپ مجھے بے وقوف سمجھ رہے ہیں یا بے وقوف بنا رہے ہیں۔”
”تمہیں اس وقت غصہ آ رہا ہے اور غصہ میں بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔” جنید نے تحمل سے کہا۔
”جنید! مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔ آپ کی غلط بیانی پر بھی مجھے غصہ نہیں آنا چاہیے۔” وہ جنید کی بات پر اور ناراض ہوئی۔
”آپ نے عمر کی وجہ سے اتنے دنوں سے مجھ سے بات کرنا چھوڑا ہوا ہے اور آپ کو لگتا ہے غصہ میں، میں ہوں۔”
”اگر میں نے بات کرنا چھوڑا ہوا تھا تو فون بھی تو میں نے کیا ہے۔” جنید نے کہا۔
”آپ نے کتنی بار فون کیا ہے، بس کل اور آج…اور…اس سے پہلے جو میں آپ کو فون کرتی رہی وہ۔۔۔”
”ہم بچوں کی طرح فضول باتوں پر لڑرہے ہیں۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ہم میچور ہیں۔ ٹین ایجر نہیں ہیں۔” علیزہ کو اس کے میچور لفظ استعمال کرنے پر بے اختیار غصہ آ گیا۔
”نہیں میں میچور نہیں ہوں، اور میں واقعی بچوں کی طرح لڑ رہی ہوں کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم بات کرنا ختم کر دیں۔”
”علیزہ ! کیا میں ایکسکیوز کروں تم سے…؟ او کے آئی ایم سوری۔”
علیزہ کے اشتعال میں اور اضافہ ہو گیا۔ ”کیا میں نے آپ سے کہا ہے کہ آپ ایکسکیوزکریں۔ بات بھی کی ہے میں نے اس کے بارے میں، پھر آپ کیوں ایکسکیوز کررہے ہیں۔ مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو اس طرح خواہ مخواہ ایکسکیوز کرتے پھریں۔”
”یعنی تمہیں میں اچھا نہیں لگتا؟”
”اب آپ پھر بات کو غلط رخ دے رہے ہیں۔” وہ گڑبڑائی۔
”ٹھیک ہے میں اب بات کو صحیح رخ دیتا ہوں ، تم کل کھانا کھانے چلو گی میرے ساتھ؟” جنید نے کہا۔
”نہیں۔۔۔” اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔
”کے ایف سی لے کر جاؤں گا تمہیں…وہیں جہاں عمر کے ساتھ گیا تھا اور جہاں تم ہمیں دیکھنے کے بعد بھاگ گئی تھیں۔”
جنید نے اس بار شوخ لہجے میں کہا۔
”میں کہیں نہیں بھاگی تھی۔ کس نے کہا ہے کہ میں بھاگ گئی تھی؟” وہ چڑ کر بولی۔
”عمر نے بتایا ہے، اسے خاصا اندازہ ہے تمہارے ٹمپرامنٹ کا۔”
علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ”آپ عمر کو ہی دوبارہ وہاں لے جائیں، مجھے لے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں مذاق کر رہا تھا علیزہ سب، تمہارے سینس آف ہیومر کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا اب مجھے تم کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ میں مذاق کر رہا ہوں۔”
”آپ مجھے کچھ بھی نہ بتائیں۔”
”اچھا تم ہمارے گھر کب آرہی ہو۔ بہت دن سے نہیں آئیں؟”
وہ کچھ دیر چپ رہی۔ ”میں آؤں گی، ابھی کچھ مصروف ہوں۔”
”علیزہ! مجھے تمہیں کچھ باتیں بتانا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کسی دن تم میرے لیے کچھ زیادہ وقت نکالو اور اپنے غصے کو کچھ دیر کے لیے بھول جاؤ۔” جنید نے بڑی رسانیت کے ساتھ کہا۔
”کیسی باتیں؟”
”یہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا سکتا۔ آمنے سامنے بات کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ اس وقت کم از کم تم فون بند کرکے گفتگو بند نہیں کر سکو گی۔”
”آپ اس بارے میں پریشان نہ ہوں، میں ابھی بھی فون بند نہیں کروں گی…آپ مطمئن ہو کر بات کر سکتے ہیں۔ ” علیزہ کو کچھ تجسس ہوا۔
”نہیں فی الحال میں تم سے یہ باتیں نہیں کر سکتا کیونکہ میں نہیں چاہتا تمہارے غصے میں مزید اضافہ ہو۔”
”نہیں میرے غصے میں اضافہ نہیں ہوگا، آپ بتا دیں۔” اس نے اصرار کیا دوسری طرف کچھ دیر خاموشی رہی۔
”ابھی مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے نہ ہی میں نے لفظوں کا انتخاب کیا ہے۔ کچھ دنوں کے بعد میں اس قابل ہو جاؤں گا کہ یہ دونوں کام کر سکوں۔”
اسے اندازہ نہیں ہو سکا۔ وہ اس بار بات کرتے ہوئے سنجیدہ تھا یا پہلے کی طرح مذاق کر رہا تھا مگر اس بار علیزہ نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔
”تمہارا موڈ ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” جنید نے اس کی خاموشی پر کہا۔
”ہاں۔۔۔”علیزہ نے مختصراً جواب دیا۔
”گڈ۔” جنید نے دوسرے طرف سے جیسے اسے سراہا۔ ”ویسے آٹھ دس سال پہلے تمہیں کبھی غصہ نہیں آتا تھا۔”
علیزہ کو شہلا کی بات یاد آئی، وہ کہہ رہا تھا۔
”آٹھ دس سال پہلے تو تمہیں غصہ نہیں آتا تھا۔” علیزہ نے حیرانی سے اس کی بات سنی، جنید نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ فون رکھتے ہوئے وہ بری طرح الجھی ہوئی تھی۔
”آٹھ دس سال پہلے…جنید آٹھ دس سال پہلے کے بارے میں کیسے کچھ جان سکتا ہے۔”
٭٭٭
علیزہ نے جنید کے گھر کے گیٹ پر ہارن بجایا، چوکیدار دروازہ کھولنے لگا وہ اس وقت اتفاقاً ہی ادھر آ گئی تھی۔ شام کے پانچ بج رہے تھے اور شہلا کے گھر سے نکلنے کے بعد اس نے اچانک ہی گاڑی کو جنید کے گھر کی طرف موڑ لیا۔ وہ کافی دن سے انکی طرف نہیں گئی تھی اور آج اسے کچھ فرصت تھی۔
چوکیدار نے گیٹ کھول دیا مگر وہ اپنی گاڑی اندر نہیں لے جا سکی۔ اس کی نظریں اندر پورچ میں کھڑی ایک گاڑی پر جم گئی تھیں۔ چند لمحوں تک اسے یقین ہی نہیں آیا تھا کہ وہ عمر جہانگیر کی ذاتی گاڑی کو وہاں دیکھ رہی تھی مگر پھر اس کے اندر غصے کی ایک لہر سی اٹھی۔ سرخ چہرے کے ساتھ ایک جھٹکے سے وہ گاڑی اندر لے گئی، عمر کی گاڑی کے بالکل پیچھے اس نے اپنی گاڑی کو کھڑا کر دیا ۔ وہ ابھی اپنی گاڑی سے نکل رہی تھی جب اس نے عمر کو لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر نکلتے دیکھا۔ اس کی نظر علیزہ پر پڑی اور ایک لمحہ کے لیے وہ ٹھٹھک گیا مگر اس کے بعد اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس مسکراہٹ نے علیزہ کو اور مشتعل کیا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے عمر اس کا منہ چڑا رہا ہو۔ منگنی کی رات کے بعد ان دونوں کی اب ملاقات ہو رہی تھی اور جن حالات میں ہو رہی تھی وہ کم از کم علیزہ کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔
”ہیلو علیزہ !” عمر نے اس کے قریب آ کر کہا۔
علیزہ نے اسے سرد مہر ی سے دیکھا۔ ”تم یہاں کیا کررہے ہو؟” کسی لگی لپٹی کے بغیر اس نے عمر سے پوچھا۔
عمر کو شاید اس سے اس طرح کے سوال کی توقع نہیں تھی۔
”میں…میں ویسے ہی آیا ہوں یہاں۔” عمر نے جیسے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”وہی پوچھ رہی ہوں…تم یہاں ویسے بھی کیوں آئے ہو؟” علیزہ کا خون کھول رہا تھا۔ چند ہفتے پہلے صالحہ کا انکشاف ایک بار پھر اس کے کانوں میں گونج رہا تھا۔
”کیا ہوا علیزہ! اتنی روڈ کیوں ہو رہی ہوں؟” عمر نے جیسے اس کے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کی۔
”میں تم سے یہ پوچھ رہی ہوں کہ تم ”میرے” گھر میں کیا کر رہے ہو؟” علیزہ نے ”میرے” پر زور دیتے ہوئے کہا اور عمر چند لمحوں کے لیے کچھ نہیں بولا یا شاید بول نہیں سکا پلکیں جھپکا ئے بغیر وہ علیزہ کے چہرے کو دیکھتا رہا جو بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”تم یہاں کیوں؟ اس کا جواب دے سکتے ہو؟ نہیں، کوئی جواب نہیں ہے نا تمہارے پاس؟” وہ اب استہزائیہ انداز میں کہہ رہی تھی۔ ”دوسروں کی زندگی برباد کرنے کے لیے ہر جگہ منہ اٹھا کر پہنچ جاتے ہو؟” اس کے ہونٹ اور آواز بری طرح لرز رہی تھی۔
”علیزہ !” عمر اس کی بات پر دم بخودرہ گیا۔
”تم سے عمر! تم سے برداشت ہی نہیں ہوتا کہ میں ایک اچھی پرسکون زندگی گزار سکوں۔”
”پتہ نہیں کیوں برباد کرنا چاہتے ہو تم مجھے۔ پتا نہیں میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔”
”علیزہ! تمہیں کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے۔” عمر نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”مجھے غلط فہمی ہو رہی ہے…مجھے؟ ایسا ہے تو تم یہاں کیوں آئے ہو…؟” اس نے بمشکل خود کو چلانے سے روکا۔
”میں یہاں۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔” یہ میرا گھر ہے عمر…! کم از کم یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں تمہیں دھکے دے کر نکلوا سکتی ہوں۔” وہ اب گیٹ کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ ”یہ نانو کا گھر نہیں ہے جسے میں تمہارے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور تھی۔ جہاں تم اپنا حق جتا سکتے تھے۔”