امربیل — قسط نمبر ۱۲

اگلے دن وہ شام کو شہلا کے ساتھ کے ایف سی گئی جب ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے عمر کو وہاں دیکھا۔ علیزہ اور اس کی ٹیبل کے درمیان کافی فاصلہ تھا اور یہ صرف ایک اتفاق ہی تھا کہ علیزہ اور شہلا کی اپنے ٹیبل کی طرف بڑھتے ہوئے اس پر نظر پڑ گئی، کے ایف سی میں اس وقت خاصا رش تھا اور شاید یہ رش ہی تھا جس کی وجہ سے عمر انہیں نہیں دیکھ سکا۔ وہ ایک ٹیبل پر بیٹھا کھانا کھانے میں مصروف تھا مگر اس کی ٹیبل پر ایک اور فرد بھی موجود تھا۔ یقیناً اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔
شہلا نے عمر کو نہیں دیکھا اور علیزہ نے عمر کی وہاں موجودگی کے بارے میں اسے بتایا بھی نہیں، وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے باتیں کرتی رہیں مگر وقتاً فوقتاً علیزہ کی نظریں اس ٹیبل کی طرف جاتی رہیں جہاں پر عمر بیٹھا تھا۔
شہلا کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے اس نے سو فٹ ڈرنک کاایک گھونٹ پیا اور پھر اسے جیسے اچھو سا لگا۔
”کیا ہوا علیزہ؟” شہلا نے دیکھا جو اپنے منہ کو صاف کرتے ہوئے کچھ ہکا بکا سی عمر کے ٹیبل پر بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو دیکھ رہی تھی۔
وہ جنید ابراہیم تھا۔
وہ پلکیں جھپکائے بغیر جنید کو عمر کے سامنے بیٹھے دیکھتی رہی، اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہ دونوں کھانا کھاتے ہوئے ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھے۔
”تمہیں کیا ہوا کھا کیوں نہیں رہیں تم؟” شہلا نے اسے متوجہ کیا مگر اس نے شہلا کی بات پر دھیان نہیں دیا وہ ابھی بھی ان ہی دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ شہلا نے اس کے تاثرات کو نوٹ کیا اور گردن موڑ کر اس سمت دیکھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ چند لمحوں کی جستجو کے بعد اس کی نظر عمر اور جنید پر پڑ گئی۔
”عمر جنید کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ ” شہلا نے بے اختیار گردن سیدھی کرتے ہوئے حیرانی سے کہا۔
”میری زندگی تباہ کرنے کی کوشش۔” علیزہ نے ان دونوں سے نظریں ہٹائے بغیر تلخی سے شہلا سے کہا۔ شہلا کچھ نہیں سمجھی۔ اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر عمر اور جنید کو دیکھا۔
”کیا یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟” شہلا نے کچھ تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔




”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں یا نہیں۔ عمر ضرورت کے وقت گدھے کو بھی باپ بنا لینے والا آدمی ہے اور اس وقت گدھا جنید ہے۔ عمر سے زیادہ اچھی طرح کوئی کسی کو استعمال کرنے کا فن نہیں جانتا، بادشاہ ہے وہ اس کام میں۔” اس نے کوک کا گھونٹ لے کر اپنا اشتعال کم کرنے کی کوشش کی۔
”آج کل اسے جنید کی ضرورت ہے تو جنید حاضر ہے۔”
”کیوں جنید کی کیا ضرورت ہے اسے؟ اس سے کیا تعلق ہے اس کا؟” شہلا نے ٹشو سے منہ پونچھتے ہوئے کہا۔
”جنید کے ذریعے مجھے پریشرائز کیا جا سکتا ہے نا۔ جنید کے ذریعے مجھ سے ساری معلومات اور خبریں لی جا سکتی ہیں صالحہ کے بارے میں اور اس کے Source of information(ذرائع) کے بارے میں۔” اس نے بے دلی سے برگر اٹھایا۔
”جنید کو استعمال کرنا عمر جیسے آدمی کے لیے کیا مشکل ہے۔ میں بھی حیران تھی کہ جنید آخر اس سارے معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہے۔ اسے آخر میرے ایک عدد کزن کے ساتھ کیوں ہمدردی ہو رہی ہے۔ کزن بھی وہ جسے وہ ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ان دونوں پر نظر ڈالی۔
”میرا اندازہ کتنا غلط تھا، میں سوچ رہی تھی شاید عباس نے جنید کو پریشرائز کیا ہوگا کیونکہ جنید کی ایک بہن کے ساتھ اس کی دوستی تھی مگر میں تو احمق تھی۔ مجھے پتا ہونا چاہیے تھا کہ عمر اتنا گرا ہوا شخص ہے کہ وہ خود بھی اس معاملے میں جنید سے بات کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ ” اس کا چہرہ بری طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”میں اب سوچتی ہوں شہلا! میں بہت خوش قسمت تھی جو اس شخص نے مجھے ریجیکٹ کر دیا ورنہ میں اس جیسے خود غرض اور گھٹیا آدمی کے ساتھ زندگی کیسے گزار سکتی تھی۔”
”ریلیکس اتنے غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم یہاں انجوائے کرنے آئے ہیں۔ مزید ٹینشن لینے تو نہیں۔” شہلا نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
”تم جانتی ہو اس شخص کی وجہ سے پہلی بار جنید کے ساتھ میرا جھگڑا ہوا ہے۔” وہ اب بات کرتے ہوئے تقریباً روہانسی ہو گئی۔ ”اس کی وجہ سے وہ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے مگر اس کو تو ذرہ برابر بھی اس بات کی پروا نہیں ہو گی۔”
”مگر اس معاملے میں اب تم کیا کر سکتی ہو، جنید تم سے پوچھ کر تو ہر کام نہیں کرے گا۔ ” شہلا نے کہا
”ہاں مجھ سے پوچھ کر ہر کام نہیں کرے گا مگر میں چاہتی ہوں جنید عمر سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ رکھے، وہ کبھی اس سے نہ ملے۔ ” اس نے ایک بار پھر ان کی طرف دیکھا ”اور تم دیکھو، جنید نے ایک بار بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ عمر مسلسل اس سے رابطے میں ہے۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”ایک بار بھی اس نے مجھ پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ یہ سب کچھ عمر کے کہنے پر کر رہا ہے۔ میں نے جب اس سے عباس کا ذکر کیا بھی تو اس نے مجھے نہیں بتایا کہ وہ یہ سب کچھ عباس کے نہیں خود عمر کے کہنے پر کر رہا ہے اور جنید…جنید کبھی بھی مجھ سے کوئی بات نہیں چھپاتا تھا مگر عمر…صرف اس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے یقیناً اس نے جنید سے کہا ہوگا کہ وہ مجھے اس سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں نہ بتائے۔” وہ اب کڑی سے کڑی جوڑ رہی تھی۔
”تمہیں ایک مشورہ دوں علیزہ؟” شہلا نے اچانک اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” علیزہ نے چونک کر اسے دیکھا۔
”تم ان سب باتوں کو جانے دو۔” شہلا نے کہا۔
” کن باتوں کو جانے دوں؟”
”ان دونوں کے میل میلاپ کو۔ ” شہلا نے سنجیدگی سے کہا۔ ”تمہارے اعتراض کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم اعتراض کرو ہی نہ۔”
”کیوں اعتراض نہ کروں…عمر کو اس کے ساتھ رابطہ کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے، جنید کو استعمال کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ اس کو شرم آنی چاہیے۔” علیزہ نے غصے کے عالم میں اپنی گردن ہلاتے ہوئے کہا۔
”اگر جنید نے تم سے صاف صاف یہ کہہ دیا کہ عمر اس سے یوں ہی ملا تھا۔ تو…؟” شہلا نے دوٹوک انداز میں کہا ”اور ہو سکتا ہے وہ دونوں آج یہاں اتفاقاً ہی مل گئے ہوں۔”
”اتفاقاً…تم ان دونوں کو دیکھو جس طرح یہ لوگ ہنس ہنس کر آپس میں باتیں کر رہے ہیں، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اتفاقاً ہی ملے ہوں۔ جنید کبھی پہلی ملاقات میں کسی کے ساتھ اتنی بے تکلفی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی عمر۔۔۔” اس نے شہلا کی بات کو یکسر رد کر دیا۔ ”یہ دونوں آج اتفاقاً نہیں ملے ہیں۔ میں اتنی بے وقوف تو نہیں ہوں کہ اتفاقی ملاقات کو جج نہ کر سکوں۔”
”ملنے دو…دفع کرو دونوں کو۔” شہلا نے اس بار کچھ الجھے ہوئے انداز میں کہا۔ علیزہ نے اس کے لہجے پر غور نہیں کیا۔
”کیوں ملنے دوں ان دونوں کو…میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی سے ملے۔ میں نہیں چاہتی جنید اس جیسے آدمی کے ہاتھوں استعمال ہو۔”
شہلا نے گردن موڑ کر ایک بار پھر ان دونوں کو دیکھا مگر اس بار اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ وہ جیسے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی کچھ دیر ان دونوں کو دیکھتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”یہ سارا قصہ تو اب ویسے بھی ختم ہو ہی گیا ہے۔ عمر کو معطل کیا جا چکا ہے اور اس کے خلاف انکوائری ہو رہی ہے۔ اب وہ اور کیا جنید کو استعمال کرے گا۔ تم اگر جنید کو منع نہ بھی کرو تب بھی میں نہیں سمجھتی کہ وہ زیادہ عرصے جنید سے ملتا رہے گا۔ آخر اب اور کیا لینا ہے اسے جنید سے یا تم سے The cat is already out of the bag (بلی اب تھیلے سے باہر آچکی ہے) وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
”ویسے بھی تم اتنی Dominating (حاوی) نہیں ہو کہ جنید کو کسی بات پر مجبور کر سکو۔ یہ بھی سوچو کہ اگر تم اس کی بات ماننے سے صاف صاف انکار کر سکتی ہو تو کیا وہ تمہاری بات مانے گا۔ وہ تم سے یہ نہیں کہے گا کہ اب تم کیوں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی، اس کے فیصلوں کو بدلنے کی کوشش کررہی ہو۔” شہلا نے جیسے تنبیہ کرنے والے انداز میں اس سے کہا۔
”میں اس کو اپنی مرضی پر چلانے کی کوشش نہیں کر رہی اور نہ ہی آئندہ کبھی کروں گی اور dominate کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر میں عمر کو پسند نہیں کرتی۔ اسے اس بات کا پتا ہونا چاہیے اور اسے میری پسند یا ناپسند کا احترام کرنا چاہیے۔” اس بار علیزہ کا انداز کچھ مدافعانہ تھا۔
”یہ تو وہ پہلے ہی جان چکا ہوگا کہ تم عمر کو ناپسند کرتی ہو۔ میرا خیال ہے یہ بات تو اس کے لیے کوئی راز نہیں ہو گی مگر اب اگر وہ اس سے ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اسے ناپسند نہیں پسند کرتا ہے۔ پھر اگر اس نے تم سے یہ کہا کہ تمہیں بھی اس کی پسند اور ناپسند کا احترام کرنا چاہیے تو؟”
علیزہ اسے گھورنے لگی۔ ”تم عمر کو جانتے ہوئے بھی اس طرح کی بات کہہ رہی ہو؟”
”ہاں عمر… میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کو جنید ناپسند کرے۔ تم عمر کو کیوں ناپسند کرتی ہو۔ اس کی وجوہات بھی دوسری ہیں، صرف صالحہ والا معاملہ تو اس کی وجہ نہیں ہے۔” شہلا نے اطمینان سے برگر کھاتے ہوئے کہا۔ علیزہ کچھ لمحوں کے لیے کچھ نہیں بول سکی۔
”پھر میں عمر سے بات کروں گی۔ میں اس سے کہوں گی کہ وہ جنید سے ملنا چھوڑ دے۔” علیزہ نے ایک بار پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”آخر تم دفع کیوں نہیں کرتیں اس سارے معاملے کو، وہ اس سے ملتا ہے ملنے دو۔ ضروری نہیں ہے کہ ان کے ملنے کی وجہ وہی ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔” اس بار شہلا نے قدرے چڑ کر کہا۔ ”ہو سکتا ہے وہ کسی اور وجہ سے آپس میں ملتے ہو۔”
”میں چاہتی ہوں یہ جنید سے ایسے ویسے کیسے بھی نہ ملے۔ میں چاہتی ہوں جنید اس کی شکل تک نہ دیکھے۔” علیزہ بری طرح مشتعل ہو گئی۔
”تم بہت بدل گئی ہو علیزہ۔” شہلا نے یکدم اس سے کہا۔
”کیا مطلب؟” علیزہ نے اسے ناراضی سے دیکھا۔
”پانچ سال پہلے تم کیسی تھیں اور اب کیسی ہو؟ اتنا غصہ اور ضد تو کبھی نہیں کیا کرتی تھیں تم…پھر اب کیا ہو گیا ہے؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے اپنے سامنے پڑا ہوا برگر کھانا شروع کر دیا۔
”کتنی جلدی غصہ آ جاتا ہے تمہیں…اور پچھلے ایک سال سے تو تم…آخر ہو کیا رہا ہے تمہیں؟” شہلا اب جیسے اسے ڈانٹ رہی تھی۔
”کچھ نہیں ہو رہا مجھے، میں ایسی ہی تھی ہمیشہ سے۔” اسے شہلا کی بات پر اور غصہ آیا ”کیا ہونا ہے مجھے پچھلے ایک سال میں۔ میں بہت خوش ہوں اور میں آخر خوش کیوں نہیں ہوں گی۔ جنید جیسے آدمی کا ساتھ کسی بھی لڑکی کے لیے خوشی کا باعث ہو سکتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے اخباروں میں سے ایک کے لیے کام کر رہی ہوں۔ لوگ میرا نام پہچانتے ہیں اور تم کہہ رہی ہو کہ میں غصہ کرتی ہوں۔ کیوں کروں گی میں غصہ، میں اپنی کامیابیوں کو انجوائے کر رہی ہوں۔” اس نے اپنا برگر پلیٹ میں پٹخ دیا۔ ”چاہے تمہیں یا اور کسی کو اس کا یقین آئے یا نہ آئے مگر یہ سچ ہے کہ میں بہت خوش ہوں اور میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہوں اور میں اپنی کامیابیوں پر فخر کرتی ہوں بس یا اور کچھ ۔۔۔”
”میں نے یہ سب کچھ تو نہیں پوچھا تھا۔” شہلا نے مدھم آواز میں کہا۔ ”میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ اتنی غصیلی کیوں ہو گئی ہو تم، اتنی جلدی غصہ کیوں آتا ہے تمہیں۔ ضد کیوں کرنے لگی ہو اتنی؟ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم مجھے اپنی کامیابیوں اور فتوحات کی داستان سنانی شروع کر دو۔”
”تم کیا چاہتی ہو شہلا! میں اسی طرح ڈفر اور ڈل رہتی، جس طرح پانچ سال پہلے تھی۔ آنکھوں پر پٹی اور منہ پر ٹیپ لگا کر پھرتی جس طرح دس سال پہلے پھرتی تھی، فار گاڈ سیک میں بے وقوف نہیں رہی ہوں۔ عقل اور سمجھ آ گئی ہے مجھ میں…عمر جیسے لوگوں کی انجوائے منٹ کا سامان نہیں بن سکتی میں، نہ کوئی اب مجھے استعمال کر سکتا ہے اور تو کچھ نہیں بدلا۔۔۔” اس نے تلخی سے کہا۔
شہلا نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف اس کو ایک بار غور سے دیکھا۔
”اس طرح مت دیکھو مجھے۔ میں اب بھی تمہیں کوئی داستان امیر حمزہ نہیں سنا رہی ہوں۔” علیزہ نے برگر کی ٹرے اپنے آگے سے خفگی کے عالم میں ہٹا دی۔
”اچھا نہیں دیکھتی تمہیں بیٹھ کر کھانا تو کھاؤ۔” شہلا نے اٹھتے دیکھ کر کہا ”کم از کم اب اس طرح منہ اٹھا کر یہاں سے مت جاؤ۔”
”نہیں اب مجھے یہاں نہیں رکنا، میں نے جتنا کھانا تھا کھا لیا…تم کھانا چاہو تو کھاؤ، میں باہر گاڑی میں تمہارا انتظار کر لوں گی۔” اس نے اکھڑے ہوئے انداز میں اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”فار گاڈ سیک علیزہ…!مجھے تمہارے ساتھ یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔” شہلا نے اپنی ٹرے اٹھاتے ہوئے کہا۔
”آئندہ مت آنا۔” علیزہ نے اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے اس پر ایک نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
”اب کسے کال کر رہی ہو؟” شہلا نے ٹھٹھکتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے جواب نہیں دیا، وہ کھڑے کھڑے دور عمر اور جنید کو دیکھتے ہوئے نمبر ڈائل کرتی رہی۔
جنید نے موبائل کی بیپ پر اپنا موبائل اٹھا کر کالر کا نمبر دیکھا اور پھر موبائل آف کر دیا۔
”کس کی کال ہے؟” عمر نے بات کرتے کرتے رک کر اس سے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!