امربیل — قسط نمبر ۱۲

”یہ جان کر عمر جہانگیر کی صحت پر کیا فرق پڑے گا کہ تم اس سے خوف زدہ نہیں ہوئیں۔”
”اگلی بار وہ مجھے فون کرنے کی جرأت تو نہیں کرے گا۔”
”تمہارا خیال ہے یہ گفتگو شائع ہونے سے وہ ڈر جائے گا؟” علیزہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”ڈر جائے گا؟ وہ ڈر گیا ہے۔ ورنہ مجھے فون کبھی نہ کرتا۔” صالحہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اور وہ بھی یہاں آفس میں۔”
علیزہ نے ایک گہرا سانس لے کر اسے دیکھا، اس کا دل چاہا وہ صالحہ سے کہے کہ عمر جہانگیر ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر خوف زدہ ہونے والا شخص نہیں ہے۔ اس کی پشت پر موجود لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ ایسے چھوٹے موٹے اسکینڈلز پر پریشان ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ایسے اسکینڈلز اس کے کیرئیر پر اثر انداز نہیں ہو سکتے۔
”صالحہ! تم آخر عمر جہانگیر کے بارے میں بار بار آرٹیکلز کیوں لکھ رہی ہو؟” علیزہ نے کچھ دیر بعد کہا صالحہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں۔” صالحہ کو جیسے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ ”کیا تم نہیں جانتیں کہ میں اس کے بارے میں کیوں لکھ رہی ہوں؟” علیزہ اس کی بات کے جواب میں کچھ دیر کچھ نہیں بول سکی۔




”میں چاہتی ہوں، عمر جہانگیر کو اس کے کرتوتوں کی سزا ملے۔” وہ اسی طرح بغیر لحاظ کئے بول رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں …اس کی فیملی رسوا ہو ۔۔۔” وہ بغیر رکے بولتی جا رہی تھی۔ ”میں چاہتی ہوں لوگوں کو ان کے اصلی چہروں کی شناخت ہو سکے۔” صالحہ کے لہجے میں نفرت جھلک رہی تھی۔ علیزہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”ایک بات پوچھوں تم سے؟” کچھ دیر کے بعد اس نے بڑے پر سکون انداز میں صالحہ سے کہا۔
”اگر عمر جہانگیر نے تمہارے انکل کے بیٹے کو نہ مارا ہوتا تو کیا پھر بھی تم اس کے خلاف اسی طرح لکھتیں؟”
صالحہ بے حس و حرکت ہو گئی، علیزہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے جواب کی منتظر رہی۔
”تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔
”میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ اگر عمر جہانگیر سے تمہاری ذاتی پر خاش نہ ہوتی تو کیا تم پھر بھی اس کے بارے میں اسی طرح آرٹیکلز پر آرٹیکلز لکھتیں؟” علیزہ کا لہجہ اب بھی بہت پر سکون تھا۔
”مجھے تمہارے سوال پر حیرت ہو رہی ہے علیزہ ! کیا تم یہ سمجھ رہی ہو کہ میں صرف ذاتی دشمنی کی وجہ سے عمر جہانگیر کے خلاف لکھ رہی ہوں؟” صالحہ کے چہرے پر اب ناراضی جھلک رہی تھی۔
”کیا ایسا نہیں ہے؟” علیزہ نے کچھ بے نیازی برتتے ہوئے کہا۔
”نہیں …ایسا نہیں ہے۔” صالحہ نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”حیرت ہے۔” علیزہ نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا۔ ”میرا خیال تھا کہ تم صرف ذاتی چپقلش کی وجہ سے اس کے خلاف لکھ رہی ہو؟”
”یہ خیال کیوں آیا تمہیں؟”
”تم نے خود مجھے اپنے انکل، ان کے بیٹے اور دوستوں کا واقعہ سنایا تھا۔ اب وہ قصہ سننے کے بعد میں اور کس نتیجے پر پہنچ سکتی تھی۔”
”میں نے تمہیں وہ واقعہ اس لئے نہیں سنایا تھا کہ تم یہ سمجھ لو کہ میں صرف اپنی دشمنی کی خاطر اس شخص کو بد نام کر رہی ہوں۔ اس کے خلاف جو کچھ بھی میں لکھ رہی ہوں وہ ۔۔۔” علیزہ نے صالحہ کی بات کاٹ دی۔
”ہاں میں جانتی ہوں کہ اس کے بارے میں تم جو کچھ بھی لکھ رہی ہو، وہ سب سچ ہے۔ سو فی صد نہ سہی۔ نوے فی صد سہی۔ تم اس کے خلاف سچ ہی شائع کرا رہی ہو۔ مگر کیوں، ایسے سچ تو ہر بیورو کریٹ کے ساتھ منسلک ہیں،پھر عمر جہانگیر ہی کیوں؟ تم کسی اور کے بارے میں بھی تو لکھو۔”
”میں نے رضی محمود کا ذکر بھی کیا ہے اپنے پہلے آرٹیکل میں، کیا تم اسے بھول گئی؟” صالحہ نے اسے یاد دلایا۔
”’صرف ایک آرٹیکل میں، باقیوں میں کیوں نہیں …کیا رضی نے اور کوئی غلط کام نہیں کیا؟” وہ سنجیدگی سے بولتی گئی۔
”تم اس کی حمایت کیوں کر رہی ہو؟”
”حمایت نہیں کر رہی ہوں، میں بھی تمہاری طرح سچ ہی بول رہی ہوں۔ وہی جو محسوس کر رہی ہوں۔”
”اگر بات بیورو کریٹس اور بیورو کریسی کی ہی کرنی ہے تو پھر سب کی کرنی چاہیے۔ ہر برائی کو سامنے لانا چاہیے۔ ہر برے شخص پر تنقید کرنی چاہئے۔” وہ پر سکون لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی عمر جہانگیر کی وکالت کر رہی تھی۔
”مجھے تمہاری نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے۔ تم یقیناً بیورو کریسی کی برائیوں کے خلاف ہی لکھنا چاہ رہی ہو گی۔ اس کرپٹ سسٹم اور اسے چلانے والوں کو ہی بے نقاب کرنا چاہتی ہو گی۔ تو پھر باقیوں کے بارے میں بھی لکھو۔” علیزہ نے اپنے سامنے پڑا ہوا اخبار اس کی طرف میز پر کھسکا دیا۔
”یہ خبر پڑھو …ایک غریب پھل فروش کو چند پولیس والوں نے پکوڑنے تلنے والے کی کڑھائی میں پھینک کر جلا دیا۔ پھل فروش نے ہاسپٹل میں اپنے نزعی بیان میں بتایا ہے کہ پولیس والے اس سے پھل لینے کے بعد قیمت دئیے بغیر جا رہے تھے جب اس نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے پیٹنا شروع کر دیا اور پاس موجود تیل سے بھری کڑھائی میں دھکیل دیا۔” وہ بغیر رکے کہہ رہی تھی۔ ”کل اس پھل فروش کی موت ہو گئی اور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ وہ پھل فروش ہیروئن کا کاروبار کرتا تھا اور اس دن وہ تفتیش کے لئے اس کے پاس گئے اور انہوں نے اس کی تلاشی لینے پر اس کے پاس سے بڑی مقدار میں ہیروئن اور چرس بر آمد کر لی۔ پھل فروش نے گرفتاری اور اس الزام سے بچنے کے لئے خود کشی کی کوشش کی اور کڑاہی میں گر گیا۔ پولیس نے اس کے خلاف منشیات فروشی اور خود کشی کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ کوئی عقل کا اندھا بھی اس خبر اور واقعے میں موجود جھوٹ اور سچ کو جانچ سکتا ہے۔ کیا اس پھل فروش کے قتل کے الزام میں پورے اسٹیشن کے عملے پر مقدمہ نہیں چلنا چاہئے۔
ایس پی، ڈی ایس پی، اور ایس ایچ او کے خلاف نہیں لکھا جانا چاہئے۔ جو سب آنکھیں بند کئے سو رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی لکھو، اس ایس پی اور ایس ایچ او کے بارے میں بھی صالحہ پرویز کو آرٹیکلز لکھنے چائیں، تا کہ اس شخص کے لواحقین کو بھی ویسا ہی انصاف مل سکے جیسا انصاف تم اپنے انکل کے بیٹے کے لئے چاہتی ہو۔ مگر ۔۔۔” علیزہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔
”مگر اس پھل فروش کی کسی بھتیجی کا نام صالحہ پرویز تو نہیں ہو گا جو اس کے بارے میں آرٹیکلز لکھے یا انصاف مانگنے کی جرات کرے۔ تیسری دنیا کے تیسرے درجے کا شہری۔”
”علیزہ! تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟” صالحہ کا لہجہ اس بار بدلا ہوا تھا۔
”میں یہ کہنا چاہ رہی ہوں صالحہ کہ تم اور میں قلم کی جس حرمت کی بات کرتے ہیں، وہ صرف اب ایک کتابی بات ہے۔ ہم سچ لکھتے ہیں جب اس میں ہمارا اپنا مفاد وابستہ ہو۔ ہم جھوٹ کو بے نقاب تب کرتے ہیں جب ہمیں اس سے کچھ فائدہ ہونے کی توقع ہو۔”
”تم غلط کہہ رہی ہو علیزہ۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!