امربیل — قسط نمبر ۱۲

”کیا یہ لوگ میرے بارے میں اتنی بڑی بات کہہ سکتے ہیں؟” اس نے جیسے اپنے آپ سے پوچھا ”کیا یہ لوگ مجھے اس طرح سیکنڈ لائز کر سکتے ہیں؟” وہ اب بھی جیسے بے یقینی کا شکار تھی۔ ”کیا خود کو بچانے کے لیے یہ اس طرح میری قربانی دے سکتے ہیں۔”
”کیا مجھے اس طرح۔۔۔” اس نے اپنے اردگرد بے تحاشا گھٹن محسوس کی۔
”کیا عمر بھی اس طرح کر سکتا ہے؟” اسے اپنا سوال ایک مذاق لگا ”میں نے کس کو سب کچھ بتایا۔ جسٹس نیاز کو؟”
سارے پردے یکدم اٹھنے لگے تھے۔
”یا پھر میں تو ان سے بات بھی نہیں کر سکی ہوں گی۔ کیا اسی لیے وہ میرے منہ سے پورا واقعہ سن کر بھی اسی طرح پرسکون تھے۔ مجھے اس وقت یہ ردعمل مصنوعی کیوں نہیں لگا۔” وہ اب اس واقعے اور اس کے بعد جسٹس نیاز کے ساتھ ہونے والی اپنی پوری گفتگو کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ”یہ لوگ پہلے ہی پورا انتظام کر چکے تھے کہ میرا رابطہ جسٹس نیاز سے نہ ہو اسی لیے عمر نے اتنی بے خوفی سے مجھے جسٹس نیاز سے بات کرنے کے لیے کہہ دیا کیونکہ وہ۔۔۔” علیزہ نے ہونٹ بھینچ لیے۔
”اور گھر پر وہ حملہ …میرے خدا…وہ بھی جعلی تھا…صرف مجھے خوفزدہ کرنے کے لیے…مجھے دھوکہ دینے کے لیے اسی لیے وہ لوگ اندر نہیں آئے۔ اسی لیے یہ دونوں وہاں پہنچ گئے تھے اور کس کس کو پتا تھا یہ سب کچھ…کیا نانو کو بھی؟”
غم و غصے سے اس کی حالت بری ہو رہی تھی۔




”اور میں …میں عمر کو کیا سمجھ رہی تھی۔ اپنا نجات دہندہ…اور وہ حقیقت کیا تھی…بلکہ یہ سب ہی کیا تھا؟” وہ ونڈ سکرین سے نظر آنے والی سڑک کو گھو ر رہی تھی۔
”اور مجھے…مجھے کبھی ان پر شک تک نہیں ہوا کہ یہ میرے ساتھ کوئی گیم کررہے ہیں۔ اس قدر اندھا اعتماد۔۔۔”اس کی آنکھوں میں اب نمی اترنے لگی۔
”واقعی…واقعی دنیا میں کوئی مجھ جتنا احمق نہیں ہو سکتا۔ بلکہ میرے علاوہ دنیا میں کوئی احمق ہے ہی نہیں۔” اس نے بڑبڑاتے ہوئے اپنی آنکھیں صاف کیں اور گاڑی کو سٹارٹ کرنے لگی ”اور اب یہ ایک بار پھر جنید کے ذریعے مجھے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب نہیں…اور نہیں…تم بھاڑ میں جاؤ عمر…! میں واقعی چاہتی ہوں کہ تمہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے اور صرف تمہیں نہیں باری باری سب کو۔۔۔”
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلا رہی تھیں۔
٭٭٭
شام کو چھ بجے وہ اپنے گھر میں داخل ہوئی اور اندر داخل ہوتے ہی اس نے پورچ میں جنید کی گاڑی دیکھ لی۔ بے اختیار اس کا دل چاہا وہ وہیں سے واپس پلٹ جائے، اس وقت اس موڈ کے ساتھ وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔
وہ لاؤنج میں نانو کے ساتھ موجود تھا اور چائے پینے میں مصروف تھا، جب وہ لاؤنج میں داخل ہوئی ۔ رسمی سی علیک سلیک کرنے کے بعد وہ جنید کی مصالحانہ مسکراہٹ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
”مجھے لگتا ہے…اس کا موڈ ابھی بھی آف ہے۔” جنید نے اسے لاؤنج سے نکلتے دیکھ کر کہا۔
”موڈ تو اس کا صبح سے ہی ایسا ہے ٹھہرو میں اسے بلا کر لاتی ہوں۔” نانو نے چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”آپ بیٹھیں۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں۔۔۔” جنید اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
وہ جس وقت دروازے پر دستک دے کر اندر آیا، وہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے جنید کے اس طرح اپنے پیچھے آ جانے کی توقع نہیں تھی مگر جب اس نے اسے اندر آتے دیکھا تو صرف سر جھٹک کر رہ گئی۔
”میں بیٹھ جاؤں؟” جنید نے اندر آتے ہی اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ضرور۔۔۔”
جنید کرسی کھینچ کر بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کمرہ میں خاموشی رہی، شاید وہ بات شروع کرنے کے لیے کچھ لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا، پھر جیسے وہ اس میں ناکام ہو گیا۔ ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے کہا۔
”اب یہ تو تمہیں پتا چل ہی گیا ہوگا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔” علیزہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ، جنید نے اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے ہوئے کہا ”میں معذرت کرنے آیا تھا۔”
”کس لیے؟”
”کل کچھ اچھا نہیں کیا میں نے…عام طور پر ایسا کرتا تو نہیں مگر۔۔۔” وہ سوچ سوچ کر بولتے ہوئے جیسے افسوس کا اظہار کر رہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”اچھا۔۔۔” جنید نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”میرا خیال تھا، اس کی ضرورت ہو گی۔ آفٹر آل۔ تم مجھ سے ناراض تھیں۔”
”میں ناراض تھی…؟میرا خیال ہے آپ ناراض تھے۔” علیزہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”میں ناراض تھا؟ سچ بتاؤں۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رکا ”میں واقعی کچھ ناراض تھا مگر وہ عارضی طور پر۔ میں نے بعد میں گھر جا کر سوچا، تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اب میں یہاں ہوں۔” اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے چند لمحوں کے لیے علیزہ کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ذہن میں کچھ دیر پہلے صالحہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو گونجنے لگی تھی۔
جنید نے اپنی بات کے ختم ہونے پر بھی اسے اپنی طرف خاموشی سے دیکھتے پایا۔
”تم کچھ کہو گی نہیں؟” اس نے علیزہ سے کہا وہ پھر بھی اسے اسی طرح دیکھتی رہی اور تب ہی جنید کو احساس ہوا کہ وہ اس وقت غائب دماغ تھی اور شاید اسے دیکھتے ہوئے بھی کہیں اور تھی۔
”علیزہ…!” اس نے بلند آواز میں اسے پکارا وہ یکدم ہڑبڑا کر چونکی۔
”کیا…؟”
”تم میری بات سن رہی ہو؟”
”میں…ہاں…میں نے آپ سے کہا ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں۔”
”نہیں۔ تم مجھے یہ بتا رہی تھیں کہ تم نہیں میں تم سے ناراض تھا۔” جنید نے اسے یاد دلایا۔ علیزہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱۱

Read Next

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!