علیزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
صالحہ نے ریسیور پکڑ کر فون کا اسپیکر آن کیا اور ریسیور کو دوبارہ کریڈل پر رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو اب دونوں سن سکتی تھیں۔
کچھ دیر بعد وہ لائن پر تھا، عمر جہانگیر نے کسی تمہید یا ادب آداب کو بلائے طاق رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”میں کون بات کر رہا ہوں۔ یہ تو آپریٹر نے آپ کو بتا ہی دیا ہو گا، فون میں نے آپ کو اس لیے کیا ہے تاکہ یہ جان سکوں کہ جو بکواس آپ شائع کر رہی ہیں، وہ کس لیے کر رہی ہیں؟” اس کا لہجہ سرد اور کرخت تھا۔
”آپ کس بکواس کی بات کررہے ہیں۔ میں تو روز بہت سی بکواس لکھتی اور شائع کراتی ہوں۔” صالحہ نے لاپروا انداز میں کہا۔
”میں اس Gutter Stuffکی بات کر رہا ہوں جو آپ میرے بارے میں لکھ رہی ہیں۔” اس نے پہلے سے زیادہ تندوتیز آواز میں صالحہ سے کہا۔
”مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ سچ کو gutter stuffقرار دے رہے ہیں۔ ” صالحہ نے کہا۔
”آپ اپنے سچ کو اپنے پاس رکھیں اور دوسروں کے بارے میں زبان کھولنے یا قلم اٹھانے سے پہلے دس بار سوچ لیں۔”
”میں جرنلسٹ ہوں، میرا کام ہی سچ لکھنا ہے، اب اگر سچ لکھنے سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں۔”
”آپ جیسے تھرڈ کلاس یلو جرنلزم کرنے والے جرنلسٹ اور ان کے سچ کو میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور آپ کے ڈھونگوں اور فریبوں سے بھی واقف ہوں۔ کم از کم میرے سامنے یہ پارسائی اور سچائی کا چولہ پہننے کی ضرورت نہیں ہے؟”
صالحہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”آپ کو اگر میرے کسی آرٹیکل پر اعتراض ہے تو مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ میں وہی لکھوں گی جو میں چاہوں گی۔” اس بار صالحہ نے بھی تندوتیز لہجے میں کہا۔
”میں آپ کو اور آپ کے اخبار کو کورٹ میں لے کر جاؤں گا۔”
”کورٹ کھلے ہیں، جب آپ کا دل چاہے لے جائیں، کیا یہی اطلاع دینے کے لیے آپ نے مجھے فون کیا ہے؟”
صالحہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”نہیں، میں نے آپ کو یہ اطلاع دینے کے لئے فون نہیں کیا۔ ایسے کاموں کے لئے اطلاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔” وہ اسی طرح کرخت لہجے میں بولتا گیا۔
”میں فون کر کے صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ حماقت کی کون سی سیڑھی پر تشریف فرما ہیں۔ اور یہ بھی چاہتا تھا کہ آپ اپنے قابل احترام انفارمر کو یہ اطلاع دے دیں کہ ایسی حرکتوں سے وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔”
”کس کی بات کر رہے ہیں آپ؟”
”زین العابدین کی بات کر رہا ہوں …وہی آپ کا ذریعہ معلومات بنا ہوا ہے نا؟” علیزہ کو صالحہ کے چہرے پر بے تحاشا حیرت نظر آئی۔
”زین العابدین نے مجھے کوئی معلومات نہیں پہنچائیں۔”
”یہ بات آپ کورٹ میں کھڑے ہو کر بتائیے گا …وہاں ضرورت پڑے گی آپ کے اس بیان حلفی کی۔” وہ ترش لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”میں آپ کی ایسی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہونے والی۔” صالحہ نے قدرے اکھڑ لہجے میں کہا۔
”دھمکیاں کون دے رہا ہے آپ کو …اتنا وقت کس کے پاس ہے میڈم …میں آپ کو اپنے لیگل رائٹس کے بارے میں بتا رہا ہوں۔” اس نے دوسری طرف سے طنزیہ انداز میں کہا۔
”اور آپ کو کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت ہی کیا ہے …آپ اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر Gossip mongering (الزام تراشی) کریں اور اگلے دن اخبار میں چھپوا دیں …اللہ اللہ خیر صلا …کسی کی جان جائے یا عزت آپ کو اس سے کیا۔”
”میں کوئی Gossip mongering نہیں کرتی۔ جو بات اپنے آرٹیکلز میں کہتی ہوں۔ اس کا ثبوت ہوتا ہے میرے پاس …کریڈبیلیٹی رکھتی ہوں …خواب میں آنے والی چیزوں کو نہیں لکھ دیتی …آپ کو مزید ثبوت چاہئیں تو آپ یہاں اخبار کے دفتر تشریف لائیں …یا پھر کورٹ میں تو آپ جا ہی رہے ہیں …کورٹ میں پیش کر دوں گی سارے ثبوت۔”
عمر دوسری طرف اس کی بات پر مزید مشتعل ہوا تھا۔
”تم اور تم جیسے جرنلٹس اور ان کی کریڈیبلیٹی …تم لوگ ہیڈ لائن مافیا ہوتے ہو …ساری زندگی تم لوگ ایک چھوٹی سی خبر کو مرچ مسالہ لگانے میں گزار دیتے ہو …شاید ہر رات تم لوگ یہی خواب دیکھتے ہوئے سوتے ہو کہ اگلے دن تمہاری دی ہوئی کوئی خبر یا آرٹیکل ملک میں طوفان اٹھا دے گا۔ راتوں رات شہرت مل جانے کی خواہش میں تم لوگ جھوٹ کے پلندے اکھٹے کرتے رہتے ہو …اور پھر انہیں ٹھوس ثبوت کا ٹیگ پہنا دیتے ہو۔”
صالحہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اور تم لوگ کیا کرتے ہو …لوگوں کو گھروں سے اٹھا اٹھا کر جعلی پولیس مقابلوں میں مارتے ہو …رشوت کا پیسہ اکٹھا کرتے ہو، اس پر عیش کرتے ہو۔”
دوسری طرف سے عمر کے ہنسنے کی آواز آئی۔ ”عیش …؟ کون سا عیش …آپ جیسے لوگوں سے گالیاں کھانا عیش ہے۔”
”میں آپ سے ۔۔۔”
دوسری طرف سے عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”میرے بارے میں اب اخبار میں کچھ اور شائع نہیں ہونا چاہئے …ورنہ آپ کو اور آپ کے اخبار کو اس کی خاصی بڑی قیمت چکانا پڑے گی۔”
اس سے پہلے کہ صالحہ کچھ کہتی دوسری طرف سے لائن منقطع کر دی گئی۔ صالحہ نے برہمی سے میز پر ہاتھ مارا۔
”تم اس شخص کا انداز دیکھو …کون کہے گا کہ یہ سول سرونٹ ہے …اور یہ لوگ نکلتے ہیں عوام کو نظم و ضبط سکھانے …مائی فٹ۔” اس نے غصے کے عالم میں میز پر ایک بار پھر ہاتھ مارا۔ ”اب تم دیکھنا میں اس کے ساتھ کرتی کیا ہوں …اس کی ساری گفتگو کو اخبار میں شائع نہ کیا تو پھر کہنا بلکہ اس کال کی ایک ریکارڈنگ ہوم آفس کو بھی بھجواؤں گی …عمر جہانگیر اپنے آپ کو آخر سمجھتا کیا ہے۔”
علیزہ چپ چاپ صالحہ کو مشتعل ہوتے دیکھتی رہی۔
”اس کا فائدہ کیا ہو گا؟” علیزہ نے کچھ دیر صالحہ کو جھجک کر چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر کہا۔
”کس کا فائدہ کیا ہو گا؟” صالحہ نے یک دم رک کر اس سے پوچھا۔
”عمر اور اپنی گفتگو کو اخبار میں شائع کرنے کا؟”
”میں عمر جہانگیر کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں اس سے خوف زدہ نہیں ہوئی۔” علیزہ نے اس کی بات کاٹ دی۔