”آج کا اخبار دیکھا؟”
”شاید تم یہ پوچھنا چاہ رہی ہو کہ میں نے تمہاری تصویر دیکھی؟” اس نے اتنے ڈائریکٹ انداز میں کہا کہ وہ کچھ نہیں بول سکی۔
”ہاں، دیکھی ہے میں نے…بہت اچھی آئی ہے۔” شرمندگی سے علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”یقیناً فورٹریس میں بنوائی ہو گی تم نے…اپنی فرینڈز کے ساتھ۔” وہ اب بھی کچھ نہیں بول سکی۔
”صحیح کہہ رہا ہوں نا؟” وہ اب بڑے نارمل سے لہجے میں اس سے پوچھ رہا تھا۔
”جنید! میں آپ کو بتا دینا چاہتی۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا، کیا میں نے کیا ہے؟”
”آپ نے نہیں کیا مگر۔۔۔”جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹ دی۔
”اور میں نے کوئی وضاحت بھی نہیں مانگی…کیا مانگی ہے؟”
”نہیں مگر میں پھر بھی معذرت کرنا چاہ رہی ہوں۔”
”کس چیز کے لیے؟”
”غلط بیانی کے لیے۔”
”معذرت چاہتا ہوں مگر اس کو جھوٹ کہتے ہیں جسے آپ غلط بیانی کہہ رہی ہیں۔” وہ کچھ دیر خاموش رہی۔
”ٹھیک ہے، آپ اسے جھوٹ کہہ لیں۔ میں اپنے جھوٹ کے لیے آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں۔”
”فائدہ؟” علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس کی بات کا کیا جواب دے۔
”مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا، مجھے نہیں بولنا چاہیے تھا۔ مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کچھ دیر کے بعد اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”تمہیں اس چیز پر افسوس ہے کہ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا مگر تمہیں اس چیز پر افسوس نہیں ہے کہ تم ایک احمقانہ کام کے لیے وہاں گئی تھیں۔” جنید نے تلخی سے کہا۔
”جنید! میں آپ کو یہ سب کچھ نہیں سمجھا سکتی۔” اس نے کچھ بے بسی سے کہا۔
”تم مجھے یہ سب کچھ صرف اس لیے نہیں سمجھا سکتیں کیونکہ یہ بہت Illogical(غیر منطقی) ہے ایسا کچھ جس کا کوئی سرپیر ہی نہیں ہے۔”
”میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ صالحہ میری کولیگ اور دوست ہے۔”
”عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے اسی طرح کہا۔
”مگر صالحہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔”
”عمر جہانگیر کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے۔” جنید نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔
”عمر جہانگیر اس سب کا خود ذمہ دارہے۔”
”صالحہ بھی اس کی خود ذمہ دار ہے۔”
”ہم غیر متعلق لوگوں کی وجہ سے آپس میں بحث کیوں کر رہے ہیں؟” علیزہ نے کچھ چڑتے ہوئے کہا۔
”جب غیر متعلق لوگوں کے لیے سڑک پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہوگی تو پھر بحث تو ہو گی۔ اگر آج کوئی عمر جہانگیر کے لیے ایسی ہی کوئی واک کنڈکٹ کرے تو تم جاؤ گی وہاں؟” علیزہ خاموش رہی۔ جنید تلخی سے ہنسا۔
”نہیں جاؤ گی…میں نے تم سے پہلے کبھی کہا تھا…رشتے دیانت داری مانگتے ہیں اور تم یہ حقیقت تسلیم کرو یا نہ کرو مگر عمر جہانگیر تمہارا فرسٹ کزن ہے۔” جنید نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
”میں اپنے گھر والوں کو اس تصویر کی کیا Justification(وضاحت) دے سکتا ہوں کہ میری منگیتر اپنے ہی خاندان والوں کے خلاف پوسٹر پکڑ کر سڑک پر کھڑی ہے؟” علیزہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میں نے آپ کو بتایا ہے، میں بہت خوشی سے وہاں نہیں گئی تھی۔ مجھے مجبوراً وہاں جانا پڑا۔”
”نہیں۔ میں یہ وضاحت قبول نہیں کر سکتا…کوئی مجبوراً کچھ بھی نہیں کرتا جب تک کہ اپنی مرضی کسی نہ کسی حد تک اس میں شامل نہ ہو۔” جنید نے اسی طرح ترشی سے کہا۔
”میں آپ سے ایکسکیوز کر تو رہی ہوں۔”
”مجھے تمہاری ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے علیزہ! جس چیز پر تمہیں شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی اس کے لیے ایکسکیوز مت کرو۔” جنید نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”تو پھر میں اور کیا کروں، آپ کو بتا تو چکی ہوں کہ۔۔۔”
جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں اس موضوع پر تم سے پھر کبھی بات کروں گا۔” اس کے لہجے کی خفگی اسی طرح برقرار تھی ”اور رات کو میں تمہیں کھانے پر نہیں لے جا سکوں گا کیونکہ مجھے کچھ کام ہے۔” اس نے کل بنایا ہوا پروگرام کینسل کرتے ہوئے کہا۔
”خدا حافظ۔۔۔” اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر جنید نے فون بند کر دیا۔
علیزہ نے مایوسی سے اپنے موبائل کو دیکھا ”آخر دوسرے میرا پوائنٹ آف ویو کیوں نہیں سمجھتے۔ عمر جہانگیر کو اتنا سپورٹ کیوں کرتے ہیں۔ تب بھی جب وہ غلط ہو۔” اس نے موبائل میز پر رکھتے ہوئے سوچا۔
٭٭٭
شام کو وہ واپس گھر آئی تو نانو کا غصہ اسی طرح برقرار تھا۔ علیزہ کے ڈپریشن میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”میں توقع بھی نہیں کر سکتی تھی کہ تم اس طرح مجھ سے جھوٹ بولو گی۔” انہوں نے رات کو کھانے کی میز پر بولنا شروع کر دیا۔
”تم بہت خود سر ہو گئی ہو علیزہ !” علیزہ نے خاموشی سے کھانا کھاتے کھاتے چمچہ اپنی پلیٹ میں پٹخ دیا۔
”میں نے ایسا کیا کر دیا ہے جس پر آپ سب اسی طرح مجھے ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔” اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔
”ہماری فیملی کی حیثیت یہ رہ گئی ہے کہ تم سڑکوں پر پوسٹر پکڑ کر کھڑی ہو۔۔۔” اور وہ بھی اپنی ہی فیملی کے ایک فرد کے خلاف۔” نانو بری طرح مشتعل تھیں اس کے آنسوؤں نے بھی ان کو متاثر نہیں کیا۔ ”تم اب بچی نہیں ہو علیزہ کہ اس طرح کی حماقتیں کرتی پھرو اور میں تمہیں کور کروں۔ انگیجڈ ہو۔ اپنی فیملی کا نہیں تو اپنے ان لاز کا ہی خیال کیا کرو، کیا سوچتے ہوں گے یہ تصویر دیکھ کر وہ تمہارے بارے میں اور ہمارے بارے میں اور خاص طور پر جنید، وہ کیا سوچتا ہوگا تمہارے بارے میں جس سے تم نے کل بڑے دھڑلے سے جھوٹ بولا تھا کہ تم اپنی فرینڈ کے ساتھ فورٹریس گئی تھیں۔”
”کچھ بھی نہیں سوچتا…وہ اور اس کے گھر والے ، بس آپ کو ہی زیادہ فکر ہے کیونکہ یہ عمر کا مسئلہ ہے اور عمر کے خلاف تو آپ کبھی بھی سچ نہیں سن سکتیں۔”
”بد تمیزی مت کرو علیزہ۔” نانو نے اسے ڈانٹا۔
”اس میں بد تمیزی والی کیا بات ہے، عمر نے کیوں صالحہ پر حملہ کروایا تھا؟ اب اگر کروایا ہے تو بھگتے۔”
عمر نے صالحہ پر کوئی حملہ نہیں کروایا۔ وہ اس کی تردید کر چکا ہے۔”
”آپ کیا بات کرتی ہیں نانو…وہ تردید نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا۔ کیا یہ کہے گا کہ ہاں میں نے ہی حملہ کروایا ہے۔”
”مگر اس سارے معاملے سے تمہارا کیا تعلق ہے۔ تم کیوں انوالو ہو رہی ہو اس میں۔ عمر جانے یا صالحہ…تم خواہ مخواہ۔۔۔” علیزہ نے نانو کی بات کاٹ دی۔
”میں کیا انوالو ہو رہی ہوں۔ ایک واک اٹینڈ کر لی، تو آپ سب مجھے اس طرح ملامت کرتے ہیں، آپ نے کبھی عمر کو اس طرح ڈانٹا ہے جس طرح مجھے ڈانٹ رہی ہیں جب کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور عمر بہت سارے غلط کام کرتا ہے۔”
”صحیح کام…کون سا صحیح کام…یہ سڑکوں پر کھڑے ہونا، یہ تربیت کی ہے میں نے تمہاری کہ تم اس طرح سڑکوں پر خوار ہوتی پھرو۔ شرم آنی چاہیے۔ آج تک ہمارے خاندان کی کسی عورت نے ایسے کام نہیں کیے جیسے تم کر رہی ہو۔ لوئر مڈل کلاس والی ذہنیت ہوتی جا رہی ہے تمہاری اور کل کو سکندر فون کرکے تمہارے بارے میں پوچھے تو کیا کہوں اس سے میں کہ یہ سب میری تربیت کا نتیجہ ہے۔” وہ بولتی جا رہی تھیں۔ علیزہ نے کچھ کہنے کے بجائے غصہ میں کھانا چھوڑ دیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔
اگلے دن وہ آفس میں کام کر رہی تھی جب دوپہر کے قریب اسے پتا چلا کہ صوبائی حکومت نے صحافیوں کے احتجاج کی وجہ سے عمر کو معطل کر دیا تھا اور اس کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دیا تھا۔
آفس میں یہ خبر خاصی دلچسپی اور جوش و خروش کے ساتھ سنی گئی تھی۔ خاص طور پر صالحہ خاصی خوش تھی اور علیزہ کو یہ خبر بھی اسی نے سنائی تھی۔ علیزہ نے اسے بجھی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ مبارکباد دی مگر اس خبر کو سنتے ہی اسے یہ احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ خوش نہیں تھی۔ شاید وہ یہ توقع ہی نہیں کر رہی تھی کہ عمر کو بالآخر معطل کر دیا جائے گا، اسے یہی توقع تھی کہ اس کے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح عمر بھی بچ جائے گا مگر اب یہ خبر…
”عمر کے ساتھ ٹھیک ہوا، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اس کے ساتھ، جو کچھ اس نے کیا۔ اس کی سزا تو اسے ملنی چاہیے تھی۔” وہ آفس میں سارا وقت اپنی افسردگی کو دور کرنے کے لیے خود سے کہتی رہی مگر اس کے ڈپریشن میں اور اضافہ ہو گیا۔
جنید نے اس دن بھی اسے فون نہیں کیا تھا اور وہ جانتی تھی اگلے دن اخبارات میں اس کی معطلی کی خبر سن کر اس کی ناراضی میں اور اضافہ ہوگا نہ صرف اس کی ناراضی میں بلکہ نانو کے غصے میں بھی جو عمر کی معطلی کا ذمہ دار بھی اسے ہی سمجھیں گی۔
٭٭٭
اس کا اندازہ ٹھیک تھا، اگلے دن اخبارات میں عمر کی معطلی کی خبر پڑھنے کے بعد نانو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔ علیزہ ناشتہ کرتے ہوئے بڑی خاموشی سے ان کی تندوتیز گفتگو سنتی رہی۔ اس کے پاس اس کے علاوہ دوسرا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
”تم کو اندازہ ہے عمر کی معطلی سے اس کا کیریئر کس بری طرح متاثر ہو گا۔ میں پہلے ہی تمہاری اس تصویر کی وجہ سے ایاز اور جہانگیر کی بہت سی باتیں سن چکی ہوں، اپنے خاندان کے خلاف اس قسم کی ریلیز اور واکس میں حصہ لے کر تمہیں کیا مل گیا۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اپنے ہی خاندان کے خلاف اس طرح کی حرکتیں کرے۔” انہوں نے اشتعال کے عالم میں بولتے ہوئے کہا۔
”ایاز تو اس قدر ناراض ہو رہا تھا جس کی کوئی حد نہیں۔ وہ خود تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا مگر میں نے سمجھا بجھا کر اس کا غصہ ٹھنڈا کیا۔ تمہارے لیے ان سب نے کیا کیا نہیں کیا علیزہ اور تم ہو کہ خود اپنے ہی خاندان کو رسوا کرنے پر تلی ہو۔”
”نانو! یہ سب میں نے نہیں، عمر نے۔۔۔” علیزہ نے پہلی بار اپنے دفاع میں کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”نام مت لو عمر کا…کچھ نہیں کیا اس نے ، جو بھی کیا ہے تم نے کیا ہے۔ صالحہ، صالحہ… کیا ہے یہ صالحہ…کیوں ہمارے خاندان کے پیچھے پڑ گئی ہے اور تم …تم اس لڑکی کو اپنا دوست کہہ کہہ کر گھر لاتی رہیں۔” نانو سے غصے میں اپنی بات مکمل کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
علیزہ نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جانتی تھی، اس کی کہی ہوئی کوئی بات بھی اس وقت نانو کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔
٭٭٭
اپنی معطلی کے دو دن کے بعد عمر لاہور میں تھا اور اس نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دیا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے خلاف یہ تمام الزامات لگانے والوں کے سیاسی مفادات ہیں۔ اس نے خاص طور پر اپنے علاقے کے کچھ سیاسی گھرانوں کو اس تمام مسئلہ کی جڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ اس کی ٹرانسفر کروا کر اپنی مرضی کے شخص کو وہاں لانا چاہتے ہیں اور اس میں ناکامی کے بعد انہوں نے صالحہ پرویز کو اس کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا۔
آفس میں شام تک اس کی پریس کانفرنس ہی ڈسکس ہوتی رہی۔ سب کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ عمر جہانگیر نے اس طرح دھڑلے سے ان سیاسی گھرانوں کا نام لیا تھا جو صوبائی اور مرکزی حکومت کا حصہ تھے۔ سب کو یقین تھا کہ اس نے اپنے تابوت میں آخری کیل ٹھونک لی تھی۔
”اب یہ شخص نہیں بچ سکے گا…پہلے تو شاید یہ بچ جاتا مگر اب ان سیاسی گھرانوں کو اس طرح دھڑلے سے انوالو کرنے کے بعد پیچھے سے اسے بچانے والا کوئی نہیں رہے گا۔” حسین نے لنچ آور کے دوران کہا وہ ان دو رپورٹرز میں سے ایک تھا جو اس پریس کانفرنس کو کور کرنے گئے تھے۔
”مجھے تو احمق لگا ہے یہ شخص…ایک تو اس طرح پریس کانفرنس کرنا حماقت تھی۔ اس پر مزید ڈسپلنری ایکشن ہو سکتا ہے اس کے خلاف اور دوسرے اس سٹیج پر اس طرح سیاست دانوں کو انوالو کرنا، وہ بھی وہ جو حکومت میں ہیں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔” دوسرے رپورٹر نواز نے تبصرہ کیا۔
”مگر مجھے اس شخص کے اطمینا ن اور سکون نے حیران کیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی معطلی سے پریشان ہے اورپھر جس طرح وہ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں ہر بات سے انکار کر رہا تھا۔ میں تو اس سے خاصا متاثرہوا۔
مس علیزہ! آپ کا یہ کزن ہے ٹیلنٹڈ۔۔۔”حسین نے اپنی کرسی کو تھوڑا سا گھماتے ہوئے علیزہ سے کہا۔
سب کی طرح حسین کی بات پر اس نے بھی کچھ مسکرانے کی کوشش کی۔