”میرے انکل کے بیٹے کو ایک جھوٹے پولیس مقابلے میں مار دیا گیا۔”
علیزہ کا سانس یکدم رک گیا۔
”میرے انکل کے بیٹے اور اس کے تین دوستوں کو۔”
علیزہ کو لگا اس کی خاموشی اب کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔
”ایک یہ عمر جہانگیر تھا، ایک اس کا کزن تھا عباس حیدر۔ ابھی ایک سال کے بعد باہر سے آیا ہے، لاہور میں پوسٹنگ ملی ہے۔ ان دونوں نے میرے کزن کو اس کے گھر سے اٹھوا کر قتل کر دیا۔ تم نے پڑھی ہو گی یہ خبر۔ جسٹس نیاز کا نام بھی سنا ہو گا؟”
وہ اب علیزہ سے پوچھ رہی تھی۔ علیزہ سر نہیں ہلا سکی۔
”اور اس پر اور اس کے دوستوں پر الزام یہ لگایا تھا کہ ان چاروں نے کسی گھر پر ڈاکہ ڈالا تھا اور وہاں سے فرار ہوتے ہوئے پولیس کے ساتھ مقابلے میں مار دیئے گئے۔” صالحہ اب غصے کے عالم میں بول رہی تھی۔
”مگر یہ سب جھوٹ تھا، ان میں سے کوئی بھی اپنے گھر سے باہر نہیں تھا اس رات۔ پولیس چوروں کی طرح رات کو انہیں ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئی اور قتل کر دیا۔”
علیزہ نے ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر اپنے ہاتھوں کی لرزش کو چھپایا۔
”میرا کزن ایک آؤٹ سٹینڈنگ سٹوڈنٹ تھا اور ان لوگوں نے اس طرح اسے مار دیا۔ بعد میں میرے انکل نے تو بہت ہنگامہ کیا۔ عباس حیدر کے باپ کو اسلام آباد سے آنا پڑا، معافیاں مانگتا رہا کہ ایسا غلطی سے ہو گیا مگر بعد میں یکدم گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر کہنے لگا کہ میرے کزن اور اس کے دوستوں نے اس کی کسی بھانجی کو ریپ کیا اور اس کے گھر پر فائرنگ کی۔ میرے انکل تو ہکا بکا ہو گئے اس الزام پر۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے ان پر اس طرح کا الزام لگائیں گے۔ چیف منسٹر تک ان لوگوں کی حمایت کر رہا تھا۔”
صالحہ سرخ چہرے کے ساتھ بولتی جا رہی تھی اور علیزہ کا دماغ ماؤف ہو رہا تھا۔
”زبردستی مجبور کر دیا میرے انکل کو سیٹلمنٹ کرنے پر۔ تم اندازہ کر سکتی ہو، یہ لوگ خود کو بچانے کے لیے کس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔” صالحہ کی آواز میں نفرت تھی۔
”تمہیں یہ سب کچھ کس نے بتایا؟” علیزہ نے اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”کس نے بتانا تھا ظاہر ہے انکل نے بتایا…ہم نے تو مجبور کیا تھا انہیں کہ یہ سب کچھ پریس تک لے جائیں کورٹ میں کیس کریں مگر وہ تیار نہیں ہوئے۔ تم اندازہ کر سکتی ہو کہ ہائی کورٹ کا ایک جج پولیس اور ان لوگوں سے خوفزدہ تھا کہ وہ لوگ اسے اور اس کے خاندان کو مزید تنگ کریں گے۔ وہ جج کسی دوسرے شخص کو کیا انصاف دے گا جو اپنے لیے انصاف نہ مانگ سکتا ہو۔” وہ کہتی گئی۔
”ان لوگوں نے خود یہ کہا تھا کہ ان کی بھانجی۔۔۔” علیزہ کو تو جیسے اب بھی یقین نہیں ا رہا تھا۔
”ہاں خود کہا تھا، پنجاب کی پوری بیورو کریسی کو اس معاملے کا پتا ہے۔” صالحہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے یقین نہیں آ رہا۔” علیزہ بڑبڑائی۔
”مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا مگر پھر یقین کرنا پڑا۔”
صالحہ نے اس کی بڑبڑاہٹ کے جواب میں کہا، علیزہ کا سر چکرا رہا تھا۔
”تمہارے انکل نے ان لوگوں کے گھر پر حملہ نہیں کروایا تھا؟” وہ زرد چہرے کے ساتھ صالحہ سے پوچھ رہی تھی۔
”میرے انکل کیسے حملہ کروا سکتے تھے جب انہیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ اس سارے معاملے میں وہ کسی لڑکی کو انوالو کررہے ہیں۔ وہ تو خود حیران ہو گئے تھے ان کا یہ الزام سن کر …اور پھر یہ بھی کہ وہ لڑکی اسلام آباد کے ذہنی مریضوں کے کسی کلینک میں زیر علاج تھی اس واقعہ کے بعد۔” صالحہ نے کہا۔
”اسلام آباد… ذہنی مریضوں کا کلینک؟” وہ ایک بار پھر خالی الذہنی کے عالم میں بڑبڑائی۔
”ہاں، وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ اس حادثے کے بعد اس لڑکی کی ذہنی حالت خراب ہو گئی تھی اور انہوں نے اسے اسلام آباد کے کسی کلینک میں ایڈمٹ کروا دیا تھا۔ جھوٹ سب جھوٹ۔۔۔”صالحہ نے ہاتھ کو جھٹکتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک اس کی نظر علیزہ کے چہرے پر پڑی اور وہ ٹھٹھک گئی۔
”تمہیں کیا ہوا؟” اس نے علیزہ سے پوچھا۔
”مجھے…مجھے کچھ بھی نہیں۔۔۔” علیزہ نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن وہ جانتی تھی، وہ اس کوشش میں ناکام رہی ہو گی۔
”میں بس گھر جانے کا سوچ رہی ہوں۔” اس نے ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھ ٹیبل پر پڑی ہوئی چیزوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، وہ اب صالحہ سے نظریں چرا رہی تھی۔
صالحہ نے اس کی بات پر وال کلاک پر نظر دوڑائی اور پھر کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
”ابھی تو آفس آورز ختم نہیں ہوئے تم آج جلدی جا رہی ہو؟”
”ہاں…میں نے ایڈیٹر کو بتا دیا ہے۔ میں آج جلدی گھر جانا چاہتی ہوں۔”
وہ اب اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اپنی دراز کھول کر باقی ماندہ چیزیں اس میں رکھنے لگی۔ صالحہ بھی اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”چلو ٹھیک ہے پھر تم سے کل ملاقات ہو گی۔ آرہی ہو نا کل؟” اس نے کمرے سے نکلتے نکلتے علیزہ سے پوچھا۔”ہاں …شاید پتا نہیں…ہو سکتا ہے نہ ہی آؤں، یا پھر لیٹ آؤں گی۔” علیزہ الجھے ہوئے انداز میں اپنی میز کی دراز لاک کرنے لگی۔
”فون کر دینا۔ مجھے کل آرٹس کونسل جانا ہے، تمہیں یاد ہے۔ اگر تم نہیں آئیں تو پھر میں ثمین کے ساتھ چلی جاؤں گی۔” صالحہ نے اسے یاد دہانی کروائی۔
”تم ثمین کے ساتھ چلی جانا۔ میں اگر آ بھی گئی تو تمہارے ساتھ نہیں جا پاؤں گی۔” علیزہ نے پیشگی معذرت کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر میں آج ہی ثمین کو انفارم کر دیتی ہوں۔ یہ نہ ہو کل وہ بھی نہ آئے۔” صالحہ نے آفس سے نکلتے ہوئے کہا۔
علیزہ اپنا بیگ اٹھا کر صالحہ کے پیچھے پیچھے ہی باہر نکل آئی۔ باہر پارکنگ تک آتے ہوئے وہ مکمل طور پر ذہنی طور پر ماؤف تھی۔ صالحہ کے منہ سے نکلے ہوئے جملے اس کے ذہن میں گونج رہے تھے اور اسے ان پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے یاد نہیں اس نے گاڑی کس طرح پارکنگ سے نکالی تھی۔ سگنل پر گاڑی روکے وہ اس وقت ہوش میں آئی، جب کسی نے اس کی کھڑکی کے شیشے پر بڑے زور سے ہاتھ مارا، وہ یکدم چونک کر جیسے اپنے اردگرد کے ماحول میں واپس آگئی۔ وہ ایک آدمی تھا جو اب خشمگیں نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے پیچھے بری طرح بجنے والے ہارن کا شور تھا۔ اس نے گڑبڑا کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ سٹیرنگ بار بار اس کے ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ اسے یکدم خوف محسوس ہوا کہ گاڑی کہیں نہ کہیں ٹکرا جائے گی۔ سپیڈ ہلکی کرتے ہوئے اس نے مین روڈ سے ایک ذیلی سڑک پر گاڑی موڑ دی اور پھر اسے سڑک کے کنارے روک دیا۔